جھنگ میں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا ہے جہاں ایک مقامی کلینک میں نو سالہ بچہ مبینہ طور پر غلط علاج کے باعث زندگی کی بازی ہار گیا۔ بچے کے والدین اسے علاج کے لیے کلینک لائے تھے، لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کا جگر گوشہ ایک مسیحا کے روپ میں بیٹھے قاتل کے ہتھے چڑھ جائے گا۔

واقعے کے بعد جب تحقیقات کا آغاز ہوا تو یہ لرزہ خیز انکشاف سامنے آیا کہ مریضوں کا علاج کرنے والا شخص کوئی مستند ڈاکٹر نہیں بلکہ اسی کلینک کا چوکیدار تھا۔ ملزم گزشتہ 20 سال سے علاقے میں "عطائی ڈاکٹر" کے طور پر کام کر رہا تھا اور معصوم شہریوں کی زندگیوں سے کھیل رہا تھا۔

اس المناک واقعے نے ایک بار پھر ملک بھر میں، خصوصاً دیہی علاقوں میں پھیلے عطائیت کے گھناؤنے نیٹ ورک پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عوامی و سماجی حلقوں نے مطالبہ کیا ہے کہ عطائیت کو قتلِ غیرعمد کے برابر سنگین جرم قرار دیا جائے اور اس کی سزاؤں میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ میڈیکل سٹورز پر بھی نگرانی سخت کرنے کی ضرورت علاقے کے عوام کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی ایسا سانحہ ہوتا ہے تو محکمہ صحت وقتی کارروائی کر کے سچائی کا ڈھونگ رچاتا ہے، مگر چند دنوں بعد وہی کلینک دوبارہ کھل جاتا ہے