وادی سوات، جو عام طور پر اپنی دلکش خوبصورتی اور قدرتی مناظر کی وجہ سے سیاحوں کا پسندیدہ مقام سمجھی جاتی ہے، 27 جون کی صبح ایک ایسے المناک سانحے کا گواہ بنی جس نے صرف ایک خاندان ہی نہیں، بلکہ پوری قوم کو غم کی حالت میں ڈال دیا۔ ایک ہی خاندان کے 10 افراد سمیت 16 سیاح دریا کے کنارے ناشتہ کرتے ہوئے اچانک آئے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ تین دن گزرنے کے بعد اب تک 12 لاشیں نکالی جا چکی ہیں، جبکہ ایک کمسن بچہ تاحال لاپتہ ہے، جس کی تلاش جاری ہے۔ --- ### 🌊 **سانحے کی ابتدا: خوشیوں کا لمحہ ماتم میں بدل گیا** یہ واقعہ بحرین کے علاقے خوازہ خیلہ میں اس وقت پیش آیا جب سیالکوٹ کے رہائشی ایک خاندان نے دریا کنارے ہوٹل کے پاس ناشتہ کرنے کے لیے پڑاؤ ڈالا۔ وہ قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے، جب اچانک بالائی علاقوں سے آنے والا سیلابی ریلا، جس کا پانی کا بہاؤ **77,782 کیوسک** تھا، ان پر ٹوٹ پڑا۔ پلک جھپکتے میں پکنک موت کے سفر میں بدل گئی۔ کسی کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ متاثرین میں خواتین، بچے، نوجوان اور بزرگ سب شامل تھے۔ --- ### 🧍‍♀️ **متاثرین کی شناخت: ایک خاندان کی مکمل تباہی** مرنے والوں میں **ایشال، انفال، میرہ، آیان، نمرہ، شرمین** جیسے معصوم نام شامل ہیں جن کی عمریں 5 سے 14 سال کے درمیان تھیں۔ یہ سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ خاندان کے واحد بچ جانے والے فرد **محمد شہباز** کے مطابق: > "ہم دریا کنارے بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ کسی نے نہ ہمیں خطرے سے آگاہ کیا، نہ ہی کسی نے کہا کہ پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ جب ریلا آیا، تو ہمارے سامنے ہمارے بچے بہہ گئے۔" --- ### ⏱️ **واقعے کی ٹائم لائن: ہر لمحہ درد میں ڈھلتا گیا** | تاریخ و وقت | واقعہ | | ----------------- | --------------------------------------------------------- | | 27 جون، صبح 8:00 | پانی کا بہاؤ خطرناک حد تک بڑھ گیا؛ "ہائی فلوڈ" الرٹ جاری | | 27 جون، صبح 9:49 | ریسکیو 1122 کو کال موصول ہوئی | | 27 جون، صبح 10:08 | ریسکیو ٹیم 19 منٹ کی تاخیر سے پہنچی، کشتیاں موجود نہ تھیں | | 27 جون، دوپہر | مقامی لوگوں نے 3 افراد کو بچایا، 7 لاشیں نکالی گئیں | | 28-29 جون | مزید 5 لاشیں برآمد ہوئیں، کل ہلاکتیں 12 ہوگئیں | | 29 جون | صرف 1 بچہ لاپتہ، چارسدہ تک سرچ آپریشن جاری | --- ### 🚑 **ریسکیو آپریشن: کوششیں، کمزوریاں، اور عوامی اعتماد کی کمی** ریسکیو 1122 کی جانب سے ابتدائی کارروائی میں شدید کمزوریاں سامنے آئیں۔ پہلی گاڑی تاخیر سے پہنچی، اور وہ بھی ایسی جس میں نہ کشتی تھی، نہ لائف جیکٹ، نہ واٹر وہیکل۔ ابتدائی قیمتی لمحے ضائع ہو گئے۔ اس موقع پر **مقامی کشتی بانوں** نے جان ہتھیلی پر رکھ کر تین افراد کو بچایا۔ بعد ازاں **150 سے زائد ریسکیو اہلکار**، غوطہ خور اور دیگر ٹیمیں شامل ہوئیں، لیکن دریا کی رفتار اور آلات کی کمی نے آپریشن کو متاثر رکھا۔ تلاش کا دائرہ **سوات سے چارسدہ** تک بڑھایا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اکثر لاشیں کئی کلومیٹر دور بہہ کر جا پہنچی تھیں۔ --- ### 🚫 **انتظامی غفلت: دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور جھوٹے دعوے** ضلعی انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ دفعہ 144 کے تحت دریا کے کنارے جانا ممنوع تھا، لیکن نہ تو کوئی سائن بورڈ نصب تھا، نہ ہی ہوٹلوں کو پابند کیا گیا کہ وہ سیاحوں کو آگاہ کریں۔ ڈپٹی کمشنر نے میڈیا پر دعویٰ کیا کہ “15 منٹ میں ریسکیو ٹیم پہنچ گئی تھی”، لیکن **سی سی ٹی وی فوٹیج** اور **عینی شاہدین** نے یہ دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلی ٹیم **19 منٹ تاخیر سے پہنچی** اور اس کے پاس **کوئی واٹر ریسکیو سامان موجود نہیں تھا**۔ --- ### ⚖️ **حکومتی اقدامات: معطلیاں، تحقیقات اور مستقبل کی ہدایات** * ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سمیت **4 افسران معطل** کر دیے گئے ہیں۔ * وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے **دو رکنی انکوائری کمیٹی** قائم کر دی ہے جو **7 روز میں رپورٹ** پیش کرے گی۔ * **سوات کے تمام دریا کنارے ہوٹل اور ریسٹورنٹس بند** کر دیے گئے ہیں۔ * پی ڈی ایم اے نے **نئے سیلاب الرٹس جاری** کر دیے ہیں اور **سیاحوں کو دریاؤں سے دور رہنے** کی سخت ہدایات دی گئی ہیں۔ --- ### 🕊️ **قومی سطح پر ردعمل: اظہارِ افسوس اور عملی ہدایات** صدرِ مملکت، وزیراعظم، اور گورنر خیبرپختونخوا نے لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے واضح ہدایات جاری کی ہیں کہ لاپتہ بچوں کی تلاش کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ --- ### 🌧️ **احتیاطی تجاویز اور اصلاحی اقدامات** 1. دریا کے خطرناک مقامات پر **آٹومیٹک سینسرز** نصب کیے جائیں جو پانی کی سطح بڑھنے پر الارم بجائیں۔ 2. ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور پکنک پوائنٹس کو پابند کیا جائے کہ وہ سیاحوں کو **تحریری و زبانی وارننگ** جاری کریں۔ 3. **ریسکیو 1122 کی تربیت اور سامان میں جدت** لائی جائے۔ 4. سیاحتی علاقوں میں **واٹر ریسکیو اسٹیشنز** قائم کیے جائیں۔ --- ### 💔 **آخری الفاظ: کیا یہ صرف حادثہ تھا؟ یا ریاستی نظام کا چہرہ؟** یہ سوال اب ہر پاکستانی کے دل میں گونج رہا ہے: کیا 12 بچوں اور خواتین کی لاشیں نکالنے کے بعد ہم صرف افسوس پر اکتفا کریں گے؟ یا اس واقعے کو ایک **بیداری کی گھنٹی** سمجھ کر آئندہ کے لیے مؤثر اقدامات کریں گے؟ متاثرہ خاندانوں کے لیے یہ حادثہ **ایک المیہ نہیں بلکہ زندگی کا مستقل داغ** ہے۔ محمد شہباز کی آواز میں گونجتا ایک جملہ شاید سب کچھ بیان کرتا ہے: > "**یہ 12 لاشیں صرف اعداد نہیں، ایک خاندان کی کہانی ہیں۔ اگر ایک وارننگ ہوتی، ایک کشتی ہوتی، تو آج میری بہنیں، بھانجیاں، بیٹیاں زندہ ہوتیں۔**" --- 📞 **مزید معلومات اور ہنگامی رابطہ کے لیے**: **وزیراعلیٰ کے پی ہیلپ لائن: +92 340 9418852** **ریسکیو ایمرجنسی: 1177** **(خصوصی رپورٹ: جھنگ کی پہچان – سچائی کے ساتھ)**