مظہر الحق علوی کا ناول: روح کی پکار
مظہر الحق علوی صاحب کا ناول "روح کی پکار" آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ صدیوں سے تڑپتی، مسکتی ایک بے چین روح کی کہانی ہے۔ اسے اپنے قالب میں ڈھالنے کے لئے کسی حسین و جمیل اور مرمریں بدن کی تلاش ہے۔
بالآخر روح کو اپنی منزل مل جاتی ہے۔ ایک خوبصورت اور شباب سے بھر پور دوشیزہ اس میں سمو جاتی ہے۔ یہیں سے ایک قیامت خیز کہانی شروع ہو جاتی ہے جس کا نام "روح کی پکار" ہے۔
اس کے بعد ہم علوی صاحب کی مزید تین کتابوں کا انتخاب کر چکے ہیں: طاغوت، تارِ عنکبوت اور بھونرا۔ مذکورہ ناول کمپوزنگ کے مراحل سے گزر کر جلد ہی آپ کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے۔
نیز، "روح کی پکار" کا دوسرا حصہ "خونخوار" بھی ساتھ ہی شائع کیا جا رہا ہے۔ اپنے پہلے حصے کی طرح "خونخوار" بھی ایک بےحد دلچسپ، سنسنی خیز اور حیرت انگیز واقعات سے بھر پور ناول ہے جسے پڑھ کر آپ ششدر رہ جائیں گے۔
ناول پڑھنے کے بعد ہمیں اپنی قیمتی رائے سے ضرور نوازیے گا۔
ایک شکاری کی عجیب و غریب داستان
ایک گہری نیند
میں ایلین کو اٹر مین اب وہ کہانی بیان کرنے والا ہوں جو حیرت انگیز ، عجیب و غریب اور سنسنی خیز ہے۔ میری کہانی کیج سلیمان پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میں ایک شکاری ہوں۔ میری عمر افریقہ کے جنگلوں میں گزری ہے اور اتفاقات نے مجھے عجیب و غریب مہمات سر کرنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن یہ قسم جس کا واقعہ میں ان صفحات میں بیان کرنے جارہا ہوں ، میری زندگی کی پھیلی تمام مہمات سے زیادہ عجیب میری اس کہانی میں پآپ د دوسرے حیرت انگیز اور سنسنی خیز واقعات کے علاوہ ان لوگوں کے ساتھ ایک جنگ کی تفصیل بھی ملاخطہ فرمائیں گے جو افریقہ کے ایک دور دراز اور گمنام خطہ میں آباد تھے اور جو " کالے کا ندھ کے نام سے مشہور تھے اسی کہانی میں کالے کا ندھ کے دیوتا کی موت کا واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے ان لوگوں کا دیو تا ایک زیر دست ہاتھی تھا جب میں اس مہم سے لوٹا ہوں یہی سوچ رہا ہوں کہ کالے اندھ کا یہ دیو تا اقی ایک غیر معمولی طور پر بڑا تھی تھایا کئی اور چیز تھی ؟ ایسے ڈیل ول کا ہا بھی پہلے بھی کسی جگہ نہیں دیکھا گیا۔ چنانچہ کیا وہ عجیب و غریب دیو تا حقیقت 6 خطہ سکتا۔ آپ یہ کہانی ملا کم سے کم میں نہیں دے اس سوال کا جواب میں یا تھی ہی تھا ؟ کر لیجئے۔ فرمائے اور خود ہی فیصلہ کچھ کہنا کے متعلق بھی یہاں میں ان کی مہارت مذہب اور جادو سفید کاندھ کے کو پڑھ کے ہے ان واقعات کو بیان کر دینا کام تو بس واقعات فضول ہے۔ میرا کالے کاندھے اور ان کے ہاتھی یہاں میں یہ کہنے کی اجازت کرنا قار کین کا کام ہے البتہ جادو کے متعلق کوئی نتیجہ اخذ ان کے اور سفید کاندھ اور میں، کا نام جانا تھا جانا دیوتا، جس کا نام “ سفید کاندھ کے کو پیش کر سکتے ہیں کہ کے طور پر ہم اس واقعہ ترین اور قطعی تھا۔ ثبوت کا جادو مکمل ہے تو سفید کاندھ جیسی کوئی چیز واقعی دنیا میں جادو ضرور چاہوں گا کہ اگر ہو گیا تھا کہ کالے روح کے ذریعہ معلوم اور ماروت کو مقدس دو مذہبی رہنماؤں باروت سکتا ہوں اور اسی موت کے گھاٹ اتار جانا کو میں۔ صرف میں کاندھ کے ہاتھی دیوتا تھی لیکن یہاں پھر میں آنے کی دعوت دی نے مجھے گاندھ لینڈ لیے باروت و ماروت آتا ہوں۔ اصل قصہ کی طرف کے کو میں یہاں ختم کر کر لکھتا۔ خیر تو اس تحمید عالم بالا میں ہی بیٹھ ہوتا تو میں یہ داستان نہ کر چکا تھا اور اگر ہیں خود مجھے تقریبا ختم تم کرتا۔ البتہ جانا کو کیا ہنیں تھا۔ میں جانا خادم اور مخلص دوست نہیں بلکہ میر او فادار کو مارنے والا میں یا بھی ہوا کہ جانا مخلص که زاو چنانچہ میں نے سوچا کہ ایک حادثہ ہ گیا تھا کیساتھ شکار میں ول تو یہ کہ اسکروپ آنا ہی پڑا۔ افریقہ سے انگلستان ہو گئیں کہ مجھے لیکن دو باتیں ایسیآنے کی ضرورت نہ تھی گیا تھا۔ انگلستان افریقہ سے انگلستان آ ایک نوجوان کیساتھ میں اسکروپ نامی انگریزوں میں برادر آیا تھا۔ میرا یہ دوست کے لئے تحفہ نےکر کے اپنے دوست کی ہوئی تلاش کہ میں ایک خاص قسم اور دوسری وجہ یہ تھی خود اسے انگلستان پہونچادوں جون کو لوگ کے نام سے مشہور ہے۔ سیاہ فاموں میں داگیستاہ جون اور افریقہ کے نہیں گزرا۔ کم سے کم میری نظر سے توصبح الحواس اور سلیم العقل شخص کہ اس کا سا خلاف میں تو یہ کہوں گا وہ پاگل نہ تھا اس کے براگل کہتے اور سمجھتے تھے لیکن کے پر رہا۔ یہ مکان انگلستان اس کی منگیتر کے مکان ہو گا کہ میر اقیامیوں کہنا زیادہ صحیح کے مکان پر ہی رہاہاہ دوست اسکروپ میرا قیام اپنے یر تو انگلستان میں مضافات میں واقع تھا اپنے اس مختصر سے قیام کے درمیان مجھے ایک بحد عمدہ اور دلچسپ جگہ دیکھنے کو ملی، یہ ایک قدیم طرز کا قصر تھا بڑے بڑے دروازوں اور بر جوں والا قصر جسے بڑی مہارت سے تقریبا جدید قسم کے محل یا حویلی میں تبدیل کر دیا گیا تھا جب میں انگلستان پہنچا ہوں تو اس وقت اس قصر کا مالک ایک نوجوان تھا اس کا نام تھا یار ڈر سجنال۔ چنانچہ مناسب ہو گا کہ ہم اس قصر کو بھی قصر مسجناں کا ہی نام دیدیں۔ ار ڈر سجناں کے متعلق میں نے بہت کچھ سن رکھا تھا لیکن چونکہ میری عمر کا زیادہ حصہ افریقہ میں گزرا تھا اس لیے بارور سجنال سے ملنے کا اب تک اتفاق نہ ہوا تھا جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ میں لارڈر سجنال کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا اور جو کچھ میں نے سنا تھا وہ یوں تھا۔ ارڈر مسجنال مردانہ حسن کا مکمل ترین نمونہ ہے وہ اسکالر ہے، بہادر ہے ، ورزش کا شوق رکھتا ہے۔ کشتیوں کی دور میں حصہ لیتا اور اول آتا ہے ، بے حد عمدہ شکاری ہے اس لیے ہندوستان میں شیروں ، چینوں اور ہاتھیوں کا شکار کیا ہے ، ادب نواز ہے خود ایک عمدہ شاعر ہے۔ اس کی نظموں کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ ایک عمدہ سپاہی ہے اور فوج میں کا رہائے نمایاں انجام دے چکا ہے اور سب سے بڑی اور آخری بات یہ کہ وہ کی کانوں کا مالک ہے۔ انگلستان کا امیر ترین شخص ہے اور بہت بڑی جاگیر اور کوئلے خدا اسکروپ کے منگیتر لارڈ ریجنال کے متعلقی مندرجہ بالا میرے فہرست سنا چکی تو میں نے سانس کھینچ کر کہا۔ تمہارا پر رہنال واقعی قسمت کا دھنی ہے ین میں سجھتا ہوں کہ محبت غیرہ کے معاملہ میں یہ شخ راہی یہ قسمت ہوگا۔ مسٹر کوائر مین ! اسکروپ کی منگیتر نے جواب دیا۔ اس معاملہ میں تو وہ سب سے زیادہ خوش قسمت ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ ریجنال کی منگیتر انگلستان کی حسین ترین، زیرک ترین اور نازک ترین لڑکی ہے۔ ریجنال اور اس کی منگیتر ایک دوسرے پر صحیح معنوں میں جان چھٹر کہتے ہیں۔” خدایا میں نے آسمان کی طرف نظریں اٹھا کر کہا۔ اگر یہ صحیح ہے تو پھر حیران ہوں کہ اس خوش نصیب جوڑے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے کون سے مصائب پر تول رہے ہوں گے۔” S 8 افسوس کون سی منحوس گھڑی تھی وہ کہ میرے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ نے لارڈر بجنال کی قسمت پلٹ دی۔ دنیا کسی کو زیادہ دن خوش نہیں رہنے دیتی۔ ر مجبال کی خوشیاں اور بے فکری مقدر سے نہ دیکھی گئی اور ان واقعات کا سلسلہ چلا جو اس کہانی میں بیان کئے گئے ہیں اور ان واقعات میں رسجنال کے ساتھ میں بھی برابر کا شریک رہا اور ایک ایسی مہم پر روانہ ہونے کے لیے مجبور ہو گیا جسے میں نے اپنی زندگی کی عجیب ترین مہم کیا ہے۔ چنانچہ جب دوسرے دن مجھ سے پوچھا گیا کہ آیا میں قصر رسجناں کی نوادرات دیکھنا پسند کرونگا تو میں فورا تیار ہو گیا مجھے قصر ریجنال کے نو اورات سے نہیں بلکہ خود رسجنال سے دلچسپی تھی اور میں اس نوجوان سے ملنے کا مشتاق تھا جس میں اتنی بہت کی خصوصیات یکجا ہو گئی تھیں۔ بہت سے سے ایسے بہت سے لوگوں سے میں مل چکا ہوں جو انسان کے روپ میں شیطان تھے لیکن ایسے شخص نس سے ملنے کا بھی اتفاق نہ ہوا تھا جو انسان کے روپ میں فرشتہ ہو۔ ارڈر سجنال کے متعلق میں نے جو کچھ سنا تھا اس سے میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ریجنال ایک ایسا ہی یعنی فرشتہ صفت انسان ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی امید تھی کہ شاید سجناں کی منگیتر کو بھی ایک جھلک دیکھ سکوں۔ اس حسین ترین ، زیرک ترین اور پتہ نہیں کیا ترین خاتون کا نم مجھے بتایا گیا، مس ہو مز تھا، چنانچہ میں فور تیار ہو گیا اور میں نے کہا کہ قصر ریجناں دیکھنے کی آرزو ایک مدت سے میرے دل میں کروٹیں بدل رہی ہے۔ چنانچہ دوسرے دن میں اسکروپ اور اس کی منگیتر کے ساتھ قصر مجال پہنچا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ لارڈر سجنال قصر کے پیچھواڑے والے جنگل میں شکار کو گئے ہوئے ہیں۔ رمجنال کے خادم خاص نے فورا اپنی خدمات پیش کر دیں اور کہا کہ اگر ہم قصر کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو وہ سیر کر دے گا۔ ہم تینوں فورا تیار ہو گئے ۔ قصر کا خادم ہمیں لے کر غلام گردش میں آیا۔ یہاں ہمیں ایک دوسرے خادم کے سپرد کر دیا گیا۔ یہ خادم ہیں لیکر قصر کے برج والے دروازے پر پہنچا اور یہاں ہمیں پھر تیسرے خادم کے حوالے کر دیا گیا۔ دوسرے خادم نے اس تیسرے خادم کو وحشی کہہ کر مخاطب کیا اور میرے کان میں کہا۔ صاحب ! یہ سیو میچ لارڈر سجنال کا خادم خاص ہے۔” اس تیسرے خادم کا نام مجھے اسی وقت سے یاد رہ گیا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حضرت اسم با سمی تھے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی نواب بھیس بدل کر رسجنال کے خدمتکاروں میں شامل ہو گیا ہو۔ وہ کالے رنگ کا اور بیند عمدہ سلا ہو انفیس کوٹ پینے ہوئے تھا۔ وحشی سیو سیج براہی نفاست پسند ، نازک مزاج اور بانکا جوان تھا۔ طنز کی حد تک خوش اخلاق اور شائستہ لیکن اس کے لب و لہجے اور حرکات و سکنات میں تکبر کی جھلک تھی۔ یہ وحشی صاحب قبول صورت بھی تھے۔ ستواں تاک، عقاب کی کی آنکھیں اور سر پر ذراسی چندیا۔ اس کی عمر پلیس اور چالیس کے درمیان رہی ہو گی۔ قصر میں داخل ہونے کے ساتھ ہی وحشی نے بڑے پھر تیلے انداز میں میرے ہاتھ سے چھڑی اور میرا بیٹ لیکر ایک طرف رکھ دیا۔ وحشی )جو دراصل اس کے خاندانی نام سیو بیج کا ترجمہ ہے( کی یہ حرکت اس کی شخصیت کے ایک پہلو کو روشن کرنے کے لئے کافی تھی۔ اس کی ذات میں بے اعتباری تھی اور وہ ضرورت سے زیادہ محتاط تھا۔ غالب وحشی نے خود مجھے وحشی سمجھ لیا تھا اور سوچا تھا کہ میں اپنی چھڑی سے قصر کے نوادرات اور تصویروں کو کوئی نقصان پہنچادوں گا۔ بعد میں خود سیمویل سیو سیج نے کیونکہ یہی اس کا نام تھا مجھے بتایا کہ میرا یہ اندازہ غلط نہ تھا۔ اس نے کہا کہ میری ظاہری وضع قطع کیوجہ سے اس نے مجھے ہنگامہ پسند یہ لفظ میں اس طرح لکھ رہا ہوں جس طرح کہ اس نے ادا کیا تھا ( سمجھ لیا تھا یہ سیویج کی ایک اور خصوصیت تھی۔ اس کے الف کا کوئی ٹھکانہ نہ تھاوہ ح کی ما اف کا دیتا تھا۔ جب وہ تیزی سے اور مسلسل بول رہا ہو تا تو تین ایسے لفظ جن کے شروع میں ج ہو تو صحیح بول جاتا لیکن اگر دوران تقریر میں پھر کوئی ایسا لفظ آجاتا جو ح سے شروع ہوتا ہو تو اس کی غائب ہو جاتی اور اس کی جگہ الف لگ جاتا مثلا وہ ہنامہ پسند کو انگامہ پسند کہہ جاتا۔ قصر رسجنال کی سیر کراتے وقت وہ بڑی روانی سے سیاح رجنال خاندان کی تعریف بیان کرتا۔ اس شخص کی جس کی تصویر کے سامنے کھڑے ہوں ، خصوصیات بیان کرتا۔ تصویر والے کی سوائح عمری بیان کرتا اور ج اور 10 الف باری باری سے ایک دوسرے سے جگنہ بدلتے رہتے۔ میں یہ نہ معلوم کر سکا کہ ایسا کیوں تھا اور نہ یہ معلوم کر سکا کہ سیویج کا خاندان کیا تھا اور وہ کہاں سے آیا تھا ۔ یہ راز اس نے اپنے تک ہی محدود رکھا۔ سیر کرائی جو کو یا عوام کے لئے قصہ مختصر اس نے ہمیں قصر کے ان کمروں کی کی دو سو کھلے تھے۔ سیور بونج نے ہمیں ان کمروں کے نوادرات اور جدید و قدیم مصوروں میں ان سے زائد قیمتی تصویروں کی زیارت کرائی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے مخصوص لہجے نوادرات اور تصویروں کی تاریخ بھی بیان کر دی۔ چونکہ یہ دسمبر کا مہینہ تھا اس لئے قصر کا ہر کمرہ ہمیں کچھ زیادہ ہی سرد معلوم ہوا۔ اس کے علاوہ مجھے نوادرات اور تصویروں کچھ زدہ پسینہ تھی اسکرو اور اس کی گیر کے دل میں جو کہ ایک دوسرے کے لئے محبت کی جوال بھوک رہی تھی اس لیے وہ دونوں شاید اتنی سردی محسوس نہ کر رہے تھے جتنی کہ میں محسوس کر رہا تھا اور پھر چونکہ وہ قصر کے نوادرات سے زیادہ ایک رہاتھا۔ غالبا یہی وجہ تھی کہ میری طبیعت اب استانے لگی تھی۔ دوسرے کی طرف توجہ تھے اس لیے سیون کا سار اعم اور التفات مجھ غریب پر چھاور نانچہ دوسرے کمرے میں پہنچنے کے لئے ہم نے مختصر راستہ اختیار کر لیا اور واپس غلام گردش میں آنے کے بجائے ایک چھوٹے سے درمیانی کمرے میں سے مرہ خلاف معمول گرم تھا۔ یعنی اس کے آتشد ان میں آگ جل رہی تھی۔ گذرے ، یہ کمرہ یہ غالباً لارڈ رسجناں کی مطالعہ گاہ تھی۔ میں اپنے سرد اور تھکے ہوئے جسم میں گری پہنچانے کے لئے ذرادیر کے لیے آتشدان کے قریب رک گیا۔ مطالعہ گاہ کا معائنہ کرنے کے لیے میں نے کمرے میں سر سری سی نظر ڈالی تو ایک دیوار پر اگر میری نظر ٹھر گئی اس دیوار پر ایک کافی بڑی تصویر نگی ہوئی تھی لیکن عجیب بات تھی کہ اس تصویر پر ایک نفیس ریشمی پر وہ پڑا ہوا تھا۔ یہ کیا ہے بھلا ؟ میں نے سیو تیج سے پوچھا۔ وہ جناب تصویر ہے۔ ” سیو جج نے جواب دیا۔ اتا تو میں نے بھی سمجھ لیا ہے۔ لیکن کس کی تصویر ہے ؟” بستی کی ہے جو اسی حور صفت ، اسی حسین ترین اور اسی نازک ترین ، اسی خلیق ترین ستقبل قریب میں اس قصر کی ملکہ مہینے والی ہے۔ سیویج نے جواب دیا۔ تمہارا مطلب ہے کہ یہ لارڈر سجناں کی کی منگیتر منفسیر کی تصویر ہے ؟ اور کس کی تصویر ہو سکتی ہے جناب ؟ یکن یہ پرده اس لیے ہے کہ آپ جیسے لوگ مستقبل قریب کے مالکن کی تاب نہیں لا سکتے۔ اس تصویر کو میرے آقا کے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھ سکتا سیو پیچ نے بڑے فخر سے کہا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا با کہ کمرے میں نظریں دوڑا تا رہا۔ مطالعہ گاہ کا روازہ کھلا تھا اور اس میں سے وہ کمرہ نظر آرہا تھا جہاں سیو میچ نے میرا بیٹ اور چھٹری چھپٹ کی تھی ا۔ یہ دونوں چیزیں اسی کمرے میں رکھی ہوئی تھیں چنانچہ جب سیویج کی معیت میں اسکرپ روپ اور اس کے ساتھی آگے بڑھے تو میں چیچھے سے اسی کمرے میں کھ سک گیا۔ اپنا بیٹ اور چھری اٹھائی اور باغ میں نکل آیا کہ اسکروپ اور اس کی منگیتر کی واپسی تک اپنے بدن میں گرمی پہنچاتا رہوں اور جب میں ایک روش پر و تو میں مل رہا تھا تو فتہ بندوق کے چند دھما کے سنائی دیئے ۔ دھماکوں کی آواز اس طرف سے آئی تھی جس طرف کہ شاہ بلوط کے درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔ یہ جھنڈ باغ سے کوئی پاچ سو گز دور ہو گا۔ میں ایک شکاری ہوں اور جب سے سن بلوغ کو پہنچا ہوں بندوق چلا رہا ہوں چنانچہ بندوق کی آواز سنکر اندازہ لگا لیتا ہوں کہ وہ بندوق کیسی اور کونسی جگہ ہو گی جس سے فیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس وقت بھی میں نے اندازہ لگالیا کہ یہ آواز را نکل کی تھی۔ ان دھماکوں کی آوازیں نکر اشتیاق بڑھ گیا اور میرے قدم بے اختیار شاہ بلوط کے جھنڈ کی طرف اٹھ گئے ۔ تھوڑی دیر بعد ہی میں شاہ بلوط کے جنگل میں تھا جو جنگل کے داخل ہو چکا تھا اور چند منٹوں بعد ہی اس میدان کے کنارے پر پہنچ چکا میں چھٹا ہوا تھا۔ اس میدان میں دو آدمی کھڑے ہوئے تھے ان میں سے ایک تو شکار وضع قطع سے میں نے گاہ کا محافظ تھا، محافظ نوجوان تھا، دوسرا شخص جس کے لباس اور تھا۔ اندازہ لگایا قصر رمجال کا مالک لارڈر سجنال لارڈ مجنال واقعی مرعوب کن شخصیت کا مالک تھا۔ طویل القامت ، حسین 12 تھی کہ بڑی سیاہ تھیں اور ٹھوڑ سینے والا جوان اسکی آنکھیں مضبوط کندھوں اور چوڑے لقی محمد نی ڈاڑھی کہتے ہیں۔ بشرے سے خوش خلتی ترشی ہوئی نوکدار ڈاڑھی جسے غالبا چکی اور کوٹ پر کوٹ پہنے ہوئے تھا سمور کا بے حد نیس عیاں تھی۔ وہ تملی اور خوش مزاجی میں اس وقت ایک دونالی رائفل تھی۔ عموما پہنا کرتے تھے۔ رسجنال کے ہاتھ کر دیکھا کہ وہ ان قمریوں میں نے شاہ بلوط کے ایک درخت کے پیچھے چھپ 13 ا کھڑا ہوا، اپنا بیٹ اتار کے اسے سلام کیا اور بڑے اخلاق سے کہا ۔ تمریوں کی را یا بے چمداخلت کی معافی چاہتا ہوں لن تویہ ہے کہ آپ ان سر رنگ نے سے سوال رکھا تھا دکان و نواب اور ای طرف ٹھیک سے گوئی نہیں چلاتے۔ ہر چند کہ یہ قمریاں شاہ بلوط کے دانوں پر پیٹھے سے لے ان پر کافی دیر تک منڈلاتی نظر آتی ہیں لیکن دراصل اکے دانوں پر جھنے کی رفتار کوئی ایک فٹ اوپر سے گزر گئیں۔ جو چیز بندوق کی گوئی نے گرائی تھی وہ قمری کا پر نہیں از سے زیاد تیرے آئے محافظ نے کا تھا کہآپ کی برقی کی سے شاہ ہے کہ رکھا تھا وہ شاہ بلو بیٹوں کو جو زمین پر افراط ن کے جھنڈ در جھنڈ آرہی تھیں۔ وقتا وقتا قمریوں پڑے ہوئے تھے چکنے کے لئے جھنڈ تھا۔ غالب آپ کا دل میں ایک قمری کے دکا ایک پر بھر گیا تھا و یہ اس نےہیک فال کا آتے، شاہ بلوط کے پھلوں پر منڈلاتے ریال دوق اٹھا رشت مند تا دھا کہ ہوتا اور قمریاں پھر ” سے اڑ جاتیں۔ رکھنے کی غرض سے ۔ اس قمری پر آپ نے دو فیر کئے اور دونوں ہی گولیاں قمری سے یہ بارھویں دفعہ میرا نشانہ خطا کر گیا۔ ہات تیری کی۔ رسجنال بڑی بشاشت سے ہنستا۔ تھا۔ ہا کہ شاہ بلوط کا ایک خشک پتا چارلس کو بھی میری مداخلت بری ے برایڈ لیا اور عشمکی نظروں سے مجھے گھور نے لگا۔ رسجنال نے بڑے سکھا 10 کشمکہ پر ضرور نگی ہے۔ ہے شکار کے محافظ چارلس ر کارا آپکی گولی ایک قمری کی دم کس کے ماتھے پر بل پڑ گئے اسکی تیوریاں چڑھ گئیں میں ، وہ منہ ہی منہ میں پرواز کرتے ہوئے پرندوں کو نشانہ نہیں بنا سکتا۔ کا ایہ حقیقت ہے کہ شان از وہ اس من تیار کیوں نہ ہو گئی تھی کی لگ اسے مجھ سے معلوم ہوتاہے ، نہیں تبری بھر دیکھانے اور معلوم ہیکن وہ فرای سبھ کر مسکرانے ین سے کہا۔ میں نے خود اپنی نکھوں سے اس مری ایک پر نے کہا۔ آپ غالبا ٹھیک ہی کہتے ہیں جناب آپ کی ان ہدایات کا شکریہ ریہ ۔ رسجنال پرندوں میں سے چار کو مار کراتا ہے۔ تر استی چار اس میں نے ایک ایسے دی علی نے پرواز کرتے ہوئے ج جس میں ایک تر و این کو ان میں ان تو پھر وہ شخص اس دنیا کا نہ ہو گا۔ کے یہاں مقیم وہ اس دنیا کا ہے ان دنوں لندن آیا ہوا ہے اور مسٹر اسکروپ ہوئے ہے ۔ اسگروپ کا یہ دوست بڑا ہی شکاری ہے ۔ کہتے ہیں کہ وہ پرواز کرتے - پرندوں کو چ چمچ مار کر اتا ہے ۔ کا جھوٹا ہے ۔ تو پھر مسٹر اسکروپ کا یہ دوست ، مجھے کہنا پڑتا ہے ، اول نمبر تھادی۔ چارلس نے کہا اور دوسری بھری ہوئی رائفل اپنے آقا کے ہاتھ میں رمجال کے سامنے و اب میں برداشت نہ کر سکا۔ شاہ بلوط کے پیچھے سے نکل کر راتقان سے ایک آدھ قمری مارگر ائیں تو مجھ بھی موم ہو جایگا کہ روز کرتے ہوئے احسانمند بھی ہونگ لائحہ ر تندے کا شکار کس طرح کیا جاتا ہے اسکے بعد میں آپکانہ صرف آپ کی شاگردی بھی قبول کر لوں گا۔ اس کو گھور کر دیکھا۔ مجھے شکار گاہ کے میں نے کوئی جواب دیئے بغیر چارلس کے مجھے سمجھ کیا رکھا تھا ؟ میری ایک عمر افریقہ محافظ پر غصہ آرہا تھا۔ آخر اس نے کیا نے شیروں سے لیکر ہاتھیوں تک کا شکار جنگلوں میں شکار کرتے گذری تھی اور میں ۔ حالانکہ سرکار اس علاقہ کا سبق دینے کا وقت آگیا بجے جناب ! سر کار کو نشانے بازی سبق دینے پر مصر ہیں تو کئے گئے ہیں۔ تاہم آپ اٹھیں کے بہترین نشانے باز تسلیم نے فورا کہا۔ دیجئے سبق چارلس 15 14 جیب چار نس یوں بک رہا تھا تو سامنے سے دو قمریاں نمودار ہوئیں ۔ ا! تمری آگے تھی اور ایک ذرا پیچھے ، دونوں سیدھی سیدھی چلی آرہی تھیں دونوں شاہ؟ کے درمیان چھٹے ہوئے میدان میں آگئیں اور اب وہ گھڑی بھر کے لئے اپنے بازو پھڑ کے ہوا میں تھر کی گئیں۔ آگے والی کوئی ستر گز دور تھی۔ میں نے فورا بندوق انھا کندھے سے لگائی۔ آگے والی قمری کوشت میں کیا اور لیلی دبادی گولی ۔ سوں سے ور قمری کا ون ادھیڑ گئی۔ قمری کے پوٹے میں سے تازہ چکے ہوئے دانے نکل پڑے مری جو پیچھے تھی، اس نے خطرہ محسوس کر لیا وہ اوپر اٹھنے لگی ، میں نے جلدی سے رائفل کی دوسری نائی بھی چلا دی ، اور یہ میر خوش قسمتی تھی کہ دوسری نالی کی گولی قمری کا سر صاف اڑ گئی۔ فوراہی میں نے چار کے ہاتھ سے وہ دوسری را نفل گھیٹ لی جو بھری ہوئی اور تیار تھی۔ دود و سری قمرا ہماری طرف سے چلی آرہی تھیں ۔ چارلس نے بڑے میکائکی انداز میں یہ دوسر رائفل میری طرف بڑھا دی تھی۔ یہ دونوں قمریاں کافی دور اور خاصی بلند تھیں نشانہ ذرا مشکل تھا۔ تاہم میں نے آگے والی قمری کی طرف گوئی چلا دی قمری کیم پوری کی پوری اڑ گئی اور خود قمری فلا بازیاں کھاتی نیچے گری ۔ میں نے جلدی دوسری تالی کی لیلی دبادی کہ اس قمری کو بھی نشانہ میادوں لیکن بندوق نہ چلی اور اب ! چارلس کو سرزنش کرنے اور اس نے جو کچھ کہا تھا اس کا جواب دینے کا موقعہ مل گیا۔ نوجوان ” میں نے چارلس سے کہا۔ جو منہ کھولے میری صورت تک رہا تھا۔ ه را نقل بڑا ہی خطر ناک ہتھیار ہے۔ تمہیں بڑی احتیاط سے کام لینا چاہیے اگر تم بہ رت ہاتھ میں خالی ہی بندوق حما و پھر یہ بھی کر سکتے ہو کہ احتیاط سکتے ہو کہ بھر کی ہوئی، بندوق چلا واور کسی بے گناہ کی کھوپڑی کے پڑھچے اڑ دو۔ اور اب میں لارڈر مسجنال کی طرف گھوم گیا۔ جناب ! میں اپنے اس تیسرے نشانے کی معافی چاہتا ہوں کیونکہ خود سے بھی وہی غلطی سرزد ہو گئی تھی جس سے میں نے آپ کو خبر دار کیا تھا۔ بہر حال شانہ بھی برا نہیں ، یوں سمجھے کہ تیسری قمری کی دم کو میں نے محض اس لیے نشانہ تھا کہ آپ کی شکار گاہ کے محافظ کو قمری کے پر اور شاہ بلوط کے خشک اپنے میں تمیز سکھادوں۔ میرے خدا!! یہ انسان ہے یا بھوت ! چار کس بڑ بڑ لیا۔ رمجنال نے بیٹ اتار کے مجھے تعظیم دی اور کہا :۔ آپ کا نشانہ واقعی حیرت انگیز ہے بشرطیکہ یہ اتفاق نہ ہو۔ آپ کا جی چاہے تو بے شک اسے اتفاق ہی کہہ لیجئے ۔ میں نے جواب دیا لیکن اگر دو ار قمریاں اور آئیں اور مسٹر چار کس نے میرے ہاتھ میں خالی ، بدوق نہ تھادی تو میں ان دو چار قمریوں کو بھی مار گراؤں گا۔ امید ہے کہ اس کے بعد آپ اسے ایک اتفاق نہ عین اس وقت خوشی کا فلک بوس نعرہ سنائی دیا یہ اسکروپ تھا جو اپنی منگیتر کے ساتھ مجھے تلاش کرتا ہوا وہاں آگیا تھا۔ اسکی منگیتر نے بھی خوشی کے اظہار کے طور پر ایک نعرہ لگایا اور ان دونوں کے نعروں نے بھی سمجھتا ہوں کہ نصف میل دور تک کی قمریوں کو بھی خوفزدہ کر کے اور بھی دور بھگا دیا ہو گا اور میرے خیال میں یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ کیا پتہ میر آئندہ نشانہ خطا کر جاتا۔ میرے دوست مجھے بلا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ خدا حافظ ”۔ میں نے بڑے بے ڈھنگے پن سے کہا۔ ایک منٹ صاحب "۔ رسجنال نے جلدی سے کہا۔ کیا آپ کا نام دریافت کر سکتا ہوں ؟ مجھے رسجنال کہتے ہیں۔ لارڈر مسجنال ”۔ اور مجھ تا چیز کو کواٹر مین این کواٹرمین ”۔ میں نے جواب دیا۔ این کو اٹر مین ! مجال نے حیرت سے کہا۔ جب تو بھائی صاحب میں تسلیم کئے لیتا ہوں کہ تین قمریوں کو آپ نے مار کر لیا تو بے شک وہ اتفاق نہ تھا۔ چارلس یہی ہیں مسٹر اسکروپ کے وہ افریقی دوست جن کے متعلق تم نے کہا تھا کہ یہ شخص ۔۔۔ اہم ۔۔ ذرا مبالغہ سے کام لے رہا ہے ۔ لیکن چارلس وہاں نہ تھا۔ وہ شاید ان قمریوں کو اٹھانے گیا تھا جن کا شکار میں نے کیا تھا۔ عین اس وقت اسکروپ اپنی منگیتر کے ساتھ وہاں پہنچ گیا۔ مسٹر کو اثر مین مجھے پرواز کرتے ہوئے پرندوں کا شکار کرنا سکھا رہے تھے”۔ رمجنال 17 نے اسکروپ اور اسکی منگیتر کو مطلع کیا۔ ہو کے کہا۔ 16 نے خوش اچھا ۔۔۔ او۔۔۔۔ یہ این تو اول نمبر کا شکاری ہے۔ اسکروپ وی ہوئے کہا جی ہاں۔ بالکل اول نمبر کے ۔۔۔۔ مجنال نے اسکروپ سے اتفاق کرتے ی نہ کے تو چار اس سے پوچھ لو صاحب شکار میرا پیشہ ہے اور فرصت کے یہ تو آپ کی ذرہ نوازی ہے جناب یکنلا کرتے ہوئے پر ندوں کو نشانہ پایا کرتا اوقات میں مشق ہم پہنچانے کے لئے میں پرواز کے دوسرے چھوٹے پرندوں کا ہوں۔ تاہم مجھے اعتراف ہے کہ قمریوں اور اس قسم میرا شکار ہا تھی اور شیروں جیسے شکار کرنے میں آپ کا مقابلہ میں نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ہے۔ بڑے جانوروں تک ہی محدود ۔ میں اعلیٰ حضرت کا مقابلہ نہیں کر سکتے بے شک تم پرندوں کے شکار میں ہوتا ہے”۔ بازوں ہے انگلستان کے بہترین اور چوٹی کے نشانہ سکرو چی میں نگا۔ ارو بنا کا شما ہنس کے کہا۔ بہر حال میرا خیال ہے کہ بھٹی تو میں ایسا نہیں سمجھتا ۔ رسجنال نے مہارت حیرت انگیز ہے۔ مسٹر کو اٹر مین شکار کے معاملے میں مسٹر کواٹرمین کا تجربہ اور گاہ میں کل اگر آپ فرصت سے ہوں تو تشریف لے آئے ۔ کل ہم اپنے ذاتی شکار ذر الطف رہے گا۔ نیتروں کے شکار کو جائینگے آپ آجائیں گے تو ہے کہ میں اس شکار میں شرکت نہ اس دعوت کا شکریہ ۔ میں نے کہا۔ لیکن افسوس کر سکوں گا۔ کیوں۔۔۔۔؟ میرے پاس بندوق نہیں ہے”۔ اس کا انتظام بھی ہو جائے گا۔ مقابلہ کی نہیں، اور مجھے اسکروپ ! میں مسٹر کوائر مین کو شکار کی دعوت دے رہا ہوں کو ٹھکرانہ دیں گے ۔ یقین ہے کہ مسٹر کو اٹرمین میری اس دعوت کے ساتھ میں نے رسجنال کی اب خیل و حجت کرنا فضول تھا چنانچہ ڈوتے ہوئے دل دعوت قبول کرلی۔ مجھے افسوس ہے اسکروپ کہ میں تمہیں شکار کی دعوت نہیں دے سکتا۔ ریجناں نے کہا۔ لیکن تمہیں تمہاری منگیتر کو اپنے یہاں رات کے کھانے اور رات قصر میں ہی گزارنے کی دعوت ضرور دوں گا کیونکہ میں تمہیں اپنی ہونے والی بیوی سے متعارف کرانا چاہتا ہوں۔ اسکروپ کی منگیتر رسجنال کی منگیتر سے ملنے کی مشتاق تھی چنانچہ اس سے پہلے کہ اسکروپ کچھ کہتا وہ مسجنال کی دعوت قبول کر چکی تھی۔ 19 18 دوسرے دن ٹھیک دس حج کر پندرہ منٹ پر میں اور اسکروپ قص رمینال پر رک گیا راستے میں بندوق کے کارتوس خریدنے کے لئے میں ایک دکان شکار کا مقابلہ دیکھنے تھا بندوق ساز جس سے میں نے تین نمبر کے کار توس خریدے تھے۔ چل رہا تھا۔ چنانچہ اسکروپ نے اسے بھی اپنی بٹھی میں سوار کر لیا تھا۔ قصر ر مجال کے دروازے رچپر کے جب میں بھی ہے ان تو سب سے پہلے میری نظر وہاں کھڑے ہوئے ای کیم تیم مگر قبول صورت شخص پر پڑی۔ وہ عمل کا کوٹ اور سرخ رنگ کی جیکٹ پہنے ہوئے تھاوہ کسی شہنشاہ کی سی شان اور تمنت سے اور نہیں رہا تھا۔ یہ دوسر شخص کوئی کے پیچھے ایک اور شخص چلا ہماری طرف بڑھا۔ اس باسحه شکارگاہ کا محافظ چار کس تھا۔ روپ نے میرے کان میں کہا یہ جو مونا شخص چلا آرہا ہے نامہ محافظ اعلیٰ ہے ۔ اسکروپ. اسکے ساتھ ذرا احترام سے پیش آنا۔ ذرا گھبرا کے میں نے اپنے سر سے ہیٹ اتار لیا اور اس کے سامنے ذرا سا جھک بھی گیا۔ آپ ہی مسٹر این کو ان میں ہیں ؟ شہنشاہ نے اپنی گری میر آواز میں پوچھا اور میرے میانہ قد اور دہلے پتلے جسم کا جائزہ لینے لگا۔ چی ہاں۔ مجھے ہی این کو اٹر مین کہتے ہیں۔ میں نے بڑی انکساری سے جواب دیا۔ تو پھر جناب اُس نے کہنا شروع کیا۔ مجھے قصر رجنال کے مالک لارڈر سجنال نے حکم دیا ہے کہ یہ بند و قیں میں آپ کو دے دوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ان بندوقوں کو ذرا احتیاط سے استعمال کریں گے کیونکہ ان بندوقوں کو خریدا نہیں گیا ہے۔ اگر سرکار کو یہ بندو قیں پسند آئیں تب تو بے شک خرید لی جائیں گی ورنہ اٹھیں لوٹا دیا جائے گا اور جناب انا تو جانتے ہی ہونگے کہ خراب اور بحری بند و قوں کو بندوق ساز واپس نہیں لیتے ۔ اور اب وہ چارلس کی طرف گھوم گیا چارلس ان بدی صاحب کو بہتا کہ یہ بند و قیں کس طرح چلائی جاتی ہیں اور دیکھو بندوق کی نال ہمیشہ نیچے رکھو ۔ یوں زمین کی طرف بے مگر یہ ۔ میں نے شک یہ بندوقیں بھری ہوئی نہیں ہیں تاہم احتیاط لازمی ہے " شکریہ قدرے خفا ہو کے کہا۔ لیکن جہاں تک بندوقوں کے استعمال اور ان کی حفاظت کا تعلق اور ٹیچر ہے میں اس سے خوبی واقف ہوں ۔ اس لئے اس معاملہ میں مجھے سبق دینے پلانے کی کوئی ضرورت نہیں”۔ ی من کے مجھے بے حد مسرت حاصل ہوئی ۔ شہنشاہ صاحب نے قدرے بے یقینی ہے کہا ۔ چارلس معلوم ہوا ہے کہ ان بدیسی صاحب کی بند و قیں بھرنے کا کام اسکروپ کریں گے۔ امید ہے کہ اسکروپ صاحب ندوق بھرنا جانتے ہو نگے سے سرکار کا علم ہے کہ تم ان دونوں صاحبوں کے ساتھ رہو اور کار توسوں کو اپنے پاس رکھو۔ ان کا حساب بھی تمہیں ہی رکھنا ہے اور ہاں یہ بدیسی صاحب جتنے پرندوں کا شکار کریں۔ ان کو بھی تمہیں شمار کرنا ہے۔ خیال رہے صرف ان پر ندوں کو شمار کرنا ہے جو جاں بحق ہو جائیں نہ کہ ان پر ندوں کو جو زخمی ہو کر بھاگ جائیں ۔ زخمی پرندوں سے میں اکتا گیا ہوں بہت گڑبڑ مچاتے ہیں وہ زخمی پرندے”۔ یہ ہدایات ان شہنشاہ صاحب نے بہت بلند مقام پر بیٹھ کے یا اپنے آپ کو ہم سے بہت بلند سمجھ کے دی تھیں۔ محافظ اعلیٰ کی ان ہدایات کا اسکروپ پر یہ اثر ہوا کہ وہ کنے لگا۔ چارلس پر یہ اثر ہوا کہ وہ مسکرانے لگا لیکن میرے دل میں غصہ کا لاوا پلنے لگا 21 20 نکل گیا۔ جس سے میں واقف تھا، یہ سچ ہے بارہ برس بعد اس دن پہلی دفعہ میں نے اس شخص کو کے کونے کے پیچھے سے رہجنال لگا عین اسی وقت اصطبل باز تھے او اس گروہ میں ایک ایسے شخص کو دیکھ کے مجھے بند حیرت ہوئی میں نے چارلس کے ہاتھ سے ایک بروق لے لی اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنےاور و مشہور نشانے جان و جبال نے محافظ اعلی سے کہا۔ کیاکہ سے مٹ کو ٹرمین پر جمال کےہاں دیکھا۔ لیکن میرا حافظ کز و میں ہے اور ایک دفعہ میں جس کی بھی جانتے کہ ان صاحب نے جنہیں تم اپنے کام سے کام رکھو۔ غالبا تم نہیں جنہیں تم کچھکر دے کے صورت دیکھ لیتا ہو اسے پھر عمر بھر فراموش نہیں کر تاور دوسری ملاقات کے وقت ے اتنے شیروں اور ہاتھیوں ا شکار کیا ہے کہ تم نے اپی عمر مں اتنے چوب بھی کے فراہی پچاتا ہوں، خواہ ہماری ان دو ملاقات کے درمیان کتنے ہی طویل سال مارے ہوں گے اور خیال رہے مسٹر کوائر مین۔ اور میرے کسی بھی ممان کو تمیر کیوں نہ حائل ہوں چنانچہ اس وقت بھی میں نے اس شخص کو پہچان لیا وہ کر خت اور دایت دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ انکا کرنے والوں کا انتظام کرو۔ کبوتر چرہ بھوری اور باریک آنکھیں اور چقندر کی طرح سرخ اور ستواں ناک وان کوپ کے علاوہ کسی اور کی نہ ہو سکتی تھی۔۔۔۔ وان کوپ۔ پ۔۔۔۔۔ جنوبی افریقہ کا جعلسان سے زرد ہو گیا معانی چاہ کی ان کا چہرہ جو اس جیکٹ کی طرح سرخ تھا، اب ایک دم دان کوپ ، جو اپنی ہوں سرکار ”۔ وہ بولا۔ مجھے کسی کی دل آزاری منظور نہ نہ ت تھی لک لیکن سرکار ہاتھی اور اعظم ۔۔۔ ان کو ۔۔۔۔۔ مکاری کے نام پر آخری حرف، ہو ہوا دو سراشکاری خود شکار کی نال نیچے ہو تو سامنے کھڑا رکھیں گے۔ اور جب بندوق نیچے سے مجبور ہو کر بندوق کی نال کا شکار کرتے وقت عادت یقینا اڑتے ہوئے پرندوں ہیں وہ؟ پر ریننے ینگنے والے کیڑوں کا شکار کرتے ثیر پرواز نہیں کرتے اور جو لوگ اس زمین ہیں۔ شکار گاہ میں پہنچ چکے جائے۔ سرکار ہانکا کرنے والے ہو شیاری اور چالاکی کے باعث ہمیشہ حکومت کی گرفت سے چتا رہا۔۔۔۔ ان کوپ ، جو مجھے الوینا کے مجھ سے بھی دو سو پچاس پونڈ اینٹھ لے گیا تھا اور مجھ جیسے پیشہ ور شکاری کے لئے یہ معمولی نہیں بلکہ خطیر رقم تھی۔ پچھلی مرتبہ جب میری ملاقات و ان کوپ سے ہوئی تھی تو ہم دونوں میں چیخ چلتے صاحب النے اور آہستہ آہستہ یوں گل افشانی فرما کر جان ہوگئی تھی۔ ہمارے اس زبردست معرکہ کا خاتمہ میرے اس اعلان پر ہوا تھا کہ اب اگر قبتہ لگا کر ہنس پڑا۔ کیونکہ م و او جنوبی افریقہ اب ہوگیا تھا گئے سال سے جاتے دیکھا اور پر عمران تک چلے گئے اور پھر نظروں سے او بھل ہو ہے کئی بھی میں سے رہیں دیکھا تو اسے یا دوں گا۔ میری ای چاہتا ہوں میں آپ سے معافی جان کی گستاخیوں کی تھا۔ جتنا زیادہ فریبی اور مکار تھا اتنا ہی زیادہ بزدل بھی مسٹر کواٹر میں ۔ تو یہ ملا ہے ۔ لطیفہ ساتھ ورثے میں یہ بوڑھا مجھے جاگیر کے وہ بولا۔ لیکن معلوم ہو تا تھا کہ وہ ابھی ابھی اپنی بھی میں سوار ہو کر اپنی قیام گاہ سے قصر قمیں موجود ہوں تو اس طرف کرنے ہارا معلوم ہوگیا ہو کہ میں لو بروں چلانے میں لاڑی ہور ےکہ یہ حضرت دوسروں کو توصیت فرماتے ہیں موسم سرما کے اس شکار میں شریک ده رجال آیا تھا اور یقین اس بات سے مقبر تھا کہ میں بھی مارے حیرت کے اس کی گھوم کے میری طرف دیکھا اور یہ کو تا قہ مختصر اس نے تشریف لے پلے ۔ چارلس آپ کے ں بھر حال آدمی بہت دلچسپ اور عمدہ ہے حفاظت کرے گا۔ کار توسوں اور بندوقوں کی آنکھیں پھٹ گئیں۔ کہ رجبال جو قریب این کواٹر مین اس نے یوں حیرت سے کہا کے بڑے کمرے میں نیچے اس کرے خدا کی قسم کہ ہم لارڈر جناں کے ساتھ قصر ہماری طرف متوجہ ہو گیا۔ ہونے والے تھے ہی کھڑا ہوا تھا۔ موسم سرما کے اس شکار میں شریک یں تمام حضرات موجود تھے جو اور سب اپنے وقت کے بہترین والے تھے ، یہ سب کے قصر رسجنال میں ہی گزارنے میں نے قدرے مین ۔ آپ کا پرانا دوست ”۔ مسٹر وان کوپ این کواٹر میں سے اکثر لوگ وہ رات جیابان سے ہمارا تعارف کر لیا ان رجبال نے اس شکاری جماعت 23 22 بشاشت سے کہا۔ امید ہے کہ مجھے یہاں دیکھ کر آپ کو بھی اتنی ہی مسرت حاصل ہوئی ہو گی جتنی کہ آپ کو دیکھ کر مجھے حاصل ہوئی ہے ۔ آپ کو شاید کچھ غلط نمی ہو گئ کتی ہ ہے۔ مسٹر کوائر مین رسجنال نے کہا ان صاحب کا نام ان کوپ تو نہیں باسکہ سر جیونس فاریکس ہے”۔ اچھا ! مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ ان صاحبوں کا بھی یہ نام رہا ہو ۔ بہر حال اب یہ سر جیونس ہوں پا کچھ اور اس سے توان کو بھی انکار نہ ہو گا کہ ہم دونوں پرانے دوست ہیں ۔ میں نے کہا۔ رمجنال ہمارے قریب سے قصد ائل گیا۔ غالباً وہ اس معاملہ کو جس کی تمہ میں اسے کچھ گڑیہ نظر آگئی تھی، طول دینانہ چاہتا تھا ہماری یہ گفتگور جنال کے علاوہ کسی اور نے نہ سنی تھی۔ مسٹر کو ائر مین وان کوپ نے تقریبا سر گوشی میں کہا۔ “ افریقہ میں آپ سے رخصت ہونے کے بعد سے قسمت مجھ پر خوب مہربان ہو گئی ہے”۔ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ میں نے کہا۔ لیکن میری حالت ویسی ہی ہے جیسی کہ ی چنانچہ اب اگر آپ میرا قرض ادا کر دیں تو یہ آپکا احسان ہو گا۔ قرض ! وان کوپ نے حیرت سے سوال کیا۔ جی ہاں ۔ وہی دو سو پچاس پونڈ ۔ جو آپ نے دھو کہ سے مجھ غریب سے اینٹھ لیے تھے وہ دو سو پچاس پونڈ مع سود کے لوٹا دیجئے ۔ اگر نہ لوٹائے تو میں آپ کا پول کھول دوں گا۔ سٹ کوائر مین ! وہ مسکرایا۔ وہی کینہ ورانہ مسکراہٹ جس سے مجھے نفرت تھی چنانچہ میر اجی چاہا کہ لات مار کے اس شخص کو باہر نکال دوں” مسٹر کو اٹر مین ! میں تمہارے اس قرض سے نہ صرف انکار کر سکتا ہوں یا کہ اسے جھٹلا بھی سکتا ہوں۔ اچھا ”! میں نے کہا۔ تو پھر شاید ان واقعات کو بھی جھٹلا دو گے جو میں یہاں اور ان لوگوں کے سامنے بیان کروں گا میرا مطلب ہے ان واقعات کو جن کا تعلق تمہاری لیکن سوال یہ ہے کہ جب میں نہایت ٹھوس ثبوت مہیا کر دوں گا اور ذات سے ہے بین " کھرے کھوٹے کو الگ کر دوں گا تو پھر کون احمق تمہاری بات کا یقین کرے گا ؟ وہ چند ثانیوں تک سوچتا رہا پھر بولا۔ کو اثر مین ! تم بڑے معقول آدمی ہو اور شرط بدنے میں ہمیشہ آگے آگے رہتے ہو۔ چنانچہ اس وقت میں ایک معقول و مناسب پیش کش کر رہا ہوں جسے امید ہے تم قبول کر لو آج کے شکار میں اگر میں نے تم سے زیادہ تیتر مار لئے تو تم اپنی زبان بند رکھو گے یعنی میری اس زندگی کے متعلق جو میں جنوبی افریقہ میں نے گذاری ہے کسی سے کچھ نہ کہو گے اور نہ ہی اپنے دو سو پچاس پونڈ کا تقاضہ کرو گے لیکن اگر تم نے مجھ سے زیادہ تر مار لئے تو اسکے بعد بھی تم اپنی زبان بند رکھو گئے البتہ میں تمہارے دو سو پچاس پونڈ مع چھ سال کے سود کے ادا کر دوں گا۔ سود ابر انہیں۔ کہو منظور ہے ؟” بہت اچھا ہے۔ مجھے منظور ہے"۔ میں نے کہا۔ سر میونس ! کیا شرط ہے آپ کی ؟ لار ڈر سجنال نے پوچھا جو خدا جانے کب ہمارے قریب اگھڑا ہوا تھا۔ یہ تو خاصی طویل کہانی ہے ان کوپ نے جواب دیا۔ مختصر یہ کہ کئی سال پہلے جب میں افریقہ میں تھا تو پانچ پونڈ کی حقیر رقم کے لئے مجھ میں اور کوائر مین میں ذراگر ماگرمی ہوئی تھی۔ مسٹر کو اٹر مین کا خیال تھا کہ میں پانچ پونڈ کے لئے ان کا مقروض ہوں۔ بہر حال ہم دونوں کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکتے تھے۔ چنانچہ آج موقعہ غنیمت جان کے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم انھی پانچ پونڈ سے شرط بر کے ایک دوسرے کے مقابلہ میں تیتروں کا شکار ینگے اور وہی جیت جائے گا جو زیادہ تر مارے گا۔ بے حد دلچسپ سجنال نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔ اس کے بشرے پر کے جذبات سے معلوم ہوتا تھا کہ اس نے وان کوپ عرف سر جیونس کی باتوں پر ڈرا کا زیادہ حصہ سن لیا تھا۔ بھی یقین نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نے ہم دونوں کی گفتگو اب یہ ایک اتفاق تھا کہ شکار کرنے کے لئے شکار گاہ میں پہنچ کے ہم پھلی اور تھا یہ جھاڑیاں قصر قر ملی جھاڑیوں کی طرف بڑھے ہیں تو میں رہنال کے ساتھ 25 24 ریجنال سے تقریبا نصف میل دور تھیں۔ نے پہلی دفعہ بے تکلفی سے مجھے تو تم سر حیونس سے پہلے بھی مل چکے ہو ۔ رسجنال تم کہہ کہ مخاطب کیا۔ سر جیونس نے ہوئے ہیں پہلے بھی مل جی ہاں۔ میں وان کوپ سے ، جو یہاں دیا۔ چکا ہوں۔ میں نے جواب کی آخری ملاقات ہوئی تھی تقریب بارہ برس پہلے جنوبی افریقہ میں ہم دونوں وہاں یہ صاحب چند خاص معاملات کے اس کے بعد و ان کوپ افریقہ سے غائب ہو گیا۔ ہو چکے تھے۔” سلسلے میں بڑے مشہور سال پہلے یہاں نمودار ہوئے چنانچہ افریقہ سے غائب ہو کر یہ صاحب دس جائیداد خرید لی۔ تین سال پہلے بیرونٹ اور قصر رمجال کے قریب ہی ایک خاصی بڑی کا خطاب ملا تھا۔ بیچ تو اس شخص کو پسند نہیں کرتے اور تمہاری باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ تم شکار کرنے میں اپنا ثانی نہیں یہ ہے کہ میں بھی اسے پسند نہیں کرتا۔ لیکن تیروں کا ہے۔ اس شخص سے بڑھ کر خبط کا درجہ اختیار کر چکا رکھتا۔ ان دنوں پر نالوں کا شکار شوق شکار میں پورے علاقہ میں سب سے زیادہ پرندے کی شہرت ہو جاتی ہے جس کی شکارگاہ ہوتے کو مد عورنا پڑتا ہے جو عدہ شکاری گئے ہوں نچ جھے جو ایسے لوگوں کئے ہوں ہیں لیکن عمدہ آدمی نہیں ہوتے ” شوق آخر شوق واپس کھینچ لینی چاہیے کیونکہ اس صورت میں مجھے اپنی شرط اور شوق اور کاروبار کے ہے تو اس میں خاک لطف نہیں آتا۔ ہے اور شوق کاروبار بن جاتا میری ایک عم شکار کو پیشہ نا رق کو مجھ سے بہت طور پر کوئی اور نہیں سمجھ سکتا کی کہ کے ہی گزری ہے۔” جیونس سے اپنے پانچ سو پونڈ ہر حال میں چاہتا ہوں کہ تم شرط جیت کر سر ” ہی او چھا اور ذلیل ہے۔ یہ شخص بڑا لو۔ حاصل کر 23 پہلے کبھی نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ شرط جیتنے کے امکانات بہت کم بلکہ چاہتے ہیں تو میں میں نے جواب دیا۔ لیکن آپ میں نے تیتروں کا شکار نہیں کیا۔ قسمت آزمائی کروں گا۔” کوائر مین ! تیتروں پر گولی چلاتے وقت بندوق کو ذرا اوپر اٹھار کھو یہ عجیب بات ہے کہ گذشتہ کل تم نے مجھے چند مشورے دیئے تھے لیکن آج میں تمہیں مشورے دے رہا ہوں۔ لیکن پھرے گولی کی طرح تیز نہیں جاتے اور تیتر ایک ایسا پر ندہ ہے جو خیال سے بھی زیادہ تیز پرواز ہے لو۔ ہم پہنچ گئے۔ چار نس تمہیں بتادے گا کہ تمہیں کہاں کھڑے ہو کر شکار کرنا ہے۔ جاؤ تمہیں خدا کامیاب کرے” اور دس منٹ کے بعد شکار کا آغاز ہو چکا تھا۔ شام تک شکار جاری رہا۔ ہند و قیں تو تائیں اور ہوا چنگھاڑتی رہی۔ میں زیادہ سے زیادہ پرندے گرانے لگا اور ہنی کار توسوں سے میں نے تلیں پر ندمار کرائے۔ ٹھیل ختم کے قریب تھا کہ تما ایک تیر نظر آی اوروہ اتا او پر تھا کہ شام کے گاڑھے ہوئے ہوئے اندھیرے اور گرتی ہوئی برف میں ایک نقطے کی طرح نظر آرہا تھا۔ میں نے اس کی طرف بندوق اٹھادی۔ بہت دور ہے کو اثر مین۔ سجنال نے کہا۔ پیچھے تاہم میں نے بندوق چلا دی اور پرندہ ہوا میں ہی مردہ ہو کر ہمارے ایک تالاب میں ایک جھپا کے کے ساتھ گرا، یہ نشانہ اتنا عمدہ اور ایسا استادانہ تھا کہ ہر ہو کے میری پیٹھ پر ایسی زور دار تھپ جمائی منہ سے واہ نکل گئی اور اسکروپ نے خوش ناپنے لگے۔ کہ میری آنکھوں کے سامنے لال پہلے دھبے تھا ”۔ رہیجنال نے کہا اور واپسی کا انگل ایسا عمدہ نشانہ میں نے پہلے بھی نہ دیکھا عرف زان کوپ کے شکار کئے جادیا۔ اس نے تاکید کر دی تھی کہ میرے اور سر جیونس یہی معاملہ شرط کا تھا۔ ہوئے پر ندوں کو الگ الگ رکھا جائے کیونکہ میںر پیچے تو جائے تیار تھی۔ تو سجنال جو کمرے سے باہر چلا جب میں چائے کی دوسری پالی خالی کر رہا تھا کئے ساتھ قصر کے صحن میں پہنچا جہاں شکار رنے کی دعوت دی چنانچہ میں اس کے کا معائنہ اپنے ساتھ یلے اور شکار کئے ہوئے پرندوں یا تھا، واپس آیا اور اس نے مجھے دور رکھی قطاریں سب سے الگ اور میں رکھے ہوئے تھے۔ دو ہوئے پرندے بڑی قطار 27 26 ہوئی تھیں۔ کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ یہ پرندے اسکروپ نے دو قطاروں میں ہے۔” جیت ہوئی ہے تم دونوں ہیں۔ خدا جانے کس کی کے شکار کئے ہوئے میرا مطلب ہے سر جیونس تمہارے اور وان کو پ۔ کے بکار کئے ہوئے اعلیٰ سے کہا سر جیونس جامن رمجال نے محافظ پرندے کتے ہیں ؟ نے جواب دیا۔ دو سو ستر جان طرف سجنال نے پوچھا اور ہماری کئے ہوئے کتے ہیں ؟ اور مسٹر کواٹر مین کے شکار گھوم کے بولا۔” دونوں کے شکار کئے ہوئے پر ندوں دوستو! یہاں میں یہ یاد لا دوں کہ آپ آخری ہو گا یعنی وہ جو تعداد گیا ہے چنانچہ جاشن کا فیصلہ کو حتی الامکان الگ الگ رکھ دیا بتائے گا وہ یقینی ہو گی۔” خاموش رہا۔ بالکل میں نے کھالیکن دان کوپ تھے جو میرے شکار کئے ہوئے پرندے ہم سب جان کے اعلان کے منتظر ےیلیے خ خلاف توقع اور بڑی حیرت انگیز جو تعداد بتائی وہ میرے شمار کر رہا تھا اور اس نے سر ۔ جاگن نے بتایا۔ بھی۔ دو سوستر (۲۷۷) میری طرف سے چنانچہ ظاہر ہوا مسٹر کواٹر مین کہ تم شرط جیت گئے۔ مبارکباد قبول فرمائیں۔ رمینال نے کہا۔ د ولیک پر تھی۔” ایک منٹ ان کوپ نے کہا۔ شرط تیتروں کی تعداد پرندے استعمال کیا گیا تھا۔ لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ شرط لگاتے وقت لفظ بھی مین پرندوں سے مراد میں نے تیتر ہی لی تھی اور سر جیونس کا مطلب میں نے کہا۔ لیکن ” ی تھا چنانچہ ہم دونوں کا حسا برابر رہا۔ اور فرار ولی کی داد دیتا ہوں چنانچہ کواٹر مین میں تمہاری اس صاف گوئی رہے وہ آخری تیتر جو تم نے مار گرایا تھا اب سر جیونس کے پانچ سوپونڈان کی جیب میں ہی میں صرف زخمی تھا اور تیر کر دوسرے کنارے اور جو تالاب میں جا پڑا تھا میرے خیال پونچر گیا ہو اور نہ تم جیت جاتے ۔ رسجنال نے کہا۔ میرا بھی ایسا ہی خیال ہے میں نے رسجنال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ حالانکہ میں نے سمجھ لیا تھا کہ اس آخری تیتر کو سچ بچ میں نے ختم کر دیا ہے۔” ہر حال وہ تیتر نہ اس انبار میں ہے اور نہ کسی کو ملا ہے، مجال نے کہا ہم نے جتنے تیتر مارے ہیں اگر وہ سب مل گئے ہوتے تو انہیں رکھنے کے لیے یہاں جگہ نہ ملتی و ان کوپ نے کہا۔ اس کے چہرے پر اطمینان اور کامیابی کی دیک اور آنکھوں میں فتح مندانہ چمک تھی۔ اور جب ہم قصر میں جانے کے لیے لئے ہیں تو کچھ ہوا۔ چارلس ہانتا کا نتا صحن میں داخل ہوا اس کا سانس پھولا ہوا تھا اور چہرہ سرخ تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور شخص تھا اور اس شخص کے. ساتھ ایک کتا تھا۔ ایک شخص کو پرندوں کو جمع کرنے پر مامور کیا گیا تھا۔ خص کو میرے شکار کئے ہوئے سر کار مل گیا۔ وہ آخری تیتر مل گیا جسے افریقہ کے صاحب نے بادلوں کے اوپر ہی گولی مار دی تھی یہ تیتر تالاب کی سکیچ میں پھنس گیا تھا۔ میں نے اور نام نے مل کر اسے بڑی کو ششوں کے بعد نکالا ہے ” چنانچہ اس صورت میں کوائر مین کا پڑا بھاری ہو جاتا ہے رسجنال نے کہا۔ سر جیونس پانچ سو پونڈ مسٹر کواٹر مین کے حوالے کر دیجئے اور ایک عمدہ شکاری کی طرح ا میں مبارکباد دیجئے۔” لیم کرنوں کہ یہ تیر کو ٹرمین کی گولی سے بی شکار ہوا ہے؟ اور آپ کو یہ بھی اطلاع یہ نہیں ہو سکتا سر چیونس عرف دان کوپ نے احتجاج کیا " میں یہ کیسے دیدوں لارڈر مجال کہ جس رقم پر بازی لگائی گئی ہے وہ پانچ سو پونڈ سے زیادہ ہے۔” میرے آدمی کہتے ہیں کہ یہ تیتر کواٹر مین کا شکار کیا ہوا ہے اس لیے آپ کو سے کر تھا اس لئے ان دونوں بھی تعلیم کر لینا چاہیے اس کے علاوہ یہ تیتر بہت بلندی پر ایک زخم آیا تھا جو چونچ کے عین نیچے حلق نے تیتر کوالٹ پلٹ کر دیکھا اس کے صرف لیکن وہ آر پار نہ ہوئی تھی۔ میں نظر آرہا تھا کوئی اس جگہ گئیھی سر چیونس ! آپ کی نمبر کا کار توس استعمال کر رہے تھے ؟ رجال نے 28 پوچھا۔ نے جواب دیا۔ چار نمبر کے ان کوپ سب لوگوں نے کر رہے تھے ؟ رسجنال نے پوچھا۔ بھی تین نمبر کے کارتوس استعمال اور صاحب استعمال کر رہے تھے۔ کوئی اور کوائر مین تین نمبر کے کارتوس ج وہاں جمع ہو گئے تھے ، نفی میں سر ہلایا۔ ریجنال نے حکم دیا۔ ہے کہ اس کے لیے میں مل جائے گی۔ خیال جس نے اس کی جان لی ہے میرا جان ! پرندے کا سر کھولو۔ وہ گولی، مگر نہایت ہی تیز چاقو برآمد جان نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کے ایک چھوٹا کے گولی نکال لی۔ کیا اور بڑی مہارت سے تیتر کی کھوپڑی کھول یہ تین نمبر کا ہی چھرا ہے سرکار۔ وہ سر ہلا کے بولا۔ سر چیونیس ! اب تو آپ کو اطمینان ہو گیا ہو گا۔ رمجال نے کہا۔ اب چونکہ ادا کر شرط یہیں بدی گئی تھی اس لیے بہتر ہے کہ شرط کی رقم بھی اسی وقت اور اسی جگہ دی جائے ۔” د عرف سر ہے۔ ان کوپ روپیہ نہیں میرے پاس اتنا لیکن اس وقت جیونس نے خفا ہو کے کہا۔ میرے خیال میں آپ کا بینک بھی وہی ہے جو میرا ہے۔” رسنال نے بڑے سکون سے کہا۔ چنانچہ چل کر چیک لکھ دیجئے اسی وقت ” چنانچہ اس نے چیک میں دو سو پچاس پونڈ کا ہندسہ لکھا۔ چیک کاٹ کے کا کام میرے سامنے میز پر پھینک دیا اور بڑ بڑا کے کہا کہ تفریح کو کاروبار بنانا گدھوں سے اس لئے بیان کیا ہے تیتروں کے نکار کا یہ واقعہ میں نے اس قدر تفصیل جو مجھے ریجنال کہ میں سے میری اور رسجنال کی دوستی کا آغاز ہوتا ہے یہی دوستی تھی ندہ اور سفید کا ندہ کے کے ساتھ افریقہ کے اس گمنام ترین حصہ میں لے گئی جہاں سیاہ کا میں نام کے دو قبیلے آباد تھے جو ایک نہایت قدیم قوم کی یادگار تھے اگر میں اس شکار 29 بھی منظر عام پر نہ آتی۔ لارڈ شریک نہ ہوا ہوتا تو یہ سنسنی خیز اور حیرت انگیز داستان ہے تو اس نے کچھ نہ کہا۔ البتہ وہ آگے بڑھا، رجنال کو جب معلوم ہوا کہ دان کوپ جا چکا کی سے مصافحہ کیا۔ یہ میری این کواٹر مین وہ مسکرایا اور اس نے بڑی گرمجوشی سے مجھ اپنی زندگی کے والی دوستی کا آغاز تھا جس کے سبب میں اور لارڈر سجنال کی اس نہ ٹوٹنے گیا۔ سب سے زیادہ حیرت انگیز م پر روانہ ہونے پر مجبور ہو 31 30 ڈھائی گھنٹے گزر گئے۔ اور اس تمام عرصہ میں بس ایک جگہ لیٹا ہی رہا کیونکہ میرے سر میں سخت وجہ سے رد تھا۔ یہ درد مسلسل بندوق چلانے اور تیز ہوا کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا۔ زیب تن کر رکھا تھا وہ ایک نہایت ہی عمدہ اور قیمتی زیورت اور فوق البھڑک لباس شہزادی کی شان سے کمرے میں داخل ہوئی اور اس نے اسکروپ کو مطلع کیا کہ ریجنال کی منگیتر کوئی دم میں آیا ہی چاہتی ہے۔ سے جواب دیا۔ تمآ گئیں نہیں توتو میرے تو آنے دو اسکروپ. روپ نے بے پروائی نے کہا ہے اور بھٹی کیونکہ وہ کسی ہو آئے اور نہ آنا ہو نہ آئے لیے دنیا آگئی اب جس کو آنا نا کہ حور پر آنکھ نہ ڈالے شیدا تیرا وغیرہ وغیرہ۔ کہ وہ سچ مچ ایمان لوٹ لینے والی اور اسکروپ اپنی منگیتر مس میسر کو دیکھنے لگا اور ہوش و خرد سے بیگانہ کر دینے والی معلوم ہوتی ہے اور یوں گھور گھور کر مس میسٹر کو دیکھنے لگا کہ وہ بیچاری شرما گئی۔ سے متعلق تھا کھلا جو غالیا کسی دوسرے کمرے و فعه نشست گاہ کا وہ بڑا درازہ اس پوری رسم کا کرتے ہوئے نمودار ہوئے۔ سیویج اور جناب و خشی یعنی مسٹر سیویج آواز میں کہا۔ البا منتظم اعلی تھا۔ اس نے بڑی پاٹ دار ہیں۔ مس ہو مز تشریف لارہی ہوشیار خاتون لا ڈن اور خاتون لا جذن پر پڑی یہ عورت قدرے طرف دیکھنے لگا لیکن سب سے پہلے میری نظر کی میں بھی ہر شخص کی طرح اسی دروازے ہر شخص کی گردن گھوم گئی اور کے کا لباس پہن رکھا تھا اور وہ بڑے بڑے ہیروں کے راستوں سے بد صورت تھی اس نے سائن پھر اسکروپ نمودار ہوا۔ چونکہ میں اس عظیم الشان قصر آئے تو وہ مجھے بلانے آجائے۔ کالی باطن کا جائزہ لیتی ہوئی واقف نہ تھا اس لیے میں نے اسکروپ سے کہا تھا کہ جب نشست گاہ میں جانے کا وقت زیورات کی طرح سفید تھے، ناک ہونٹوں پر بھی ہوئیکائی دختر نیک اختر نمودار ہوئی۔ پوری طرح نہ لے پایا تھا کہ دفعہ اسکی کا جائزہ میں زکام میں مبتلا تھی۔ خاتون لا جڈن انکھیں اور طرہ یہ کہ وہ عورت شدید چنانچہ ہم دونوں نشست گاہ میں پہونچے۔ قد تناسب سال کے درمیان رہی ہو گی ۔ درمیانہ یں ہو گا کیونکہ اسکی عربانی تیس سے بندے لگ رہے تھے اور ان بندوں مد تین سودی بڑی موم چیاں روشنی ہو گی کہ اسکی عربی تیم کہا پڑتا ہے کہ وہ حسین ترین لڑکی تھی بلحہ اسے عورت کہنا مناسب بعد عدہ کمرہ تھا جو خاص خاص موقع پر ہی کھولا جاتا تھ اس کی چیست اور مجھے س لیے یہ کمرہ میچ موں میں بھہ نورہا ہوا تعارات کے کانے کی اس دعوت میں اعا اور پھر اسم اور چلت پھر غزال کی بعد وہ کی فراں تھی اسکی انھیں کہ تمکین سفید که پیکا معلوم ہو او نہ انا گھرا بھدے معلوم ہوں اور رنگ رنگ نہ اتنا تعارف لار ڈر سجنال کی ہونے والی بیوی سے کر لیا جانے والا تھا۔ کہ کھر پڑرہے تھے لیکن نہ اتنے زیادہ کہ لوگ شریک تھے ان کی تعداد نہیں کے قریب تھی اور میں وہ خاص لوگ تھے جن بھی غزال تھیں۔ لیے اور بھورے بال جن میں گھو گر افریقہ میں اسے ہو ۔ معلوم نہیں ایسے رنگ کو آپ کے یہاں کیا کہتے ہیں البتہ اسکروپ کی منگیتر مس میز بہت حسین نور پر کشش نظر آرہی تھی اس کے معلوم 33 32 ی رنگ لگتے ہیں تا کہ اور شاہ جوان مرغ جو دوسری طرف گھوم کے اسکوپ کو من ا تھا جوانی منگیت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا تھا ، دفعتہ مجھے اپنے پیچھے سے ایک شیریں آواز سنائی دی جو کہ اینگو سیکسن سے زیادہ اطالوی یا اندلسی معلوم ہوئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میرا یہ اندا لط نہ تھا کیونکہ باپ کی طرف سے اسے جنوبی خون ورثے میں ملا تھا۔ وہ بلکے گلائی رگا کے کپڑے پہنے ہوئے تھی رہے زیورات تو اس کے گلے میں موتیوں کی ایک مالا ر بالوں میں کھول از سا ہوا تھا اور ہیں۔ مس ہو مزحسن کامل ترین نمونہ تھی۔ لیے کہ رہی تھی۔ کہاں ہے ؟ ارے نہیں پیارے ۔ جواب دینے کی ضرورت نہیں ، تم نے سکا جو حلیہ بیان کیا ہے اس کی وجہ سے میں اسے آسانی سے پہچان لونگی۔ جو ا سکے سینے پر تھا۔ یہ سفید دارغ ہلائی تھا۔ ہو بہو پہلے چاند کی طرح۔ کے جس میں مج ایک نقص نظر تیا ر یہ ہم اسے لی کہ ہیں۔ یہ ایک دانا و یک یان لوں گی ۔ سینا نے جواب دیا کہ ایک اور شیری از مس لیکن پیاری ! تم کس کے ساتھ کھانے کی میز پر جانا پسند کرو گی۔ جیری کیسار ہیگا مرغور کروں لیکنوز کے علاوہ کسی اور کی نہ تھی۔ تاہم مناسب ہو گا کہ تعارف کی رسم میں ہی ادا نشست گاہ میں موجود لوگ مس ہو مز کے ظاہری حسن سے مہ ئے ہوں تو میں کہ نیں سکائین جس چیز نے خود مجھے عرب کیا ہاں پھرے تم مال کہ میں پی ہونے والی خوشد اسن صاحبہ کی وجودگی میں خود میں نہیں لے با جذبات تھے۔ اس کے چھرے پر عجیب طرح کی دیک تھی۔ اس سے حمدی اور ہمدرد سیم علاوہکے مسرت کے جذبات متری کے لیکن مجھے کھ اور بھ نظر آیا ایک جیب طر نہیں، جیری نہیں ۔ مس ہومز نے جواب دیا۔ مسٹر این کو ٹرمین ٹیک ہیں کا پر اسرار اور عارفانہ جذبہ جیسا کہ مصر قدیم کی دیویوں کے بتوں کے کے چہروں پر دیکھا سکتا ہے ۔ خاتون لا جڈن نے اپنی بیٹی سے کچھ کہا تو وہ مسکرائی اور مسکراہت : ساتھ ہی یہ پر اسرار اور عارفانہ جذبہ معدوم ہو گیا لیکن عارضی طور پر وہ پھر اشرے سے عیاں تھا۔ مس ہو مز کی اس مسکراہٹ نے میرے دل میں کسی کی یاد تاز دی ھی۔ لیکن کس کی یاد ؟۔۔۔۔۔ کس کی ؟ گے۔ برائے دلچسپ آدمی ہوں گے یہ مسٹر کواٹر مین۔ پھر میں افریقہ کے متعلق ان سے بہت سی باتیں پوچھنا بھی چاہتی ہوں”۔ تو پھر کواٹر میں ہی سی رمجال نے کہا۔ اور تمہار اندازہ بھی غلط نہیں کو اثر مین جیسا لچسپ آدمی کہیں ڈھونڈے نہ ملے گا کیونکہ لیوانا! تم ہمیشہ افریقہ کے متعلق ہی سوچا کرتی ہو ؟ اس ملک سے تمہیں ایسی و جیسی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کسی جنم میں افریقہ سے تمہار کچھ تعلق رہا ہو اور یہ کہ اب بھی تم و ہیں رہنے کی آرزومند ہو۔ ں یا ایای پر اسرار جذہ اور اسی مسکرہ میں نے ذولو توم اور سکتا ہے رج کہ ایک دن میں افریقہ پیچ جاؤں ۔ مس ہو مر نے خوفناک آواز ایک خاص لڑکی کے چہرے پر اس وقت دیکھی تھی جب وہ مر رہی تھی ۔ اس کا بین کیوں ؟ حالانکہ میں جانتا تھا کہ اعتقاد کے مطابق کوئی روح حلول کر گئی تھی۔ ظاہر یں کانپ گیا۔ پتہ ؟ امینا تھا اور اس کی موت بڑی ہی المناک اور حیرت خیز تھی۔ میں کانی کہ مس ہو مز میں کوئی روح حلول نہ کر گئی تھی تاہم اس میں کوئی خاص بات تھی۔ ہو مز میں کوئی خفیہ توت چھپی ہوئی تھی۔ یونکہ کوئی نہیں کہہ سکتا اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کی مٹی کہاں کی ہے ۔ اور میں نے اسرار عارفانہ جذبہ تھا۔ یکھ کہ ایک بار پھر اسکے چہرے پر وہی پر بہر حال میں ان دونوں کی گفتگو اس سے زیادہ نہ سن کا اور یہاں میں یہ بھی ار در سجل اپنی مکیت کے استقبال کو آگے بھا اور میں ہومز کی وا سوات میرے کی اور نہ سنی تھیں، آپ یو چیں گے کہ اگر من دونوںنے بند پیگی میں ہوئی تھی اور انگی باتیں بتادوں کہ رسجنال اور مس ہو مز کی یہ گفتگویند پیچی آواز اتون لا جان نے آگے بڑھ کے اپنے ہونے والے دلاد کیائیں لے میں اورا آواز میں گفتگی تھی و پھر میں نے کیے سن کی سوال کا جوابی ہے کہ افریقہ کے 35 34 جنگلوں کی تلاش میں گھومنے کی وجہ سے میری قوت سامعہ بڑی تیز ہو گئی ہے کیونکہ کھنے جنگل میں کان سے نظر کا کام لیا جاتا ہے اور آواز کو سکر ہی شکار کی قسم اور اس کی موجودگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ بہر حال جب بھی کوئی سیری تعریف کرتا ہے تو میں ایک عجیب طرح کی بجھن اور بے پھینٹی محسوس کرنے لگتا ہوں ۔ اس وقت بھی میں اپنی جگہ سے اٹھ کر کمرے کے انتہائی سرے پر چلا گیا لیکن یکن میرا. یہ فرار محض بیکار تھا۔ کیونکہ لارڈر سجنال نے جلد ہی مجھے تلاش کر لیا۔ اس کی منگیتر مس ہو مز اس کے ساتھ ہی تھی۔ کوائر مین ! ان سے ملو یہ ہیں مس ہو مز۔ میری منگیتر ”۔ رسجنال نے کہا۔ یہ کمرہ طعام میں تمہارے ساتھ جانا چاہتی ہیں۔ بھٹی بات یہ ہے کہ انھیں بہت - زیادہ دیہی ہے ۔ افریقہ سے میں نے جلد کی سے کہا۔ مجھے امین کو ائر مین سے دلچسپی ہے جو افریقہ کا بہترین اور مشہور ترین شکاری ہے مس ہو مز نے مسکرا کے میری تھیج کی۔ میں نے کمر سے دراغم ہو کر اس عزت افزائی کا شکریہ ادا کیا تور مسجنال نار ہم دونوں کو تنا چھوڑ کر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی کھانالگ جانے کا اعلان کیا گیا اور میر ہور ہے تھے۔ یہیہ کمرہ کمرہ بھی بہت عمدہ تھا جسکی چھت گر جا گھر کی طرح تھی۔ اس کمرے اور میں ہو مزدوسرے مہمانوں کے ساتھ نشست کو عبور کر کے کمرہ طعام میں داخل میں بھی مسٹر سید سیج موجود تھے چنانچہ انھوں نے ہمیں اپنی نشستوں پر پہنچادیا۔ میر نا اور مس ہو مز کی نشست رمجال کے بائیں طرف تھی۔ رمجال اپنی ہونے والی خوش دامن کے ساتھ لبی اور چھوڑی میز کے سرے پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کیا کھایا اور کیا ھایا مجھے کچھ یاد نہیں کیونکہ میں تو مس ہو مز کی باتوں کی طرف ہی متوجہ رہا۔ میں نے سنا ہے کہ تم نے سر جیونس سے شرط ہ کے شکار کیا تھا یہ شرط تم نے جیت نہیں سو پچاس پونڈ ملے اور یہ پوری رقم تم نے ہسپتال کے چندے میں دیدی م ہو مز نے گفتگو کا آغاز کیا۔ مجھے نہ شکار پسند ہے اور نہ شرط بد نا اور یہ عجیب بات ہے کہ نے شرط پر شکار کھیلا حالانکہ تم اس قسم کے آدمی معلوم نہیں ہوتے لیکن سر جیونس مجا ند نہ تھا اور چونکہ تم نے اسے شکست دیدی ہے اس لئے میں جھتی ہوں کہ تمہاری یہ کا میانی ہماری دوستی کا آغاز ہے ۔ لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا کہ مجھے سر جیونس سے نفرت تھی۔ میں نے کہا۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ تم اس سے نفرت کرتے ہو کیونکہ جب میں نے اس کا نام لیا تھا تو تمہارے برے سے نفرت و حقارت کے آثار عیاں ہو گئے تھے۔ اور میں نے اسے بنا دیا کہ وان کوپ نے کس طرح مجھ سے دو سو پچاس پونڈا میٹھ لیے تھے بھی تو میں کیوں کہ مجھے اس شخص سے خواہ مخواہ کی نفرت ہو گئی ہے۔ وہ بولی تو ایسا ہے یہ شخص ۔ اب اماں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔ وہ چاہتی تھیں کہ ۔۔۔ لیکن ہوئی یہ ایک راز ہے۔ اور پھر میں نے مس ہو مز کو اس شادی کی مبارکباد دی جو بہت جلد ہونے ائی تھی یعنی ریجنال کے ساتھ اور یہ کہہ کر تھوڑا سا فلسفہ بھی بھار دیا کہ یہ کس قدر مدہ بات ہے کہ ناول اور افسانوں میں یہ بات لکھی جاتی ہے وہ حقیقت میں ہونے والی ہے۔ یعنی ایک حسین لڑکی کی شادی ایک حسین لڑکی سے ہو رہی ہے اور پھر اس طرح کہ دونوں ایک دوسرے سے پیار بھی کرتے ہیں۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی اور جب میں خاموش ہوا تو بولی۔ شکریہ مسٹر کوائر مین لیکن دنیا میں خوشی کے ساتھ غم بھی ہوتے ہیں سکھ کے ساتھ کھ کا آنا لازمی ہے۔ نیک شکون کے ساتھ بدشگون بھی ہوتے ہیں۔ جو کچھ تم نے کہا ہے وہ سب صحیح سی مگر مستقبل کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟ ظاہر ہے کہ تم کچھ کہ سکتے ہو اور نہ میں کچھ کہہ سکتی ہوں ۔ مستقبل کی اس تصویر جس پر گلانی رنگ کا پر وہ پڑا ہوا ہے ۔ اس تصویر کو تم دیکھنے کے لئے بے چین تھے لیکن دیکھ نہ سکے۔ یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ میں نے حیرت سے پوچھا کیونکہ مس ہو مز کو شادی کی مبارکباد دیتے وقت میں وہی باتیں سوچ رہا تھا جو مس ہو مز نے کہیں اور اسی تصویر کے متعلق سوچ رہا تھا جور مجال کی مطالعہ گاہ میں کی ہوئی تھی اور جس پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتی مس ہو مز نے جواب دیا۔ بہر حال کسی طرح خدا جانے 37 36 رہے کس طرح مجھے معلوم ہو گیا۔ سچ سچ کہہ دواب کہ تم اسی تصویر کے متعلق سوچ تھے یا نہیں ؟ جائے گا۔ میں نے اور اگر سوچ ہی رہا تھا تو ظاہر ہے اس سے کوئی فرق نہ پڑ سیدھا اور صاف جواب دینے کے جائے گول گول جواب دیا۔ ہر چند کہ وہ تصویر فی الحال نظر سے او جھل ہے لیکن آدمی جب چاہے وہ پر وہ وہ ہٹا کر اسے دیکھ سکتا ہے”۔ وہ پردہ ہٹادے اور اسے ۔۔۔ وہاں لیکن فرض کرو کواٹر مین کہ ایک دن آدمی د کچھ نظر نہ آئے تو پھر ”؟ تو پھر سمجھ بجے کہ تصویر چرالی گئی ہے اور اب تصویر کو تلاش کیا جائے گا اور وہ جلد یا بعد پر یقینا عمل آئے گی ۔ ہاں۔ جلد یابد پر ”۔ اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ جلد یابد پر مل جائے گی یکن کہاں؟ کس جگہ ؟ کو اٹر مین تمہاری بھی ایک دو تصویریں گم ہو گئی ہیں اس لئے اس کا جو اب تم ہی دے سکتے ہو۔ ایک لمحہ تک خاموشی کا وقفہ رہا کیو نکہ گم شدہ تصویروں کے ذکر نے وہ یادیں تازہ کر دی تھیں مجھیں میں بھول جانا چاہتا تھا۔ مس ہو مز پھر بولنے لگی ۔ نرم مگر جذبات سے پر آوازیں۔ وہ جانتی تھی کہ مانوں کی نگاہیں اسی پر مرکوز تھیں چنانچہ وہ ہاتھ ہلا کریا اشارہ کئے بغیر بے حد پیچی آواز میں بول رہی تھی اس انداز سے جس طرح کہ لوگ موسم ، پھولوں اور لباس کے متعلق اتیں کرتے ہیں وہ و قافو تا نہی بھی دیا کرتی تھی، وہ چھ سے کھیل رہی تھی اور چاندی کی ایک رکانی کو پیچھے سے بھابھی لیتی تھی۔ لیکن اس تمام عرصہ میں وہ بڑی سنجیدگی سے کمپھر موضوعات پر گفتگو کرتی مکن نہ تھا نام رہی تھی اور ایسے موضوع تھے جن کا مس ہو مز کے خیال تک میں گزرنا ممکن نہ ونوں کی اس گفتگو کو کئی سال گزر چکے ہیں چنانچہ اس جو کچھ کا تھاوہ مجھے مقابر افت یاد نہیں البتہ جتنا کچھ یاد ہے وہ یہاں تحریر کئے دیتا ہوں۔ اس نے کہا۔ سے مختلف ہوں میں دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہوں غالبا میں دنیا کی ہر عورت کوئی اندرونی تحریک اور اکساہٹ مجھے یہ سب باتیں تم سے کہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ اقعی عجیب بات ہے کیونکہ میں نے یہ باتیں کسی سے نہیں کہیں۔ حتی کہ اپنی والدہ اور لارڈر سجنال سے بھی نہیں اگر والدہ سے کمی ہوتیں تو وہ فور افتویٰ صادر کر دیتیں کہ مجھے اپنا علاج کرانا چاہیے اور ہمارا ڈاکٹر ۔۔۔۔ اور اس نے ریجنال کی طرف دیکھا یہی کے گا کہ چونکہ ہماری شادی کے دن قریب آرہے ہیں اس لئے مجھے اعصالی بیجان ہو گیا ہے ا پھر میں دن بدن مذہبی قسم کی عورت بنتی جارہی ہوں چنانچہ مجزویوں کی طرح الٹی ید بھی باتیں سوچ رہی ہوں۔ قصہ مختصر چین سے یوں محسوس کر رہی ہوں جیسے میں کوئی راز ہوں جسے دوسرے رازوں کے ساتھ رکھ دیا گیا ہے۔ یہ انکشاف دفعتہ ہو اور اس وقت ہوا جب میری عمر نو سال کی تھی اس وقت سے ہا کہ یوں کہو کہ اس وقت سے طرح دیکھنے کیونکہ انکشاف رات کے وقت ہوا تھا۔ میں جیسے ماضی اور مستقبل کو حال کی دیئے گئے ہیں ی ہوں جیسے ماضی و مستقبل پر پڑے ہوئے دیز پر دے میرے لئے اتھا میں دیکھتی ضرور ہوں لیکن سمجھ نہیں پاتی۔ میں نہیں جانتی کہ میں نے کیا دیکھا تھا اور ب بھی کبھی کبھی مج جو نظر آتا ہےوہ کیا ہے یہ تمام تیں۔ یہ تمام کیا کموں ؟ مناظر جلی کی چک کی طرح نظر آتے ہیں اور اسی تیزی سے محو ہو جاتے ہیں۔ میرا دماغ انھیں کر نہیں سکتا۔ یہ ۔ یہ ۔۔ سب باتیں میری فہم سے بالاتر ہیں۔ البتہ دو حقائق، صرف میں مجھ پر کوئی و حقائق میرے دلپر نقہ نقش ہیں۔ پہلی حقیقت ہے کہ مستقبل قریب میری روح پر یا جسم کو افریقہ سے گھرا صیبت آنے والی ہے اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ تعلي ۔ سوائے ان باتوں کے جو میں نے چند تعلق ہے۔ افریقہ کے متعلق میں کچھ نہیں جانتی یہ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی احساس ہوا ہے ۔۔۔ ند کتا دینے والی کتابوں میں پڑھی ہیں۔ لینا یا ہے، کوئی نہ ھن احساس بالکن نیا ہے۔۔۔ کہ میرے اور تمہارے درمان کچھ میں پوچھا۔ آواز اونچی بادوا اور پھر اس نے اور اپنے متعلق ساری باتیں مجھے بھی یہی ہے۔ چنانچہ اب افریقہ سے نہ صرف افریقہ سے باعہ تم تم سے۔ بی وجہ ہے کہ مجھے ے پر کوئی تعلق ہے و ہیں بتائی ہے نا؟ نے اپنی عمر کو اٹر مین اتم 38 39 مس ہو مز ! میرے خیال میں آپ کی والدہ کا مشورہ بے حد مناسب ہے۔ واقعی آپ کو اپنا علاج کروانا چاہیے۔ میں نے کہا۔ ایک درخت کے قریب پہنچ گئی کا یک اس درخت کے پیچھے سے دو آدمی نکل آئے انھوں نے سفید چنے پہن رکھے تھے اور ان کے سروں رپر سف سفید پگڑیاں پگڑیاں تھیں ان میں ایک بوڑھا تھا جس کی آنکھیں سیاہ تھیں ، ناک طوطے کی چونچ کی طرح اور اس کی کھوری کوائر مین تم جو کچھ کہ رہے جو اس پر تمخود بھی یقین نہیں رکھتے ، تم شفاف تقرین سفید ڈاڑھی اس کے کا میچ کی طرح ہو ، کم سے کم میرے لئے کیونکہ میں دیکھ لیتی ہوں کہ تمہارے دل میں قر سینہ پر پھیلی ہوئی تھی دوسر کم عمر تھا لیکن اس کی شکل و صورت مجھے یاد نہیں۔ ان دونوں کا رنگ گھر تھا لیکن وہ حبی نہ تھے باہ قر یا سفید فام ہو گئی۔ بوڑھے نے جھک کے میری رسی اٹھائی لیکن مجھے نہ دی ، بوڑھا اور اس کا ساتھی موضوع بدلنے کی غرض سے ، کیونکہ مس ہو مز سے مجھے وحشت ہونے لگی معلوم ہوتے تھے میری رسی بوڑھے کے سینے پر لگ گئی اور میں سہم کر خاموش کھڑی یہ مقدس پھوں کی داستان تھی جس کی حفاظت ایک جگوری بدر کر ہاتھ اور ہم اس داع کی طرف ارہ کیا جو ہٹوں کی شکل کا ہے چونکہ وہ گرمیوں کا موسم ما اس لئے سینے پر کے خدا جانے آپس میں کیا باتیں کرتے رہے اور ان میں سے ایک نے میرے تھی ، میں نے افریقہ کے متعلق وہ پہلی بات سنانی شروع کر دی جو عجلت میں مجھے یاد آ گئی کی تلاش میں بر اور جون سرگرداں تھا۔ وہی جون جسے سب پاگل سمجھتے تھے۔ بے حد دلچسپ میں یہ پھول دیکھنا چاہتی ہوں وہ بیتاب ہو کر یو لی اسکے جواب میں میں نے کہا کہ پھول تو میرے پاس نہیں ہے۔ البتہ کل میں لندن لوٹ جاؤں گا اور وہاں سے اس پھول کی ایک تصویر اسکے لئے بیچ دوں گا۔ میں نے کھلے گلے کی فراک بہن رکھی تھی جس سے یہ داغ نظر آرہا تھا، اس بلای داغ کی وجہ سے بانے میرا نام لیون ) قمر رکھا ہے خیر تو بوڑھے نے پوچھا۔ بیٹی ! کیا نام ہے تمہارا ؟ ۔ لیونا ہو مز ۔۔۔ اس پر بوڑھے نے اپنے چیفے میں نے اسے اپنا نام بتایا ۔۔ ھر اس پچھ ہیں کسی اور کم پر جانے اور رکھا ہوں میں کے گریا تھا اور ایک ونی ذب آی۔ یہ میں سے کوئی چیر جو مٹھائی کہ ایسی بہت سی ممات ہیں جو مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں مثلاً میں ایک خار معلوم ہوتی تھی، نکال کے میری طرف بڑھادی۔ چونکہ مٹھائی مجھے پسند تھی اس لئے قبیلہ کا کھوج لگانا چاہتا ہوں جو کہتے ہیں کہ افریقہ کے وسط میں کسی جگہ آباد ہے اور کی ہیں کہ یہ قبیلہ عرب یا نیم عرب ہے۔ سنا ہے کہ یہ قبیلہ ایک بچے کی پر بوڑھے نے وہ رسی، جو اس کے ہاتھ میں نے وہ چیز اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی ، اسی وقت ان کا یہ طفل دیو تا شروع سے چہ ہے اور آخر تک چہ رہے گا لیکن چونکہ مجھے افریقی قبائی رسی لے آؤ۔ میں رسی کی مال کرتا ہے میں بھی گھا کر پی دی اور مجھ سے کہا و بین اپنی پھر خدا جانے کیا ہوا کہ ا جو کچھ بھی وہ تھی میں نے تھوک دی چنانچہ وہ مٹھائی۔ تھی ذائقہ کچھ عجیب ساتھا طرف دوڑ پڑی۔ لیکن اس مٹھائی کا جو بوڑھے نے مجھے دی اور ان کے مذاہب سے دیچ پی ہے اس لئے اس قبیلہ کا کھوج لگانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ ب عربوں کا کر آیا تو میں تمہیں ایک دلچسپ واقعہ سناتی ہوں۔ مجھے چکر آنے لگے اور بے ہوش ہو کر گری میں کب تک ہوش رہی ؟ یہ میں نہیں مجھے اتایا ہے کہ مس ہو مز نے کہا۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب میری عمر آٹھ سال کی جاتی ہے ہو ہو جانے کے بعد کیا ہوا؟ یہ بھی جھے معلوم نہیں اس کا عنی یہ واقعہ اس عجیب و غریب انکشاف سے کچھ ہی پہلے کا ہے جس کا ذکر میں کر پی کے ہوش گیا ت میں اس شخص کی بانہوں میں تھی جم عر تھا اور میری اور تھے اور وہ مشرقی کہ رہاتھا۔ چیر ابھائی جو یو ہیکل تھا، سامنے کھڑے ہوئے ہوں۔ خیر تو اس وقت میں کنگز ٹن باغ میں کھیل رہی تھی میری انا بھی وہی تھیں ۔ وقت وہ ایک نوجوان سے باتیں کر رہی تھی جسے اس نے اپنا چیر بھائی بتایا تھاور مجھے یا تھا کہ میں کھیلتی پھروں اور دونوں کو پریشان نہ کروں۔ خیر تو میں رسی کو دتے کو دی لے جارہے ہیں۔” کی کو چکر آگئے ہیںاور ہم اسے ڈاکٹر کے پاس بھائی نے گھونستان کر کہا اتار دو اس لڑکی کو میری انا کے پچیرے 41 40 اس کے بعد مجھ پر عشی طاری ہو گئی اور دوبارہ ہوش آیا تو سفید چنے والے مشرقی جاچکے تھے۔ گھر جاتے وقت انا تمام راستے مجھے اس بات پر سرزنش کرتی رہی کہ میں اجنبیوں سے مٹھائی لے کر کھا لیتی ہوں۔ اس نے کہا کہ وہ میرے والدین سے کہے گی کہ مجھ پر بید بر سائے جائیں۔ غالب یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں اس کے سامنے خوب گڑ گڑائی کہ وہ اس واقعہ کا ذکر میرے والدین سے نہ کرے اور آخر کاران نے کچھ نہ کہنے کا وعدہ کیا۔ کواٹر مین تم پہلے شخص ہو جس سے میں نے اس واقعہ کا ذکر تمہارے خیال میں اس مٹھائی میں بے ہوشی یا خواب آور دو املی ہوئی تھر ؟ میں نے پوچھا۔ میں نے اثبات میں سر بلایا۔ کچھ عجیب ذا قہ تھا اس کا اور کوئی عجیب چیز تھی اس میں کیونکہ اس مٹھا کے کھانے کے دو دن بعد ہی وہ ہوا جسے میں نے انکشاف کیا ہے اور اس کے بعد ہی میں افریقہ کے متعلق سوچنے گی۔ وہ دونوں مشرقی پھر بھی کہیں نظر آئے تھے ؟ میں نے پوچھا۔ میں اس نے جواب دیا۔ ود شهلو عین اسی وقت میں ہو مز کی والدہ کی آواز سنائی دی۔ بیٹی لیونا ! مجھے افسوس ہے کہ تمہاری بے حد دلچسپ باتوں میں مخل ہور ہوں۔ لیکن سب تمہارے منتظر ہیں۔” اور حقیقت میں سارے ہی مہمان ہمارے منتظر تھے۔ کیونکہ میں نے شر سے سرخ ہو کر دیکھا ہم دو کے علاوہ ہر شخص کھڑا ہو چکا تھا۔ چنانچہ مس ہو مز بڑی عجلت اور گھبراہٹ میں اٹھ کر مجھ سے رخصت ہو اور اسکروپ نے میرے کان کے قریب منہ لاکر کہا۔ تیار این ! اگر تماس حسینہ سے اسی طرح گھل مل کے باتیں کرتے رہے۔ زار ڈر مجال کے دل میں شکو رقابت کی آگ بھڑک اٹھے گی۔” کومت میں نے خفا ہو کے کہا لیکن اسکروپ کا یہ اندازہ غالبا غلط ند رجینال جب میرے قریب سے گزر رہا تھا تو اس نے کہا :۔ کواٹر مین تم نے چند لقے ہی کھائے ہیں ۔ میرے دوست ! اپنی بھوک کھلوانے کے لئے علاج کراؤ ! اور اب مجھے یاد رہا ہے کہ میں نے واقعی کچھ نہ کھایا تھا۔ میں میز پر بیٹھ رہا تھا یرے خدا یہ پر ہوا تھا اور میں اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہا تھا یہ احساس جرم اتنا شدید تھا سے الگ تھلگ ایک کونے میں بیٹھ کہ جب ہم واپس نشست گاہ پہنچے ہیں تو میں سب سے ! یے اس کتاب کی ورق گردانی کرنے لگا جس میں بیت المقدس کی بے حد عمدہ تصویریں تھیں۔ جب میں یوں بیٹھا ہوا تھا تور مسجنال کو میری تنہائی پ رحم آگیا یا شاید مس ہو مز ے اسے میری طرف بیج دیا۔ وجہ کچھ بھی ہو ، بہر حال یہ یہ حت حقیقت . ہے کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہوا تھا اور افریقہ میں ہاتھیوں کے شکار کے متعلق پوچھ رہا تھا اس نے یہ بھی پوچھا کہ افریقہ میں میرا مستقل پتہ کیا ہے۔ میں نے اسے اپناڈرین کا پتہ بتا کے پوچھا کہ وہ کیوں پوچھ رہا ہے۔ اس لئے کہ مس ہو مز کو افریقہ کا خبط ہو گیا ہے اور مجھے بقین ہے کہ ہماری شادی کے بعد وہ مجھے وہاں گھسیٹ لائے گی ۔ رمجال نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ ہم افریقہ کے متعلق ہی باتیں کرتے رہے تھے کہ خاتون لا جدن اپنے ہونے والے داماد کو شب خیر کہنے آ گئی اس نے کہا کہ اب اسے اپنی خوانگاہ میں پہنچ کر اور گرم و ملین پانی کے ڈول میں پیر رکھ کے تھوڑی دیر تک بیٹھے رہنا چاہیے کیونکہ اس کا کام اس نے کہا کچھ بڑھ ہی گیاتھا اور یوں کہہ کر خاتون لا جدن رخصت ہوئیں اس کے بعد میں نے اس خاتون کو پھر کبھی نہ دیکھا اور اب اس کے انتقال کو بھی ایک عرصہ ہے۔ ندر گیا اس کے بعد ہی رسجنال کے اکثر ممان بھی رخصت ہو گئے حالانکہ اس وقت رات کے دس حج رہے تھے لیکن کیونکہ وہ موسم سرما کی کریلی رات تھی اس لئے یوں لگتا تھا جیسے آدھی رات گزر چکی ہو۔ 43 42 رجنال اپنے مسمانوں کو رسم قدیم کے مطابق قصر کے دروازے تک پہنچا کر واپس آیا تو اس نے آتے ہی مجھ سے پوچھا کہ مجھے کس چیز سے دیہی ہے تاش سے یا موسیقی سے ؟ میں لارڈ بنال کو بتا رہا تھا کہ مجھے تاش کے نام سے بھی نفرت ہے۔ حضرت و شی یعنی وہی مسٹر سی سچ کرے میں داخل ہوئے اور رسجنال سے پوچھا کہ مانوں میں کوئی ایسے صاحب ہیں جن کا نام ہو میں کھوں مارو ریجنال نے پہلے حیرت سے اور پھریوں۔ سیویج کی طرف دیکھا گویا اسے شک ہو گیا ہو کہ سیوی کا یا تو دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر اس نے نشہ کر رکھا ہے۔ مجھے مذاق کرنے کی عادت نہیں ہے سرکار سیویج نے جواب دیا۔ بات یہ ہے کہ دوا جیبی ، جنہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے ہیں قصر میں وارد ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ دونوں اسی وقت میں کہوں مارو سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے ان سے چلے جانے کو کہا کیونکہ خانساماں نے کہا کہ وہ دونوں پاگل معلوم ہوتے ہں۔ ہیں ۔ لیکن سرکار وہ دونوں تو بڑے اطمینان سے برف پر بیٹھ گئے کہ ہم کہوں میں ردن کا انتظار کریں گے۔ تو پھر بہتر ہو گا کہ تم ان دونوں کو قصر کے پرانے کمرے میں یز کروم ٹھیں کھانا دے دو اور کسی آدمی کو پولیس کو ہلانے کے لئے دوز دو لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ ہمارے شکار کر دہ تیتر لینے آئے ہیں۔ رسجنال نے کہا۔ ایک منٹ لارڈر سجنال میں نے جلدی سے کہا کیوں کہ ایک خیال قبلی کی سی تیزی سے میرے دماغ میں گوند گیا۔ یہ لوگ غالبا میرے لئے کوئی پیغام لے کر آئے ہیں حالانکہ میں نہیں جانتا یہ پیغام کس کی طرف سے ہے اور کیا ہے افریقہ میں میں میکو میزن کے نام سے مشہور ہوں ان دونوں نے یہی نام لیا ہو گا جسے سیویج کچھ اور سمجھا۔ اجازت ہو تو میں جا کران اجنبیوں سے مل آؤں ؟ اس قدر سردی میں باہر جانے کی ضرورت نہیں ریجنال نے کہا۔ اور پھر سیو سیج سے پوچھا۔ ان لوگوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کون ہیں انھوں نے نہیں بتایا لیکن میں نے اندازے سے معلوم کر لیا کہ یہ دونوں اجنبی جادو گر ہیں زیر دست ہو یوں کہ جب سے میں نے ان سے چلے جانے کو کہا توان میں سے ایک بول! میاں پہلے تم جاؤ گے ۔۔۔ اور میں نے فورا ایک پچھ نکار کی آواز سنی یہ آواز میرے کوٹ کی جیب میں سے آئی تھی۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کے دیکھا تو اے سرکار اس میں ایک سانپ کنڈی مارے بٹھا تھا وہ پیٹ سے زمین پر گر اور غائب ہو گیا۔ سرکار ! مجھ پر تو سکتہ طاری ہو گیا اور سوچنے لگا کہ اس موذی نے کہیں مجھے ڈس تو نہیں لیا کہ دفعہ باور چن کے بالوں میں سے ایک چھوٹا سا چوہا پھوک کے باہر نکل آیا۔ کہاں وہ ان دونوں اجنہیوں کی وضع قطع پر ہنس رہی تھی اور کہاں وہ ہسٹریا کی مریضہ کی طرح چیتیں مارنے سیویج نے یہ واقعہ کچھ ایسی سنجیدگی اور متانت سے بیان کیا کہ میں اور رسجنال ہے تحاشہ ہنے لگے ۔ ہماری ہنسی کے چھینٹے مس ہو مز پر بھی پڑے اور پھر اسکروپ اور اس کی منگیتر کے علاوہ چند دوسرے مہمان بھی اس بے تحاشہ نسی کی لپیٹ میں آگئے اور بقیہ آگے بڑھ کے پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے کیا ہوا؟ سیو نیج کا کہنا ہے باہر جادو گر آئے ہوئے ہیں جنھوں نے اپنے جادو کے زور سے خود سید سیج کی جیب میں سے سانپ اور باور چن کے بالوں میں سے چوباہر آمد کر دیا تھا 45 44 یہ دونوں مسٹر کواٹرمین سے ملنا چاہتے ہیں رسنال نے مہمانوں کو مطلع کیا۔ اپنے بوڑھے ساتھی کی سی سنجیدگی اور ر رعب رعب عیاں نہ تھا اس کا چہرہ مسکراتا ہوا تھا آنکھ میں جادوگر ہیں تو انہیں اندر بلا لو جارج مس ہو مز نے اپنے ہونے واس باریک بامہ چیاں سی اور سیاہ اور ڈاڑھی مونچھ صفاچیٹ ان دونوں کی رنگت کالی نہ تھی شوہر سے درخواست کی اور اسکروپ وپ کی کی منگیتر منگیتر او اور دوسرے مہمانوں نے بھی ہو اور بلکہ ان کا رنگ کھتا ہوا تھا اور وہ دونوں عجیب پر اسرار قوتوں کے مالک نظر آتے تھے۔ کو دیکھتے ہی مجھے مس ہو مز کے چین کا واقعہ یادآ گیا جو اس نے پٹانگ باتوں سے اکتا گئے تھے اس کی تائید کی۔ ان دونوں سیو تج نے سر جھکا کر سلام کیا اور کمرے سے یوں رخصت ہوا جسے کو کھانے کی میز پر مجھے سنایا تھ میں نے نکھوں سے مس ہو مز کی طرف دیکھا تو نظر آیا کہ بہادر شہادت کا مرتبہ حاصل کرنے جارہا ہو حالانکہ اس کی ہر حرکت اور اخر سے خوفہ اس رنگت مردے کی طرح ہو رہی تھی اور اس کا پور ابدن ہوئے ہولے کانپ رہا تھا عیاں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے سوا کسی نے مس ہو مز کی یہ حالت نہ دیکھی کیونکہ وہ سب کے آپ کتے ہیں تو بنائے لیتا ہوں حالانکہ پہلے ہی اس قصر میں چوہوں کی افرا میں چینیوں کی طرف متوجہ تھے۔ اس کے علاوہ مس و مز نے فراہی اپنے جذبات پر ۔ رسجنال نے کہا اور پھر سیو سیج کی طرف گھوم گیا۔ قاد حاصل کر لیا اور مجھے اپنی طرف دیکھتے دیکھ کے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے سیو سیج کے جانے کے بعد ہم نے میز اور کر سیاں ہٹا کر شعبدہ بازی کے لیے خاموشی رہنے کا اشارہ کیا۔ گویا میدان صاف کیا اور اس میدان میں اجنبیوں کے بیٹھنے کے لئے گو کرسیاں رکو دونوں اجیسی اپنے کندھوں پر موٹے دھاری دار لبادے ڈالے ہوئے تھے کمرے کا دروازہ کھلا اور سیویچ نمودار ہوا میں نے دوباتیں خصوصیت عے ہوئے تھے اور ان دونوں کے سر پر جو پگڑیاں تھیں وہ بھی بقول کسی بچے کے بازو کی طرح دونوں نے یہ لبادے اتار کر فرش پر چھا دیئے لیادوں کے نیچے وہ سفید براق چنے پینے دیں۔۔ دیکھیں۔ ایک تو یہ کہ سیویج نہایت تیزی سے چل رہا تھا اور دوسری یہ کہ وہ دونولا سفیر ہیں۔ ہاتھوں سے اپنے کوٹ کی جنہیں دہائے ہوئے تھا۔ مسٹر ہیر روت اور میر ۔ روت رسجنال نے حیرت سے دہر آیا۔ ان کے نام غالیا با روت دماروت ہوں گے ”۔ میں نے کہا۔ یہ د قدیم کے زیر دست جادوگر تھے۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ صومالیہ کے خالص عرب میں نے سوچا۔ اور میں نے دیکھا کہ اپنے لبادے فرش پر چھاتے اور اپنے چنے ٹھیک کرتے دونوں زیان وقت وہ ہم لوگوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے پیچھے ہٹ کے کمرے کا دوسرے ہی لمحے دو شخص کمرے میں داخل ہوئے ایک آگے تھا اور ایک ار کے پیچھے۔ آگے والا مشرقی معلوم ہو رہا تھا۔ دروازہ بند کر دیا گیا گیاہ چاہتے تھے کہ سیویج کمرے سے باہر نہ نکلے پائے۔ طویل القامت تھا اور اس کے بھرے پر عجیب طرح کی سنجیدگی اور رعب؟ مد ہو گیا تھا۔ اسکی ڈاڑھی بھوری ائمہ سفید تھی جو اس کے سینے پر پھیلی ہوئی تو ۔ اس کی ناک مڑی ہوئی یا ہونٹوں پر جھکی ہوئی تھی اور اس کی آنکھیں عقاب کی ؟ دوسرا مشرقی اپنے ساتھی کے مقابلے میں کم عمر تھا۔ اس کے بشرے ۔ دونوں کے اور اب وہ دونوں بڑی شان سے قدم اٹھاتے ہماری طرف بڑھے غالبان کی اتھوں میں بر سلوں کی بنی ہوئی ایک ایک ٹوکری تھی۔ ان ٹوکریوں میں تھا۔ کی جیب میں جا گھسا شعبدہ بازی کا سامان شاید وہ سانپ تھا جو خدا جانے کس طرح سیویج میری طرف آئے میرے میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ دونوں سیدھے رکھی ان دونوں نے اپنے دونوں سامنے بیچ کے انہوں نے اپنی اپنی نوکری فرش پر دیئے ہاتھ اوپر اٹھا 47 46 اور پھر باروت و ماروت نے ایک زبان ہو کر کہا۔ اہم دونوں سلام کہتے ہیں۔ سلام ہو تجھ پر اے آقا ۔ سلام ہو تجھ پر سےاے وہ جو بظاہر قد میں چھوٹا مگر مگر یہ یہ باطن باطن عظیم عظیم ےہے۔۔۔ اسلام ہو مجھ پر اے سردار جس کا ماضی پریشان گذرا ہے۔ لیکن جس کا مستقبل روشن ہے سلام ہو تجھ پر اے وہ جس مینا نے نے چاہا۔ج اس امینا نے تو اس دنیا جا چکی تھی اس پار سے کلام کرتی ہے ماینا جو ہم میں سے تھی اور ہم میں سے ہے ۔ اور اب میں ہو مز کے میری طرف دلچی سے اور مجس نظروں سے دیکھنے کی باری تھی۔ اور وہ میری طرف دیکھ رہی تھی اے بدی کو ختم کرنے والے اسے شیطان انسانوں اور شیطان درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانے والے۔ دونوں نے اپنی پر رعب اور میر آواز میں کہنا شروع کیا۔ “ہمارے جادو نے ہمیں بتایا کہ ہمیں اور ہمارے قبیلے کو صرف تم مصیبت سے نجات دلا سکتے ہو۔ اور ہمیں مصیبت سے چھڑاؤ گے ۔ چنانچہ ہم تمہارے سامنے جھکتے اور تمہیں سلام کرتے ہیں کیم میں اپنے آقا اور بھائی تسلیم کرتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ بے آبو گیاہ صحرا میں اور اپنے ملک ں ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ اور وعدہ کتے ہیں کہ نہیں اپنے کام کی اجنا دیں گے ۔۔ اور انہوں نے ایک بار جھک کر مجھے سلام کیا۔ ایک دفعہ دود فعہ۔ اور تین رف یوں تین دفعہ میرے سامنے بھکنے کے بعد وہ پھر کھڑے ہو گئے اور اپنے سینے پر ہاتھی باندھ لئے۔ اس کے چند الفاظ تو میں سمجھ سکا ہوں۔ اسکروپ یونسی سی زد لو زبان جانتا تھا ۔ چنان کیا کہہ رہے ہیں یہ لوگ ؟ اسکر وپ نے پوچھا۔ انہوں نے جو کچھ کہا باروت و ماروت نے جو کچھ کہا تا وہ میں نے مختصر اسنادیا کبھی لوگ غور سے سنتے رہے۔ یہ ماینا کا کیا مطلب ہے ؟ مس ہو مز نے بالا آخر سکون سے پوچھا یہ لڑکی کا نام تو نہیں ؟ اور مس ہو مز کے منہ سے یہ نام سن کے باروت و ماروت ہوں جھک گئے مینا کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے مجھے اعتراف ہے اس وقت میں گھبر آ گیا تھا چن میں نے بیچی آواز میں ایک افریقی لڑکی کے متعلق جس کا نام مالینا تھا خدا، جائے کہا۔ اس لڑکی نے اپنے دور میں خاصی جیلی مچادی تھی۔ این بہت حسین تھی۔ غالبا آپ سے بھی زیادہ حسین خاتون ما مینا سفید فام آقا میکو میزن سے محبت کرتی تھی اور مرنے کے بعد بھی وہ میکو میزان سے محبت کر رہی تھی۔ اس وقت بھی مامینا نہیں کہ رہی ہے میرے کان میں ۔ آپ میکو میزن سے پوچھئے کہ اس سفید فام آقا نے اسے کس طرح اس وقت چوا تھا جب وہ مر رہی تھی ہاروت نے کہا۔ غالبا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہاروت کی ان باتوں نے سارے مہمانوں کو دفعہ میری طرف متوجہ کر دیا اور یکا ایک کمرے میں خاموشی طاری ہو گئی اس خاموشی مجھ پر جی ہوئی تھیں اور کو اسکروپ کی چھینکیں توڑ رہی تھیں اور اس ہر شخص کی نگا ہیں آگیا اور میں با تو زبان میں میں جیب طرح کی بے چینی محسوس کر رہا تھا چنانچہ مجھے غصہ کو سنتے رہے۔ اروت پر برس پڑا سارے مہمان کچھ سمجھے بغیر غور سے سرزنش یہ کہ ہاروت میں نے پوچھا کہ وہ لوگ یہاں کیا جھک مار نے آئے ہیں اور کہ اسے ماینا کی کیوں مجھے بدنام کر رہا ہے میں نے پوچھا۔ کہ وہ کون ہے میں نے پوچھا جاؤں گا۔ دیا کہ میں جلد یا دیر ان کے پاس آ داستان کیسے معلوم ہوئی اور یہ کہ انھوں نے کیسے کہہ میری سرزش سنتا رہا اور جب باروت بہت کی طرح بے حس و حرکت کھڑا رہا تو اس ہو گا کہ جب میں تھک کر خاموش ہو میں خاموش ہوا کہ یوں کہنا مناسب 48 نے بڑے سکون سے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنا شروع کیا۔ آئے آقا ! زولو فیلے کا زہر دست ڈاکٹرز کالی میرا دوست ہے افریقہ اور دنیا کے جتنے بھی بڑے بڑے وچ ڈاکٹر ہیں میرے دوست ہیں بالکل اسی طرح جس طرح کہ ا تھی اور سانپ ہمارے دوست ہیں ۔ خیر تو اسی زکالی سے مجھے مامینا کی داستان معلوم ہوئی تھی اور اب وہ دوسری دنیا میں بیٹھ کے مجھ سے گفتگو کرتی ہے اور تمہیں اپنا پیار اور سلام بھیجتی ہے کہو تو میں اسی وقت مینا کو یہاں بلا دوں کہو تو تمہیں دکھا دوں اکثر مہمانوں نے کہا ہاں۔ ہاں۔ ضرور ، لیکن یہ ایک معمولی سا کام ہے۔” اور اب اس نے بانتو زبان میں کہنا شروع کیا ۔ میکو میزن مذاق آخر مذاق ہے حالانکہ بعض انسان مذاق ہی مذاق میں بڑنے پتے کی باتیں کہہ جاتا ہے۔ اور اگر تم چاہو تو مینا کو دیکھ سکتے اور ہم دکھا سکتے ہیں میں یہاں اپنے قبیلہ کی طرف سے آیا ہوں اور ایک کام کی درخواست لے کر آیا ہوں جس کا معاوضہ بھی تمہیں مل جائے گا۔ میکو میزن ہم لوگوں کو مگریز کا غدہ کہلاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ جو کالے رعایا ہیں لیکن چونکہ ان کی تعداد اب ہم سے بڑھ گئی ہے۔ اس لئے وہ خود سر ہو گئے ہیں۔ ہم ایک ایسے دیوتا کی پرستش کرتے ہیں جو شروع سے چہ ہے اور آخر تک چہ رہے گا۔ سی کا ندہ کا دیو تا ایک بدروح ہے۔ یہ بد روح شروع سے ہی ایک ہاتھی کے قالب میں رہتی ہے۔ یہ ہاتھی بہت بڑا ہے دنیا کا سب سے بڑا تھی ہے یہ ۔ اس ہاتھی کو کوئی نہیں مار سکتا البتہ ہاتھی جسے چاہے مار لیتا ہے اور جسے چاہئے مسحور کر لیتا ہے۔ اس ہاتھی کا نام جو در اصل دیو تائے مشر ہے جانا ہے اور جب تک جانا زندہ ہے ہم سکون اور اطمینان سے نہیں رہ سکتے کیونکہ دن بدن یہ روح جو ہاتھی کے قالب میں ہے ہمارے آدمیوں کا خاتمہ کرتی اور سفید کا ندہ کی تعداد کو کم کرتی رہتی ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے ۔۔۔ کس طرح ؟ یہ نہ پو چھو ۔۔۔۔ کہ تم اس اتھی کو جس کا نام جانا ہے کمار سکتے ہو۔ اگر تم ہمارے سامنے آئے اور جانا کا خاتمہ کر دیا تو ہم تمہیں وہ جگہ بتا دیں گے جو ہاتھوں کا قبرستان کہلاتی ۔ہے یہ وہ مقام ہے جہاں پر ہاتھی اکر مر جاتا ہے چاہے اس کی موت کا باعث کوئی زخم ہویا عمر طویل ۔ بہر حال ہاتھیوں کے اس قبرستان میں اتنا بہت ساہا تھی دانت ہے جو کئی سو چھکڑوں پر لادا جانے کے بعد 49 بھیچ رہے ہار کام کر دو اور یہ ہاتھی دانت لے کر مقصد ایک پھول حاصل کرنا ہے اس ماری اور پوگو ہیں مارینو اور پو گو سفر میں تمہاری ملاقات دو قبائل سے ہو گی۔ ان کے نام ایک بہت بڑی جھیل کے درمیان واقع ایک جزیرے میں رہتے ہیں۔ یو گو کے وطن سے بہت دور اور صحرا کے اس پار میرا قبیلہ آباد ہے ۔ یہ جگہ جہاں میرا قبیلہ آباد ہے ے ملک حیفہ کہلاتا ہے کیونکہ وہاں جانے کا راستہ کسی کو معلوم نہیں ۔ جب تم ہمارے لک میں آنا چاہو، جیسا کہ تمہیں آتا ہے اور تم ضرور آؤ گے، تو اس جھیل کے جہاں ہو نگو باد میں شمال میں چل پر و یہاں تک کہ تم لب صحر اپنچ جاؤ ہیں وہاں رک کر شکار سے اپنادل میر انداق ھیلاؤ یہاں تک کہ ہم تمہارے استقبال کو آجائیں گے ۔ اس وقت چاہو تو تم یا دیر تمہیں ہماری مدد کو آتا ہے او کی یاد رکھ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ میں نے کہا ہے جلد ہماری ملاقات آئندہ نہ ہو تب بھی میری ان باتوں کو یاد رکھتا جب تمہیں سونے کی یا ہا تھی جھیل کے شمال میں چل پڑو ات کی کیونکہ ہاتی دانت سفید سونا ہی ہے ضرورت ہو تو باروت و ماروت کو اس جھیل کے شمال میں جس کے جزیرے پر چونگ آباد ہیں۔۔۔۔اور کار و ہم دونوں آجائیں گے۔ اسے شب خیر اے عظیم آقا اور اسے قصر کے مالک شب خیر اسے بانو اور ہماری اور تمہاری ملاقات خود ہمارے ندائے روح شب بخیر اے میکو میزن۔ بہت جلد روح اور وطن میں ہو گی۔ ہاں اس وقت جب تم ہاتھی جانا کا خاتمہ کرنے آؤ گے ۔ مقدس پاک ل مقدس تم پر پیرتیں نازل کرے اور تمہیں ہر آفت وبلا سے محفوظ رکھے۔ پلاتا اور جلاتا ہے۔ وہ آسمان سے اترا ہے وہ ہے ہمارادیو تا و پائی برساتا ہے ۔ جو ہیں کھاتا ہے۔ وہ دیو تائے خیر ہے”۔ سمان کی اولاد ہے۔ وہ مقدس کے انھوں نے اپنے دھاری تک پہنچ گئے اور وہاں پہنچ کرتے نشست گاہ کے دروازے جھک کر سلام چلتے اور ہر ہر قدم پر جھک اور ہاروت و ماروت النے قدموں دار لبادے پہن لئے۔ یہ کام ماروت کو باہر تک پہنچا نے گیا ارڈر سجنال کا اشارہ پاکر میں ہاروت و جیبوں میں سے مزید سے لرزہ بر اندام تھا کہ مبادا اسکی یون کا تھا لیکن وہ اس خیال 52 50 سانپ نکل آئیں۔ جاؤ میکو میزن جاؤ مبادا نہیں سردی لگ جائے اور لو یہ تحفہ لیتے جاؤ ۔ تخته طفل مقدس کی طرف سے اس خاتون کے لئے جو ندائے روح ہے جس سے صل مقدس نے آج رات گفتگو کی ہے ، جس کے سینے پر پہلا چاند ہے اور اس قصر کے مالک کی دلمن بنے والی ہے اور یہ اسکی شادی کا تحفہ ہے۔ اور باروت نے سپرے میں بیٹی ہوئی کوئی چیز میرے ہاتھ میں تھادی۔ جھک کر مجھے سلام کیا اور اپنے ساتھی اشا کر داروت کے ساتھ اندھیرے میں جاکر نظروں سے او کبھل گیا۔ میں واپس نشست گاہ میں پہونچا۔ رسجنال کے مہمان اب بھی باروت دما روت کی حیرت انگیز شعبدہ بازی پر رائے زنی کر رہے تھے۔ وہ دونوں چلے گئے۔ “ سجنال کے جواب میں کہا۔ وہ دونوں پیدل لندن جائیں گے ۔ کم سے کم باروت نے تو یہی کہا تھا لیکن وہ مس ہو مز کو شادی کا ایک تحفہ دے گئے ہیں۔ طرف بڑھادی۔ اور میں نے کپڑے میں بیٹی ہوئی وہ چیز اس کی طر کواٹر میں رکھوا سے رسجنال نے کہا۔ نہیں جارج ”۔ مس ہو مز نے جس کی خوش طبعی عود کر آئی تھی ہنس کے اپنے تحائف میں بھی کھولنے کی عادی ہوں”۔ رسجنال نے اپنے کندھے جھٹکے اور میں نے کپڑے کا وہ پیکٹ جس کے سرے دھاگوں سے لئے گئے تھے۔ مس ہو مز کی طرف بڑھا دیا۔ خدا جانے کون دوڑ کر تینی لے آیا اور پیکٹ کی سلائی کائی گئی۔ کپڑاہٹایا گیا تو اس میں سے بے حد قیمتی ، خوبصورت اور سرخ پتھروں کی مالا برآمد ہوئی یہ پتھر بیضوی انگاروں کی طرح سرخ اور کبوتروں کے انڈوں جیسے تھے یہ پتھر ایک سیاہ چمک دار دھاگے میں پر دے ہوئے تھے ، میں نے فور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ در اچھیل یہ دھاگہ ہاتھی کے دم کا بال تھا اس مالا کے پتھروں کے متعلق میں نے اندازہ لگایا کہ وہ بہت قدیم فعل تھے۔ غالبا یہ لعل مصر قدیم کی کسی UnacnSEE ایک بید خوبصورت مجسمہ جو سرخ پتھر سے ہی تراشا گیا تھا ، مالا کے بیچ میں صنعت کا نمونہ کھی لٹک رہا تھا۔ اس مجسمہ سے بھی پتہ چکا تھا کہ یہ مالا مصر قدیم کی کیونکہ یہ مجسمہ کسی اور کا نہیں بلکہ مصر قدیم کے مشہورد ہور د ہوتا ہو رس کا تھا اور اس وقت جب بورس چہ تھا ہو رس مصر کی عظیم دیوی ایز پس اور عظیم دیوتا اور پریس کا بینا۔ جس نے دیوتائے شرست سے اپنے باپ کا بدلہ لیا تھا۔ یہی وہ مالا ہے جو کل عاج نے مجھے دی تھی۔ میرا مطلب ہے اس خواب میں جو کاندہ تمباکو کے دھوئیں میں مجھے نظر آیا تھا ۔۔ مس ہو مز نے بڑے سکون سے اعلان کیا۔ اور پھر اس نے ہوئی احتیاط سے یہ مالا اپنی گردان میں ڈال کی۔ 53 52 اس شام عجیب و غریب واقعات ہوئے تھے اور قصر رسجنال کی نشست گاہ میں افریقہ کے دواجنیوں باروت و ماروت نے اپنی شعبدہ بازیوں سے سب کو تو خیر دم نجو کر ہی دیا تھا لیکن اپنی باتوں اور پشین گوئیوں سے خود مجھے بھی حیرت زدہ کر گئے تھے۔ ال واقعات کا سلسلہ ان کے جانے کے بعد بھی ختم نہ ہوا جیسا کہ میرا خیال تھا بلکہ اکی سلسلہ میں جو دوسر واقعہ ہوا۔ میرا مطلب ہے اسی رات کو یا ان واقعات کا جو انجام وہ چونکا دینے والا تھا یہ سب کیا تھا ؟ میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ میرا کام تو واقعات بیان کر دینا ہے چنانچہ جو کچھ ہوا ۔ اسے میں بیان کئے دیتا ہوں اور فیصلہ قاریم پر چھوڑتا ہوں۔ اس رات میں سو نہ سکا۔ یا یوں کہئے کہ سکون ہے سونہ سکا غالبا اس لئے کی دن بھر بندوق چلا تا رہا تھا اور اس شکار میں میرا مقابلہ اس شخص سے تھا جس نے مال قریب میں مجھے الو بنایا تھا۔ چنانچہ یہ شکار کی سنسنی تھی یا فتح کی خوشی جس نے سونے نہ دیا یا پھر یہ بات تھی کہ باروت و ماروت کی باتوں نے میرے دل وہ ماغ ایک ہلچل مچادی تھی ۔ یہ دونوں اگر ان کا کہنا سچ مان لیا جائے تو میری ہی تلاش سات ہزار میل کا سفر طے کر کے آئے تھے اور ان مناظر نے میرے دماغ میں عجیب متضاد خیالات بیدار کر دیئے تھے۔ ا پھر سب سے آخر میں یہ وجہ بھی ہو سکتی تھی کہ میرے میزبان کی حسین منگیتر نے اپنے کچن کا وہ واقعہ سنایا تھا جو اس نے سی اور سے نہ کہا تھا اور اس کے تھوڑی پر بعد ہی اس کے تین کے واقعہ کے وہ دونوں اہم کردار میرے اور میں ہو مز کے روبرو تھے کیونکہ مجھے یقین تھا کہ باروت و مارت وہی پر اسرار ہستیاں تھیں جنھوں نے پن ہو مز کو نجب اس کی عمر آٹھ نو سال کی تھی۔ اغوا کرنے کی کوشش کی تھی ( ق مختصر ان مسلل سل واقعات نے میرے دماغ میں خیالات کا ایک نہ ٹوٹنے والا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور شاہد یہی خیالات تھے جنھوں نے مجھے سونے نہ دیا۔ اور جیسا کہ پہلے ۔۔۔ جب جوان نے قبیلہ کا ندہ کا ذکر کیا تھا مجھے یاد آیا تھا ہی طرح اسوقت بھی مجھے یاد آیا کہ مصر قدیم کے لوگ بھی ایک طفل دیوتا کی پرستش کرتے تھے جس کا نام ہو رس اور لقب نجات دہندہ تھا۔ یہ محفل دیو تا دیوی ایزیس طفا ا یا تھا جس نے اپنے باپ کا بدلہ دیوتائے شہ ست سے یا تھا۔ ہو رس کی ماں ہی نہیں مصر کی سب سے عظیم دیوی تھی جس کی علامت تھی بلال پورے مصر میں یہ دیوی پوچی جاتی تھی یہ قدرت اس کے اسرار کی دیوی تھی جس کے دین کا عہد دس ہزار منیت کرتے تھے اور یہ عجیب اتفاق تھا کہ دیوی ایزیس کی علامت میں ہو مز کے سینے پر موجود تھی یعنی وہ سفید داغ جو پہلے چاند کی طرح تھا۔۔۔۔ بلال ۔۔۔۔ اور جب میں ہومز کی عمر اٹھ نو سال کی تھی اور وہ ایک باغ میں کھیل رہی تھی تو ہاروت اور ماروت نے یا انکے جیسے دو آدمیوں نے اس کے سینے پر کا یہ نشان یہ مقدس علامت ایک دوسرے کو دکھائی تھی۔ بھی۔ او اور میں نے دیکھا تھا کہ آج رات بھی وہ دونوں میں ہو مز کے سینے پر کے اس بالی نشان کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اور خود مس ہو مز نے دھو میں کے خواب میں دیکھا تھا کہ “ لفطفل عاج یا ہو رس یا اس کا کا ۔۔۔ جیسا کہ قدیم مصری روح کو کہتے تھے۔۔ زندہ ہو گیا تھا۔ اس کی طرف مسکرایا تھا اور اسے دیوی کی مادی تھی وغیرہ وغیرہ۔ ان س باتوں کا مطلب کیا تھا آخر ؟ کی سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی یہاں تک کہ اس لعنتی گھڑی کے گھر کی 55 54 آواز نے مجھے پر بیدار کر دیا اور ایک بار پر سے ہی خیالات ہجوم کر آئے۔ وں سے زیادہ سے زیادہ دور وی رات گزرتی رہی اور نیند میری انھوں ۔ رات کا پچھلا پھر تھا پو چھنے کا وقت آرہا تھا جب میں نے نیند زنے کی کوششیں ترک کر دفعہ ایک طرح کا شدید خوف میرے دل پر مسلط ہو گیا۔۔۔۔ خدایا! مس ہو مز کی جان خطرے میں تھی اس کے ساتھ کوئی عجیب واقعہ ہونے والا تھا۔ یہ احساس شدت اختیار کرنے لگا اور آخر کار تا شدید ہو گیا کہ میں برداشت نہ کر سکا اور بے چین ہو کر اٹھ بیٹھا۔ موم بتی جلائی اور کپڑے پہن لئے۔ میں جانتا تھا کہ میں ہو تر کہاں سوئی ہے اسکی خواب گاہ جس میں اسے داخل ہوتے میں نے دیکھا تھا اسی غلام گردش میں تھی جسمیں خود میرا کمرہ تھا۔ مس ہو مز کا کمرہ غلام گردش کے انمانی سرے پر اور اس زینے کے قریب تھا جو پیتر نہیں کہاں جاتا تھا میرے پچھلے سے چری دیگ میں جو اسکروپ کی منگیتر نے یہاں بیچ دیا تھا دوسری چیزوں کے علاوہ ایک دور نالی پستول بھی موجود تھا۔ ہمیشہ کی طرح یہ پستول بھر ا ہوا تھا۔ افریقہ کے جنگلوں میں بھنے اور اکثر راتیں جنگلوں میں ہی گزارنے کی وجہ سے بھرا ہوا پستول اپنے پاس رکھے کی مجھے عارت ہو گئی تھی۔ میں نے پستول نکال کے اپنی جیب میں رکھ لیا۔ آہستہ سے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر کسی نے مجھے اس حالت میں دیکھ لیا۔ تو خدا جانے وہ میرے متعلق کیسی رائے قائم کرے گا۔ مجھے وہاں کھڑے ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا اور غروب ہوتے ہوتے چاند کی روشنی مس ہو مز کے کمرے کے دروازے پر پڑرہی تھی کہ دفعنہ کمرے کا درواز کھیلا اور مس ہو مز شب خوالی کے لباس میں باہر آگئی۔ اس کی گردن میں وہی مالا پڑی ہوئی تھی۔ جو ہاروت ماروت نے دی تھی۔ بیشک یہ وہی مالا تھی۔ کیونکہ اس کے سرخ پھر چاندنی میں چمک رہے تھے۔ اور چاندنی اس کے چہرے پر بھی پڑ رہی تھی اور میں نے دیکھا کہ۔۔ ہو مز بیدار نہ تھی۔ وہ نیند میں چل رہی تھی۔ کسی روح کی طرح خاموشی سے اس نے غلام گردش ملے کی اور نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ میں دیے پاؤں اس کے پیچھے چلا اور میں نے دیکھا کہ میں ہو مز قدیم چکر و ارزینہ اتر رہی تھی جسے میں قصر کی دیوار میں دیکھ چکا تھا میں اندھیرے زینے پر احتیاط ے قدم رکھتا ۔ اس کے پیچھے ہی پیچھے زینہ اترنے لگا۔ میرے پیروں میں جوتے نہ تھے۔ صرف موزے تھے۔ اور اس لئے میرے قدموں ک کی چاپ بلند نہ ہو رہی تھی۔ زینے میں گھور اند غیر اتھا لیکن میں دیا سلافی جلانے کی جرات نہ کر سکتا تھا کہ مادر مس و مزیدا نہ ہو جائے اور میں وہ معلوم نہ کر سکوں جو میں معلوم کرنا چاہتا تھا۔ نیچے سے ایسی آواز سنائی دی جیسے کوئی چیخنیاں کھولنے کی کوشش کر رہا ہو اور پھر ایک کو اڑ چر چرا کر کھل گیا اور چاندنی اندھیرے زینے پر رینگ آئی۔ جب میں زینے کے دروازے میں پہنچا تو مجھے سامنے ہی مس ہو مزر کا سایہ نظر آیا۔ وہ اس باغ میں سے گزر رہی تھی جو قصر کی خندق کو پاٹ کے بنایا گیا تھا۔ گزشتہ کل شکار کو جاتے وقت ہم اس پانچ سے گزرے تھے اور اس وقت میں نے دیکھا تھا کہ اس باغ میں سے ایک روش زرتی ہے جو قصر کے مقب میں واقع مجان بھاڑیوں کے ایک جھنے میں آتی جاتی ہے۔ اسی باغ میں سے میں جو مر گزر رہی تھی۔ اور میں خود اس کے پیچھے پیچھے یوں چھپتا چھپتا چل رہا تھا جیسے کسی شکار کی طرف بڑھ رہا ہوں اور غالب میں کسی شکار کی طرف ہی بڑھ رہا تھا۔ وہ جھاڑیوں کے جھنڈ میں داخل ہو گئی اور اب اس کی رفتار تیز ہونے لگی اس پھر کی طرح سے لے کی چوٹی پر لڑھکا دیا گیا ہو۔ یوں معلوم ہوتا تھا۔ جیسے مس ہو مز کو کوئی ٹی قوت اپنی طرف میچ رہی تھی اور جسے جیسے وہ آگے بڑھ رہی تھی اس کش کا زور بڑھتا جارہا تھا وہ باند بالا درختوں کے سائے میں پہنچ کے لمحے بھر کے لئے میری نظروں سے او جھل ہو گئی۔ دفعہ مجھے وہ پھر نظر آئی۔ وہ ایک کھلی جگہ میں کھڑی ہوئی بھی اور اب وہ اکیلی بھی نہ تھی۔ کیونکہ دو انسانی سائے جو سفید کپڑوں میں ملبوس تھے اور اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ یہ دونوں اور کوئی نہیں بائمہ ہاروت و ماروت تھے۔ غروب ہوتے ہوئے چاند کی مردہ سی روشنی میں میں ہو مزا اپنے دونوں ہاتھ آگے کی طرف لمبے کئے ہوئے بے حس و حرکت اور خاموش کھڑی تھی اور باروت و ماروت اس کی طرف یوں بڑھ رہے تھے جس طرح کہ بے خبر کھڑے ہوئے ہرن کی 57 56 طرف شیر بڑھتا ہے اس کے علاوہ مجھے درختوں کی چھدری ٹہنیوں کے اس پار روش پر کھڑی ہوئی ایک چیز بھی نظر آئی۔ یہ بند تھی تھی۔ اور پھر میں نے گھوڑے کے زمین پر ٹاپ مارنے کی آواز سنی۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پستول کا گھوڑا چڑھایا اور درختوں کے سائے میں تیزی سے بھاگ پڑا۔ و فعت میں درختوں میں سے نکل کے باروت و ماروت اور مس ہو مز کے در میان جاگھرا ہوا۔ ہم میں گفتگو نہ ہوئی۔ ایک لفظ بھی نہ کا گیا۔ غالبا ہم تیوں لا شعوری طور پر جانتے تھے کہ مس ہو مز کو بیدار کرنا مناسب نہیں ۔ ایک لیے تک ہاروت و ماروت میری طرف اور میں ان کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر ان دونوں نے مجھے ایک طرف ہٹ جانے کا اشارہ کیا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں اپنی جگہ پر جمار با چنانچہ ان دونوں نے اپنے ہاتھ لبادے میں ڈالکر باہر نکالے تو ان دونوں کے ہاتھ میں ہلائی شکل کے نہایت ہی تیز اور خطرناک خنجر تھے۔ وہ دونوں منجر نکال کے خاموشی سے میرے سامنے جھک گئے ۔ اس حالت میں بھی وہ میرا احترام کر رہے تھے۔ جواب میں میں بھی جھک گیا اور جب میں سیدھا کھڑا ہوا تو میرے ہاتھ میں پستول تھا جس کی نالی باروت کے عین دل کی طرف اٹھی ہوئی تھی اب ان دونوں کو احساس ہو چکا تھا کہ کھیل ختم ہو گیا۔ ان کی جس نے انہیں جتنا دیا تھا کہ اس سے پہلے کہ ان کے خنجر کی نوک مجھے چھو جائے میں ان دونوں کو خاک و خون میں لٹا دوں گا۔ رات کے پاسبان ! اس دفعہ فتح تمہاری ہوئی ہے۔ ہاروت نے سر گوشی میں کہا لیکن یاد رکھو دوسری دفعہ فتح ہماری ہو گی کیونکہ اس حسینہ پر ہمارا اور ہمارے قبیلے کا حق ہے یہ حسینہ ہمارے دیوتا کی روح اور زبان ہے ہمارا د یو تا اس خاتون کے ریعہ ہم سے گفتگو کرے گا۔ یہ حسینہ ندائے روح ہے کیونکہ اس کے سینے پر بلال رہا ہوا مقد طفل مقدس کی بکار سے چین نہ لینے دے گی ۔ طفل ہے۔ دے گی ۔ طفل مقدس کی پکار کو یہ حسینہ اپنے دل میں سن رہی ہے اور میکو میزن ! وہ وقت دور نہیں جب یہ ہمارے وطن آئے گی۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ اس ندائے روح کی کشش اور پکار ہمیں یہاں تک لے آئی ہے۔ اب وہ جس کا نام سورما شکاری رات کا پاسبان اور میکو میزن ہے جاؤ اس خوابیدہ دیوی کو لے جاؤ۔ اسے اپنی خواب گاہ میں پہنچ دو۔ لیکن آج کے بعد فتح ہماری ہو گی۔ سلام اے میکو میزن - سلام اے ندائے روح۔ ” وہ دونوں پیچھے بیٹے اور درختوں کے سائے میں جا کر پر اسرار روحوں کی طرح غائب ہو گئے۔ فوراہی میں نے گھوڑوں کے بھاگئے اور بھی کے پیوں کی کھڑ کھڑاہٹ کی آواز سنی۔ لمحے بھر تک میں شش و پیچ کے عالم میں کھڑا سوچتا رہا کہ بھاگ کر بھی کے گھوڑوں کو اپنی گولی کا نشانہ بنادوں ۔ لیکن دوباتوں نے مجھے اس سے باز رکھا۔ اول یہ کہ اگر میں نے ایسا کیا تو میر استول خالی ہو جائے گا یا اگر میں نے بھی کے دو میں سے صرف ایک گھوڑے کو مار گرایا اور گولی چار کھی تو پھر دونوں افریقیوں میں سے کسی ایک کا خنجر میرائینہ تلاش کرے گا اور دوسری بات یہ تھی کہ میں میں ہو مز کو بیدار کرنا نہ چاہتا تھا۔ میں مس ہو مز کی طرف بڑھا۔ کوئی اور بات سمجھ میں نہ آئی تو میں نے اس کے آگے کی طرف بڑھا ہوا ایک ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ ایک دم سے پلٹ کر میرے ساتھ اس طرح چل پڑی جیسے کہ اس نے مجھے پہچان لیا ہو حالانکہ وہ اب بھی نیند میں تھی۔ اور اس طرح ہم قصر میں پہنچے دروازے میں داخل ہوئے جو اب تک کھلا تھا۔ زینہ چڑھ کے اس کے کمرے کے قریب پہنچے اور وہاں پہنچ کر میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا کمرے میں اند میر اتھا اور مجھے کچھ نظر نہ آرہا تھا۔ میں کمرے کے باہر خاموش کھڑا رہا۔ یہاں تک کہ میں نے ایسی آواز سنی جیسے مس ہو منز نے اپنے آپکو پلنگ پر ڈال دیا ہو۔ اب میں ہو مز محفوظ تھی کم سے کم فی الحال محفوظ تھی۔ چنانچہ میں نے کمرے کا روازه بند کیا اور مزید احتیاط کے لئے کواٹروں سے وہ میز لگا دی جو غلام گردش میں رکھی وئی تھی تاکہ ار پھر مس ہو مز دروازہ کھولنا چاہے تو آسانی سے کھول نہ سکے۔ میں اس کے کمرے کے سامنے تھوڑی دیر تک کھڑ سو چتا رہا کہ مجھے کیا کرنا ا ہے۔ کوئی بات سمج میں نہ آئی۔ چنانچہ میں اپنے کمرے میں پہنچا اور موم بھی جلا کر اپنے بستر پر پٹھ گیا۔ بے شک یہ میرا فرض تھا کہ جو کچھ ہوا تھا اس کی اطلاع جلد از جلد رجینال کو دے دی جائے۔ لیکن میں جانتانہ تھا کہ عظیم الشان قصر کے کون سے حصے 59 58 میں اس کی خواب گاہ ہے اس کے علاوہ میں یہ بھی نہ چاہتا تھا کہ مہمان بیدار ہو کر آپر میں چہ نے گوئیاں کرنے لگ جائیں وفتہ مجھے یاد آیا کہ رات سیو بچ جب مجھے اپنے کمرے میں پہنچا نے آیا تھا تو اس نے وہ گھنٹی دکھائی تھی جو اس کے کمرے کے درواز پر نکی ہوئی تھی اور اس کا بٹن میرے کمرے میں تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اگر کوئی ناگمانی ضرورت پیش آجائے تو میں یہ گھنٹی بجاوں گی سیویج آجائے گا اور میں نے جواب دیا تھا کہ ایسی کوئی ضرورت یقین ہے کہ پیش نہ آئے گی ؟ سیویج بڑے فلسفیانہ اندا میں ہوا تھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس قصر میں بھوت رہتے ہیں اور جناب آج رات میں لی جو دیکھا ہے تو اس نے تو مجھے اس نے تو مجھے یہ بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ شاید یا افواہیں لیح ہوں۔ اب صاحب آپ کو ایسے بھوت نظر آ جائیں جو بکاروم اور مکاروم کی طرح ہوں ۔۔۔ یہی نام تھانا ان دونوں افریقیوں کا ؟ ۔۔۔ تو صاحب اس صورت میں ایک سے دو کھلے۔ مجھے اس گھنٹی کا خیال آیا تو سی لیکن میں اسے جانے سے باز رہا اور سب اس ک ی تھا کہ میں کسی کو بیدار نہ کرنا چاہتا تھا میں اٹھ کر کمرے سے باہر آیا اور ادھی ادھر نظر میں دوڑانے لگا۔ جیسا کہ میرا خیال تھا میرے کمرے کے ماہر سے گھنٹی کا ار لا کر چلا گیا اس تار سے دوسرے تار بھی جڑے ہوئے تھے۔ جو قصر کے مختلف کمروں تک جاتے تھے۔ اسی تار کو راہیر بنا کے میں آگے بڑھنے لگا۔ یہ کام ظاہر ہے کہ آسان نہ تھالول تو اس لئے کہ اس تار میں سے بہت سی شاخیں نکلی ہوئی تھیں اور دوم اس لئے کہ تاری نظر رکھتے رکھت تے . میری آنکھیں درد کرنے لگیں اور ادھر قصر ریجنال میں آپ نے انجم خاصی بھول بھلیاں تھیں۔ بہر حال اس تار پر نظر رکھے بڑے احتیاط سے آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کی میں ایک دروازے پر پہنچ گیا۔ اس دروازے کے ماتھے پر ایک کافی بڑی کھئی گئی ہوں تھی۔ تار اسی گھنٹی میں جا کر ختم ہو گیا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس دروازے پر جا کر دستک دی ۔ اور دل ہی دل میں عاما نے لگا۔ کہ خدا کرے یہ کمرہ سیویج کا ہو اور قصر کی کسی جوان خادمہ کانہ ہو ۔ بیدار ہوتے ہی آسمان سر پر تھائے لیکن یہ خل یال مجھے بہت دیر میں آیا تھا۔ کیونکہ میں دروازے پر دستک دے چکا تھا۔ اور اب اپنی اس دست کا جواب وہ شکر ہے کہ سید سیج کی ہی آواز تھی۔ جس میں خوف کی جھلک تھی۔ کون شیطان ہے اس وقت ؟ سیو میچ نے پوچھا۔ میں ” میں نے آہستہ سے کہا۔ یا ان میں کے حلق پر چھری جواب آیا میں کون؟ میں پاکورم اور ماکورم سے براگون شیطان ہو سکتا ہے۔ میں کون ؟ یہ میں ہوں امین کواٹر مین یہ قوف میں نے دروازے میں بنی ہوئے کنجی کے سوراخ سے منہ لگا کر اور دانت میں کے کیا۔ بنا کون؟ بہر حال اسی وقت چلی جاؤ نایا اینا۔ میں صبح تم سے گفتگو کروں اب میرے صبر کا پیالہ چھل کا اور میں نے دروازے پر ایک لات جمادی۔ جس کا نتیجہ خاطر خواہ ظاہر ہوں کیونکہ فوراہی سیور سیج نے بڑی احتیاط سے اپنادروازہ کھولا۔ میرے خدا صاحب اس نے حیرت سے کہا یہاں کیا کر رہے ہیں آپ اور آپ نے تو کپڑے بھی پہن رکھے ہیں اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ جیب سے پستول کا دستہ کبھی ھانک رہا ہے۔ یا نہیں یہ سانپ تو نہیں ؟ لمبا اور وہ ایک دم سے اچھل کر کئی قدم پیچھے ہورہا۔ وہ شب خوالی کا سفید اور مضحکہ خیز معلوم ہو رہا تھا۔ لباس پتے ہوئے تھا اور اس لباس میں وہ بڑاہی تھے۔ سیو میج نے اس انا میں ہم رسجنال کی خواب گاہ کے سامنے پہنچ چکے سے خواب گاہ میں چلے جانے کی اجازت مل گئی آہستہ سے دروازے پر دستک دی تو اندر نے پوچھا۔ کیا بات ہے سیو سیج ؟ سجنال ہیں سیو سیح نے جواب دیا ، کیا سر کار مسٹر کو اٹر میں آپ سے ملنے چاہتے مسجنال اٹھ کے بیٹھ گیا اور بھیانک خواب دیکھا ہے ؟ بات ہے کو ائر مین ؟ کیوں کیا کوئی دیا اور چونکہ سیو نیچ جا چکا بہت بھیانک میں نے جواب اس نے انگڑائی لے کر پوچھاہاں تفصیل سے سنایا۔ نے پور اقصہ نہایت تھا اس لئے میں 61 60 خدایا جب میں خاموش ہوا تو وہ سانس چھینچ کر بولا کو اٹر مین ! اگر تمہاری چھٹی حس بیدار ہو گئی ہوتی اگر تم نے ایسی بہادری کا ثبوت نہ دیا ہوتا اور اگر آج رات تم یہاں نہ ہوتے . میری بات جانے دور سجناں میں نے اس کی بات کاٹ کر کھا اس وقت تو سوال یہ ہے کیا اب کیا جائے ؟ کیا تم ان دونوں افریقیوں کو گرفتار کروانا پسند کرو گے یا فی الحال خاموش رہنا اور ان دونوں کے پیچھے جاسوس چھوڑ دینا مناسب ہو گا ؟۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔” کچھ سمجھ میں نہیں آتارسنال نے اپنے ہاتھ ملتے ہوئے کہا اگر میں نے ان دونوں کو گرفتار کر دیا تو عدالت میں ہمارابیان مضحکہ خیز اور نا قابل یقین تسلیم کر لیا جائے گا۔ بھلا کون یقین کرے گا ان بعید از ہم باتوں پر ؟ تمہار خیال غلط نہیں ہے تا تاہم ہ مناسب منا- ہو گا کہ ہم اس واقعہ کا ایک گواہ بھی پیدا کر لیں اور اسے وہ ثبوت دکھا دیں جو قصر کے عقب میں گھوڑوں کے قدموں اور الیا بلکھی کے پیوں کے نشانات کی شکل میں موجود ہیں ہمیں جلدی کرنی چاہیے مبادل گرتی ہوئی برف ان نشانات کو مثانہ دے۔ رجناں کی خواب گاہ میں سے نکل کر ہم میس ہو مر کی خواب گاہ میں پہنچے اور یہ اطمینان کر کے کہ وہ اپنے بستر پر بے خبر سورہی تھی ہم قصر کا عقبی چکر دار زینہ ہے۔ کر کے کب باہر آگئے اور باہر کے دروازہ مضبوطی سے بند کر دیا۔ اسو مقتل پو پھٹ رہی تھی اور اتنا جالا پھیل چکا تھا کہ زمین پر گری ہوئی برف پر مس ہو مز کے قدموں کے نشانات الگ الک پہچاتے جاتے تھے۔ ہم دونوں کے قدموں کے نشانات الگ الگ پہنچانے جاتے تھے۔ کیونکہ مس ہو مز اس وقت چیلیں اور میں صرف موزے پنے ہوئے تھا میں نے یہ نشانات رسجنال اور سیویج کو دکھائے۔ جھاڑیوں اور درختوں کے جھنڈ میں نشانات اس قدر صاف تھے کہ ؟ چاروں، یعنی باروت و ماروت مس ہو مز اور میری ایک حرکت کا اندازہ ان نشانات سہارے لگایا جا سکتا تھا۔ عبی روش پر گھوڑں کی ناپوں کے نشانات موجود تھے اور کے پہیوں کی دو متوازی گھری لکیریں بھی دیکھی جاسکتی سکتی تں۔ تھیں۔ یہ بھی ۔ مس ہو مز کو ھانے کے لئے لائی گئی تھی میرے اس و عوے کے ثبوت کے لئے نہ کہ وہ دونوں مس سمتی سے ایک اور چیز بھی مل گئی یہ کاغذ کا ایک پیکٹ تھا۔ جو شاید بھی میں سے اس وقت گر گیا تھا جب باردت و ماروت بڑی افراتفری میں فرار ہوئے تھے۔ ایک پیکٹ ملا۔ پیکٹ کو کھولا گیا تو اس میں ایسا لباس برآمد ہوا جسے عموماً مشرقی عورتیں بنتی ہیں صرف یہی نہیں بلکہ اس میں نقاب بھی بھی تھ کی۔ بے شک یہ ان مس ہو مز کو پہنایا جانے والا تھا اور یہ نقاب اس کے رغ پر ڈالی جانے والی تھی کہ کوئی اس مغربی خانون کو پہچان نہ سکے اس لباس میں مس ہو مر ظاہر ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی بیوی ایسی ہی معلوم ہوتی۔ یہ پیکٹ سیوی کو ملا تھا اس نے یہ پیکٹ نکالا لیکن پھر ایک، بھیانک شیخ کے ساتھ واپس پھینک دیا۔ پیکٹ کے نیچے ایک سیاہ سانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ ہماری ان تحقیقات کی تفصیلات میں نے اپنی ڈائری میں درج کر لیں جب ان تحقیقات کی رپورٹ تیار ہو گئی تو اس پر میں نے سیو سیج نے اور رسجنال نے دستخط کر اب اس موقعہ کے متعلق کچھ زیادہ کہنا باقی نہیں رہ جاتا سوائے اس کے کہ اس اطلاع مع تفصیلات کے ڈائری کے سر اغر سانوں کے سپرد کر دی گئیں۔ جنہوں ے سراغ لگایا کہ دونوں مشرقی بھی لے کر لندن پہنچے اور وہاں پہنچتے ہی بھی کا بر سراغ ائب ہو جاتا ہے پتہ نہ چلا کہ وہ بھی کس کی تھی اور کہاں گئی۔ بہر حال یہ ضرور معلوم ہوا کہ ہاروت و ماروت ایٹوپ نامی جاز میں دو افریقی عورتوں کے ساتھ سوار ہوئے ان عورتوں کو مس ہو مز کی خبر گیری کے لئے لایا گیا ہوگا اسی روز وہ جہاز لنگر اٹھا کے ممک نہ تھا۔ حالانکہ ان کا مصر کے لئے روانہ ہو گیا اور وہاں تک ان کا پیچھا کر نا ان دنوں پیچھا کرنا بہت ضروری تھا۔ اب میں ہو مز کے متعلق بھی سن لیجئے۔ تھی مگر زرد معلوم ہو رہی نجے آئی تو بہت زیادہ حسین صبح وہ ناشتے کے لئے نے ایک بار پھر مجھے اس کے قریب بیٹھنے کا موقع مل گیا اور یہ موقع غنیمت جان کے میں پوچھا کہ اس کی رات کیسے گزری بڑی گہری نیند سوئی۔ ایسی گہری نیند کا تجربہ اسے پہلے 63 62 بھی نہ ہوا تھا اس کے باوجود سے عجیب عجیب خواب نظر آتے رہے ۔ خدا جانے کیسے خواب تھے جو بڑے دلچسپ تھے۔ اس نے پھر کہا۔ ل یکن ی یہ عجیب بات ہے کہ میرے دوست کو اٹر مین کہ آج صبح میں بیدار ہوئی تو یہ دیکھ کے حیران رہ گئی کہ میرے شب خوانی کے لباس پر بہت سی کھڑ لگی ہوئی تھی اور میرے چپل بھی کچھر میں لت پت تھے اس سے تم کیا نتیجہ اخذ کرتے ہو ؟ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے میں نیند میں چلتی رہتی ہوں۔ لیکن یہ سوچنا بھی حماقت ہے۔ کیونکہ میں اس مرض میں مبتلا نہیں ہوں اور نہ ہی پہلے بھی نیند میں چلی ہوں۔ ظاہر ہے کہ گذشتہ رات جو کچھ ہوا وہ میں مس ہو مز کو بتانہ سکتا تھا۔ چنانچہ خواب سے بچنے کے لئے میں نے مقصدا جیلی کا پیالہ اوندھا دیا۔ جیلی میس ہو مز کے لباس پر کری اور میں معذرت طلب کرنے میں مصروف ہو گیا۔ ریجنال ہماری باتیں سن رہا تھ اور جیلی پیالہ اوندھا دینے کے مقصد کو سمجھ چکا تھا۔ چنانچہ وہ میری مدد کو دور آیا اور یوں راز فاش ہونے سے بچ گیا۔ جسے ہم مس ہو مز کے لئے راز ہی رکھنا چاہتے تھے۔ ہی اپنا گھر سمجھو گے وہاں تمہارا استقبال بھی کیا جائے گا اور کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جائے گا یعنی جو حاضر سو حضور "۔ ر مجبنال نے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ پھر پوچھا ۔۔ کواٹر میں ۔۔۔۔ جو کچھ ہوا ہے ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔ تمہارے خیال میں سنگین معاملہ تھا ؟”۔ میں نہیں جانتا کہ کیا کیوں رسجنال میں نے جواب دیا لیکن اتنا ضرور ہے کہ بھی اپنی بیوی کو نظروں سے دور نہ کرنا۔ ” ان دو مشر یوں نے گزشتہ رات ۔۔۔ اور میرے خیال میں کئی سال پہلے بھی جو کچھ کرنے کی کوشش کی تھی۔ ی کو ششش وہ پھر کریں گے وہ دونوں جلد باز نہیں ہیں چنانچہ صبر و سکون سے موقعہ کا انتظار کریں گے اور اس وقت آخری ضرب لگائیں گے جب انمیں کامیانی کا یقین ہو گا۔ اس کے علاوہ یہ جیب بات ہے کہ مس ہو مز کے سینے پر وہ ہلالی نشان ہے جو ہاروت و ماروت کے لئے کشش کا باعث بنا ہوا ہے ناشتے سے فارغ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی اسکروپ نے اعلان کیا کہ ان اور میل چ ہی کیوں نہ کہ دوں کہ تمہاری منگیتر دنیا کی ہر کسی عورت سے مختلف ہے کی منگیتر کی بھی ھی آگئی آگئی ہے سے چنانچہ ہم تینوں قصر رمجال سے رخصت ہوئے لیکن رخصت ایسا کہ گذشتہ رات خود مس ہو مز نے مجھ سے کہا تھا۔ رسجنال ! ہمارے چاروں طرف ہونے سے پہلے مجھے اپنے میزبان ، مس ہو مز اور سیویج سے تنہائی میں گفتگو کرنے کا موقعہ ملا۔ رسجنال نے میرا افریقہ اور انگلستان کا پورا پتہ اپنی ڈائری میں درج کر لیا اور کہا کوائر مین ! میں ایسا محسوس کر رہا ہوں جیسے ہماری دوستی بہت پرانی ہے جیسے میں تمہیں تین دنوں کی بجائے کئی برسوں سے جانتا ہوں اور میں تمہارے متعلق بہت کچھ با کہ سب کچھ معلوم کر لینا اور ایک عرصے تک تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں اور یہاں میں یہ بتا دوں کہ غریب رسجنال کے لئے یہ بات مقدر ہو چکی تھی حالانکہ اس وقت ہمارے خواب و خیال میں یہ بات بھی نہ تھی کہ ہم دونوں ایک سنسنی خیز دور میں ساتھ رہیں گے۔ اگر پھر بھی سندن آتا ہوا تو مجھے یقین ہے کہ اس وقت تم قصر من نال میں ہی قیام کرو گے ۔ اگر تم بھی افریقہ گئے تو مجھے یقین ہے کہ ڈرین کے میرے غریب خانے کو اسرار ہیں۔ خون کے اسرار ، موروئی روح کے اسرار کیونکہ دنیا کے سارے انسان ایک ہی مرد آدم کی اولاد ہیں اس لئے خون اور روح کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں ۔ یہ رشتہ براہی پیچیدہ ہے جس کی جڑیں خدا جانے کہاں کہاں پہنچی ہئ۔ ہوتی ہیں اور خوان اور روح کے اسرار سے پرے دوسرے بھی اسرار ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس بے پایاں دنیا کے بے پایاں اسرار اس وقت بھی ہم پر اپنا اثر ڈال رہے ہوں اور غالبا ابرائے آفریش سے ڈالتے آئے ہیں۔” غالبا میں نے یہ باتیں عجیب پر اسرار سنجیدگی کے ساتھ کی تھیں کیونکہ رمجال نے کہا : کئے دے رہی ہیں کواٹر مین ! تم نہیں جانتے کہ تمہاری یہ باتیں مجھے خوفزدہ حالانکہ تم نے جو کچھ کہا ہے اسے میں پوری طرح نہیں سمجھ سکا ہوں ۔ اور یوں میں ہوا۔ لارڈر سجنال سے رخصت 65 64 مس ہو مز سے میری گفتگو مختصر رہی۔ اس نے کہا :۔ کوائر مین ! تم سے مل کر مجھے بے حد مسرت ہوئی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے کسی ہے ۔۔۔۔ سوائے ایک کے ۔۔۔۔یوں کھل کر گفتگو کی ہو جیسی کہ تم سے کی ہے؟ اسے اپنا سمجھا ہو جیسا کہ تمہیں سمجھا ہے بڑا ہی حیرت انگیزت انگیز خیال ہے کہ جب دو ہماری ملاقات ہو گی تو اس وقت میں ایک شادی شدہ عورت ہوں گی۔ میں سمجھتا ہوں میں ہو مز کہ اب ہماری ملاقات نہ ہو گی ۔ آپ کا مقام ال مہذب اور بھری دنیا سے ہے اور میرا یہاں سے بہت دور ایک اند میری دنیا میں۔ آر یہاں اپنا گھر سنبھالیں گی اور میں افریقہ کے جنگلوں میں شکار اور ہا تھی دانت کی تلام میں بھ ستار ہوں گا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ہمارے راستے چونکہ الگ الگ ہیں اس لئے ان ماری ملاقات ہوگی ۔ ضرور ہوگی۔ اس نے بڑی یقین سے کہا۔ یہ بات اور دوسر بہت سی باتیں مجھے اسی وقت معلوم ہو گئی تھیں جب مجھے کا ندہ تمباکو کا خواب نظر اور یوں میں مس ہو مز سے رخصت ہوا۔ آخر میں سیو سیج میرا کوٹ لے کر آیا۔ خدا حافظ مسٹر کواٹر مین اس نے کہا میں چاہے دنیا کی ہر چیز بھول جاؤ لیکن آپ کو اور پاکورم اور ماکورم کو نہیں بھولوں گا اور نہ ہی ان کے دوزئی انسان سانپوں کو بھول سکتا ہوں خدا کرے میں ان شیطانوں کو پھر کبھی نہ دیکھوں لیکن میرا کہتا ہے کہ میری اور رہا کورم اور ما کورم کی ملاقات پھر ہو گی۔ لار ڈر مسجنال اور مس ہو مز کو خداحافظ کے پورے دو سال ہو چکے ہیں اور اب دو سال بعد پھر پردہ اٹھ رہا ہے اور دیکھو میں ڈرن میں واقع اپنے چھوٹے سے مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور اس طرح کہ خیال میں الجھا ہوا اور پریشان ہوں۔ میں اداس و پریشان کیوں تھا یہ میں بتائے دیتا ہوں۔ دو سال کے اس عرصے میں مجھے ایک دو دفعہ لار ڈر مجال کے متعلق چند باتیں معلوم ہوئی تھیں۔ اسکروپ کے خطوط میرے نام آتے رہتے تھے ایک خط سے معلوم ہوا کہ لارڈر سجنال کی شادی مس ہو مز سے ہو گئی اس شادی میں مشہور ہستیوں نے شرکت کی تھی اور نئے بیاہتا جوڑے کو بہت عمدہ تھے دیے گئے تھے۔ شادی کی تقریب کی تفصیلات انگلستان کے ہر اخبار نے شائع کی تھیں اور ہر اخبار میں اس کی مالا کی بڑی تعریفیں کی گئی تھیں جو دولہا نے دلہن کو دی تھی۔ اسکروپ نے ایک اخبار کا تراشا اپنے خط سے منسلک کر دیا تھا اس تراشے میں دلہن کے لباس کو ایسے الفاظ میں بیان کیا گیا تھا جو میرے فہم سے بالاتر تھے۔ البتہ ایک تفصیل نے خصوصیت سے مجھے اپنی لیا۔ طرف متوجہ کر 67 66 تراشے کا ایک پیرایوں تھا۔ مالا پینے پر مصر کہ حسین دلہن صرف ایک یہ بات عجیب دیکھی گئی دلہن کے لئے نکالے گئے تھے جو حالانکہ رسجنال خاندان کے وہ سارے زیورات جو دلہن نے پہن رکھی تھی اور برسوں سے قصر کے خاندانی خزانے میں بند تھے۔ یہ مالا لع اس مالا کے سرے پر ایک جس پنے رکھنے پر وہ مصر تھی بڑے بڑے لعلوں کی تھی۔ جاتا کہ لٹک رہا تھا یہاں یہ کے بغیر نہیں رہا عل سے ہی تراش ہو ا مصری دیو تا کا ایک بہت یہ مالا لن مناسب نہ تھا تا ہم قدیم سرخ پتھروں کی ہر چند کہ اس موقع پر ایسی مالا پہنا سے ایک مالا کا اتنے بہت سے زیورات میں کے حسن میں چاند لگا رہی تھی۔ بہر حال پر مجبور کر دیا۔ ہمارے نامہ نگار انتخاب ایسا تھا جس نے مہمانوں کو چہ مے گوئیاں کرنے کہ انہوں نے خصوصیت سے اس نے جب خاتون رسجنال سابق مس ہو مز سے پوچھا اور خوشبختی کے لئے ۔ یہ الا کو کیوں منتخب کیا تو دلہن نے جواب دیا کہ ٹیک شکون مجبور ہو گیا کہ میں ہو مز جسے اب پڑھ کے میں خود بھی حیران رہ گیا اور یہ سوچنے پر اسی تھے کو کیوں پسند کیا۔ تمام قیمتی تحائف میں سے خاتون رمجال کہنا مناسب ہو گا ، نے اتنی ہی زیادہ پر اسرار بھی تھا۔ یہ بات جتنی زیادہ عجیب تھی جوا سے ہاروت وما روت نے دیا خدا اس حصے کو پڑھ کے میں خوفزدہ ہو گیا۔ تھی اور بیچ تو یہ ہے کہ اخبار کے تراشے کے جانے کیوں ؟۔ کے ایک نئے شادی شدہ جوڑے کے متعلق دوسری خبر مجھے ٹائمنز( پرانے شمارے کے ذریعہ ملی ۔ یہ۔ یہ اخبار مجھے ایک سال بعد ملا تھا۔ خبر یہ تھی کہ قصر بفضلہ خدا تندرست ہیں۔ تو رجنال اور جاگیر کا وارث پیدا ہو گیا ہے اور یہ کہ زچہ اور چہ ہی دل میں بولا۔ یہ ہے اس مختصر مگر دلچسپ افسانے کا انجام میں دل ان برسوں میں بہت کچھ ہو گیا۔ میں ساتھ ایک نایاب پھول کی تلاش ایک تو یہ کہ میں اپنے ایک دوست کے میں سنسنی خیز مہم کے واقعات ایک اور کہانی و نگولینڈ تک گیا۔ اس عجیب و غریب اور اور آگے بڑھ کے صحرا میرے بدن میں کروٹیں بدلنے لگی۔ کہ میں اپنا سفر جاری رکھوں میں پہنچا ہوں تو یہ آرزو پیش کر چکا ہوں چنانچہ ان واقعات واقع ہونگو کے جزیرے کے کنارے پر پہنچ جاؤں اور معلوم کروں کہ کیا واقعی باروت و ماروت اپنے وعدے کے مطابق میرے استقبال کو اگر اور مجھے اپنے ملک میں لے جاتے ہیں۔ ہاں اس ملک میں جهان وہ زبردست ہاکی تھی میرا منتظر ہے۔ نجس میں کہتے ہیں کہ کوئی بد روح گھس گئی ہے ور جس کی موت جھول ہاروت و ماروت ، میرے ہاتھوں پر لکھی جاچکی ہے۔ لیکن حالات ونکہ نامساعد تھے اس لئے کو ششوں کے بعد میں اپنی اس آرزو کو دبادینے میں کامیاب قصہ مختصر میں اپنے دوست کے ساتھ غیر و خوبی ڈرین واپس آگیا اور اس وقت میں نے عہد کیا کہ آئندہ بھی ایسی احمقانہ مہم پر نہ جاؤں گا اور خواہ مخواہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالوں گا۔ ند اتفاقات کی بناء پر ، جن کا میں کسی اور جگہ ذکر کر چکا ہوں ، اس وقت میرے پاس اچھی خاصی رقم جمع تھی اور میں اس رقم کو کسی منافع عش کاروبار میں لگانا اہتا تھا تا کہ میری اس شکاری اور آوارہ گردی کی زندگی کا خاتمہ ہو جائے اور دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی اپنے گھر میں آرام و سکون سے بیٹھ سکوں۔ اور جب آدمی روپیہ لگانے کے لئے تیار ہو تو سیکڑوں ہی کاروبار نکل آتے ہیں انہی دنوں زولو لینڈ کی سرحد پر ہونے کی کا نہیں دریافت ہو رہی تھیں۔ چنانچہ جیکب نامی ایک یہودی تاجر یہ پیش کش لے کر میرے پاس آیا کہ اگر میں نے اپنا سرمایہ کان کھودنے کے سلسلے میں لگا دیا تو نصف نائی میرا ہو گا۔ چنانچہ میں ولو لینڈ کی سرحد تک کا سفر کر کے اور موقع محل کا معائنہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ جیکب کی پیش کش بہت عمدہ تھی۔ میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا کیونکہ ان واقعات کی یاد اب بھی میرے لئے بڑی تکلیف دہ ہے۔ خیر تو جیکب اور اس کے دوستوں نے تھوڑی سی کھدائی کے بعد میری نظر کے سامنے در اصل مجھے بیوقوف بنانے اور میر اروپیہ اٹھنے کے لئے ایجاد کیا گیا تھا چونکہ لوگوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کان میں سے تھوڑی سی ہی کھدائی کے بعد سونا نکل آیا تھا اور یہ مجر امین کو اثر مین ایماندار آدمی ہے اس لئے لوگ دھڑا دھر اس کے حصے خرید نے کے لیکن تھوڑے عرصے بعد ہی حصے کے بھاؤ ایک دم سے گر گئے ۔ کیونکہ اس کان میں سے سوائے کنگر اور پتھر کے کچھ اور نکل رہا تھا۔ 69 68 میر پر انا فادار خادم فیس اس وقت میرے پاس موجود تھا۔ تم مجھ سے بیٹس ! میں نے کہا تمہیں یاد ہو گا کہ کوئی ایک سال پہلے جب ہو گا کہ تھا جو قبیلہ کاندہ کہلاتا ہے اور تمہیں یاد ملنے آئے تھے تو میں نے اس قبیلے کا ذکر کیا ہے ہے وہاں ہاتھیوں کا ایک زبر دست قبرستان ں نے یہ بھی کہا تھا کہ قبیلہ جہاں کا ندہ موت آتی تھی تو وہیں جا کر مرتا ہے کا اور یہ کہ اس علاقے کا ہر ہا تھی جب اس کی ہیں۔ ہے کہیں شمال مشرق میں رہتے لوگ اس جزیرے کے، جہاں پونگو آباد نے جواب دیا۔ ہاں باس یاد ہے۔ اس کچھ نہیں جانتے”۔ اور تم نے جواب دیا تھا کہ تم کا ندہ لوگوں کے متعلق نے کاندہ لوگوں کے نہیں باس ۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ میں متعلق بہت سی باتیں سنی ہیں”۔ نہیں” تو پھر تم نے مجھے پہلے کیوں نہ بتا دیا۔ بیوقوف ؟” اس لئے باس کہ اس وقت تم سونے کی تلاش میں تجھے ہاتھی دانت کی سنا ہے ؟” بجو مت۔ اچھا اب بتاؤ کہ تم نے کاندہ لوگوں کے متعلق کیا سنوہاں ۔ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ہم ہزا ٹاؤن میں تھے اور گوریا نہ ہو گے کہ اس وقت تمہارے دیو تا کا خاتمہ کر کے واپس آئے تھے اور تم بھولے کرنے کو کوئی کام نہ تھا دوست باس اسلفن بیمار تھے اور بستر سے لگ گئے تھے اس وقت تھا خیر تو ان سے دنیا جہاں کی باتیں پوچھا کرتا اس لئے میں گھوم پھر کر لوگوں ملاسے اور کا شوہر اور لڑکے کسی جنگ میں وہاں ایک بڑھیا تھی جو مازیو قبلی کی نہ تھ ھی اس اس عورت کیونکہ وہ بہت عقلمند تھیی وہ وہ جڑی مارے گئے تھے بستی والے بڑھیا سے ڈرتے تھے بتاتی تھی۔ تو میں اس بڑھیا کے پاس جایایوٹیوں سے دوائیں بناتی ائمہ مستقبل کا حال بھی کے باتیں کیا کرتی اب اسی ایک بات سےکرتا تھا اور خود بڑھیا مجھ سے خوب گھل مل پہچان لیا تھا۔ میںمعلوم ہوتا ہے کہ وہ کس قدر علمند تھی کہ اس نے مجھے پوری طرح چکا تھا تو بڑھیا نے کہا کہ یہ ونگو قبیلے کے گوریلے دیوتا کے متعلق سب کچھ بتا سال پہلے دیکھاگوریلا دیو تا اس دیو تا کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا جسے اس نے ستر تھا۔ اس وقت پر بڑھیا جوان تھی اور شادی کے قابل ہو گئی بھی میں نے اس بڑھیا سے اس دیو تا کی کہانی سنانے کو کہا۔ اور اس بڑھیا نے یہ کہانی سنائی۔ بہت دور شمال مشرق میں ایک قبلہ آباد ہے جو کاندہ کہلاتا ہے اس کا حاکم ایک سلطان ہے۔ یہ قبیلہ بہت بڑا ہے اور ایک بے حد زرخیز علاقے میں آباد ہے لیکن اس علاقے کے اطراف میں میلوں تک علاقہ ویران اور غیر آباد ہے ۔ اس غیر آباد علاقے ہ کبھی واپس نہیں آیا کیونکہ کا ندہ لوگ اجنبیوں کو پسند نہیں کرتے چنانچہ انھیں میںمیں انسان نہیں ہیں البتہ جانور بہت ہیں بھی کوئی کاندہ کے ملک میں نہیں گیا اور جو گیا قتل کر دیتے ہیں۔ بہی وجہ ہے کہ کا ندہ لوگوں کے ملک کے متعلق کوئی کچھ نہیں جانتا بڑھیا نے مجھے بتایا کہ وہ اس قبلے اور اسی دور دراز کے علاقے میں پیدا ہوئی تھی لیکن وہ وہاں سے فرار ہو گئی اور فرار ہونے کا سب یہ تھا کہ کا ندہ لوگوں کا حاکم اس ڑھیا کو جب وہ جو ان اور حسین تھی اپنے حرم میں داخل نا چاہتا تھا اور بڑھا کو یہ پسند ہ تھائی دنوں تک وہ جنگل میں پھٹکسی اور درختوں کے پتے اور جنگی شاہ دانے کھا کر اپنی بھوک مناقی رہی یہاں تک وہ بھتے بھیجتے آخر کار صحرا میں پہنچ گئی اور آخر کار تھک بار کے مرنے کے لئے پڑی رہی۔ اس حال میں وہ پڑی ہوئی تھی۔ یعنی اس وقت جب وہ جو ان تھی۔۔۔۔ کہ مازنٹیو قبیلے کے چند لوگ وہاں پہنچ گئے۔ یہ لوگ اپنی ٹویوں میں لگانے کے لئے شتر مرغ کے پر تلاش کرنے آئے تھے۔ لئے وہ اسے اپنے قبیلے میں لے آئے جہاں ایک شخص نے اس سے شادی کرلی۔ خیر تو ان لوگوں نے اسے کھانا اور پانی یا اور کیونکہ بڑھیا اس وقت جواں حسین تھی اس اپنے ملک کے متعلق اس عورت نے مازیو لوگوں سے بچ نہ کہا اور اگر کچھ کہا بھی تو سراسر جھوٹ کہا کیونکہ اسے خوف تھا کہ کہیں وہ دیوتا جو اس کے ملک کے اتیں اس لئے بتائیں کہ اس وقت وہ بوڑھی ہو چکی تھی اور مرنے کے قریب تھی اور وقت یہ اسرار کے محافظ ہیں کہیں اس کی جان ہی نہ لے ڈالیں۔ لیکن اس نے اس وقت مجھے یہ پاک دوسری دنیا میں چونکہ اس دنیا کے دیوتا نہیں پہنچ سکتے اس لئے بڑھیا کو اب دیواناؤں کا خوف نہ تھا خیر اس نے اپنے سفر کے متعلق اتنی ہی باتیں بتائیں کیونکہ دوسری باتیں یاد نہ تھیں”۔ 71 70 جہنم میں ڈالو اس کے سفر کے واقعات کو یہ بتاؤ کہ اس نے کا ندہ لوگوں اور ان کے دیوتا کے متعلق کیا کہا تھا ؟ میں نے سیٹھلا کے پوچھا۔” اس بڑھیا نے کہا تھا باس کہ کا ندہ لوگوں کا ایک نہیں بلکہ دو دیوتا ہیں اور ایک نہیں بلکہ دو حاکم ہیں۔ ان کا ایک کا ندہ دیو تا ایک ویلے یا اسٹے کے ذریعے گفتگو کرتا ہے۔ یہ وسیلہ یا واسطہ ہمیشہ ایک عورت ہوتی ہے جو ندائے روح کہلاتی ہے کیونکہ بچے دیو تا کو جو کچھ کہنا ہونا ہے وہ اسی عورت کی زبان سے کہتا ہے۔ اگر عورت یا ندائے روح مر جاتی ہے تو پھر یہ چہ دیوتا نہیں یو لتا جب تک کہ کا ندہ لوگ دوسری ندائے روح نہیں تلاش کر لیتے پھر یہ بات بھی ہے باس کہ ہر عورت ندائے روح نہیں بن سکتی صرف وہ ہی عورت بن سکتی ہے جس کے سینہ پر ایک خاص قسم کا نشان ہو۔ یہی نشان اس بات کی علامت ہوتی ہے۔ چہ خیر تو ایک ندائے روح جب بستر مرگ پر پڑی ہے تو وہ مرنے سے پہلے دیو تا کے مہنوں کو بتادیتی ہے کہ اس کی جانشین یعنی دوسری ندائے روح کو کہاں اور کس ملک میں تلاش کیا جائے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ندائے روح کے مرنے کے بعد دوسری نہیں ملتی اور ملک میں بہتری پھیل جاتی ہے کیونکہ چہ دیو تائی زبان بند ہو جاتی ہے اور لوگوں کو وہ دوسرادیو تا اپنا شکار بنانے لگ جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ کبھی نہیں ار یہ دوسرادیو تاجو کبھی نہیں مرتا کیا ہے جینس ؟ میں نے پوچھا۔ یہ دوسرا دیو تا باس ایک ہاتھی ہے اور یہ بہت ہی بڑا ہاتھی ہے جس پر انسانوں کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں باس کہ یہ دراصل شیطان ہے جس نے ہاتھی کا روپ اختیار کر لیا ہے کم سے کم اس بڑھانے تو یہی کا تاخیر تو وہاں کا جو ادشاہ یا شیطان ہے وہ اس دیو تا کی پرستش کرتا ہے جو ہا تھی جانا کے بدن میں حلول کر گیا ہے ہاتھی کا یہ نام سن کر میرے منہ سے سیٹی کی آواز نکل گئی اور کاندہ لوگوں کی اکثریت بھی ، خصوصاوہ کاندہ جو سیاہ ہیں ، اسی ہاتھی کی جس کا نام جانا ہے پرستش کرتے ہیں کہ بہت پہلے کا ندہ لوگوں کے دو قبائل تھے وہ کاندہ جن کی رنگت سفید ہے اور چہ یو تا کی پرستش کرتے ہیں کہیں شمال کی طرف سے آئے اور کالے کا ندہ کو شکست دے کرو ہیں رہ پڑے بھی لوگ چہ دیو تا کو اپنے ساتھ لائے تھے۔ کم سے کم اس بڑھیا نے تو جے سے ایسا ہی کہا تھا۔ یہ لوگ اس وقت اس طرف آئے تھے جب دنیائی نئی بنی تھی۔ عنی ہزاروں کروڑوں سال پہلے ۔ چنانچہ اسی وقت سے ملک میں دو کا ندہ لوگ ہو گئے۔ ایک سیاہ اور ایک سفید ۔ ان سفید و سیاہ رنگ و نسل کے اختلاف کی وجہ سے کبھی ملاپ نہ ہو سکا۔ سیاه و سفید کا ندہ ایک ہی خطے میں رہتے ہیں اور بہتے ہیں لیکن دونوں کے دیوتا الگ میں راستے الگ ہیں۔ طور طریقے الگ ہیں اور حکمر ان الگ ہیں البتہ بڑھیا نے کہا تھا یاء کا ندہ کاور بڑھتا جا رہا ہے اور سفید کاندہ کی قوت ، شان اور آبادی گفتی جارہی ہے۔ تو پھر بینس ! طاقتور کاندہ کمزور کا ندہ کو نگل کیوں لیتے ؟” میں نے پوچھا۔ اس لئے باس کہ کمزور کاندہ اب بھی ہو شیار ، عظمد ، اور غیر مخلوط ہیں۔ کم سے کم اس بڑھپانے تو یہی وجہ بتائی تھی اور اس لئے بھی کہ سفید کاندہ دیو تائے خیر کی پرستش کرتے ہیں گویا ان کا دو تا شیطان ہے اور باس جیسا کہ تمہارے والد نے کہا کہ غیر اس مرنے کی طرح ہے جو آخر میں جنگ جیت لیتا ہے جب لوگ اسے مردہ سمجھ چکے ہوتے ہیں تو وہ ایک دم سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور شیطان کے پیٹ پر ایک ایسی لات مارتا ہے کہ وہ لڑھک کر در زخ میں جا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سفید کاندہ بڑے جادو کر ہیں باس ۔ ان کا چہ دیو تا بارشیں بر ساتا اور بیماریوں کو دور رکھتا ہے اس کے بر خلاف جانا اپنے پر ستاروں کو برائی ہی دیتا ہے اور برائی ہے ظلم ، جنگ اور ایسی ہی دوسری باتوں اور سب کے آخر میں کہ چہ دیو تا کے پجاری اور مہنت دولت کے اسرار اور قدیم علوم و فنون سے واقف ہیں اس کے بر خلاف سیاہ کا ندہ کا حکمران صرف بھائے کا استعمال جانتا ہے اور ہیں۔ ہیں تمہیں چاہیے تھا کہ تم یہ سب باتیں مجھے اس وقت بتا دیتے جب ہم پیراٹاؤن میں مقیم تھے۔ تاکہ میں خود جا کر اس بڑھیا سے گفتگو کرتا ”۔ باس ! پیزاناؤن میں تمہیں یہ باتیں بتانے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ مجھے خوف تھا کہ یہ باتیں سنتے ہی تم کاندہ لوگوں کی تلاش میں روانہ ہو جاؤ گے۔ حالانکہ میں سفر کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ اور واپس ناتال پہنچ کر ذرا آرام کرنا چاہتا تھا دوسری 73 72 پھر ات یہ ہوئی کہ جس دن اس بڑھیا نے مجھے یہ کہانی سنائی اسی رات کو وہ ہمار پڑ گئی اور سے ملنے بھی گئے۔ مر گئی۔ ظاہر ہے کہ تم اس سے ملاقات نہ کر سکتے تھے اور تم مردہ پڑھیا ہوتے تو باس مرد کہانیاں نہیں کہتے چنانچہ میں نے بڑھیا کی یہ باتیں اپنے دماغ کے آنے صندوق میں محفو کر لیں اور سوچ کہ وقت آنے پر تمو بتاوں گا۔ اس کے علاوہ یہ بات جھوٹ بولا کرتی ہے۔” تھی کہ مازیو لوگوں میں مشہور تھاکہ بڑھیا عظیم الشان میں تو مجھے کہنا پڑتا ہے کہ وہ بڑھیا نہیں بلکہ مازیو جھوٹے تھے سنو بینس اور ماروت کی آمد ، ان نے جو کچھ دیکھا تھا وہ سب میلس کو بتادی یعنی قصر ربنال میں ہاروت و کے جادو کے کھیل اور یہ کہ میں نے کس طرح کا ندہ تمباکو ” کے دھوئیں میں باتھی کو دیکھا تھا اور یہ ہاروت و ماروت نے کیا کہاتھ اور کیوں اور کن شرائط پر مجھے اپنے ملک میں آنے کی دعوت دی تھی۔ ہمیلس بڑے سکون اور غور سے میرا بیان سنتا رہا۔ تو ہینس تو معلوم ہو لباس کہ وہ بڑھیا جھوٹی نہ تھی۔ جب میں خاموش ہوا ہو جانا چاہیے نے سر ہلا کر کہا۔ تو پھر اس ہمیں جلد از جلد کاندہ لینڈ کی طرف روانہ جہاں ہاتھیوں کے قبرستان میں ہاتھی دانت کا زبر دست خزانہ ہمارا منتظر ہے لیکن رام کس راستے سے جائیں گے باس؟ یہ ہمیں فوراً طے کرنا ہے اور یہ بہت ضروری ہے۔ کیونکہ یہاں کے موسم کا کوئی ٹھکانہ ہیں۔ رہے اور اور اس کے بعد ہم دونوں رات گئے تک اسی موضوع پر گفتگو کرتے میری جیبیں بالکل خالی تھیں اور سفر پر رولنہ ہونے کے امکانات پر غور کرتے رہے ۔ ایسی مفلسی میں کسی مہم کا سامان کرنا اگر ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا ۔ وہ رات مجلس نے میرے گھر میں بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ گھر سے باہر سفید فام سے جھگڑا ائیں باغ میں بازینے پر کھری بن کے بھر کی اس نے کہا چونکہ ایک کر چکا تھا اس لئے اپنے گھر نہ جا سکتا تھا کیونکہ کیا پتہ کب سفید فام پولیس کو لے کرآ سفر کے متعلق باتیں کرنے لگے جائے۔ ناشتے سے فارغ ہو کے میں اور ہینس پھر اسی رہے۔ یہ حث گزشتہ اور کا ندہ لوگوں کے ملک تک پہونچنے کے امکانات پر حث کرتے رات کی طرح ہی حوصلہ شکن رہی۔ ایسی خطر ناک مہم کے سفر طویل اور محم خطرناک تھی اور ایسے طویل سفر اور کے پیش نظر میں اس نتیج پر پہنچا کہ صورت حال لئے روپے کی ضرورت تھی۔ آخر کار جانا مناسب ہوگا۔ ہو سکتے ہیں ان کے سہارے اس مہم پر روانہ جو بھی وسائل ہوں اور جیسے بھی انتظامات ہو بیل اور چند زولو بار برداروں کو لے کر میں اور بیٹس صرف ایک چھکڑا ، چند چند مہینوں تھے کہ اب میرا بیٹس کا ہمیں کرنا تھا حالات ایسے رولنہ ہو سکتے ہیں اور پہل تھا۔ مل جانا ہی مناسب کے لئے یہاں سے 75 74 اس طرح تھوڑے سے سامان کے ساتھ ہم زولو لینڈ سے گزر کر میز اٹاؤں سے تمام جھے داروں کو جواب دیا تھا، سینہ تان کے ان کے سامنے کھڑا ہوا تھا اس لئے پہنچ سکتے تھے۔ یہ مقام مازیو آبادی کا گویا ار السطنت تھا اور مجھے یقین تھا کہ وہاں ہماری صرف دو حصے داروں سے ڈرنے اور فرار ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ ستقبال کیا جائے گا یہ مکن تھا ہمار سرس پیز ٹاؤن تک ہی رہے اور ہم اندہ اور یہ سوچ کر میں پلنا گھر کا چکر کاٹ کے اس باغ میں پہنچا جس میں نارنگی کے کے ملک میں کبھی نہ پہنچ پائیں۔ اس کے باوجود یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں سفر میں ہاتھیوں رخت لگے ہوئے تھے ، اس باغ میں پھولوں کی گنجان جھاڑیاں تھیں۔ غائب ان پھولوں ا شکار کر کے اتنا اتی دانت حاصل کرلوں جو زیادہ نہیں تو اتار و یہ دلادے جو چن اور جھاڑیوں کو دھتوار کہا جاتا ہے یہی جھاڑیاں تھیں جو میرے گھر کو سڑک سے الگ کر رہی تھیں۔ چنانچہ ان جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر میں نے وہ گفتگو سنی جو سڑک پر برسوں کے لئے کافی ہو۔ جب ہم یہ گفتگو کر رہے تھے تو ہم نے بندوق کے دھماکے کی آواز سنی ہورہی تھی۔ اکونا انکوس مجھے معلوم نہیں صاحب ( ایک کافر کی آواز سنائی دی اس پر اعلان تھا اس بات کا کہ کوئی جہاز انگلستان سے آیا تھا۔ میں اٹھ کریا میں باغ کے کنارے پر نچا اور وہاں سے دیکھا کہ ایک انگریزی کمپنی کا ہاز لنگر انداز ہو رہا تھا اس کے بعد می ایک آواز نے، جو مجھے گوش آشنا معلوم ہوئی ، جواب دیا ۔ مکان میں اگر چند کاروباری خطوط لکھنے بیٹھ گیا۔ جب سے میں اس کینی سونے کی کان کے چکر میں پھنس گیا تھا تب سے اس قسم کے کاروباری خطوط لکھنا میر روز معمول ہو گی ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ زبر دست سیاہ فام شکاری کہاں رہتا ہے ؟” تمہیں اس کا فریقی نام یاد نہیں ؟ دوسری آواز نے پوچھا یہ آواز بھی میری تھا۔ دل پر جبر کر کے میں چند خطوط لکھ چکا تھا کہ بیس نے کھلی ہوئی کھڑگی میں بھائی پہچانی تھی۔ یمان می یہ بتادوں کہ ایک دفعہ میں جس کی آواز سن لیتا ہوں اسے پھر کچھوے کی طرح گردن نکال کے کہا :۔ باس ! کہیں سے دو صاحب آئے ہیں۔ وہ سڑک پر ہیں اور میرا خیال ہے کہ بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ ہم شکاری ۔ اس کا افریقی نام ۔۔۔۔۔۔ نام ہے ۔۔۔۔ ہاں ۔۔ اس کا تم کو پوچھ رہے ہیں۔ بے حد عمدہ صاحب معلوم ہوتے ہیں دونوں بھیں میں نے کا فری نام ہے میں نے کہیں مارو پہلی آواز نے کہا اور دفتہ میری نظر کے سامنے قصر ایک بد حواس شخص کبھی نہیں دیکھا۔ معجبنال کے ایک وسیع و عریض کمرے کا منظر گھوم گیا جس میں سونے کی کان کے حصہ دار ہوں گے میں دل ہی دل میں اور پھر بھارے میں ان ہو کر دی ہوں کہ ک اعلان کر رہا تھا شخص یہاں کیا کر رہا ہے یہ دروازے سے فرار ہو جانے کی تیاری کر کے میں نے بیٹس سے کہا۔ اگر وہ دونوں خدا کی قسم یہ تو سیویج ہے ۔ میں بڑ بڑا یہ صاحب یہاں آجائیں تو ان سے کہ دنیا کہ میں گھر پر نہیں ہوں ان سے کہدیا کہ آر کو دوسری آواز نے کہ یہ سیاہ اگر برا کیا کیونکہ ایا مضحکہ خیر نا بھی کسی کانہ ہوا صبح ہی دریائے کانگو کی طرف دریائے نیل کے منع کا پتہ چلانے روانہ ہو گیا ہوں۔ بہت اچھا اس بیٹس نے کہا اور چلا گیا۔ میں فراہی عقبی دروازے سے باہر نکل گیا۔ میں اداس تھا اور سوچ رہا تھا۔ ہو جاتی لیکنن. مصیبت ہو گا۔ سیوی میرے مشورے پر عمل کر کے اگر تم آتے تو آسانی ہو۔ ہے کہ تم اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ عظمد سمجھتے ر کار راہبر کو ساتھ لینا فضول خرچی تھی اس صورت میں تو اور بھی اب میری یہ حالت ہو گئی ہے کہ لوگوں کو اپنی صورت دکھاتے بھی ڈرتا ہوں اتناسب نہ تھا کہ ہمم میں میں بدلےہو ہوئے ہیں۔ یری جرات عود کرائی اور میں نے سوچا کہ اس میں ڈرنے اور قبل ہونے کی کیا کر تاسی طرح او گی کو میں مجھے۔ سرکر کہتے رہے تو حیران ہوں کہ ہمارا ھی اگر لوگوں کا روپیہ ڈوب گیا تھا تو اس می میرا کیا قصور تھا ؟ گزشتہ کل میں نے اکھ کر وہ کب بھ سکے گا۔ ان درختوں کے پیچھے ایک مکان نظر آرہا ہے۔ جاؤ۔ وہاں جا 77 73 3 کھولا۔ اس انشا میں باغ کے دروازے تک پہنچ چکا تھا۔ میں نے بڑی آہنگی سے دروان مزاج کیسے ہیں لارڈر سجنال ؟۔۔۔۔ کیسے ہو وحشی ۔۔۔ میرا مطلب کہ مسٹر سیو بیج ؟ میں نے تم لوگوں کی آوازیں پہچان لی تھیں چنانچہ استقبال کو دور تشریف لائے۔ بشر طیکہ آپ مجھ ہی سے ملنا چاہتے ہوں اور یہ کہتے وقت میں النہ دو نور تھا تا کہ کھانا تیار ہے اور میں نے کہا مجال ! تم خوب وقت پر آئے ہوں۔ یعنی اور لگا دو۔ نے اپنے ملازم سے کا دو قابیں جو حاضر سو حضور ۔ لڑکے ”! میں بعد میں کھالوں گا۔ سیو سیج نے کہا۔ میں صرف ایک قاب صاحب سی میں آکر تکلف کرنا فضول سیویج حالانکہ افریقہ جیسی تمہاری مرضی ا جائزہ لے رہا تھا اور میں نے دیکھا۔ کہ سیویج میں کوئی خاص تبدیلی نہ ہوئی ربات ہے میں نے جواب دیا اور اس وقت سیو بیچ کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک ہونے پر مجبور نہ کیا۔ سوائے اس کے کہ افریقہ کے اجنبی ماحول میں وہ ذرا عجیب معلوم ہو رہا تھا البتہ ری سیال میرے گھر کے چھوٹے سے کمرے میں نم چونا ن ولی تبدیلیاں نظر آی تھیں۔ اس کی شخصیت اب بھی دی پر یہ مشرف کہ میں اور ۔ سیو تیج مودب کھڑا ہوا تھا اور قائیں اٹھا مجھے ہوئے تھے اور میری کرسی کے پیچھے کیم تیم تیم کیم ہی مرعوب کن بھی لیکن اس کے چہرے کے نقوش بدل گئے تھے۔ اس کے حسین ات افریقی ملازموں کے لئے بہ ن کی ایس تھی ور ہونوں کے دونوں کوں کے قریب کرے تو سین یہ پر سے حیرت انگیز نہ تھی لیکن اور میرے دوسرے پر کشش چرے پر کم کے گھیر بادل سے چھائے ہوے تھے آجھوں میں زندہ دی کی جابر اے لوب سے میرے اور جمال کے سامنے رکھ رہاتھا۔ سیوی کی کی یہیہ خدمات گئے تھے لارڈر جنال پر یقین کوئی مصیبت آگئی تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس بے کے بی درد بھی نی کہ یک فی ام جاری خدمت کر رہا ای کو اور اس منظر ہوئے تھے کے سامنے آکھڑے ملازم کھڑکی ے پیٹس اور چند دوسرے نواب کی زندگی کا ایک دور گز گیا ہو۔ اں کو اٹر مین ! اس نے میرے بڑھے ہوئے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں کارت دور ہی اسے دیکھ رہے تھے۔ سنج میز لے میں آگئے اور اب سیو کے ہم دونوں برآمدے کھانے سے فارغ ہو ہوئے کہا سات ہزار میل کا سفر میں نے تم سے ملاقات کرنے کے لئے ہی کیا ہے لی پوچھا میں نے رہجمال سے پائپ جلائے اور اب خدا کا شکر ہے کہ تم مل گئے ۔ میں دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں خدانخواستہ کے7 سامنے ڈٹ گیا۔ ہم دونوں نے اپنے انتقال نہ ہو گیا ہو یا پھر تم افریقہ کے قلب میں کہیں کسی مہم کے سلسلے میں نہ پہنچ گئے اور میں تمہیں نہ پاسکوں۔ اگر تم ایک ہفتہ بعد یہاں پہنچے ہوتے تو شاید ہماری ملاقات نہ ہوپاتی ہے ہے۔ سامان کہاں آپ کا ساز و جواب دیا۔ ہوں ۔ اس نے کشم میں چھوڑ آیا اور بے آرام بین اگر تم پسند کرو تو سارے لئے تا دی گئی جس کی وجہ سے کے کے ہمراہ جو پراگ نے جوابا لیں اسے ایک افق کہ بہنے کی لے آئے وہ سامان یہاں کچھ دیتا ہوں کہ کے ساتھ ملازم کو چنانچہ میں سیو سیج دیا جائے۔ و سامان لگا لم میں ساز یہاں رک جانا پڑا۔” قول کر لیا۔ چنانچہ نے مر امان بنا پیش کے بعد جنال تھوڑے سے پسو مجھ پر بھی ایک مصیبت آپڑی ہے اور اسی نے مجھے یہاں آنے پر مجبور کریں۔ سے چھوڑ کر سامان کو بندرگاہ چلایا کرتا تھا اور جو نچر کا چھڑا رقعہ بھی لکھ دیا کے نام دیا۔ میں نے اس شخص لانے کے لئے بیج ملازم کو سامان نے کے ہاتھ ایک کے فروں کی رہائش گاہ تک پن پوچھتا سیو تین گیا اور ہم تینوں مکان اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کتایا یا کرتا تھا۔ 79 78 اچھا جب سیو بیچ اور وہ ملازم سامان لائے۔ نے چلے گئے تو میں نے کہا۔ آپ یہ بتاؤ کہ کون سی چیز تمہیں افریقہ لے آئی ہے ؟” ید نصیبی کو اثر میں ۔۔۔۔ بد تھی مجال نے جواب دیا۔ نہیں ۔۔۔۔ کہیں ۔۔۔۔۔ تمہاری ۔۔۔ بیدی کا انتقال تو نہیں ہو ریجنال میں نہیں جانتا۔ نا دون ی ہری بھری ہوئی تھی۔ دن اسے اپنا موقعہ کی منتظر تھی کہ اس منحوس بد قسمتی خدا جانے کب سے جو تمہیں یاد ان کی گاڑی ان کے قصبے کے قریب واؤں آزمانے کا موقعہ مل گیا۔ جب تو اتفاق اسی وقت کسی سرکس دور نہیں ہے ، گزر رہی تھی ہوگا کہ قصر رعجبال سے زیادہ غیر معمولی طور پر رہا تھا قافلے کے آگے آگے ایک کے جانوروں کا قافلہ اسی راستے جا اس حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ ایک شخص و مار چکا تھا چنانچہ یا بھی مست تھاور پہلے بھی انبا گھوڑے کو لے جانے کی اجازت نہ دیتی خیر تو اتھی کو سڑک پر اور یوں کھلے بندوں میں نہیں جانتا کو اٹر مین کہ وہ زندہ ہے یا مر کی ہے۔ ہاتھی ایک لبادے کو دیکھ کے جو میری دیدی پہنے ہوئے تھی رگئی ہے۔ کاش کہ وہ مرگئی دیکھ کے شاید اس سرخ گم ہو گئی ہے”۔ پسند ہے بہر حال کہ میری بیوی کو گھر اسرخ رنگ کیوں رم سے بڑ گیا۔ میں نہیں جانتا آواز میں چنگھاڑا۔ اس کی تھی نے اپنی سونڈاٹھائی اور نہایت بھیانک سی بھی وجہ سے ہو ہا تھی ۔ میں ہاتھی کے فعہ دماغ کے کسی تاریک گوشے میں سے یہ خیال انجھ کر لح ما پچھاڑ جن کے گھوڑا بدک گیا اور اس نے گاڑی الٹ دی اور سواریاں ہ رجنل کی دو شاید کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے اوپ نے منہ کھایا ہائے جا کسی کو باہر وٹ نہائی لیکن پھر ۔۔۔ اور یہاں مجال لئے بھر نے بڑی کوشوں کے بھائی ہوئی آواز میں کہا اور پھر گوں کی یہاں اپنے کاروں کے ساتھ بھاتی رہتی ہی ہے کہ تیرٹ کا خاموش ہو اور پھر اس لی اور کی دھائی دی گو سے ہمارے نے کو کسیٹ تھی ہیں جلی کے پیسٹ جا پہلے بھی یک دفہ تمہاری کم ہونے جاری تھا اپنے بڑے بڑے کان اپنی نے جو ہا تھی کا روپ لیئے ہوئے کورٹ میں اس شیطان کہ میں نے اپنا یہ خیال اپنے تک ہی رکھا اور لارڈر سجنال سے پوچھا۔ مارے ساتھ ساتھ نہ ہوتا۔ سنو کوار نے پہلے اس نے ایک ای و بھی نے آگے بڑھ کے بچے کی لاش ادھر سے ادھر سونگھا اور جب اسے توں پر اور اسکی کھڑی اس کوائر مین کی وای اجمال یا من نمایت ز یں تین اس وقت تم نے روزی و کی طرف توجہ بی گاری و تجارت کی وی کے ساتھ اس در خوش اس بات زندگی کی ساری سری کاری وبصورت لڑکے میں چہ اور چہ دونوں ہی تند تھے اوری این این ہو گیا وہ مرچکا ہے تو اس ن پر اپنی سوناھا کے ٹی کانکس پاور میری نائی کے لا گیا ہاں تک ر پر ہا کہ اسے خوف ہے کہ ہماریریں کہیں اردو کا پیش نیمہ ہوں۔ مجھ سے باہر سے ایک درخت سے باندھ سے کوئی اروی تی کے ہے میں نے ایک لمبا سانس کھینچ میرے خدا کس قدر غمناک کہانی اس کے اس اندیشے کو ہنسی میں آزادیا ۔ بیای کا دل ہے۔ اس سانحہ نے میری ترین حصہ تواب رہا کا ہاں ٹیکن اس کا غمناک بات آئی گئی ہو گئی ۔۔۔۔۔ اور یہ گزشتہ ستمبر کا واقعہ ہے۔ میں شکار کی کیا ہوں کہ ان دنوں مس کا نی و نشر کار و یا چا اور ایک طوفان ساٹھاتے ہیں لیکن اور میری وی اپنے ہے اور دلی کو لے کر مسز اروپ سے لے جاری تھا کا رنگ سے ہوگی۔ اگ مو اپنے 81 80 لاف وہ مسلسل کئی گھنٹوں تک خاموس بیٹھی آپ ہی آپ مسکراتی رہتی اور اس مالا کے ھروں سے کھیلا کرتی جو اس میں یاد ہوگا افریقہ کے دو شعبدہ بازوں نے دی تھی ھیلا کیا کرتی نہیں ہوں گھایا کرتی جس طرح کہ نئیں تسبیح کے دانے گھایا کرتی ہیں۔ میں جو کچھ کر سکتا تھا کیا۔ جو کچھ میرے بس میں تھا کر گزرا میں نے باری باری سے انگلستان کے ان تین مشہور ڈاکٹروں کو اپنی بیوی کے علاج کے لئے بلوایا جو دماغی امراض کے ماہرین ترین ڈاکٹر تسلیم کئے گئے ہیں۔ لیکن ان تینوں میں سے ایک ڈاکٹر بھی میری بیوی کی اس عجیب حالت کو تبدیل نہ کر سکا۔ ایک دن ڈاکٹر میری بیوی کو دیکھنے آئے ہوئے تھے میری بیوی اپنی والدر کے ساتھ کمرے کے انتہائی سرے پر حسب معمول خاموش میٹھی ہوئی تھی اور میں ڈاکٹروں کے ساتھ کمرے کے دروازے کے قریب کھڑا تھا۔ تم نے قصر منجنال کان مرہ دیکھا ہی ہے چنانچہ تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ کمرے کے دروازے پر دوادمی کھری تقریبا سر گوشیوں میں باتیں کر رہے ہوں تو کمرے کے انتانی سرے پر بیٹھا ہوا ان کی باتیں نہیں سن سکتا۔ لیکن یہ نجیب بات ہے کہ جیسے ہی ڈاکٹروں نے مجھے اپنی بیوی کو مصر لے جانے کا مشورہ دیا تو فراہی میری بیوی نے نرم آواز میں مجھے پکارا مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ اور جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے کہا :۔ ہاں جارج میں مصر جاؤں گی۔ ضرور جاؤں گی۔” اور اتنا کہہ کردہ پھر مالا کے پتھروں سے کھیلنے اور اپنے مرے ہوئے بچے سے ہائم کرنے لگی۔ یہاں تک تو خیر ٹھیک تھا لیکن دوسری صبح میں اس کے پاس حسب معمول اسے صبح خیر کہنے پہنچا تو اس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ جارج ! ہم مصر کے لئے کب روانہ ہو رہے ہیں؟ ہم جتنے جلد رد کند جائیں اتنا ہی اچھا ہے ۔” لیڈی لاجڈن ہم مصر کے لئے روانہ ہو گئے چنانچہ اب میں مجبور ہو گیا اور انہیں بھی ساتھ ساتھ آنے پر مصر تھیں چنانچہ ینی میری خوش دامن صاحبہ ہمارے کرائے پر لیا جس کے ملاح لے لیا گیا۔ قاہرہ پہنچ کر میں ایک کافی بڑا یہ بادبانی کشتی اس ذہیہ میں ہم چار مسلح بہت عمدہ تھے اور جس میں ہر طرح کی آسائش میا تھیں۔ خلاف بہتا رہا اور یوں دریائے نیل کے سپاہیوں کے ساتھ سوار ہوئے ذہیہ بہاؤ کے راحتی کہ راستے ہم مصر کی سیر کرتے رہے۔ ایک مہینے تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک ٹھکانہ یری بیوی کے حواس بھی کچھ کچھ ٹھکا نے آنے لگے اور یہ دیکھ کے میری خوشی کا قدیم کے ہیکلوں کی دیواروں پر کر رہا اور میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔ اب وہ مصر نبی ہوئی تصویروں میں بھی دلچسپی لینے لگی تھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس جانگا؟ حادثے سے چند دنوں پہلے جس نے مجھے برباد کر دیا ہے۔ اس نے ایک تصویر کی طرف اور اس کا بیٹا ہو رس” اور یوں کہہ کر اشارہ کر کے کہا تھا دیکھو جارج مقدس ماں ایز یس اعتماد سے سجدہ ریز ہو گئی۔۔۔۔ اس کی وہ اپی ایس اور ہو رس کی تصویر کے سامنے بڑے وہ مسلسل کئی گھنٹوں اس دن میری بیوی غیر معمولی طور پر خاموش تھی۔ میں نے اس کی طرف کوئی دھیان نہ دیا۔ ہ حرکت مجھے بڑی عجیب معلوم ہوئی لیکن پھیلے ہوئے مجسموں اور حد نظر تک تک کشتی کے رسے پر بیٹھی معید کے دروازے پر نے دفعہ میں نے اسے بڑ بڑاتے سنا ہوئی ریگزار کو جنگی باندھے دیکھتی رہی۔ البتہ صرف ایک تھا اور اس نے کہا تھا۔ میں اپنے وطن میں آگئی بے حد خوبصورت ہے حاد حد خوبصورت اب وہ چاند کی رات نہ تھی اس لئے عرب ہوں ۔۔۔۔۔ ہم نے رات کا کھانا کھایا اور چونکہ گئے ” لاجوں سے چند عربی قصیدے سن کے ہم جلد ہی سونے چلے پو چھٹ رہی تھی کہ اپنی خوشد امین کی گھرائی ہوئی چینیں سن کے میری جب میں نے ڈاکٹروں سے یہ واقعہ بیانکیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور ان اٹھ کھل گئی وہ بہت پریشان تھی اچ رہی تھی کہ ہوتا کم ہوہو گئی۔ گی۔ تمہیں یاد ہو گا کہ نے میری بیوی کے تندرست ہو جانے کی امید ظاہر کی اور کہا کہ میری بیوی کول زندگی سے دلچسپی پیدا ہو چلی ہے اس لئے مجھے چاہیے کہ میں اس کی خواہش مصر جا کی خواہش ۔۔۔۔۔۔۔ فورا پوری کر دوں۔” کیونکہ لیونا کا بستر یر میری بیدی کا نام ہے۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ کچھ دیر پہلے ۔۔۔۔۔ تکب گرم تھا۔۔۔۔ وہ سموری چینہ پہن کے کین سے باہر کیں نکل گئی تھی۔ اس مین ! ہم نے لیون کو چار دنوں تک تلاش کیا کے بعد ہم نے اسے ہر جگہ تلاش کیا۔ کواٹر 83 82 لیکن کہیں اس کا کوئی سراغ نہ ملاء خود کوئی تم نے اندازہ لگایا ہے اس کے متعلق ؟ میں نے پوچھا۔ ہاں بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ ان تمام ماہرین نے جن سے ہم نے مشورہ کیا تھا، میری بیوی کی گمشدگی کے متعلق ایک ساہی اندازہ لگایا ہے اور ان سب کا کہنا ہے کہ میری بیوی رات کے اندھیرے میں کین سے نکل آئی اور قصدا اتفاقاً دریائے ٹیل میں گر کے غرق ہو گئی۔ ر پانی کا بیا اس کی لاش کو کہیں آگے گھسیٹ لے گیا اور تم جانو دریائے ٹیل گویالاشوں سے بھرا ہوا ہے یایوں کو کہ کتنی ہی لاشوں کو ہضم کر چکا ہے دولاشیں تو خود میں بھی دیکھ چکا ہوں۔ مصری پولیس اور سراغر سانوں کو اپنے اس اندازے پر اس قدر یقین تھا کہ انہوں نے اس کے متعلق مزید تحقیقات کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہیں یقین ہے کہ میری بیوی غرق ہو چکی ہے اس لئے اسے تلاش کرنا حماقت ہے ۔ تم نے کہا ہے کہ اس رات ہوا قدرے تیزی سے چل رہی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ نیل کا ساحل ریتیلا ہو گا اس لئے قدموں کے نشانات راتوں رات مٹ گئے ہوں گے میں نے کہا۔ لارڈر مسجنال نے اثبات میں سر ہلایا۔ د ولیکی لیکن رسجنال لیونا کے غائب ہونے کے متعلق خود تمہارا کیا خیال ہے۔ میں نے پوچھا کیا تم بھی کی سمجھتے ہو کہ وہ غرق ہو گئی ہے ؟” میرے اس سوال کا جواب رمجبال نے ایک اور سوال سے دیا۔ خود تمہارا کیا خیال ہے کو اٹر مین ؟” میرا ؟ ۔۔۔۔۔۔ آہم ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ میں موقع واردات میں موجود نہ ھا تاہم میں مصری پولیس اور سراغر سانوں سے متفق نہیں ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تمہاری بیوی نہ غرق ہوئی ہے اور نہ مری ہے بلکہ وہ اس وقت بھی زندہ ہے ” دیا لیکن کہاں ہے۔” یہ تو اپنے اپرانے دوست ہاروت و ماروت ہی بتا سکیں گے میں نے جواب ہاروت اور ماروت ، ليكن ليكن ... اس کا کوئی شہوت ہمارے پاس نہیں کو اٹر مین؟ یہ کہ یہی اس کے بر خلاف ہمارے پاس یہ ثبوت موجود ہیں۔ پہلا ثبوت کا جب وہ دونوں افریقی ہیں جو قصر رسجنال میں نازل ہوئے تھے۔ انمی دونوں نے لیونا تمہاری بیوی نہیں ہلائکہ منگیتر تھی، اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور جب میں اسے یہ ہے پہلا اور تھیں۔ میں۔ یہ۔ چانے پہنچ گیا تھا تو ہاروت و ماروت نے عجیب عجیب دھمکیاں دی سب سے بڑا ثبوت ۔” چنانچہ یوں ہوا کہ پورے پندرہ دن بعد ہمارا چھوٹا سا قافلہ ڈرین کے مضافات سے گزر کر زولو لینڈ کا رخ کر رہا تھا۔ ہمارا ساز و سامان اور اشیاء خوردو نوش کا خیرہ دو چھکڑوں پر لدا ہوا تھا۔ یہ چھکڑے دو خاص قسم کے تھے جن پر کپڑے یا ناٹ کا جاتا ہے۔ یہ شیمہ سالگا ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی مناسبت سے انھیں خیمے والے چھکڑے کہا اس مہم کے لئے ہر بے حد عمدہ چھکڑے تھے غالبا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم نے حصہ رات کے وقت ہماری خواب گاہ کا کام چیز عمدہ ہی خریدی تھی ۔ ان چھکڑوں کا پچھلا جو ہوا تھا۔ اور کا سی اس نشست کو کہتے ہیں یتا تھا۔ بینی ایک چھکڑے کی کا سی پر بیٹھا چھکڑے کے اگلے حصے میں چھکڑاہا تکنے والے کے بیٹھنے کے لئے لگی ہوئی ہوتی ہے میں رمجنال اور سیو سنجان گھوڑوں پر سوار تھے جنھیں اسپ شور نمک زدہ گھوڑے کہا جاتا ہے۔ یہ ان گھوڑوں کو کہا جاتا ہے جو افریقہ کے جنگلوں کے جان لیوا مرض میں ہتا ہر اس ہونے کے بعد زندہ چ گئے ہوں۔ یہ گھوڑے بڑے عمدہ ہوتے ہیں اور جنگل کی ہے اس کے علاوہ ان گھوڑوں کو یماری کو سہ جاتے ہیں جو عام گھوڑوں کی جان لے لیتی طرح اسپ شور بندوق کی خاص طور سے سیدھایا جاتا ہے چنانچہ دوسرے گھوڑوں کی بد کتا نہیں۔ آواز شیر کی دھا اور ہاتھی کی چنگھاڑ سن کر بھڑ کتا اور روانہ ہوتے وقت بہر حال ایک معمولی سا واقعہ ہوا۔ میں نے حیرت سے دیکھا کہ سیو بچ جو اپنے کوٹ پر ملازموں کا جامہ پہننے پر کر رہا تھا بہر حال وہ کسی نہ کسی مصر تھا الٹی طرف سے سے گھو گھوڑے پر چڑھنے کی کوشش عجیب حرکت کو گھوڑا اپنے اناڑی سوار کی اس طرح گھوڑے پر چڑھ کر زمین پر بیٹھ گیا 85 84 سمجھ نہ سرکا اور حیرت زدہ ہو کر ایک جھٹکے کے ساتھ یوں چند قدم آگے بڑھا کہ اسکا سوار یعنی سیو سیج دائیں بائیں ڈولتے لگا۔ میں اور ریجنال اس خوف سے کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے ایک دم سے اس گھوڑے نے ایک زقند بھر کے سیو بیچ کو ہوا میں اچھال دیا۔ سیو سی چند فٹ ہوا میں ے ہو اور دھ سے زمین پر اس طرح کر کہ ز آرام سے بھی مارے بھا ہوا تھا۔ چارا رجال نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اس کا سفر اس میں تم ہوتا ہے۔ لیکن ہم دونوں کی حیرت کی انتانہ رہی جب ہم نے دیکھا کہ سیویج حیرت انگیز پھر ٹی سے اٹھا وہ اچھل رہا تھا وہ چک پھریاں سی کھا رہا تھا اور کو کھوں پر تھپڑ مار مار کے چلا رہا تھا۔ ہٹاؤا سے مارڈ الواسے ۔” چند سیکنڈ بعد ہی سیویج کے اس عجیب رقص کا سبب سمجھ میں آگیا۔ سیونج کے گھوڑے نے دھول میں کنڈلی مار کر بیٹھے ہوئے ایک سانپ پر کھر رکھ دیا تھا اس کے بعد ہی اس نے زقند بھری تھی اور سیو یج جب ہوا میں بلند ہو کر گرا تھا تو اتفاقا اس ک سانپ پر بیٹھ گیا تھا لیکن وہ اتنے زور سے گرا تھا اور خود اس کا وزن بھی انتا زیادہ تھا کہ سانپ بار اس کے بوجھ سے پہنچی ہو کر رہ گیا تھا سیوی ایسا بد جو اس ہو گیا تھا کہ اسنے یہ ہ دیکھا کہ سانپ چارے کا کو ر نکل گیائے بالمہ اس نے یہ سمجھ لیا کہ سانپ اس کے کوٹ کا پچھلا کنار پکڑے لٹک رہا ہے۔ سانپ سر کار اسانپ جب ہم نے اسے یہ اطمینان دلا دیا کہ سانپ مرچنا ہے تو اس نے کہا خدا جانے سانپوں کا میری زندگی سے کیا تعلقق . ہے۔ مجھے ان سے نفرت ہے لیکن خود ساپنوں کو معلوم ہوتا ہے کہ مجھ سے عشق ہے کیونکہ خدا کی بہ موزی مخلوق مجھے خواب میں بھی پریشان کرتی ہے اگر میں اس مہم پر سے زندہ واپس آگیا و پھر میں آئر لینڈ چلا جاؤں گا جہاں کہتے ہیں کہ سانپ نہیں ہوتے لیکن میرا خیال ہے کہ میں اس سفر سے واپس نہ آسکوں گا کیونکہ ابھی ابھی جو واقعہ ہوا وہ شون بد ہے۔ کاندہ لینڈ تک کے ہمارے سفر کی تفصیلات بتانا میں ضروری نہیں سمجھتا کم سے کم اس سفر کے ابتدائی حصے کی تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اپنے طور پر یہ سفر بے حد دلچسپ تھا۔ راستے میں کچھ مشکلات اور خطرات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ لیکن بعد کے واقعات کی تفصیلات بے حد ضروری ہے اس لئے اگر میں سفر کی تفصیلات بیان کرنا شروع کر دوں تو یہ داستان خاصی طویل ہو جائے گی ۔ اور یہاں میں صرف یہی بتا دینے پر اکتفا کرتا ہوں کہ ہر چند کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ملک میں امن وامان نہ تھا اور راستے محفوظ نہ تھے تاہم ہم بغیر کسی وقت کے زولو لینڈ کے علاقے کو عبور کر گئے خصوصا اس لئے اس علاقے کے چہ چہ کے نام سے واقف تھا۔ زولو لینڈ کا ہر شخص میری عزت کرتا اور میرے سامنے احترام سے جھک جاتا تھا ۔ چنانچہ اس طرف کے تقریبا تمام قبائل لوگوں کی طرف دوڑ دیئے تھے۔ یہ پیغامبر جو پیغام لے کر چلے تھے یوں تھا کہ عظیم میری مدد کو کمر بستہ تھے میں نے زولولینڈ میں حسب پروگرام تین پیغامبر بھی مازیو کاری میگو میزن جواند میرے کا اسبان بھی کہلاتا ہے۔اور وہ زرد نکھوں وال و درو اندھیرے کی روشنی ہے مازیو قبیلے کے بادشاہ کی ملاقات کو آرہا ہے۔ 86 میں جانتا تھا کہ اس مقام سے ، جہاں دریائے لویا ہے چھکڑوں کو آگے لے جاتا ممکن نہ ہو گا اس لئے میں نے اپنے زولو پیغامبروں کے ذریعہ مازیو بادشاہ سے یہ درخواست بھی کی تھی کہ وہ کم سے کم سوبار برادروں کو مناسب بدرقے کے ساتھ دریائے لوہا تک میچ دے ۔ بار بر اور ہمیں اس مقام پر آملے جس سے ہم دونوں خوبی واقف تھے۔ پیغا مبروں نے کہا کہ اگر ان میں سے ہر ایک کو جب وہ واپس آجائیں ، پانچ می برای اجت کے دے کرے میں بیان دار پر یا یکی از اور بار کی ملے منانے می ہ حفظہ ہرا دیں ہے۔ یہ صورت دیگر ینی گرین کر نے کوی پتامبر راستے میں مر جائے تو یہ اجرت اس کے پسماندگان کو دے دی جائے۔ یہال میں یہ بتا دوں کہ ان میں سے دو پیغامبر تو راستے میں ہی مر گئے۔ ان لوگوں نے قریب کار راستہ اختیار کیا تھا جو دلدلوں میں سے ہو کر گزر تا تھایہ دلد لیں نار زدہ کہلاتی ہیں۔ چنا پر ایک پیغامبر تو مخار میں مبتلا ہو کے مر گیا اور دوسرے کو ایک شیر نے پھاڑ کھایا البتہ تیر پیغا سر منزل تک پہنچ کر ہمارا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔ زولو لینڈ کے جنوبی علاقے میں پورے پندرہ دن تک ستانے کے بعد ہم آگے روانہ ہوئے اس عرصے میں ہمارے ہیل بھی ستا کے تازہ دم ہو چکے تھے اور اس علاقے میں گھاس کی کمی نہ تھی چنانچہ میلوں نے خوب چارہ بھی کھایا تھا ہم اس راستے پر چل پڑے جس سے ہمیں بھی واقف تھا اور میں بھی یہ وہی راستہ تھا جس سے ہم مقدس پھول کی مہم کے بعد واپس لوٹے تھے۔ اور آخر کار ایک رات ہم دریا لوہا کے کنارے پر پہنچ کے ان تین پہاڑیوں کے قدموں میں اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے جو تین ڈاکٹر کے نام سے مشہور تھیں۔ مازیو بار برداروں اور بدرقے کو ہم سے یہیں ملنا تھا۔ اور یہاں ایک مشکل اور آپڑی دنیا کے کسی انعام اور کسی نعمت کی لانچ بار برداروں کو دریائے لویا عبور کرنے کے لئے تیار نہ کر سکتی تھی عبور کرنا تو ایک طرف رہا۔ اور اس کے پانی میں اپنے پیر بھی گیلے کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ خوف سے سمٹ کر پیچھے بنتے جارہے تھے جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے بتایا کہ دریائے لوہا کو ان کے قیل کیلئے تا بیٹی سحر زدہ کر دیا گیا تھا جب ان سے کہا گیا کہ ان سے پہلے 87 تین زولو پیامبر اس دریا کو عبور کر چکے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ تینوں پیغامبر چونکہ مخلوط نسل سے تھے اس لئے دریا کا سحر ان پر پوری طرح اثر انداز نہ ہو سکتا تھا اس کے باوجود ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے کہا۔۔۔۔ ان پیغا مبروں میں سے کسی ایک کو اپنی جان سے ضرور ہا تھ دھونے پڑیں گے اور یہی ان کی اس جسارت کی سزا ہو گی کہ انہوں نے اس دریائے ئے ممنوعہ منوعہ کو عبور کیا تھا۔ دار ہو تو کاک بیر کے پایدار انڈا کے اند و دیگر آتے ہیں اور رسال کے قدموں میں تھا۔ ایک غیر معموئی فور پر بڑے مینڈک کی مرج معلوم ہو ہا تھا اس نے امان کیا کہ وہ دریا کے اس پار سے لوگوں کے بولنے کی آوازیں بن رہا ہے اس کا یہ اعلان سن کے میر ادل خوشی سے ناچ اتھا حتی کہ میں نے سوچنا بھی ضروری نہ سمجھا کہ دریا کے دوسرے کنارے کی آوازیں بھلا کس طرح سن سکتا ہے ؟ کی چوٹی پر چڑھے اور میں نے دور بین بہر حال ہم لوگ بلند ترین ڈاکٹر کی چوٹی پر: ہوئی تھی اس لئے کچھ نظر نہ آرہا تھا رفتہ رفتہ دھند سمٹنے لگی اور آخر کار سورج کی کرنوں آنکھوں سے لگا کے دریا کے اس پار دیکھ زمین سے آسمان تیک دھند کی ایک چادر سی تنی نے اسے نکل لیا اور نظر ایا کہ دریائے کے اس پار تقر یاسو کا فر کھڑے ہوئے تھے جن کی ٹویوں اور بھالوں کی ساخت سے میں نے پہچان لیا کہ وہ کوئی اور نہیں بانکہ مازیڈ تھے ان لوگوں نے مجھے دیکھ نیاور خوشی کے ایک نعرے کے ساتھ وہ سب کے سب دریا میں اتر پڑے دریا کی طغیانی کا زور ہر چند کہ کم ہو چکا تھا لیکن پانی کا بہاؤ اب بھی تیز تھا نانچہ مازیو لوگوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ایک دائرہ سابنا لیا اور اس طرح ائرہ نا کر وہ دریا عبور کرنے لگے کہ ان میں سے کسی کو پٹی کا بہاؤ کھینچ نہ لے جائے۔ میں دریا کی طرف بھاگا اس انا میں مازی قریب قریب پہنچ: چکے تھے اور میں نے دیکھا کہ سب کے آگے کوئی اور نہیں بالمحہ خود با ما تھا با مبا کی صرف ایک آنکھ تھی کیونکہ دوسری آنکھ کسی جنگ میں جاتی رہی تھی وہ مازی کا گویا اسپہ سپہ سالار سالار اعظم اعظم تھا۔ یہ شخص ایک نے تک میرے اور میس کے ساتھ رہا تھا اور ہم تینوں نے اکثر خطرے کا مقابلہ مل کر کیا تھا اس نے مجھے دیکھ اتو ایک دم سے بک پڑا چشم زون میں وہ سامنے کھڑا ایک سر خوشی کے عالم میں کہہ رہا تھا۔ 89 88 میکو میزن ! امید تو نہ تھی کہ اس زندگی میں تمہیں دوبارہ دیکھ سکوں گا۔” خوش آمدید ہزار دفعه خوش آمدید اور اے اندھیرے کی روشنی اور آقائے آتش ہم تمہیں بھی خوش آمدید کہتے ہیں لیکن ڈاگیتاہ کہاں ہے ؟ دازیلا کہاں ہے ؟ اور مقدس پھول کی طفل مقدس کہاں ہے ؟” با مبا! میرے دوست یہ لوگ کالے پانیوں کے اس پار ہیں اور مرے میں ہیں لیکن اس کے بجائے دو دوسرے باس میرے پاس ہیں۔ اور میں نے رسجنال اور سیویج کا تعارف ان کے افریقی ناموں سے کرایا۔ ناشتے فارغ ہو کر میں نے زولو بار برداروں کے سامنے ایک تقریر کر کے ان کی خدمتوں کا شکریہ ادا کیا اپنے سامان سے ان میں سے ہر ایک بار بر دار کو ایک ایک تحفہ دی اور ہمارے دوسرے ملازموں اور چھکڑے کے ساتھ انہیں زد لو لینڈ کی طرف واپس میچ دیا اول بار بردار الوداعی گیت گا کر اور مجھے سلام کر کے رخصت ہوئے لیکن جاتے وقت وہ بار بار پلٹ کر مازیو لوگوں کی طرف غضبناک اور بھوکی نگاہوں سے دیکھتے جاتے تھے بہر حال میں خوش تھا اور دل ہی دل میں کا شکر ادا کر رہا تھا کہ ولو مازیڈ لوگوں پر حملہ کئے بغیر رخصت ہو رہے تھے۔ آخر کار سارے انتظامات مکمل ہو گئے اور ہم آگے روانہ ہوئے اس ایک ینے کے سفر میں کوئی قابل ذکر واقعہ نہ ہوا ہم خیر و خوبی نے یز اناؤن کے جو پرانی نستی کے ہی نقشے پر بنایا گیا تھا دروازے پر خود یو سی دوم نے ہمار استقبال کیا اور ہم بادشاہ وقت اور بہت سے باشدوں کے ساتھ مازیٹو قبیلے کی بستی میں داخل ہوئے۔ اس رات ہماری آمد کی خوشی میں منایا گیا اور جب مازیو لوگ جشن منار ہے تھے تو ہم یو سی دوم اور بامبا کے ساتھ نئے مہمان خانے میں بیٹھ باتیں کر رہے تھے ہو سی دوم نے جو طاقتور اور تندرست جوان تھا پوچھا کہ ہم کب تک بیز اٹاؤن میں قیام کریں گے اور پر امید ہو کر کہا کہ ہو سی اول کی روح کرے کہ ہمارا قیام طویل ہو۔ میں نے جواب دیا کہ ہمارا قیام بہت مختصر ہوگا کیونکہ ہم جلد از جلد جنوب کی طرف جہاں کا ندہ لوگ آباد ہیں روانہ ہو جاتا چاہتے ہیں اور پھر میں نے یوسی سے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ وہ چند بار برداروں کو ہمارے ساتھ کر دے گا۔ میں نے دیکھا کہ کا ندہ لوگوں کا نام سن کے یوسی دوم اور بامپا کے برے سے انتہائی حیرت کے آثار ہو پیدا ہوئے اور با مبانے کہا۔ کہیں تمہیں پاگل کتے نے تو نہیں کاٹا ہے میکو میزن ! تم اس خطر ناک سفر پر جارہے ہو؟ میکو میزن ! میکو میزن ! تم یقینایا گل ہو گئے ہو ؟ یہی بات میں نے اس وقت بھی کہی تھی جب ہم تالاب عبور کر کے ریکا جادن کی طرف جار ہے تھے لیکن دیکھ با مباہم وہان سے صحیح سلامت واپس آگئے یہ بچ ہے میکو میزن لیکن پونگو لوگ کاندہ کے مقابلے میں اس ننھے سے ستانے کی طرح تھے جسے سورج کی پہلی ہی کرن جھا دیتی ہے۔ اور تم کیا جانتے ہو کا ندہ لوگوں کے متعلق ؟ میں نے پوچھا لور فوراہی کہا نہیں ھیر و پہلے میں تمہیں وہ باتیں بتائے دیتا ہوں جو مجھے کا ندہ لوگوں کے متعلق معلوم ہوئی اور میں نے بیس و رہا روت و ماروت سے جو کچھ سنا تھا وہ یو سی دوم اور بامبا کے سانے دہرا دیا چ بچ میں ٹیس میرے بیان کی تصدیق کرتا جاتا تھا غالبا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے خاتون ریجنال اور اس کی گمشدگی کا ذکر نہ کیا۔ تم نے جو کچھ اور سنا ہے وہ سب بچ ہے جب میں خاموش ہوا تو با مبانے کہا کیوں کہ اند میرے کی روشنی نے جس بڑھیا سے کاندھ کے متعلق سنا تھا وہ دراصل میرے چھا کی بیویوں میں سے ایک تھی اور میں اسے خولی جانتا تھا۔ اس لئے سنواے ینگو میزن یہ کاندہ بڑا ہی زیر دست اور بڑا ہی خوفناک قبیلہ ہے صرف یہی نہیں بالکہ یہ قبیلہ بہت بڑا بھی ہے اس قبیلے کے لوگ بڑے ہی آتش مزاج جو پہلے اور ظالم ہیں ان کے بادشاہ کا لقب سمبا ہے ان کا ہر بادشاہ سمبا کھلاتا ہے اور یہ بادشاہ ان میں سے ہوتا ہے جو کالا کاندہ کہلاتے ہیں اور جن کا دیو تاوہ زبردست ہا تھی ہے جس کا نام جانا ہے اور جیسا کہ اندھیرے کی روشنی نے کہا اسی جگہ سفید کا ندہ بھی آباد ہیں جو یا تو عرب ہیں یا مصری ہیں اور لوگ مذہبی پیشوا ہیں یا پھر تاجر ہیں۔ کبھی کوئی اجنبی کاندہ لینڈ میں نہیں اسکتا کاندہ لوگ اجنبیوں کو پسند نہیں کرتے اگر کبھی کوئی اجنبی وہاں پہنچ بھی جاتا ہے تو یہ لوگ طرح طرح کی اذیتیں دے کر اسے مار ڈالتے ہیں یا پھر اس کی آنکھیں نکال کر اسے محر میں جو ان کے وطن کو گھیرے ہوئے ہے بانک دیتے ہیں جہاں وہ اندھے پن 91 90 میں بھیتا رہتا ہے یہاں تک کہ بھوک اور پیاس اس کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ یہ باتیں اس بڑھیا نے جس سے میرے چچا نے شادی کی تھی مجھے بنائی تھیں اس کے علاوہ کئی اور لوگوں سے بھی میں نے کاندہ لوگوں کے متعلق یہ باتیں سنیں کسی سے میں نے یہ بھی سا تھا۔ کہ کاندہ لوگ ایک عجیب و غریب چوپائے کی نسل بڑھانے اور عربوں کے ساتھ اس کی تجارت کرتے ہیں یہ عرب جنوب کی طرف سے آتے ہیں اور اسر، چوپائے کونے سنا ہے۔ اونٹ کہتے ہیں میکو میزن جنوب کی طرف جانے کے خیال کو اپنے دل سے اکھاڑ پھینکو ہر فرض محال تم صحرا عبور کر بھی گئے۔ تو کالے کاندہ تمہارا خاتمہ کر دیں گے۔ ور اگر تم کسی طرح ان سے چھ بھی گئے بادشاہ سبا تمہیں قتل کر دے گا اور اگر تم اس کے غضب سے محفوظ رہے تو ان کا یو تا یعنی ہا تھی جانا تمہارے ٹکڑے آزادے گا اگر تم اس سے بھی بچ گئے تو سفید کاندہ کے مہنت اپنے جادو کے زور سے تمہارا خاتمہ کر دیں گے۔ مطلب یہ کہ کا ندہ لینڈ میں سوائے موت کے اور کچھ نہیں میکو میزن اگر ایسا ہی ہے بامبا تو ان لوگوں نے مجھے اپنے وطن میں آنے کی دعوت کیوں دی تھی ؟ میں نے پوچھا۔ سانپ دنیا میں کہیں نہ ہو گا۔ ترجمہ سیونج جب میں نے بامبا کی اطلاع کا تو پھر اس بو مبا سے کئے صاحب کے لیے وہاں یہ معبد گر جا تو ہے نہیں کہ مجھے عبادت کو نایا تو بولا کہ کا ندہ لوگوں کا طرح نکل سکے گا ؟ جانا پڑے میں وہاں جاؤں گا ہی نہیں پھر یہ سانپ مجھے کس لیکن افسوس ہے چار ابنیا قسمت کے لکھے سے بے خبر تھا۔ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے آدمی ہمارے ور اب بار بر داروں کا مسئلہ در پیش تھا تھا اور میرا بہت زیادہ لیکن یو سی دوم چونکہ میرا دوست ساتھ بیچنے کے لیے تیار نہ ہوتا ساتھ کے بعد بار برداروں کو ہمارے تھوڑے سے پسو پیش احترام کرتا تھا اس لیے وہ اس کے باربر داروں کو نے ہم سے یہ وعدہ لیا کہ ہم نے کے لیے تیار ہو گیا لیکن پہلے اس والا تھا۔ جائیں جو ہمارا ہونے دیں گے تا کہ وہ اس انجام سے بچ عمرا کی سرحد پر سے ہی واپس لوٹا یہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔ میکو میزن شائد اس لیے کہ وہ تمہیں ہاتھی جانا نہیں کر سکتی۔” آنے پر ما اور اس کے اس لیے مارے بیوں کی گئی بھی تھے ہوگئے۔ اسبان کے ساتھ بھی پڑھاتے ہیں پر پھلا کوئی تھا ہماری کے ساتھ جو ہا میا کے ماتحت چوتھے روز ہم پورے ایک سوپیس باربرداروں کے خیال میں ہم دفعہ رخصت ہوئے کیوں کہ اس ساتھ چلا تھا کہ وہ ہم سے آخری جائے گا میں نے سر ہلا کر کہا۔” اعلان بذا خود میں اس کرنے والا ھالیکن بہت جلد معوم و زندہ اپنے والے نہ کے امی کا و ہو۔ تو بروق کی گئی بھی اثر ہیں کر یہ تو کچھ بھی ہو با باہم خود وہاں جا کر اس ہاتھی جانا کو دیکھنا اور اس پر اپنی بندوق کی گولی آزمانا چاہتے ہیں۔ سیو سیج نے بھی اثبات میں سر ہلا کے اپنی رضامندی ظاہر کی اور پھر کہا : اس بد بایا فومبا سے پوچھو کہ کا ندہ لوگوں کے ملک میں سانپ ہیں یا نہیں ؟ ہاں اسے بنیا! ہاں اے لوٹنے والے مرغ ! با مبانے جواب دیا۔ بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوئیں۔ ردسر کی باتیں جن کا تعلق اس سفر سے تھا اور گھنے جنگلوں اور بعد ہم پورے ایک مہینہ تک چیز اٹاؤن سے روانہ ہونے کے کی اور دوسرے مازیوراہروں کے پیچھے چھوڑ کر ہم بامبا و گو کہا تھے مشرقی کنارے کے ایک جزیرے پر کبھی اس تالاب یا جھیل پر گئے جس دلدلوں میں سفر کرتے رہے۔ میں پہنچ چکے تھے اور اس کے بعد ہم اس علاقے براہری میں جنوب کی طرف بڑھے معبد کا اسبان ایک ایسا کوک زراعت میرے چا کی بیوی نے مجھے بتا تھا کہ سفید کاندہ کے بھر کرتے ہیں حتی کہ یہ جو انتہائی قدیم طریقے پر زندگی ہاں وہ لوگ اسے ہوئے تھے ت کے نام تک سے واقف نہیں ان لوگوں کی بستیاں بہت دور دور اور چھوٹی زیر دست سانپ ہے کہ بھی کسی نے ایسا زبردست سانپ نہ دیکھا ہو گا۔ اور اتا ہوا چھوٹی تھیں۔ 93 92 سومیل کے بعد اب یہ بستیاں بھی نظر نہ آئی تھیں۔ البتہ اب ہمار یہ بھیر نو اہوں اور افریقہ کی اس پست قامت قوم سے ہو جاتی تھی جسے سنگی کتے ہیں چکی شکر کر کے زندگی بہر کرتے ہیں ان کے قد بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور ان کے تیر بھی بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن یہ چھوٹے چھوٹے تیر بہت خطرناک ہوتے ہیں کیوں کہ زہر میں مجھے ہوئے ہوتے ہیں اور جس شخص کی جلد میں بھی یہ تیر کھی جاتا ہے اسے بھر دنیا کی کو دوائی نہیں بچا سکتی۔ ایک دفعہ بچوں نے ہم پر حملہ کر دیا اور اپنے زہر میں مجے ہوئے تیروں کے ذریعہ ہمارے دور ہیروں کو ملک عدم پہنچادریاچیوں کے اس حملے کے وقت سیو تیچ نے بڑی بہادری کا ثبوت دیا وہ ایک دم سے اس کانئے دار حصار میں سے ؟ ہم نے جھاڑیاں کاٹ کربنا لیا تھا باہر نکلا اور اس پیٹی پر جو زیادہ دور نہ تھا جھٹ پڑا اور اسے و پوچ کر حصار میں گھسیٹ لایا اب یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ خود زہر پلے تیروں کے اسے آگے پانی ملنے کی امید نہ تھی اور گلستان سے نکل کر ریت میں دفن ہو گیا تھا۔ چونکہ کنارے پر ایک گلستان تھا جس میں ٹھنڈے بیٹھے پانی کا ایک چشمہ بہ رہاتھا۔ یہ چشمہ تیار نہ تھے۔ اس لیے ہم نے اس نخلستان ازیو بار بر دار بھی اس صحرا میں قدم دھرنے کو ہوتا ہے۔ کرنے لگے۔ کہ دیکھیں اب کیا میں قیام کر دیا اور انتظار تین دن گزر گئے۔ کی اور ان تین دنوں کے ہر گھنٹے میں جو گذر رہا تھا میری بیٹس اور سیویج EP جارہی تھی شاشت میں اضافہ ہو تا جارہا تھا لیکن رسنال کی اداسی زیادہ سے زیادہ بڑھتی تیسرے دن کی دو پر ڈھل چکی تھی اور سہ پہر سے ہمارے باربردار اور ہم خود بھی اپنا ہوا تھا چنانچہ دوسرے دن از و سامان باندھتے رہے تھے۔ کیوں کہ ان دنوں میں کچھ نہ کو خیر باد کہ کر علی اصح ہمیں حسب وعدہ اپنے مازیو ساتھیوں کے ساتھ اس نخلستان یا تھاڑ میں سے کس طرح زندہ نکل آیا بہر حال جب وہ چی کو دیو پے حصار میں داخل ہو واپس لوٹ اتھا۔ تھا کیونکہ ہماری واپسی ہے تو ایک تیر اس کے بیٹ کو چھید کر بالوں میں اٹک گیا تھا اور دوسرا اس کی پنی اس رات جب میں اپنے بستر پر لیٹا ہوں تو بہت خوش اش کا گیا تھا۔ لیکن یہ خراش اتنی معمولی تھی کہ اس سے خون کا ای قطرہ بھی نہ تیاریاںکی مکمل ہوچکی تھیں اور میں ایک اعمان اور کر ہم سے بچ گیا تھا حالانکہ میں تھا۔ یو سیج کی یہ کارگزاری ہمارے لیے بڑی سود مند ثابت ہوئی کیونکہ ہم ۔ و اس بات کے ثبوت رسجنال کے سامنے پیش کر چکا تھا کہ خاتون ریجنال کو ہاروت ماروت ہی لے گئے ہیں لیکن اب مجھے یقین ہو چلا تھا کہ خاتون رسجنال کاندہ لینڈ میں مہینس کے ذریعہ جو بگی زبان سے تھوڑا بہت واقف تھا۔ اپنے قیدی کو یہ پیغام دیاکہ لو میں بلکہ دریائے نیل میں غرق ہو چکی ہے چنانچہ ایک ایسی ہستی کی تلاش میں جس کا اگر ہم پر تیر چلائے گئے تو ہم خود سے یعنی قیدی کو پھانسی دے دیں گے ہماری یہ دمم وجودی ختم ہو چکا تھا صحرا کی خاک چھانا اور خواہ مخواہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا بڑی کار گر ثابت ہوئی کیوں کہ اس قیدی نے جو حملہ آوروں کا سردار تھا ہمارا یہ پیغام ال ساتھوں تک پہنچا دیا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے بعد چیوں نے ہم پر حملہ نہ کیا چیں۔ علاقے سے نکل آنے کے بعد ہم نے اپنے قیدی کو آزاد کر دیا جو یوں سر پر پاؤں رکھ ھا گا کہ ہم اپنی نسی روک نہ سکے۔ خدا کا شکر ادا کیا صرف حماقت ہی نہیں ہاکہ پاگل پن تھا چنانچہ میں نے دل ہی دل میں سے اور صحرا میں بھوک اور پاس کہ اس نے ایسے حالات پیدا کر دئے کہ پھر اس سفر نے ایک راضی به رضا ے ایڑیاں رکز رگڑ کر مرنے سےبچ گئے جو خدا کو منظور میں تھی اور آدمی ادھر ں کی طرح کہا لیکن خدا کو تو کچھ اور ہی منظور تھا آدھی رات ادھر جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جا رہے تھے گھنی اور گنجان جھاڑیاں ہوئی جان کی گھبرائی ہوئی آواز سن کھڑی دو جارہی تھی اور میں نیند کے مزے لے رہا تھا کہ ہنس تھیں یہاں تک کہ جنگل بالکل ہی ہو گیا کہ یوں کہنا مناسب ہوگ کہ ریگزار ے کر میری آنکھ کھ گئی وہ ہر رات کی طرح اس رات بھی میرے خیمے کے عقب میں ایک اور اب حد نظر تک صحرا پھیلا ہوا تھا پر ہول اور ویران ۔ اس صحرا کہ میں نے بیٹس کی آواز خواب میں سنی سائیان تلے سورہا تھا پہلے تو میں نے یہی خیال کیا و کی لیکن ایک بار پھر میں نے اس کی گھبرائی ہو آواز سنی۔ 95 94 باس اپنی آنکھیں کھولو دو بھوت باہر کھڑے ہیں اور تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے آہستہ سے اپنا سر کئے پر سے اٹھایا اور خیمے کے دروازے میں سے جس کا پردہ اٹھا ہوا تھا باہر دیکھا باہر اس چاندنی میں اور خیمے کے دروازے سے کوئی پانچ قدم دور بھوت بیٹھے ہوئے تھے سر تا پا سفید کپڑوں میں ملبوس وہ دونوں بے حس و حرکت پی ہوئے تھے مجھے اعتراف ہے کہ رات کے دوجے ان دو سفید شبہیوں کو دیکھ کے پہلے تو میں بھی ڈر گیا لیکن پھر میں نے سوچا کہ یا شائد چور آچکے ہیں اس خیال نے میرا خوف دور کر دیا اور میں نے آہستہ سے اپنے کئے کے نیچے ہاتھ ڈال دیا جہاں میر استول رکھا ہوا تھا۔ ابھی میں نے پستول کو ہاتھ میں پکڑ بھی نہ تھا کہ ایک گھری کو یح دار آواز نے کہا۔ میکو میزن ! کیا تمہارے یہاں مہمانوں کا استقبال بندوق اور پستول سے کیا ںیم جاتا ہے ؟ اے اندھیرے کے پاسبان! مہمانوں کا استقبال اس طرح کرنا شریفوں کا شیوه ضروری تھا کہ صحرا میں ایک وقت دور دراز کی چراگاہوں میں تھے اس کے علاوہ یہ بھی سے اونٹوں کو خاص جگہ جس سے صرف ہم واقف ہیں کنواں بھی کھو لیا جائے کہ وہاں ئی پلایا جا سکے چنانچہ ذراد یر ہو گئی۔ اس کے باوجود میکو میزن ! تمہیں یہ تسلیم کرنا پڑے ا کہ ہم عین وقت پر پہیے ہیں بلکہ وقت چارسے پانچ گھنٹے پہلے کیوں کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ ہی کیا تم واپس لوٹ جانے والے تھے بے شک تم عین وقت پر آئے مجھے اس خیال سے آیا کہ وہ میرے ہو؟ میں نے ذرا غصے اور حیرت زدہ ہو کے کہا غصہ خدا جانے کس طرح اسے ہمارے ٹھی حالات سے باخبر تھا اور حیرت اس بات پر ہوئی کہ تمہیں معاملات کا پتہ لگ جاتا ہے بہر حال اب چونکہ تم آہی گئے ہو اس لیے میں خوش آمدید کہتا ہوں تیجے میں آجاؤ حالانکہ میں نہیں جانتا کہ تم بھوت ہو یا انسان بہر چنانچہ باروت و حال تم جو کوئی بھی ہو باہر کی سردی میں ٹھٹھر جاؤ گے چنانچہ اندر آؤ ماروت مجھے میں آگئے اور ان دونوں نے اپنی مدد آپ کر کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جن کی بوتل اندیلے ہوئے جام لبالب بھر لئے اور میں نے اپنا جام اٹھاتے ہاروت وما روت تمھارا جام صحت ” اور میں نے ایک چسکی لے کر جام میٹس کی طرف بڑھا دیا موخر الذ کر ایک ہی کی کھونٹ میں جام خالی کر گیا یہ ایک چسکی بھی میں نے اس لئے تھی کہ اس آدھی رات میں میرے ر اسرار ملاقات کے متعلق مجھے غور کرنے کا وقت مل جائے اور اس انا صاب بھی سکون پذیر ہو جائیں جو ان دو بھوتوں کی غیر متوقع آمد سے جھنجھنا اٹھے اور اب میں نے سوچا کہ دنیا میں ایسا کون ہو سکتا ہے جس کی باطنی نظر اس اتھ کو دیکھ لے جو اندھیرے میں اور وہ بھی تکئے کے نیچے پستول کی طرف بڑھ رہا ہو اور ہوئے کہا ۔ اس سوال کا جواب مجھے فور امل گیا بے شک یہ وہی تھا یہ اسی کی آواز تھی یا یہ وہی آواز تھی۔ جو میں نے قصر ر جنال میں نشت گاہ میں کئی سال پہلے سنی تھی۔ ہاں ہاروت میں نے بے پروائی سے ایک جمائی لے کر کہا اگر مہمان آدھی رات کے وقت اور یوں بغیر اطلاع دیئے چلے آئیں تو ہم ان کا اسی طرح استقبال کرنے ہیں لیکن اب چونکہ تم ہی گئے ہو تو میں پوچھتا ہوں تمہیں آنے میں تاخیر کیوں ہوئی ؟ اے اندھیرے کے پاسبان اے میکو میزن ہاروت نے قدرے بے چین آواز میں کہا کیونکہ وہ باروت کے علاوہ اور کوئی نہ تھا ہم اس تاخیر کی معافی چاہتے ہیں۔ صدق دل سے معافی چاہتے ہیں حقیقت یوں ہے کہ جب ہمیں یہ اطلاع ملی کہ نم پیز اٹاؤن تک پہنچ گئے ہو تو ہم فور روانہ ہو گئے ہاکہ یوں کہو کہ روانہ ہونے کی کوشش کی کہ حسبو عدہ وقت پر یہاں پہنچ جائیں لیکن ہم بھی آخر انمان میں دیوتا تو میں نہیں کہ دشواریوں کو سمیٹ لیں ہمیں معلوم ہو چکا تھا کہ تمہارے پاس کتنا بہت سا سامان ہے اور ساز سامان کو لادنے کے لیے اونٹوں کا انتظام کرنا لازمی تھا اور ہمارے اونٹ ار ہو کے کہا تمھارا جام صحت آقا میکو میزن ہاروت و ماروت نے ایک زبان ان کے ہیکل کے مقدس جام ہوں۔ مانے یوں احترام سے رکھ دنے یا گویا میرے حلق میں انڈیلا اور پھر خالی جام سے سر پیچھے کی طرف ڈھلک کے جام کو اپنی گٹھلا کے پوچھا۔ اب کیا لینے آئے ہو ہاروت ؟ میں نے قدرے دونوں خاموش رہے۔ ہاروت و ماروت ! تمہیں یاد ہو گا کہ تم نے ایک خاتون کو ایک مالا تحفے میں 97 96 دی تھی اور پھر تم نے اس خاتون کو چرالے جانے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہے تے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس کے بعد تم انگلستان سے فرار ہونے میں کس طرح کامیاب ہو گئے ؟ اور پھر تم نے اس خاتون کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ ہ تم ہی تھے جو پہلی یا غالبا دوسری ناکامی کے بعد موقعہ کے منتظر رہے۔ اور پھر مصرے اس خاتون کو اٹھائے گئے باروت و ماروت ! میرے ان سوالات کا جواب دو۔ اگر تم کے جھوٹ بولنے یا مجھے البنانے کی کوشش کی تو میں اسی وقت اور اسی جگہ تم دونوں کا خانی کر دوں گا اور یہاں مجھ سے کوئی پوچھ کچھ کرنے والا نہ ہو گا اور نہ ہے۔ تمہیں قسم کے شیطان یادیو قامت یا جس کی پوجا کرتے ہو کہ میرے ان سوالات کا بچ بچ جواب دے معاف کرنا میکو میزن ہاروت نے مسکرا کے پر سکون آواز میں کہا اگر تم نے ہمارا خاتمہ کر دیا تو تم سے ایسے بہت سے سوالات پو دیکھے جائیں گے جن کے جواب تم دے سکو گے ۔ چنانچہ اس موت لانے والے ہتھیار کو اس کے خول میں رکھ دوار ہمارے سوال کا جواب دو۔ اور میرے سوال کا جواب نہ دو گے ؟” بے شک دیں گے۔ لیکن تم یہ بتاؤ کہ قدیم مصریوں کے دیو تامت کے متعلق تم کیا جانتے ہو ؟”۔ وہی جو تم جانتے ہو ” میں نے کہا۔ اور ان دونوں نے یوں سر جھکا دئے گویا میرا یہ جواب اطمینان نش تھا اور ال باروت نے کہنا شروع کیا۔ سنو میکو میزن یہ ہیں تمہارے سوالوں کے جواب۔ ہم انگلستان سے ایک جہاز میں سوار ہو کے افریقہ پہنچ گئے ریا مصر کا واقعہ ، جس کا ذکر تم نے ضمنا کر دیا ہے؟ اس کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے ہم بھی وہاں نہیں گئے اور نہ ہی ہم نے کسی خاتون اغوا کیا ہے بیچ تو یہ ہے میکو میزن کہ ہم اس خاتون کو جسے ہم نے ایک مالا دی تھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے البتہ اس سے چند سوالات پوچھنا چاہتے تھے اور وہ بھی اس کہ اسے قدرت کی طرف سے وہ خاتون مستقبل میں جھانک سکتی اور ہونیوالے واقان کی اطلاع دے سکتی تھین لیکن لیکن تم پے میں آدھمکے اور ہم اس خاتون سے کچھ نہ پوچھ سکے۔ یہ تو میں نہیں جانتا کہ سفید فام عورتوں یا اس ایک خاتون سے تمہیں کیا ینا دینا ہو سکتا ہے میں نے کہا البتہ یہ ضرور جانتا ہوں کہ تم اول درجے کے چھوٹے ہو لے کبھی میری ملاقات تم جیسے عظیم الشان جھوٹے سے نہیں ہوئی۔ میری اس سرزنش پر جو دوسروں کو مشتعل کر دیتی بارت و ماروت نے ایک بار پھر سر جھکائے کو یا میں نے انھیں جھوٹا کہ کران کی بڑی عزت افزائی کی ہے میکو میزن ہاروت نے بڑے ادب سے کہا مناسب ہو گا کہ ہم عورتوں کے ذکر کو ہمیں ختم کر کے ان معاملات کے متعلق گفتگو کریں جن کا تعلق مردوں سے سے ہم نے کہا تھا کہ تم ایک نہ ایک دن یہاں ضرور آؤ گے۔ اور دیکھو تم آگئے حالانکہ اس وقت تم نے ہماری پیشین گوئی کو جنسی میں اڑا دیا تھا ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تمہارے استقبال کو حاضر ہو جائیں گے سود دیکھو ہم حاضر ہیں ہمیں کیسے معلوم ہوا کہ تم آگئے ہو اور یہ کہ ہم کسی طرح یہاں تک پہنچے؟ سو اس سوال کا جواب دینا ضروری نہیں۔ اس ے متعلق تم خود ہی کوئی فیصلہ کر لو نفر طیکہ یہ ضروری ہو۔ ہاں تو میکو میزن اب کو کیا تم ہمارے ساتھ چلنے اور دیوتائے شر جانا کا خاتمہ کرنے کے لئے تیار ہو ؟ تو چلو کہ تمہاری سواری کا اونٹ تیار ہے۔ ایک اونٹ پر چار آدمی سوار نہیں ہو سکتے ہاروت میں نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے کہا۔ میکو میزن ! جہاں تک تمہاری پھرتی بہادری اور جرات کا تعلق شیک تم چار آدمیوں کے برابر ہو لیکن تمہارا جسم ایک ہے اور ایک اونٹ تمہارے لئے اگر تمہارا خیال ہے کہ میں تن تما تمہارے ساتھ چل رہا ہوں تو مجھے کہنا پڑتا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے میں نے کہا میرے ساتھ ایک ملازم ہے جس کے بغیر میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتا۔ اور میں نے بیٹس کی طرف اشارہ کیا۔ ہاروت و ماروت اپنی اس نظر سے ، جو میں اتر جاتی تھی ، بینس کے باطن کا جائزہ لینے لگے۔ 99 98 میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا :۔ اس کے علاوہ میرے ساتھ رسجنال بھی ہے جو افریقہ میں انجیرا کے نام سے مشہور ہے اور اس کے ساتھ اس کا ملازم ہے جو افریقہ میں بینا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ پنا ہی شخص تھا جس کے کپڑوں سے تم نے سانپ برآمد کئے تھے میں ان دونوں کو اپنے ساتھ لئے بغیر نہیں جا سکتا۔ لو میزن ہمارے خفیہ اور پر اسرار وطن کے دروازے تمہارے لئے صرف تمہارے لئے کھلے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تم جان کا خاتمہ کرو جس کے عوض ہم نے تمہیں انعام دینے کا بھی وعدہ کیا ہے تنہا تم ہمارے ملک میں آسکتے ہو۔ کسی اور کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ۔ و پھر تم ہی ہا تھی جان کا خاتمہ کرنا کیونکہ میں تو اپنے ان دوستوں کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھاؤں گا۔ لیکن اگر ہم تمہیں جبر اٹھالے جائیں تو ؟”۔ اور اے ہاروت و ماروت اگر میں اسی وقت تمہار خاتمہ کروں تو یہ قو خواس وقت میرے ساتھ بہت بہادر آدمی ہیں جو میرا اشارہ پاتے ہی تم پر ٹوٹ پڑیں گے اور اگر ضرورت ہوئی تو اپنی جان کی بازی لگا دینے سے بھی ذریع نہ کریں گے اگر تم یا جو بھی تمہارے ساتھ آئے ہیں ، جنگ ہی کرنا چاہتے ہو تو ہم بھی تیار ہیں۔ اگر تم لوگوں کے وانت نہ کھٹے کر دئے تو مجھے میکو میزن نہ کہنا ۔ بینس ! جاؤ ماز ٹیو لوگوں کو بیدار کر کے انھیں میرا یہ حکم سنادو کہ وہ مسلح ہو کر صف بندی کر لیں دیکھ لیا اور پنا کو لاکر آؤ ٹھر میکو میزن ! باروت نے کہا، اور یہ خطرناک ہتھیار رکھ دو۔۔۔ کیوں کہ ایک بار پھر میں اپنا پستول ہاتھ میں لے چکا تھا۔ حالانکہ ہم تمہارے بھی ہتھیار سے اس قدر محفوظ ہیں کہ تم تصور بھی نہیں کر سکتے اور حالانکہ تم ہمار بال بھی میکا نہیں کر سکتے لیکن تم تم جا جیسا چاہتے ہو ایسا ہی ہو گا۔ تمہارے ساتھی بھی ہمارے ساتھ جائیں گے اگر تم یو ٹھی چاہتے ہو تو یونی تھی۔ لیکن ہم ان کے متعلق کسی قسم کا کوئی وعدہ نہیں کر سکتے۔ اگر ان پر کوئی مصیبت آئی تو اس کے ذمہ داردہ خود ہوں گے اور ہم ہر الزام سے بری ہوں گے۔ البتہ ہم یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ مقدس روح نے ہمیں اطلاع رہے تو ان میں سے چند رہی ہے کہ اگر تمہارے ساتھی اس سفر میں تمہارے ساتھ موت کا شکار ہو جائیں گے۔” مطلب یہ کہ تم انھیں قتل کر دو گے ۔ میں سیکو سیزن ! ہمارا مطلب یہ ہے۔ ہے کہ کاندہ لینڈ میں چند ہستیاں ہم ہے۔ زیادہ طاقتور ہیں جو تمہارے ساتھیوں میں سے ایک دو کو بھینٹ چڑھا دیں گے۔ تم بے شک زندہ رہو گے کیونکہ تمہاری سلامتی مقدر ہو چکی ہے لیکن تمہارے تین ساتھیوں میں سے دو کے لئے موت مقدر ہو چکی ہے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ تمہارے یہ دو ساتھی کون سے ہیں۔” بہت عمدہ باروت و ماروت بہت عمدہ لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ میں بھی مارا نہ جاؤں گا ؟ یہ میں کیسے یقین کر لوں کہ تم مجھے دھوکا دیکر اپنے ملک میں ے جارہے نہ وہاں مجھے۔ بھی اذیتیں دے کر قتل کر دو۔ اور وہ بھی ہمار سازد سامان جھنے میں کرنے کے لئے مجھے تم پر اعتبار نہیں ہے ۔ تمہاری جان سلامت ہے سلامت ہے میگو میگو میزن میزن ! ! تمہیں ہم پر اعتبار کرنا چاہیے کیونکہ ہم قسم کھاتے ہیں جسے توڑنا ممکن میں ہم طفل مقدس کی قسم کھاتے ہیں" ہار و باروت نے ایک زبان ہو کے کہا اور پھر اپنے سر جھکائے یہاں تک ان کے ماتھے زمین پر ٹک گئے۔ میں ہنسا بے اعتباری کی مصنون نی۔ تم جنس رہے ہو میگو میزن باروت و ماروت نے کہا بے شک تمہیں ہنسنا ہی اہے کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اس شخص کی کیا حالت ہو جاتی ہے جو یہ قسم توڑتا ہے میں ہم پر اعتبار نہیں ہے میکو میزن تم سمجھتے ہو کہ ہم اپنی قسم توڑ دیں گے ؟ اچھی بات ہے آؤ اور دیکھ تمہارے نیمے سے پانچ قدم دور ایک دلکوڑا ہے جس کی چوٹی پر چڑھ کے تم صحرا کی طرف دیکھا کرتے تھے بے شک یہ جھوٹ نہ تھا الانکہ میں یہ نہ معلوم کر سکا کہ میری اس حرکت کا پتہ انھیں کس طرح چل گیا ( جاؤ میکو میزن ! ایک بار پھر لوڑے پر چڑھ جاؤ” 101 100 بے شک یہ نا عاقبت اند بیتی تھی لیکن میں شوق جس سے بے تاب تھا چنانچہ میں اٹھ کر ٹیمے سے باہر آیا اور و مکوڑے پر چڑھنے لگا ہاروت و ماروت و مکوڑے کے قدموں میں کھڑے تھے لیکن بیٹس میرے ساتھ تھا جو دونالی بندوق اٹھائے ہوئے تھا بغیر کسی رکاوٹ کے صحرا میں افق تک دیکھ سکتی تھی۔ در جو کہ اس پر کی در یا بھی نہ تھی اس لئے نظر ڈکو را کوئی میں فٹ بلند ہو گا۔ اور چونکہ اس پر کوئی در. شمال کی طرف دیکھو میکو یکو میزان ٹیلے کے قدموں میں سے ہاروت کی آواز سنائی دی میں نے گردن گھما کے شمال کی طرف دیکھا۔ صحرا کے سفید سفید ریت پر چاندنی بھری ہوئی تھی اور ٹیلے سے جس پر ہنیں کھڑا ہوا تھا پانچ سو گز دور دریت ریت . کے ایک ابھار پر اور ابھار کے عقب میں بھی وہ سو اونٹ اطمینان سے بیٹھے جگائی کر رہے تھے اور ہر اونٹ کے قریب ایک سفید پوش ایک لمبا سا بھالا لئے بے حس و حرکت کھڑا تھا ہر بھالے کے پھل کے نیچے ایک چھوٹی سی جھنڈی بندھی ہوئی تھی میں نکھیں پھاڑ پھاڑ کے اونٹوں کی قطاروں اور ہر اونٹ کے قریب کھڑے ہوئے سفید پوش کو دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ کہیں یہ نظر کا دھو گا تو نہیں لیکن نہیں یہ نظر کا دھو کا نہ تھا حقیقت تھی جب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ اونٹ اور انسان ہی تھے تو میں نیلے سے نیچے اتر آیا۔ اب کو میگو میزن باروت نے کا اگر ہم نہیں قتل کرنا چاہتے تو اپنے آدمیوں کے ساتھ تمہارے پڑاؤ میں گھس کے تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو سوتے میں ہی قتل کر سکتے تھے یا نہیں لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ہم دشمن نہیں دوست کی حیثیت سے آئے ہیں اور وہ لوگ جنھیں تم نے دیکھا ہے تمہیں قتل کرنے یا تمہیں غلام بنانے نہیں باسعہ تمہیں بہ حفاظت کا ندہ لینڈ تک لے جانے اور تمہارا استقبال کرنے آئے ہیں یقین کرو میکو میزن ہم تمہارے دوست ہیں اور ہم نے نہ ٹوٹنے والی قسم کھائی ہے یقین ہے اب تم ہم پر اور ہماری قسم پر اعتبار کر لو گے اب ہم اپنے ساتھیوں کے پاس جارہے ہیں۔ صبح جب تم ناشتے سے فارغ ہو لو گے تو ہم نہتے اور تما پھر تمہاری خدمت میں حاضر ہو جائیں گے چنانچہ تب تک کے لئے الوداع ” اور وہ دونوں آگے بڑھ کے نظروں سے او جھل ہو گئے۔ دس منٹ بعد ہی کا نہ لوگوں کی آمد کی خبر ہمارے پڑاؤ میں پھیل چکی تھی اور شخص بیدار ہو کے مسلح ہو چکا تھا ابند میں مازیولوگوں میں خوف و ہر اس کے آثار نظر آئے لیکن میں باما کی مدد سے ان کا خوف دور کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اٹھیں جاؤ کی تدبیر میں کرنے کی طرف متوجہ کر دیا احتیاط بہر حال لازمی تھی اور یہ تو بہر حال حقیقت تھی کہ اگر ہم پر حملہ ہوا تو ہم تیوں کے علاوہ کوئی اور اپنی جان بچا کے نہ لے جا سکتا تھا اور ہم تین ۔۔۔۔ یعنی میں رسجنال اور سیویج اس لئے بچ سکتے تھے کہ ہمارے پاس ھوڑے تھے۔ 이 ہ سالار مقرر کر کے ہم تینوں اور چوتھا بیٹس مشورہ کرنے بیٹھ گئے میں نے وہ ساری گفتگو لفظ بہ لفظ و ہرادی جو میرے اور باروت و کاروت کے درمیان ہوئی تھی اور آخر میں لارڈر سجنال سے کہا کہ باروت و ماروت خاتون ر مجبنال کے اغوا سے اپنے آپنے قطعی بری ثابت کر رہے ہیں ائمہ انھوں نے صاف صاف کہلایا ہے کہ وہ خاتون رسجنال کی گمشدگی کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ اب میں نے پوچھا ہمیں کیا کرنا چاہنے ؟ 103 102 میرے لئے تو اسب سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ چلا جاؤں وہ ہر جائز ونا جائز طریقے سے مجھے اپنے ساتھئے جانا چاہتے ہیں اور سب اس کا یہی بتاتے ہیں کہ جانا کی موت میرے ہاتھوں پر لکھی جاچکی ہے لیکن وہ لوگ کسی اور کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے تیار نہیں ہیں چنانچہ ریجنال تم اور سی سنج اور بینس تم بھی مازیو لوگوں کے ساتھ واپس جا سکتے ہو آہ باس بیٹس نے کہا جو انگریزی زبان نہ صرف سمجھ بلکہ بول بھی لیتا تھا اور تم کو کیا عادت ہو گئی ہے کہ ہر دفعہ اپنی باتوں سے میرا دل دکھا دیتے ہو ؟۔” جو تم کرو گے میں کروں گا اور جہاں تم جاؤ گے میں بھی جاؤں گا اگر مجھے مرنا ہے تو مر جاؤں گا پھر موت کسی بھی طرح سے آئے مجھے اس کی پروا نہیں اب باس میں رات بھر جاگنا اور اونٹوں کی آوازیں سنتا رہا ہوں اس وقت اونٹ کا یہ لشکر بہت دور تھا لیکن چونکہ پہلے کبھی میں نے اونٹوں کی آوازیں نہ سنی تھیں اور اونٹ چونکہ زراف کی طرح نہیں چلنے اس لئے میں سمجھ ہی نہ کا کہ یہ کیسی آوازیں ہیں بہر حال چونکہ میں ان دو بھوت آدمیوں کی آمد تک جاگتا رہا ہوں اس لئے اب میری آنکھیں جلنے لگی۔ چنانچہ اب میں تو سوتا ہوں جیسا تم کوئی فیصلہ کر لو باس تو مجھے بیدار کر دینا اور وہ وہیں پڑ کر سو رہا میں نے سوالیہ نظروں سے ریجنال کی طرف دیکھا میرا وہ قدم جو آگے بڑھ جاتا ہے پھر پیچھے نہیں بنتا کو اتر میں وہ بلا میں کا ندہ لینڈ میں ضرور جاؤں گا۔” باوجود اس کے کہ باروت و ماروت تمہاری بیدی کے متعلق کچھ نہیں جانتے ؟ میں نے کہارسنال ! اگر باروت و ماروت نے غلط نہیں کہا ہے اور واقعی تمہاری بیوی کاندہ لیند میں نہیں ہے تو پھر وہاں جانے سے فائدہ ؟ اور نمی شوق تجنس یا ایک دلچسپ تجربہ اور کیا کیوں ؟ ریجنل نے کہا اگر ہاروت و ماروت نے بیچ کھا اور اگر وہ واقعی میری بیوی کے متعلق کچھ نہیں جانتے تو پھر میری زندگی میں رہ بھی کیا جاتا ہے ؟ اگر کاند مینڈ میں میری بیوی نہیں ہے تو نہیں کی طرح مجھے بھی اپنی زندگی کی پروانیں اگر میری قسمت میں یہی لکھا بیحہ دیار غیر میں اپنی موت کو لبیک کہوں تو یونی سی لیکن کو ترمین باروت و ماروت صل ہو چھ کیا ہے اس کا ایک نق بھی سچ نہی میں ہے ہے کہ کوئی میمی آواز نے میری بیوی کے متعلق جو کچھ میرے کان میں کہہ رہی ہے کہ انھوں نے جو پچھ کہا ہے وہ جھوٹ ہے وہ میری بیوی کی گمشدگی کے متعلق بہ کچھ جانتے ہیں لیکن کسی وجہ سے کا علمی ظاہر کر رہے ہیں اور یکی وجہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں تمہارے ساتھ نہ چلوں اور یہیں سے لوٹ جاؤں تمہارا میرے ساتھ چلنا مناسب ہو گایا نہیں اس کا فیصلہ اب تم ہی کر نور سجنال میں نے کہ اور خدا کرے کہ تمہارا فیصلہ غلط نہ ہو سیو میچ تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ لیکن کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ سوچ تو کہ باروت و فاروت ننے کہا کہا ہ ہے کہ کہ ہم اگر چاروں ان کے سا تھ گئے تو ہم میں صرف دو سوی زندہ دیں آئیں گے یہ بات تو سمجھ میں نہیں آئی اسمہ نا ممکن معلوم ہوتی ہے کہ وہ دونوں مستقبل میں جھانک سکتے ہیں اس ۔ تو نہیں بھی انکار نہ ہو گا کہ پر اسرار باروت و ماروت کی اکثر پیشن گوئیاں سیح ثات ہوئی یں۔ صاحب ! سیون نے کہا ان دو میں سے جن کی موت کی پیشن گوئی ان دو جادو کروں گنے کی ہے، اگر ایک میں ہوں تو یونی سی۔ میری ایک بوڑھی ماں ہے ، ایک ؟2 ین ہے اور اس کے پئے ہیں۔ لیکن انگلستان سے روانہ ہونے سے پہلے سرکار نے میری ہے چنانچہ میں مطمئن ہوں ال من اور اس کے چوں کے لیےماہانہ وظیفے کا انتظام کر دیا کہ میرے بعد وہ بھوکوں نہ مریں گے۔ اس کے علاوہ اگر میں اکیلا مازیو لوگوں کے ساتھ واپس گیا تو ظاہر ہے کہ ان کی بستی میں ہی رہ پڑوں گا کیونکہ میں ساحل تیک نے کے راستے سے واقف نہیں۔ اور اگر میں مازین لوگوں میں ہی رہ پڑا تو انہی لوگوں ساتھ چل رہا کی طرح جنگلی بن جال گا اور یہ میں چاہتا نہیں چنانچہ میں بھی آپ کے ہوں آگے جو خدا کو منظور ” بات دہرائی اور پھر کہا۔ بے شک آگے جو خدا کو منظور ۔ میں نے اس کی کی طرف روانہ ہو رہے چنانچہ یہ ملے رہا کہ ہم چاروں اس انجان مہم اور ان دیکھے ملک ہیں۔ اب مناسب ہو گا کہ ہم با مبا کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیں۔” چنانچہ فراہی بامبا کو طلب کیا گیا۔ اس نے ہمارے اس فیصلے کو خلاف توقع سے صبر و سکون سے سنا اور جب میں خاموش ہوا تو اس نے اپنی اکلوتی آنکہ میرے ے پر گاڑ کے کہا :۔ 105 104 میکو میزن ! تم سے مجھے اسی فیصلہ کی توقع تھی۔ تمہاری جگہ اگر کسی اور سا یہ فیصلہ کیا ہوتا تو میں اسے پاگل سمجھ لیتا لیکن مجھے یاد ہے کہ جب تم ہونگ لوگوں میں جاننے کا فیصلہ کر چکے تھے تو میں نے یہی کہا تھا کہ تم پونگولینڈ میں عجیب و غریب کارنامے انجام دے کر صحیح سلامت واپس آگئے تھے اور مجھے یقین ہے کہ اس دفعہ بھی صحیح سلامت واپس آ جاؤ گے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ چند روحیں ہیں جو تمہارے ساتھ جاتی اور تمہاری حفاظت کرتی ہیں ، رہے تمہارے ساتھی تو ان کے متعلق کو نہیں جانتا۔ وہ جائیں اور ان کی محافظ روحیں جاتیں یا پھر کاندہ لوگ جائیں۔ میکا میزن ! الوداع کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم پھر نہ مل سکیں گے۔ بہر حال مون سب کو آتی ہے اور یہ اچھا ہوا کہ اس زندگی میں میری ملاقات تم سے سے ہو ہو گے گئی۔ اگر مر تمہاری واپسی سے پہلے مر گیا تو میں دوسری دنیا میں بھی، جو کہتے ہیں کہ سایوں کیو ہے، تمہیں یاد کر تار ہوں گا اور امید ہے کہ تم بھی مجھے فراموش نہ کرو گے۔ اب میں کر اپنے لوگوں کو اسی جگہ سے ہٹ جانے کا حکم دیتا ہوں۔ ہاں۔ اس سے پہلے کہ وہ سند وش اگر تمہیں لے جائیں ہم یہاں سے ہٹ جانا چاہتے ہیں مباواوہ لوگ ہمیں بھی اے ساتھ لے جانا چاہیں اور ہم سفید پوشوں سے جنگ کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ تمہار اسان ان بند ها بندهای اور تیار ہے چنانچہ سفید پوش کر اسے اپنے جیبو غریب جو الوں لاد سکتے ہیں۔ اگر سفید پوش کہیں کہ گھوڑے صحرا کو عبور نہ کر سکیں گے تو تما گھوڑے ہیں چھوڑ دینا۔ تمہارے رخصت ہو جانے کے بعد ہم اگر کر ان گھوڑوں کو لیں گے اور اپنے وطن میں لے کے جائیں گے اور چونکہ ان میں گھوڑیاں بھی ہیں۔ لیے ان کے بچے ہوں گے اور میکو میزن ! جب تم واپس آؤ گے تو یہ سارے گھوڑ تمہارے ہوں گے اور اگر تم واپس نہ آئے تو ہمارا بادشاہ و سی ان کا مالک ہو گا۔ نہیں میزن! ہمیں کوئی تحفہ نہیں چاہئے۔ تم نے اپنی بندوق مجھے دی ہے سو وہ کافی ہے اور ہا تھی وانت میں تمہاری طرف سے بادشاہ کے حضور پیش کر دوں گا اور ہاں تمہاری وقت ہمارے دل میں قائم رہے گی۔ وہ ، جس کی تم پر سٹش کرتے ہو، تمہار اور تمہارے ساتھیوں کا محافظ ؟ اس نیلے پر کھڑے ہو کر تمہیں اس وقت تک جاتے دیکھتے رہیں گے جب تک کی نظروں سے او جھل نہیں ہو جاتے۔ الوداع میکو میزن ! الوداع الجير ! الوداع بیا اور الوداع اے اندھیرے کی روشنی ۔” اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے وہ اپنی اکلوتی آنکھوں سے آنسو بہا تار خصت ہوا۔ دس منٹ بعد مازین بار بردار ہمیں سلام کر کے رخصت ہو چکے تھے اور ہم اپنے زو سامان کے درمیان اور اس وحشت انگیز مقام میں تھا پیتے ہوئے تھے اور جہاں تک ہے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت میں عجیب طرح کی اداسی اور تنہائی میرا تعلق اور محسوس کر رہا تھا۔ دس منٹ اور گزر گئے اور یہ دس منٹ ہم نے اپنی نجی چیزیں سمیٹنے باندھنے میں صرف کئے اور پھر بیٹس نے، جو چند قدم دور بیٹھا کافی کی تبلی دھو رہا تھا سر ہے ” اٹھا کے کہا باس ! وہ بھوت آدمی اور ان کی پوری کی پوری فوج آرہی نہ کہا تھا۔ اونٹوں کا پورا رسالہ بڑی ہم اٹھ کر آگے دوڑ گئے۔ بیٹس نے غلط اور ہر سفید ترتیب سے ہماری طرف بھاگا آ رہا تھا۔ ہر اونٹ پر ایک سفید پوش سوار تھا پوش کے ہاتھ میں ایک بھالا تھا اور ہر بھالے پر ایک چھوٹی سی جھنڈی لہرا رہی تھی۔ بڑا ی مسحور کن اور مرعوب کن منظر تھا۔ ہم سے کوئی پچاس قدم دور کر شتر سواروں نے یں کھینچ لیں، اونٹوں کی گردنیں کمان ہو کے ان کے سر کوہان سے لگ گئے اور وہ ایک دم سے رک گئے عین اس جگہ جہاں وہ چشمہ ، جو نخلستان کو قطع کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ ز میں داخل ہو گیا تھا۔ اور اب سوار اپنے اونٹوں کو پانی پلا رہے تھے۔ بیک وقت بیس دنوں کی گرد ہیں جھنے پر جک جاتیں اور جب یہ سیر اب ہو کر پیچھے ہٹ جاتے تو دوسرے میں اونٹ آگے بڑھ کے چشمے پر اپنی گردنیں جھکا دیتے۔ لیکن لیکن: ہمیں یہ دلچسپ منظر زیادہ دیر تک دیکھنے کو نہ ملا کیونکہ فورا ہی دو سائے، جو ہاروت و ماروت کے علاوہ وئی اور نہ تھے ، اونٹوں کی قطار میں سے نکل کے ہماری طرف بڑھے اور چند منٹوں بعد ی وہ ہمارے سامنے کھڑے کو رنش مجالا ر ہے تھے۔ صبح خیر آقا ہاروت نے اپنی گو بجدار آواز میں رسجنال سے کہا تو تم بھی میکو میزان کے ساتھ ہمارے غریب خانے کو رونق کتنے آرہے ہو؟ تمہارا خیال ہے کہ وہ ینہ، جیسے ہم نے ملا تحفتہ دی تھی، ہمارے یہاں آگئی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں ایک بھی اجنسی سفید فام خاتون نہیں ہے۔ پوری داستان ہم میکو میزان 107 106 سے سن چکے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ وہ حسینہ دریائے نیل میں غرق ہو چکی ہے خصوصاً اس لیے کہ اسے نیند میں چلنے کی عادت تھی ہمیں اس بات کا دکھ ہے آقا کہ اب تم تمارہ گئے ہو لیکن دیوتاؤں کے بھی دیو تا جانیں۔ وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں، جسے چاہتے ہیں۔ اپنے پاس بلا لیتے ہیں اور ہم دم نہیں مار سکتے۔ تاہم امید ہے کہ وہ تمہیں پھر مل جائے گی اور اس وقت وہ پہلے سے بھی زیادہ حسین ہو گی اور اس وقت اس کا دماغ ٹھکائے آپ کا ہو گا۔ اور وہ پوری طرح اپنے حواس میں ہو گی۔” اور یہاں میں نے حیرت اور غصے سے باروت کی طرف دیکھا کہ اسے میں نے ہ بتایا تھا کہ خاتون رسجنال ایک واقعہ کی وجہ سے اپنے حواس گنوان بھی تھی۔۔۔ پھر بات اسے کیسے معلوم ہوئی؟ میرا خیال ہے کہ ہاروت و ماروت نے میرے چہ سے پر کے جذبات دیکھ کے سمجھ لیا کہ وہ باتوں کی زد میں ایک ایسی بات کی۔ کیا ہے نہ کرنی چاہئے تھی چنانچہ اس نے بڑی مہارت سے موضوع بدل کے کیا آتا خیر ہم میں خوش آمدید کہتے ہیں یکن یہ بتادیا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ سفر بہت زیادہ خطرناک ہے خصوصاً اس لیے کہ ہاتھی جانا اجنبیوں کو پسند نہیں گرتا اور اس نے آواز دیا کے کہا۔ اور ہاتھیوں کو تمہارے خون ، جسم کی بو سے نفرت ہے اور چونکہ سارے ہاتھی ایک ہی نسل سے ہیں اس لیے ایک ہاتھی کو جس چیز سے نفرت ہوتی ہے دوسرے کو بھی اسی سے نفرت ہوتی ہے میں تمہارے چہرے پر کے جذبات دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ کسی ہا تھی نے تمہیں یا تمہاری اس چیز کو ، جو تمہیں سب سے زیادہ عزیز تھی، نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے علاوہ کاندہ لوگ فطر نا بڑے ہی نضبناک ہوتے ہیں اور جنگ و جدل کو پسند کرتے ہیں اور ہو سکتا ہے۔ کہ جب تم ہمارے ملک میں مقیم ہو تو اس وقت جنگ چھڑ جائے اور تم جانو جنگ میں لوگ مارے جاتے ہیں۔” دیتے میں سے نہیں ہیں جو وعدے کو بھلا کو لے چلیں گے اور ہم ان لوگوں اور ا باروت نے اپنی نگاہیں سیو تیج پر گاڑ دیں۔ ہے نا تمہارا ؟ ہم تمہیں بھی خوش آمدید تو تم بھی آرہے ہو جنیا ؟ وہ والا یہی نام کی کتے ہیں اس سفر سے تمہیں کم سے کرانا تو فائدہ ہو گا کہ تم سانپوں کے متعلق بہت باتیں جان لو گے ۔” اور یہاں ماروت نے باروت کے کان میں کچھ کہا اور دونوں کھل کر مسکرائے ی بارورت نے کہنا شروع کیا میرے بھائی نے مجھے بتایا ہے کہ یہاں آتے وقت ایک جگہ جو نال کے سے مشہور ہے ، تمہاری مد بھیڑ ایک، سانپ سے ہو و گئی گئی تھی لیکن تم اپنے پورے ہو جھ کو سمیٹ اس پر بیٹھ گئے تھے اور اسے بالکل ہی چہائی بنا با تھا اور وہ سانپ بجائے اس کے کہ تمہیں دستا خود ہی مر گیا ۔ ” ہ ۔۔ یہ ۔۔ کس نے تایلات سیو میج نے گھبرا کے پوچھا۔ نے اور نہ کسی اور نے کسی نے بھی نہیں بنیا کسی نے بھی نہیں۔ نہ میکو میزان کن ہے کہ یہ بات تم نے ماروت کو خواب میں بتائی ہو۔ تم جانو ماروت بہت زبردست ار کر رہے چنانچہ ہو سکتا ہے کہ اس نے تمہیں اپنے خواب میں بلا کے خود تم سے یہ ساری باتیں پوچھ لی ہوں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سانپ ماروت نے ہی بھیجا ہو۔ کس فرن کی یہ نہ پوچھو۔ بہر حال کا ندہ لینڈ میں ہم تمہیں قسم قسم کے عمدہ عمدہ سانپ دکھائیں گے۔ لیکن تم کہیں ان پر بھی نہ بیٹھ جانا۔” یہ مذاق بڑا ہی میں نہیں جانتا کہ کیوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مجھے ہاروت کا ھیانک معلوم ہو اس کے اس نداق میں کوئی خاص بات تھی جس کی وجہ سے مجھے پھر یہاں کی گئیں بانکل ایں ہی جیسی نہ ہی کو ٹیم جان چوہے سے کھیلتے دیکھ کے آپ کو ؟ ساتھ چل رہا ہوں۔ جیسا کہ میکو میزن نے تم سے کہا تھا کہ یا تو ہم سب ساتھ جائیں باروت کچھ بھی ہو میرے عیار دوست مجال نے کا میں بہر حال تمہارے ربان ہوں گی۔ اس کے علاوہ میں نے یہ بھی محسوس یا کہ ڈھکے چھے لفظوں میں گے یا پھر کوئی نہ جائے گا۔” سویچ کی موت کے متعلق پیشین گوئی کر رہا تھا۔ یا کسی مصیبت کی طرف اشارہ کر رما حیرت تو اس بات پر تھی کہ ان لوگوں کو وہ واقعت معلوم ہو جاتے تھے جو سینکڑوں واقعی ان کے اس تھے اور جو کہ مہتم ویدہ نہ ہوتے تھے کیا نے وعدہ کیا تھا کہ میں دور وقوع پذیر ہوتے ٹھیک ہے آقا اسمیرا میکو میزن نے یونی کہا تھا اور ہم 109 108 خاص تمباکو میں جس میں دھوئیں میں میں نے ہاتھی جانا اور ہاتھیوں کے قبرستان دیکھا تھا، کوئی خاص بات تھی جو ہاروت و ماروت کو غیب داں بنا دیتی تھی اور میلوں اور ہونے والے واقعات کو یہ لوگ دیکھ لیتے تھے ؟ یا پھر خبریں معلوم کرنے کا کوئی اور ذریعہ تھان کے پاس ؟ میں نے نکھیوں سے سیویج کی طرف دیکھا۔ بچار سیویج اس کا رنگ فق نی میں کہا۔ اور منہ کھلا ہوا تھا حتی کہ بیلس بھی کا نے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے میرے کان باس! یہ لوگ انسان نہیں بلکہ شیطان ہیں اور ہم یہ سفر کر کے نہیں او نہیں بالکہ دوزخ میں جارہے ہیں جو شیطانوں کا مسکن ہے۔ تین گھنٹے بعد میں اپنے بے حد عمدہ اور تیز رفتار سفید اونٹ کو ریت کے ایک طرف جہاں سوائے موت کے اور کچھ نہیں۔ ہمارے سفر کا طریقہ یوں تھا۔ ہم سے کوئی ایک میل آگے دس کا ندہ نہایت ہی تیز رفتاراونوں پر سفر کر ہے تھے یہ گیا ہمارا اطلا یہ تھا۔ ان لوگوں کا یہ کام تھا کہ اگر آگے کوئی خطرہ دیکھیں تو ہیں نبردار کر دیں۔ ان کے بعد اور ہم سے کوئی تین چاسو گز آگے پچاس کا ندہ کا ایک ھیں بنائے چل رہا تھا ان کے بعد باربردار تھے۔ یہ بھی اونٹوں پر سوار تھے ان کے بعد پھر اونوں کی ایک قطار تھی اور ان اونٹوں پر پانی کے کفستر ، خوراک اور ہمار مامان الدا ہوا تھا اور حال کے خیمے بھی اٹھی اونوں پر لدے ہوئے تھے اسی سامان میں وہ ہندو میں اور کار توسوں کے ڈبے تھے جور سجنال انگلستان سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ ان میلے کی چوٹی پر روک کے دوربین آنکھوں سے لگائے پیچھے دیکھ رہا تھا اور بہت دور، گیا او گو با اونٹوں کے بعد ہم تین سفید فام تھے اور چو تھا میس تھا۔ ہم چاروں نہایت ہی تیز رفتار ونٹوں پر ہوار تھے۔ ہمارے دائیں طرف اور بائیں طرف اور ہم سے کوئی نصف میل سے چیکا ہوا ایک نیلا داغ نظر آرہا تھا۔ یہ وہ نخستان تھا جہاں ہم نے مازی لوگوں ۔ اتھ قیام کیا تھا اس لیے داغ می ایک دوسر سفید و بند داغ نظر تھا۔ یہ و پا کے فاصلے پر انہوں کا یک منحصر سادستہ تھاور ہارے پیچھے یہ کا نہ ہزا دونوں تھی جس کی چوٹی پر چڑھ کے میں نے چاندنی رات میں کا ندہ لوگوں کے اس دینے دیکھا تھا جو ہمارے استقبال کو گویا صحرا کے ریت میں سے نکل آیا تھا۔ درخت جھاڑیاں اور گھاس کے میدان اور ہمارے دوستوں کی آبادیاں پیچھے ۔۔۔۔ بہت چھوٹ گئی تھیں اور آگے صحرا پھیلا ہوا تھا اور صحرا کے دوسرے کے مرے پر ملک ماری انجان منزل تھی۔ انجانے اور وحشی لوگ تھے۔ انجانا اور وحشت انگیز اسے اس انجانے کے جہاں ہمیں قیامر ہاتھ اور ہم میں خدا جانے کس کی موت تھی جو کی طرف لیے جارہی تھی۔ خدا جانے کون سے خطرات اپنی آغوش دا کئے جار انتظار رہے تھے۔ خدا جانے ہمارا انجام کیسا ہونے والا تھا۔ پہلے بھی میں کئی مہمات سر کی تھا۔ پہلے بھی دشوار گزار راہوں کو سمیٹ کے افریقہ کے انجانے خطوں اور ہو کرتے چلے آرہے تھے۔ اور اس ترتیب سے ہم صحرا میں سفر کر رہے تھے اور صاف نظر آتا تھا کہ فرار تمام راہیں مسدود تھیں اب اگر ہم واپس چاہتے بھی تو نہ لوٹ سکتے کیوں کہ میں یہ بتانا تھا۔ وہ دونوں پر اسرار شخص ہاروت و ماروت ہمارے عین پیچھے اپنے اپنے بھول گیا؟ نوں پر سوار چلے آرہے تھے وہ دونوں ہم سے ذرا دور تھے۔ لیکن نہ اتنے کہ ہم انہیں نواز دیں تو وہ ہماری آواز نہ سن سکیں۔ ابتدا میں اونٹوں کی سواری بڑی تکلیف دہ معلوم ہوئی مجھے بھی اور میرے ساتھیوں کو بھی میں پہلے کبھی اونٹ پر سوار نہ ہوا تھا چنانچہ اس کی سبک رفتاری نے مرے انجر پنجر ڈھیلے کر دیئے اور پہلے دن کے سفر کے بعد جب ہم نے قیام کیا ہے تو ں پہنچ گیا تھا۔ لیکن ی سفر اور یہ مہم اپنی طرز کی پہلی ھی پہلے کی مہارت پر میں پر بھری ہی حالت تھی کہ میں اپنے آپ اونٹ پر سے ارہ سکتا تھا۔ چنانچہ چار آدمیوں نے معلومات حاصل کر کے روانہ ہوا تھا لیکن اس مہم میں اس اندھے کی ط چلا تھا جی نیا کے نھے اونٹ پر اٹھایا اور آہستہ سے زمین پر دھردیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح تھی کا ایک سرا کسی اور کے اتھ میں ہو اور اندھانہ جانا ہو کہ راستہ بنانے والا اور پھر پر سے آنے کی پوریاں اتارتا ہے۔ ادھر اونٹ کے چلنے کے جھنگوں سے طرح لیے جارہا ہے کسی ایسے باغ کی طرف جہاں زندگی ہے یا کسی ایسے ویا کی بیوی کی حالت بھی غیر ہو رہی تھی۔ جب وہ اونٹ پر سے اتا ہے تو یوں معموم 111 110 ہوتا تھا جیسے اس کا موٹا جسم کے کے ہو ہوئے ۔ اور کھلے ہوئے اہم کی طرح پلیلا ہو گیا ہو سونال کی حالت ہم دونوں سے بہتر تھی۔ شاید وہ پہلے بھی اونٹ کی سواری کر چکا تھا۔ بین میں کی حالت ہم سب سے بہتر تھی کیونکہ وہ دن بھر اونٹ کی کمر پرنٹ کا تماشہ دکھا رہا تھا۔ کبھی تو وہ اپنی دونوں ٹانگیں ایک طرف لنکا کے یوں بیٹھا جاتا جس طرح عور میں سے سیر اندازہ تھا اور حقیقت جاتے ہوں گے لیکن یہ صرف راستے تجارتیسے قافلے ہو اس اندازے کو صحیح تھا تو پھر میرے اگر میرا یہ اندازہ صحیح کاندہ واقف تھے اور میں ہمیں نہ تھا کیوں کہ راستے کوئی قافلہ نہ گزرا سے اس راستے سے جائے کہ صدیوں گھوڑے پر بیٹھتی ہی بھی وہ کر ہوں بیٹھتا اور بھی وہ اور کی کمر پ ٹانگیں لبی، کر ہی کہیں زندگی کی علامتیں پڑی نظر آئیں اور نہ جانوروں کی ہڈیاں تو اونٹوں اور دوسرے کے نیم دراز ہو جاتا اس کے علاوہ چونکہ وہ وبلا پتلا اور بیکا پھلکا بھی تھا اس لیے شاید اونی کی رفتار کے تھی کے اس کے بدن اور ہڈیوں پر اثر انداز نہ ہوئے تھے۔ C یا محسوس تھا مکمل ترین ویرانی اگر کہیں دیکھی پور احر اور ان غیر آبا او وحشت انگیز تھا سوائے کی جا سکتی ہے۔ اس حر میں کچھ نہ جاسکتیی ہے تو وہ اس صحرا میں محسوس ن رفتہ رفتہ میں اے ٹی ساری کا اس قدر عادی ہویا کہ دن بھر کے سرے رکھا تھا۔ آ کر سحر کی یکسانیت اور اس کی حالت میں نظیر نظر ہم ہے تو مسکن بنا نے دور بکھرے ہوئے نخلستان کو اپنا چھوٹے چھوٹے جانوروں کے جنھوں پچاس میں ذرا بھی تھکن من محس محسوس کئے بغیر طے کر لیتا تھا۔ اس کے علاوہ کی دنیائے تیک کا سکون اور خاموشی مجھے پسند آئے گئی تھی۔” کے بعد دیگرے دن اپنی مخصوص رفتار اور یکسانیت سے گزرتے رہے اور ہم اس خاموش پر سکون اور ویران صحرا میں سفر کرتے رہے۔ ہم سورج کو طلوع ہوتے دیکھتے ، اسے نصف النهار پر پہنچ کے آگ بر سان کی ریت نے جھاڑیوں نظر آئیں اور آگے بڑھے تو صحر شیب میں گھاس کی اکاد کا پتیاں کے چھدے درخت پھر درختوں جھاڑیوں کے بعد چھدے کے لیے جگہ چھوڑ دی تھی سے تھے میں نے دو کہ ان میں چنیل افراط میں زندگی تھی کیوں بھنڈ اور ان جھنڈوں کر دیا جس سے ثامت ہوا نے کاندہ لوگوں کو دم خود پھیل شکار کئے تو میری اس حرکت میں نہ آئی تھی تھے اور یہ بات ان کی سمجھ استعمال سے واقف نہ ہ وہ بندوق اور اس کے کھتے اور پھر اسے غروب ہوتے دیکھتے۔ ہر رات قیام کر کے ہم اور شرکھا کر مح دھکوں کی اسے میں نے دینوں کو بر کر لی۔ میں نے ایک نئی بات دیکھی رغبت سے بھیا ہوا گوشت کھا ہے تھے تو تک کہ جن مشرق سے ایک بار خوان پر بیٹے بڑی کرتے اور انہیں دیکھتے ہی دیکھتے سو جاتے یہاں کر کے ان کے الٹی کے بیرت انگی دانی کر کی دو بعد اس رات میں گوشت کھانے کوٹ نے جب ہوت ور اکر نے گا اور ہم اپنے اپنے ہر پر سوار ہو کے گزشتہ دن کی ہی ترتیب جود یہ کہ اس رات ہمارے کی کی ترتیب تبدیل کر دی گئی تھی۔ آگے روانہ ہو جاتے۔ اس تمام سفر میں ہم نے بہت لم کم گفتگو کی ہو گی یوں معلوم ہوتا تھا۔ جیسے ہے۔ کی وحشت انگیز خاموشی نے ہمیں اپنے اثر میں لے کر ہمارے ہونٹوں پر ہمارا کیمپ بے ہم نے قیام کیا تھا تو اس وقت اس رات سے پہلے جب بھی لیکن اس رات تھا پنا خیمہ لا یا تھا تھا یعنی جس کا جہاں جی چاہتا تیب اور پھیلا ہوا ہوتا کیمپ کو گویا سمیٹ لگائے گئے تھے اور اس طرح ریب قریب اور ایک دائرے میں بجائے خلاف معمول نشیب کی علاوہ اس رات ہمارا کیمپ رکر لیا گیا تھا۔ اس کے کو چرنے کے لیے کھلا خاص بات یہ دیکھی کہ اونٹوں ایک بلند مقام پر تھا۔ دوسری خاموشی ثابت کر دی ہو۔ چنانچہ ہم نے پانچ سو میل طے کر لیے اس سفر میں ہم چشموں یا پانی میدان میں چھوڑ دیا کی اور ڑھوں کے پاس تھوڑی دیر کے لیے رک جاتے ان پی پی کر تازو جان کنکی جائے پڑاؤ سے تھوڑی دور بھاری کے ایک نوش اور دوسری نکلے دیں۔ تیسری بات یہ کہ اشیائے خور دو ہوا کہ زمانہ قدیم میں کامیان سے اہر نہ اں دن بھر کا سفر ختم ہوتا تھاکہ میں سوچنے پر مجبور نی کے گھڑے اور کنویں اس اے میں اتنے سے تے اور میک ان مقامات پر کی مدان کے چاروں طرف منع سنتری متع دیئے گئے دیکھ کو 113 112 کر ، جو کیمپ کے عین قلب میں تھے ڈھیر ضروری چیزوں کو ہمارے ٹیموں کے قریب چنانچہ میں نے بتنی غیر ضروری معلوم ہوئیں اتنی ہی حیران کن بھی معلوم ہوئیں۔ کاندہ مقرر کئے گئے۔ یہ تبدیلیاں مجھے یا گیا اور ان چیزوں کی حفاظت کے لیے بھی مسلح وجہ پوچھی۔ باروت و مارت سے ان تبدیلیوں اور اس احتیاط کی یہ احتیاط اس لیے ہے کہ اب ہم کاندہ لینڈ کی سرحد پر پہنچ گئے ہیں۔" باروت نے جواب دیا اب صرف چار دن کا سف باقی رہ گیا ہے اور پھر ہم کا ندہ لینڈ میں ہوں گے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ احتیاط کیوں؟ ظاہر ہے کہ تمہارے ہم وطن تمہارا و استقبال تو کریں گے لیکن شاید بھالوں سے میگو میزن کاندہ ایک نہیں استقبال کریں گے۔ علاوہ وہ بھی ہیں جو کالے کا ندہ کہلاتے ہیں۔ سفید اور کالے۔ ہم سفید ہیں لیکن ہمارے سے اگر ان پر ہیں۔ تفریاد گئے ابتدا میں ہم نے جنوب ہیں اور کالے کا ندہ ہم سے زیادہ تھا۔ کم سے کم ہماری تاریخ تو یو نمی کہتی ہے۔ فتح حاصل کر لی تھی اور انہیں اناما تحت نالی کالے کا ندہ کے علاقے میں الگ ہے لیکن وہاں جانے کا راستہ سفید کاندہ کا یعنی ہمارا علاقہ ہے ہی نہیں اس نے کے علاوہ چونکہ کوئی اور راستہ سے گزرتا ہے۔ اس ایک راستہ بہت ممکن ہے کہ وہ لوگ ؟ ہمیں کالے کاندہ کے علاقہ میں سے گزرنا پڑے گا چنانچہ ساتھ لا رہے ہیں اور اندہ لوگ ر حملہ کر دیں خصوصاً اس لیے کہ ہم اجنبیوں کو اجنبیوں کو پسند نہیں کرتے۔” گر واقتنی کالنے کا ندہ تعداد میں تم سے زیادہ قوت والے ہیں تو پھر یہ بات کے میں نہیں آتی کہ اب تک انہوں نے سفید کاندہ کا صفایا کیوں نہ کر دیا؟؟ اس سوال کا جواب سیدھا سا ہے۔ محض اس لیے کہ وہ ہم سے پر امر قوتوں سے ہمارے علم سے اور اس بد دعا سے ڈرتے ہیں جو طفل مقدس اپنی دام سے روح کے ذریعے کہلواتا ہے۔ یہ بدوعا جو ندائے روح کے ڈہن مقاس نائے روح انہیں تاہی در بان ضرور پوری ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں کسی آدمی کو ؟ ایسا ہوتا ہے کہ جب بھی وہ ہمارے بدوعا نہ دیدے اس کے باوجود سر حد سے باہر پاتے ہیں تو بلا تکلف اسے قتل کر دیتے ہیں اسی طرح جس طرح کہ ہم ان کے ہر اس آدمی کو جو ہمارے علاقہ میں آجاتا ہے۔ ذرع کر دیتے ہیں۔ کر رہے گی۔ ہو چنانچہ ثابت ہوا کہ کالے کا ندہ اور سفید کاندہ میں ایک زبر دست جنگ بے شک ہو کر رہے گی میکو میزن یہ آخری فیصلہ کن جنگ ہو گی جو کالے کاندہ یا پھر سفید کاندہ کو صفحہ ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹادے گی۔ اس جنگ کے ہو سکتا بعد یا تو وہ نہ ہوں گے یا پھر ہم نہ ہوں گے یا شاید ہم دونوں ہی مٹ جائیں گے۔ ہے میکو میزن کہ اسی جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے ہم نے تمہیں یہاں مدعو کیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اسی لیے ہم تمہیں اپنا مہمان بنا رہے ہوں اور وہ دونوں اٹھے بڑے ادب سے جھک کر ہمیں سلام کیا اور الٹے پاؤں چلتے ہوئے خیمے سے باہر نکل گئے۔ دیکھار منال میں نے کہا۔ یہ اب نیا گل کھلا ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ہیں جنگ کرنے کیلئے لایا گیا ہے۔ اور میرے دوست ! ہمیں سفید کاندہ کی حمایت میں رنا پڑے گا اور وہ بھی اس بادشاہ سے جس کا لقب سمبالینی شیر پر ہے یا اس باغی رعایا سے جنگ کرنا پڑے گی جو کالے کا ندہ کے نام سے مشہور ہے۔ ” و نے سر ہلا کے کہا۔ لیکن فی الحال معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے کو اٹر مین مجال یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ہمیں یہاں کس لیے لایا گیا ہے۔ چنانچہ جب تک حقیقت واضح نہیں ہو جاتی ہمارا خاموش رہنا ہی مناسب ہو گا کیونکہ کسی بھی بات کے ق قبل از وقت غلط سلط اندازہ لگاتا حماقت ہے۔ اچھا اب تم سور ہو کواٹر میں آدھی رات تک میں پہرہ دیتا ہوں پھر تمہیں بیدار کر کے سو جاؤں گا۔ ” 115 114 اس رات کوئی واقعہ نہ ہوا۔ دوسرے دن پوچھٹنے سے پہلے ہم روانہ ہو گئے اور اب ہم اس علاقے سے گزر رہے تھے جو بر نہ تھا۔ اس میں جگہ جگہ جھاڑیاں چشمے اور درخت تھے اور زمین تدریح باید ہوتی چلی گئ گئی ی۔ھتھی۔ ہیہ گویا ایک سادات ڈھلان تھی اس میدان میں مجھے اینٹوپ کے ریوڑ چرتے نظر آئے اور دور بہت دور مویشی بھی دیکھے گئے لیکن انسان ا بھی کہیں نظر نہ آیا سورج غروب ہوا تو ہم نے گھاس کے ایک میدان میں ایک چشمے کے کنارے پر ڈیرے ڈال دیئے۔ جب کیمپ لگایا جارہا تھا۔ تو ہاروت نے اگر ہمیں اپنے ساتھ چلنے اور ایک منظر دیکھنے کی دعوت دی چنانچہ ہم اس کے ساتھ مقام پڑاؤ سے کوئی پاؤ میل دور اس ڈھلان کی چوٹی پر پہنچے جس پر ہم دن بھر سفر کرتے رہے تھے۔ چڑھائی یہاں پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی۔ اور اس کے دوسری طرف سے اتار شروع ہو جاتا ہے۔ اور چوٹی پر کھڑے ہو کر میں نے سامنے دیکھا تو دم خود رہ گیا ایسا محور کن منظر میں نے پہلے کبھی افریقہ کے کسی حصے میں نہ دیکھا تھا۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ کسی دور کی شکل کا یہ میدان قبل از تاریخ کے تبدیل ہو گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ رکانی میں آگے جا کر ایک رکانی کی شکل کے میدان دوسری طرف اتار تھا جو دس پندرہ میں مشرق سے ایک بڑا دریا اس میدان کو قطع کرتا میں ایک زیر دست تالاب رہا ہو گا۔ اس سے بہت سی چھوٹی چھوٹی ندیاں آ آ کر مغرب کی طرف یہ رہا تھا اور جنوب و شمال و فراز پھر سے پرے، بہت دور ، زمین کے نشیب میں مل گئی تھیں۔ اس بڑے دریا تھا۔ جو کسی اونچی قبر کی دور ایک تنمائیلہ نظر رہا شروع ہو گئے تھے یہاں تک کہ کئی میل ہے۔ کہ گھنے جنگل سے ڈھکا ہوا شکل کا تھا اور معلوم ہوتا تھا میدان تھے شمالی میدان کے اس ٹیلے کے عقب میں اور دائیں بائیں پھر یہ میں نے اپنی دوربین کی مدد سے ہرے پر دھندے مگر سیاہ ابھار سے نظر آرہے تھے کھا، پہاڑ تھے۔ البتہ مشرق و مغرب کے میدان حد نظر تک پھیلتے چلے گئے تھے۔ اور یہ میدان غیر آباد بھی نہ صاف نظر آرہا تھا۔ کہ اس طرف کی زمین بہت زرخیز تھی تھے البتہ مغرب کی طرف کے میدان کا ے۔ کیونکہ ان میں جگہ جگہ کرال نظر آرہے دورین کی کی، مدد ادہ تر حصہ ایک گھنا جنگل تھا جس کے قلب میں چھنے ہوئے میدان کو ے دیکھا جا سکتا تھا۔ نے کہا دیکھو میکو میزن دیکھو میگو میزن دیکھو وہ ہے کا ندہ لینڈ ہاروت طرف ہمارا کا ندہ سے ہوئے ہیں اور دریا کی دوسری ریائے ناوا کے اس طرف کالے ہے یعنی سفید کا ندہ کا علاقہ ۔” ؟ میں نے پوچھا۔ اور وہ خبر ٹیلہ کیسا ہے قدم طفل مقدس کا گھر خانہ دیوتا جہاں کوئی وہ میکو میزن کوہ مقدس ہے۔ نہیں کر ہماری طرف دیکھا۔ ہاں کوئی قدم رکھ سکتا اور جہاں باروت نے گھوم گے۔” کھ سکتا سوائے مہنوں جائے تو ؟ میں نے پوچھا۔ اور اگر کوئی وہاں چلا کی موت یقینی ہے۔” تو پھر میکو میزان اس کی جارہی ہے۔” تو پھر اس کی پاسبانی وہ روحیں ہی پاسبان انسان نہیں ہیں بلکہ ہاں میکو میزان لیکن اس کے 117 116 جنھیں خود طفل مقدس نے مقرر کیا ہے۔ اور ہاروت اس کوہ وہ مقدس اور اس کے روحانی پاسبانوں کے متعلق کچھ اور بتانے کے لیے تیار نہ تھا اس لیے میں نے موضوع بدل کے کاندہ لوگوں کے متعلق پوچھا۔ اس نے بتایا کہ کالے کا ندہ کے صرف جوانوں کی تعداد میں ہزار کے لگ بھگ ہو ی چے اور کم عمران کے علاوہ ہیں۔ رہے سفید کا ندہ تو وہ کسی طرح دو ہزار سے زیادون نے کہا۔ تو پھر کوئی تعجب نہیں کہ تم نے روحوں کو اپنے دیو تا کا پاسبان بنایا ہے میں میں سمجھا نہیں میکو میزن۔” چونکہ کالے کاندہ تمہارے دشمن ہیں اور اگر ایک بھی مسلح آدمی تمہاری فوج میں سے کم ہو جائے تو اس کا اثر پوری فوج اور اس کے قوت پر پڑ سکتا ہے میں دور عین اسی وقت ہمارے اطلایہ کا ایک ساندنی سوار قدرے گھر یا ہوا آیا اوران ادری زبان میں اس نے کوئی خبر باروت کو سنائی۔ یہ کوئی بری خبر تھی کیونکہ میں نے دیکھا کہ ہاروت قدرے پریشان ہو گیا۔ کیا بات ہے ہاروت ؟ میں نے پوچھا۔ وہ دیکھو میگو میزن ؟ اس نے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے اس کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا۔ ایک شخص ٹو پر سوار جھاڑیوں ما سے نکل کے اپنے ٹو کو نہای تیز بھگاتا ہواڈھلان اتر کے میدان کی طرف جارہات اس چوٹی سے، جہاں ہم کھڑے ہوئے تھے ، کوئی نصف میل دور تھا۔ کوئی سوار ہے ، میں نے کہا۔” ہاں سوار ہی ہے لیکن سوار کالے کاندہ کے بادشاہ سمبا کا جاسوس ؟ ہماری آمد کی خبر پہنچانے جارہا ہے اروت نے کہا میکو میزن پڑاؤ میں واپس ج رات کے کھانے سے جلد از جلد فراغت حاصل کر لو کیونکہ چاند طلوع ہوتے ہ؟ روانہ ہو جائیں گے۔” بھر سفر کرتے ہم چاند کے طلوع ہوتے ہی روانہ ہو گئے۔ حالانکہ اونٹ دن ے تھے اور انہیں ذرا بھی آرام نہ ملا تھا اور نہ ہی وہ پوری طرح سیر ہو کر پانی پی سکے تھے لیکن کیا کیا جا تا ہم مجبور تھے۔ دن بھر ہم سفر کرتے رہے۔ غالبا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس تمام عرصے میں ہم ڈھلان اترتے رہے تھے۔ صبح ہونے سے کچھ پہلے ہم کھانا کھانے اور ونوں پر نئے سرے سے سامان لادنے کی غرض سے آدھ گھنٹے کے لیے رک گئے۔ اب ن باربردار اونوں کی حفاظت مسلم کا ندہ کا ایک دستہ کر رہا تھا۔ آدھ گھنٹے کے بعد جب ہم دوبارہ روانہ ہو رہے تھے تو ماروت ہمارے قریب آیا۔ وہ حسب معمول مسکرا رہا تھا۔ اس نے بڑے ادب سے ہمیں سلام کر کے ہاروت کا یہ پیغام سنایا کہ مناسب ہو گا کہ اب ہم نی مند وقی تیار ٹیس کیوں کہ ہم ہا تھی جانا کی مملکت میں داخل ہو رہے تھے۔ چنانچہ ہو سکتا ہے ہماری مدپھر جانا سے ہو جائے۔ اس نے آخر میں کہا۔” یا پھر اس کے پر ستاروں سے ہو جائے۔ میں نے لقمہ دیا۔ نانچہ ہم نے وہ انکیں اپنے پاس رکھ لیں جوئی تھیں بہت عمدہ تھیں اور کار ر تھیں کیوں کہ ان میں بیک وقت پانچ کار توس بھرے جاتے تھے لیکن یہ رائیں ذرا چیدہ تھیں لیکن بیس نے میری اجازت سے وہ چھوٹی سی رائفل اٹھائی جس کا نام اس بندوق تھی جس نے پچھلی تقریبا ساری ممات میں ے انٹو مبی رکھا تھا یہ ایک نالی میری جان بچائی تھی بیٹس نے کہا کہ وہ انٹو میبی کے مزاج سے واقف ہے اور ان ندوقوں کو سمجھ نہیں سکتا اس کے علاوہ انٹو میبی بڑی نیک فال بندوق تھی بہر حال میں میٹس کی نشانہ بازی سے واقف تھا۔ وہ اپنے فن میں استاد تھا۔ یعنی ڈیڑھ سو سے گز دور تک کی چیز کو تو وہ بڑی ہارت اور بڑے اعتماد کے ساتھ مار کراتا تھا لیکن اس کے آگے اللہ اللہ خیر سلایعنی شکار ر ڈیڑھ سو زیادہر ہوتا تو پر بیٹس کی نشان بازی و ھری رہ جاتی خواہ اس کے پاس کی قسم کی ہی ندوق کیوں نہ ہو۔ پندرہ منٹ بعد ہم اونچے نیچے پتھروں کی گردن کوہ میں سے گزر رہے تھے جو چھنے میدان کی گویا سرحد پر تھی۔ اس وقت پوچھٹ رہی تھی اور وہ کا ندہ جو ہمارے 118 آگے تھے ، پھروں کے درمیان سے گزر کر میدان میں پہنچتے ہی ہاروت نے ہاتھ اٹھا کر رک جانے کا اشارہ کیا۔ میں پتھروں کے درے میں سے باہر آیا تو دیکھا سا منے کو نصف میل کے فاصلے پر پانچ سو کے قریب چغہ پوش مارچ کرتے چلے آرہے تھے۔ اس فوج کے زیادہ تر سپاہی سوار تھے۔ بقیہ پیادے لے ان پیادوں میں کے اکثر سپاہی ہر منٹ کے بعد ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور ان جھاڑیوں میں سے نکل نکل کے جو ٹیلے کے قدموں میں تھیں ایک طرف جمع ہو رہے تھے۔ ان کا مقصد صاف ظاہر تھا۔ وہ ہمارا راستہ روکنا چاہتے تھے۔ ان لوگوں کی رنگت سیاہ اور بال حبشیوں کی طرح تھے اور وہ سب کے سب بھالوں سے مسلح تھے۔ اگاہ اس سیاہ گروہ میں دو گھوڑ سوار نکل کے ہماری طرف بڑھے ان میں سے ایک سفید جھنڈی بلند کئے ہوئے تھا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ وہ دونوں سفیر تھے اور ہم سے گفت شنید کرنے آرہے تھے ہمارے ہر اول دستے نے انہیں راستہ دیدیا۔ اور وہ دونوں اپنے گھوڑے بھگاتے اور اونوں کی قطاروں میں سے اپنے گھوڑے حیرت انگیز پھرتی اور مہارت سے آگے نکالتے آگے بڑھے یہاں تک کہ وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں ہم ہاروت و ماروت کے ساتھ منتظر کھڑے ہوئے تھے ہمارے سامنے پہنچ کے انہوں نے اپنے گھوڑوں کی با گیں یوں کھینچ لیں کہ گھوڑے اپنی پچھلی ٹانگوں پر تقری بیٹھ گئے ۔ دونوں سواروں نے اپنے بھائے بلند کر کے ہمیں سلام کیا۔ اور میں نے دیکھا کہ دونوں ہی سفیر بڑے پر وقار اور تنومند تھے۔ رنگت بالکل سیاه ، خدو خال حیثیوں کے سے بہت زیادہ کھریائے بال جو اس قدر لانے تھے کہ ان کے کندھوں تک آتے تھے ان کا لباس بلا پھل کا تھا۔ وہ کھال کی بر جس سی پہنے ہوئے تھے۔ پیروں میں پیر تلے تھے اور ان کی گردنوں میں ایک ایک زنجیر پڑی ہوئی تھی جو چاندی کی قسم کی کسی دھات کی تھی جو زنجیر آگے ان کے سینے اور پیچھے کمر تک آئی تھی رہے ان کے ہتھیار سو وہ ایک بھالے بھی سفید کاندہ کے بھالے کی طرح ہی تھا، اور ایک تلوار پر مشتمل تھے۔ یہ تلوار ہلائی نہ تھی لحہ سیدھی تھی اور ان کی کمر پر بندھے ہوئے چٹکے میں اڑ سی ہوئی تھی البتہ اس تلواری دستہ صلیب کی شکل کا تھایہ جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا۔ سواروں کے ہتھیار تھے۔ 119 گول چرمی ڈھال ، نیزہ جو پھینک کر مارا پیادوں کے ہتھیار مختلف تھے وہ چھوٹے بھائے تھا “ سلام ہو تم پر تھے جس کا دستہ سینگ کا ہوتا جاتا ہے اور ایک چا تو سے مسلح ہوتے سے ایک نے میچ کے کہا ہم دیوتا قل مقدس کے مہنو آنے والے سفیروں میں منہ سے گفتگو کرتا ہے۔” جانا کے پیغامبر ہیں جو بادشاہ سمبا کے کہا سمبانے کیا پیغام بھیجا کہ اے دیو تائے شر جانا کے پجاریو ہاروت نے کیوں آئے پیغام جنگ اے منت پیغام جنگ تم کالے کا ندہ کی سرحد میں بعد جو شرائط طے ہوئے تھے ان ہو۔ حالانکہ سو سال پہلے جو جنگ ہوئی تھی اور اس کے ہوں گے۔ جنوب کا پورا میں ایک شرط یہ تھی کہ سفید کاندہ ہماری سرحد میں داخل نہ ہے ؟ تم نے بہر حال علاقہ ، پھاڑوں کے اس پار کا علاقہ بھی کیا تمہارے لیے کافی نہیں بادشاہ نے تمہیں این شرط کو بھلا دیا ہے تم ہماری سرحد میں داخل ہوئے ہو۔ ہمارے صحر تمہیں نگل ہمارے علاقے سے گزر جانے دیا تھا محض اس لیے کہ ہمارا خیال تھا کہ نہ دے نے گا لیکن تم واپس آگئے ہو اور ہمار بادشاہ اب نہیں اپنے علاقے سے گزرنے ہے اور جانا اور طفل مقدس میں سے کون زیادہ طاقتور اور یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ سے کہا۔ “ یہ تو بہر حال ابھی معلوم ہو جائے گا۔ ہاروت نے بڑے سکون ہم خون بھانا نہیں چاہتے اس لیے ہم کاندہ لینڈ میں کس کا زور چلتا ہے۔ لیکن چونکہ کوہ مقدس تک لے جانا مقدس کی خدمت میں نذر گزارنا چاہتے ہیں چنانچہ انہیں سے نہیں آئے۔ یہ سفید فام طفل میں یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ ہم جنگ کے ارادے سے جا ضروری ہے اور چونکہ وہاں تک کی ایک راستہ جاتا ہے اس لیے ہم اسی طرف اس طرف سے نہیں رہے ہیں۔ جنوب کی طرف کے جنگل دلدلوں سے پر ہیں اونٹ کے ارادے سے نہیں آئے ہاتہ ر سکتے اور یہ تم بھی جانتے ہو۔ مطلب یہ کہ ہم جنگ تمم ہمیں: امن و امان سے گزر جانے مجبورا اس راستے سے آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کیا نذر گزارنا چاہتے ہیں ؟ ہم جانتے ہیں ۔ اور طفل مقدس کے مہنت یہ سفید فام اے مہنت! اور دلوں میں جھانک سکتے ہیں۔ نکہ تمہاری طرح ہم بھی جادو کر سکتے 120 ہم جاتے ہیں کہ بولنے کی کوشش نہ کرو۔ ہمارے سامنے جھوٹ ہمیں دھوکا دینے اور دیں ؟ ۔۔۔۔ اچھا سنو۔ وہ پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کہو تو بتا یہ سفید فام دیوتا کے حضور کیا تم اس لیے لائے ہو کہ یہ اپنے عجیب نذر ہے ہمارے دیو تا جانا کا خون ان سفید فاموں کو خاتمہ کر دیں گویا ہتھیار جانا پر اثر کر سکتے ہیں۔۔۔۔ و غریب ہتھیاروں سے دیو تا جانا کا حال ان سفید فاموں کو س پر کوئی بھی ہتھیار اثر نہیں کر سکتا اور یہ تم بھی جانتے ہو۔ بہر اپنے ہمارے حوالے دو کہ ہم انہیں جانا پر بھینٹ چڑھا دیں۔ اس کے بعد ہی تم میں علاقے میں سے گزرنے دیں گے۔” ان اگر ایسا ہی ہے اگر واقعی جانا پر کوئی ہتھیار اثر نہیں کرتا تو پھر تم کیوں کے علاوہ یہ لوگ جانا کو کوئی نقصان سفید فاموں سے ڈرتے ہو ؟ ہاروت نے کہا اس دینا اصول مہمان نوازی کے بھی پہنچانا نہیں چاہتے اور پھر انہیں تمہارے حوالے کر ہیں اور ہم انہیں تمہارے حوالے ہمارے مہمان ہیں چنانچہ معزز خلاف ہے۔ یہہ لوگ لو اپنے اڑا دے سمبا کے سفیر و ! واپس جاؤ اور نہیں کر سکتے کہ ہاتھی جانا ان کے ٹکڑے نے ہمارے خلاف بالا اٹھایا تو فضل مقدس بادشاہ سے کو کہ اگر اس کے ایک بھی سپاہی بارش کی گا۔ لڑک و گرج کی صورت میں سخت کا قہر اس پر اور اس کی رایا پر نازل ہو جاؤ طفل مقدس کا مہنت جو کچھ صورت میں قحط کی صورت میں جنگ کی صورت میں سرار نے جو طفل مقدس کا قر نازل اور میں ۔ نے دیکھا کہ ہاروت کی اس دھمکی نے سفیروں پر عجیب اثر کیا۔ ان ہونے کے متعلق تھی، اور سفید کاندہ کے جنگلی نعروں قدم پیچھے ہٹ گئے۔ صاف ظاہر تھا۔ کے منہ لٹک گئے اور وہ خوفزدہ ہو کر بے اختیار کئی کہ طفل مقدس کے قہر کا کہ طفل مقدس کے قہر سے وہ ڈرتے تھے صاف ظاہر تھا اور حیرت انگیز مطلب تھا تاہی مکمل ترین تباہی ان لوگوں نے اپنے گھوڑوں کو موڑا تھے۔ تیزی سے دادی کی طرف چلے جہاں کالے کا ندہ جمع ہو رہے میکو میزن اب جنگ کے بغیر چارہ نہیں ، ہاروت نے کہا اور اگر ہم زندہ فتح فتح موت ہو رہے تو فتح ہماری ہو گئی بے شک فتح ہماری ہو گی یہ میں جانتا ہوں شیخ اور فورا ہی اس نے چند احکامات جاری کئے دیکھتے ہی دیکھتے سفید کا ندہ کا پورا تین حصوں میں تقسیم ہو کر اس طرح صف در صف کھڑا ہو گیا کہ اگر یا دلوں میں یکھا جاتا تو یوں معلوم ہوتا جیسے ایک زیر دست شاہین اپنے بازو پھیلائے دھوپ باروت اس انسانی مثلث کے سرے پار اس پر کھڑا ہوا تھا میں بیٹس اور ماروت کے ساتھ مثلث کے بازو کے عین در میان میں تھا اور رسجنال اور سیو سیج کو ہمارے مقابل گھڑا کیا گیا تھا اس طرح ہمارے اور رسجنال وسیویج کے درمیان اس زبر دست ملٹ کا زبردست خانہ چھٹا ہوا تھا۔ یعنی میدان باربرداری کے اونٹ اور ان کے محافظ اسی میدان میں تھے۔ ان کی حفاظت کے لیے مزید چند سپاہیوں کا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ یہ سیاہی اونٹوں اور ان کے محافظوں کے عقب میں مستعد کھڑے ہوئے تھے۔ چونکہ ہم سفید فاموں کو الگ کر دیا گیا تھا اس لیے ابتدا میں ہم نے صدائے احتجاج بلند کی۔ لیکن ہاروت نے کہا کہ اگر سفید فام دونوں صفوں میں ہوئے تو کاندہ وگوں کی ان دونوں صفوں کی ہمت بندھی رہے گی اور اس نے اسی لیے قصدا مجھے اور یس کو پھلی اور سیویج اور ریجنال کو انگلی صف میں رکھا تھا چنانچہ ظاہر ہے کہ اب ہم کچھ نہ کہہ سکتے تھے میں نے اور بینس نے رسجنال اور سیویج سے مصافحہ کیا اور ایک دوسرے کو بڑے صدق دل سے فتح و نصرت اور سلامتی کی دعادی۔ اور یوں ہم چاروں ساتھی جدا ہوئے سیویچ بچارا بہت زیادہ پریشان اور گورے سما ہوا تھا اور اس میں تعجب کی بات بھی نہ تھی کیونکہ پہلے کبھی وہ کسی جنگ میں نہ ہوا تھا البتہ رسجنال کسی جنگجو بادشاہ کی طرح خوش تھا اور اس میں بھی کوئی جب کی بات نہ تھی کیونکہ وہ جن لوگوں کی نسل سے تھا وہ بڑے جنگجو رہے تھے اور سو ت سے پیشہ باری والا معامہ تھا اور کسی بھ جنگجو کے لیے میدان جنگ سے سرت انگیز منظر کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ 123 122 اس کے بعد کی دوڑ عجیب ، تیز اور دل ہلا دینے والی تھی۔ اونٹ ہر چند که رات بھر سفر کرتے رہے تھے اور تھکے ہوئے تھے گی معلوم ہوتا ہے کہ میدان جنگ کا مخصوص جوش ان پر بھی غالب آ گیا تھا۔ چنانچہ وہ الا تیزی سے بھاگے کہ میں حیران رہ گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میرے وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ اونٹ ایسی تیزی سے بھاگ بھی سکتا ہے۔ ہماری فرج نہایت تیار مگر ترتیب سے ڈھلان اترنے لگی اور ہمارے ساتھیوں کے بھالوں کے پھل دھو۔ میں منور دکھائی دینے لگے۔ سب خاموش تھے، کوئی آواز نہ سنائی دے رہی تھی سوال اونٹوں قدموںکے کی آواز کے کبھی کبھی کوئی جو شیلا جوان اپنے اونٹ کو تیز بھگانے لیے اس کی پسلیوں میں بھالے کا دستہ کھو دیتا تو اونٹ بلبلا اٹھتا۔ جب تک سفید کالے کاندہ کی میں آپس میں مکرانہ گئیں تب تک ہر ایک نے اپنے ہونٹ کرکے تھے۔ اور جب صفیں ٹکرائی ہیں تو یہ سچ ہے کہ ایک فلک شکاف نعرہ بلند ہوا مقدس کی جسے موت ہو جانا کے لیے۔” لیکن یہ نعرہ چند منٹ بعد اور دونوں فوجوں کے ٹکرانے کے وقت بلند ہوا تھا۔ میں دستمن کی طرف بڑھ رہے تھے اس وقت تو ہم ایک اندھے جوش کے عالم کا ندہ کے پیادے کے دور نہ تھے تو میں نے دیکھا کہ کالے اور جب ہم دشمن سے زیادہ کے لیے کھڑے حملے کو رو کے دور اس کا زور توڑنے عد دیگرے چھ میں بنائے ہمارے صفد یک کے ایک گھنا کھڑا کر کے اور دوسر از مین پر تھے کھڑے کیا تھے ان کی اگلی دو طیں انا بھالا آگے کی طرف اس طرح بیٹھ گئیں تھیں اور ان دونوں صفوں کے ہر سیاہی نے تھی۔ چنانچہ پانچ چھ چر سو بھالوں کے طرف اٹھی ہوئی تھی۔ چنانچہ پانچ ا کر رکھا تھا کہ اس کی نوک ہماری اوران پاؤ صفوں کے دائیں بائیں اور ان سے کوئی بھی اور اپنے بھالے اٹھائے ہوئی ان خوفناک کہ ہمیں چھی کر رکھ دیں گھٹنوں کے ہل پھل ایک ساتھ ہماری طرف اٹھے ہوئے تھے تھے اور ہر دستے تھے یہ سوار دو دستوں میں تقسیم جیل کے فاصلے پر کالے کا ندہ کے سوار میں تقریبا و گھوڑے تھے۔ طرف سے ذرا ٹیڑھا ہو گیا۔ اور ہم آگے بڑھے تو ہماری صفوں کا مثلث ایک میں اس فوری تبدیلی کی وجہ پہلے تو ایسا یقین ہاروت کی ہدایت سے ہوا تھا پچھلی ترتیب حل ہو گیا۔ مطلب یہ تھا کہ پیادوں یری سمجھ میں نہ آئی لیکن چند منٹوں بعد ہی یہ معمہ بنا کر حملہ کیا جائے بہت عمدہ اور قابل پر بالکل سامنے سے نہیں باسکہ چھوٹا ساروایہ ذراہٹ کے پہلو کی طرف سے عریف اوس تھا یہ کیونکہ چند منوں احد ہی جب ہم نے کے رکھ دیا میرے خدا! ہم پیادوں میں یوں حملہ کیا تو سیح معنوں میں پیادوں کو چیل نے میں چاتو تیزی سے بھاگتے ہوئے اونٹوں کھتے چلے گئے جس طرح کھن کی ڈھیری کو لگا ہوا معمولی کاغذ ہوا کے شدید طوفان انہیں روندھ کر رکھ دیا۔ اگر روشندان پر کی بے پناہ یلغار کو روک سکتے روک سکتا ہے تو پھر کالے کا ندہ کے پیارے بھی اونٹوں نہیں ہوا کے جھکڑوں کے سامنے کوئی حیثیت تھے لیکن ظاہر ہے کہ معمولی سے کاغذ کی وہ اونٹوں کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی۔ نانچہ یادوں کی بھی تیزی سے بھاگتے ہوئے دیا۔ کے جسموں کو چھلنی بنا کے رکھ سفیر کاندہ کے بھالوں نے ان لگے اور ان کی ٹھوکریں کھا کر بار پر اخبار لڑھکنے ونٹوں کی لمبی لمی ٹانگوں سے الجھ کر اور نظر آتا ہے میں نے ایک سر خوشی میرے خدا! طفل مقدس کا پڑا بھاری ” میں سوچا۔ کے عالم 125 124 کالے ظاہر ہے کہ سارے خیال خام ہی تھا کیونکہ لیکن میرا یہ خیال ایک گروہ اونٹوں کے کالے کا ندہ گروہ در دیکھا کہ ناگہاں گئے تھے میں نے کا ندہ مارے نہ ان کی گردنوں اور کی کو نچیں کالنے یا اور ان بلند قامت جانوروں در میان نمودار ہوئے مصروف ہو گئے۔ سے حملے کرنے میں پیٹ پر اپنے بھالوں بھول گیا تھا۔ انگلی سواروں کو بھی کا ندہ کے گھوڑ اس کے علاوہ میں کالے سور کہ کالے کاندہ کے گھوڑ ہی ہمارے حملہ کا در کم ہوا صفوں کے انجادے سے جیسے پر مجلی کی طرح میں میمنہ اور میسرہ پر یا عسکری اصطلاح ہمارے دائیں اور بائیں پہلو کی کشش کی لیکن ان کا حملہ ان کے اس سخت حملے کو روکنے ٹوٹ پڑے۔ ہم نے پلٹ کر ریلتے ہوئے اس جگہ صفوں کو ڈھیلتے اور وہ ہماری دائیں اور بائیں ایسا سختو شدید تھا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہوئے تھے۔ لیکن کے لونٹ کھڑے تک لے گئے جہاں بار برداری کے حملے کی یہ شدت خودان سواروں کا یہ جوش و خروش ان تھی کہ کالے کا ندہ کے گھوڑ کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ روک رہے تھے اپنے آپ کو چانے کی کوشش کر رہے تھے اور موقع بے موقع وار بھی کر رہے تھے۔ یہاں میں نے لفظ ہم استعمال کیا ہے جس سے میری مراد ہمارے ھیوں سے ہے۔ نانچہ آپ کو یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ میں اور بیلس بھی جنگ کر رہے تھے۔ جی نہیں۔ ہم دونوں کو تو اب تک اپنے ہتھیار استعمال کرنے کا موقعہ ہی نہ ملا تھا۔ حملہ آوروں کا زور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ رفتہ رفتہ ہمارے اونٹ زمین پر مردہ پڑے تھے یا پھر نمی تھے۔ البتہ اب بھی ایک اونٹ بڑی شان سے اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوا تھا جی نہیں آپ ا اندازہ غلط ہے۔ یہ میرا نہیں بلکہ میٹس کا اونٹ تھا۔ حیرت پر حیرت یہ کہ اس اونٹ کو ایک بھی زخم نہ آیا تھا۔ ادھر ہم سب کے اونٹ یا تو مردہ ہو کے ڈھے گئے تھے۔ یا پھر کھی ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم سب پیدل ہو گئے تھے اب تک میں نے اپنی دوق استعمال نہ کی تھی اب تک میں نے ایک بھی فیر نہ کیا تھا۔ اول تو اس لیے کہ میں نہ اہتا تھا کہ میرانشانہ خطا کر جائے۔ دوم اس لیے کہ اونٹ کی پیٹھ پر بندوق چلانا ممکن نہ ھا کیونکہ اونٹ کا سوار جھولے سے کھاتا رہتا ہے اور اس لیے کہ میں بے ضرورت ان کا جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ کاندہ کے گھوڑ سواروں نے ایک وقت ہمارے کے وحشیوں کی جان لینا چاہتا تھ لیکن اب سوال زندگی اور موت کا تھا۔ اب صورت دونوں جوش کے عالم میں وہ ہماری صفوں کو ایک حملہ کر دیا تھا اور میمنہ اور میسرہ پر سپاہیوں کو ہوا کہ دشمن کے گھوڑ سوار ہمارے طرف سے دباتے چلے آرہے تھے نتیجہ یہ دوسرے میں کے سامنے آگئے اور کا یک ایک ہاتے دباتے آخر کار خود ہی ایک دوسرے چا کا ندہ میں ہی بھالے اور کی تمیز نہ رہی اور خود کالے گھس پڑے اور پھر دوست دشمن انہیں اپنی علی کو قتل کرنے لگے اس سے پہلے کہ لنے لگے اور وہ اپنے ہی آدمیوں گھوڑ اور آپس میں ہی اچھے ہوئے کا حکم سن کر سنبھلے ملنے احساس ہو تا خدا جانے ہم کس ہوں میں رہ گئے اور کچھ اس طرح دھکا کے بھالوں میں چھد کر سوار تو ہمارے سپاہیوں نہ ہوا۔ آرہے اور پھر انہیں اٹھنا نصیب اپنے گھوڑوں پر سے نیچے سوار فوج میں ، ماروت، بینس اور پندرہ شتر اس کر بہ میں یہ بھی ہوا کہ کہ ہمار کہ یہ کیسے ہو لیکن حقیقت ہے کٹ گئے۔ میں نہیں کہہ سکتا اور نہ جانتا ہوں شدت سے ہم پر ہے۔ سوار تھے۔ پلٹ پلٹ کر نہایت گروہ فوج سے الگ تھا ، اور گھوڑ پندرہ شتر سوار ان کے ماروت بلس اور پندرہ ہے حملے کر رہے تھے۔ اور ہم ینی میں حاں تبدیل ہو چکی تھی اور مجھے اپنی جان چانا تھی۔ اس لیے میں اپنے مرتے ہوئے وٹ کی جو تا رہا تھا۔ اور اپنا سر بن رہا تھا۔ اوٹ میں لیٹ گیا اور تھوڑے تھوڑے وتھے سے اپنی مندوق کے پانچوں کار توس کالے کاندہ کے ہجوم پر خالی کر دیئے نتیجہ یہ ہوا کہ چند منٹ بعد ہی پانچ بے سوار گھوڑے داد لتیان جھاڑتے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور ہجوم میں سے نکلنے کے لیے راستہ تلاش کر رہے تھے۔ بندوق کے دھماکوں اور کالے کاندہ کے پانچ سواروں کی نوری موت کا اثر ہ دیکھی تھی چنانچہ وہ خوفزدہ ہو کر کئی قدم پیچھے ہٹے اور ششدر سے کھڑے رہ گئے۔ سے کا نہ پر خاطر خواہ ہوں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے دوق کی قسم کی کوئی چیز پہلے بھی موقعه غنیمت جان کر میں نے بندوق بھر کی کالے سواروں نے پھر حملہ کیا، میں نے پھر ائی سوار مار کرائے اور و پھر خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ اب انہوں نے نہایت شدت تیر حملہ کیا۔ میں نے حتی الامکان ان کے حملے کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن 127 126 اس دفعہ ان کے صرف تین آدمی اور ایک گھوڑا میری گولیوں کا شکار ہولہ پانچواں نشانہ صاف خطا کر گیا مجھے بندوق چلانے کے لیے مرغ باد نما کی طرح ادھر سے ادھر گھوم جانا پڑا تھا۔ اور اب۔ آخر کار کھیل ختم ہو چکا تھا کیونکہ میرے پاس اب بھی کار توس نہ رہ گیا تھا سوائے ان دو کے جو میرے جیسی پستول میں بھرے ہوئے تھے۔ آپ پو چھیں گے کہ میں نے کیا حماقت کی کہ کار توسوں کا ذخیرہ لیے بغیر جنگ میں شریک ہوا تھا ؟! اس کا سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ حد سے بڑھی ہوئی احتیاط اونٹ پر بیٹھنے والا اگر بہت سے کار توس اپنی جیب میں رکھ لے یا پیٹی میں اٹس لے اور پھر اونٹ کے چلنے یا دوڑ نے وہ یعنی سوار ، آگے پیچھے اور دائیں بائیں ڈولتا ہے اور کار توس اونٹ کی پیٹھ سے رگڑ کھاتے رہیں تو ظاہر ہے کہ وہ خود خود جل اٹھیں گے اس پی ایک خیال تھا جس نے مجھے کار توس اپنی جیلیوں میں بھرنے سے بازر کھا تاہم میں نے ایک تھیلی میں چالیسر پچاس کار توس بھر لیے تھے لیکن وہ تھیلی سیو تیج نے بڑی خدمت گزاری کا ثبوت دیتے ہوئے مجھ سے لے کر اپنے لوٹ کے کپاوے سے نکادی تھی اور اب اس سے یہ تھیلی حاصل نہ کر سکتا تھا کیونکہ ہم دونوں کے درمیان دشمن کا بحر ذخار حائل تھا۔ چنانچہ غلطی نہ تو میری تھی اور نہ سیویج کی البتہ جو کچھ ہوا اس کی تمام تر ذمہ داری بینس پر عائد ہوتی تھی۔ وہ اس قسم کے معاملات میں شروع سے ہی بے پروا تھا اور جو کچھ ہوا وہ اس کی بے پروائی کی ہی وجہ سے ہوا۔ اسے چاہئے تھا بلکہ اسے اطمینان کر لینا چاہیے تھا کہ میں نے حسب ضرورت کار توس کے لیے ہیں یا نہیں۔ یہ ان اتفاقات میں سے ایک تھا جو ایسے نازک موقعہ پر لازمی ہو جاتے ہیں اور جن سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے ہی اتفاقات ہوتے ہیں جو واقعات کے دھارے کا رخ موڑ دیتے ہیں ہمارے شتر سوار، یا جتنے بھی ان میں سے زندہ چ گئے تھے ، خود ہماری یعنی میری میٹس اور ہمارے ساتھیوں کی حالت سے بے خبر فتح کے پھر پرے اڑاتے اور بار برداری کے اونٹوں کو ہنگاتے شمال کی طرف چلے جارہے تھے کم سے کم وہ کالے کا ندہ کی صفوں کو توڑ کے میدان میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور چونکہ دستمن ان کا تعاقب نہ کر رہا تھا اس لیے ظاہر ہے کہ وہ فاتح ہی تھے۔ چھوٹ گئے تھے اور جو ان کے درمیان سفید کاندہ کو ، ادھر کالے کا ندہ بقیہ کو ہی قتل سفید کاندہ کے زخمیوں یہ بتا دوں کہ وہ تھے۔ یہاں میں نیوں کو قتل کر رہے گئے اور ہمارے ان سمجھ لیا ہو گا کہ ہمارے تھا تو اس نے یہی یکو ہمار اخیال آیا بھی اگر جنگ کی گڑبڑ مقام پر پہنچا ر ہے تھے۔ کو ٹھاٹھا کر محفوظ ے تھے اور اپنے زخمیوں تھے۔ دور ہوتے جارہے تحو ظفر کے ترانے گاتے تھیوں نے بھی ، جو مسکرار رہاتھا۔ ہاتھ اور حسب معمول ان خون انت بالا ہلا راش تک نہ آئی تھی وہ پر ایک قریب آیا۔ اس کے بدن سے نکل کے میرے ماروت خدا جانے کہاں نے دوسروں قریب ہے طفل مقدس نے کہا خاتمہ قا میکو میزن ! اس خاتمہ کر لو کہو ؟ میری مانو اور آپ ہی اپنا اب تم کیا کرو گے لیا لیکن وہ ہمیں بھول گیا گولیاں چلاتے رہو جب ؟ یا پھر اس وقت تک سینے میں اتار دوں میں اپنا بھالا تمہارے ” ںکہ تم گرفتار نہیں ہو جاتے ہم نے ہتھیار نہیں رہ گئی ہیں لیکن یہ بتاؤ اگر میرے پاس چلانے کی گولیاں گا ؟” گیا تو پھر ہمارا کیا نے ئے اور ہمیں گرفتار کر لیا پر میں دیو تائے شر جانا میں لے جایا جائے گا اور پھر ں سیکو میزن میں سما کے شہر ہے کا وقت نہیں ہے چونکہ وقت بہت کم پڑھایا جائے گا کس طرح یہ بتانے ہے کہ تم تو پھر ماروت مجھے کہنا پڑتا خاتمہ کر لینا چاہتا ہوں۔ من تو جلد از جلد اپنا کچھ نہیں کر سکتے لیکن چنانچہ یہ سمجھو کہ ہم مر کر ن تم قیامت و غیہ کو کیا جانو نہیں ہو سے پہلے وہ دوبارہ زندہ مر گیا سو مر گیا مینی قیامت لا کے سردار ہو آدمی چنے کی کوئی صورت نظر نہ صورت حال واقی بھر گئی اور کی کوئی ضرورت نہیں اگر سکتے ہیں مرنے میں جلدی ایکہ اس کا مقابلہ بھی کر ر جانا سے نہ صرف چ سکتے میرے لیے اور دوسری اور اس میں دو گولیاں ہیں ایک سے پاس ایک پستول ہے حال اور میرے فیصلے کر ہمارے ساتھیوں کو صورت ور اب ماروت نے گھوم 129 128 سے آگاہ کیا آخر میں ہمارے ساتھیوں نے بڑا ہی عجیب مگر میرے خیال میں دلیرانہ فیصل کیا۔ البتہ اس فیصلے میں تین سفید کاندہ شریک نہ ہوئے۔ شاید اس لیے کہ وہ نڈر اور دور علاکے نہ تھے۔ یا پھر کسی اور وجہ سے انہوں نے میرا اور ماروت کا ساتھ نہ دیا۔ ان تین ہمارے بقیہ ساتھی خاموش کھڑے دشمن کے قریب آنے کا انتظار کرتے رہے اور جب و من قریب آگیا تو یہ لوگ سر جھکا کے کالے کاندہ کی طرف چلے گویا اپنے ہتھیاران کے حوالے کرنے جارہے ہوں۔ کالے کاندہ کے چند سپاہی گھوڑوں پر سے کودکی مارے ساتھیوں کی طرف بھاگ پڑے غالبا انہیں گرفتار کرنے کے لیے ہمارے ساتھی اس وقت تک خاموش رہے جب تک کہ کالے کا ندہ نے انہیں اپنے گھیرے میں نہ لے لیا اور پھر وہ طفل مقدس کی جے کے فلک بوس نعرے کے ساتھ کالے کا ر ٹوٹ پڑے اور ایسی ہے جگری سے لڑے کہ دشمن کو بہت سا جانی نقصان پنجان کے بعد خود بھی کٹ مرے۔ بڑے سیما در تھے یہ لوگ ماروت نے کہا۔ خیر یہ لوگ اب طفل مقدا کے دربار میں پہنچ گئے ہیں اور انہیں اپنی رحمتوں سے نواز رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہم بھی جلدی ہی اس کے دربار میں پہنچ جائیں گے۔” میں نے سر ہلا دیا مگر کوئی جواب نہ دیا۔ جواب دے ہی نہ سکا کیونکہ اس از میں خود اپنی ہمت سمٹنے میں مصروف تھا کہ اپنے چے ہوئے ساتھیوں کو بچانے کے دشمن سے گفتگو کر سکوں۔ ہمارے ان ساتھیوں کے جن میں سے ایک بھی زندہ نہ تھا، خلاف تون تخت جملے نے، جس میں بہت سے دشمن مارے گئے تھے کالے کا ندہ کو ایک دم مت میں کر دیا تھا۔ حص ہے۔ ے رقے کا اور معزز میں کوئی ہے یا پھر کالے کاندہ وہ یا تو سپہ سالار سے پتہ چلتا تھا کہ نک رہی تھیں جن سے بندوق کے سے اور کہیں اوپر پشت کی طرف کر رہا تھا کہ میری پڑھنے کی تیاریاں پر فاتحہ میں اپنے آپ پر تھا اور گز کے فاصلے ہم سے کوئی مشتعل ہجوم سے پھیلا دیئے دونوں ہاتھ ایک دم داڑھی والے نے اپنے سے آگے آئے ہوئے کچھڑی ہجوم بھی نہ ہوئی تھی کہ کی گونج میں کمی واقع دی اور ابھی دھماکے ھماکے کی آواز سنائی مردہ ہو کر ہی لمحہ خود داڑھی والا سے چھوٹ کر گرا اور دوسرے بھالا اس کے ہاتھ گھوڑے پر سے گر رہا تھا۔ تھا جس نے گولی نیچے دیکھا۔ یہ بینس گردن گھا کے میں نے جلدی سے تھ اور اس کے کے منہ میں پائپ تھا، اب بھی اس بھی اونٹ پر سوار لائی تھی۔ وہ اب ٹیلا نیلا دھواں مبی تھا۔ انٹو می بھی تھی جس کا نام انٹو تھ میں میری وہی را کل یا تھا۔ سے کالے کا ندہ کے ایک افسر کو مار کر نشانے بازی چلائی ھی اور اتفاق یا پھر اس دن یہ پہلی دفعہ گولی کل رہی تھی ہیٹس نے دم تو دوبله کا ندہ کو نہ صرف اور فوری موت نے کالے داڑھی والے کی اس خلاف توقع وہ گھوڑے پر سے ان کی پیش قدم رک گئی اور زدہ اور دل شتہ بھی کردیا۔ جو بڑا عین اس وقت ایک ادھیر شخص، ے ہوئے داڑھی والے کے گرد جمع ہو گئے۔ لباس میں ملبوس تھا، ہوتا تھا اور جو وحشت انگیز مطلوب الغضب اور تند خو معلوم ہے۔ کے لیے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا غالبا یہ ہوئے داڑھی والے پر جھک گیا۔ ھوڑے پر سے اتر کے مردہ با شاید مرتے اور اب وہ ہماری طرف ۔۔۔۔ ہم اب صرف چھ آدمی تھے۔۔۔، جانا۔ نے مجھے مطلع کیا۔ بادشاہ سمبا ہے پر سے اتا ہے، ، جو ابھی ابھی گھوڑے وہ ادھیر عمر کا شخص گھوڑوں کے سموں تلے چل کر رکھ دیں گے۔ کے نعرے لگاتے ایسی تیزی سے بھاگے آ رہے کہ معلوم ہوتا تھا می ماریں اس مشتعل ہجوم کے آگے ایک دی ہیکل سوار تھا جس کی داڑھی کم کھچڑی تھی اس کا لباس اپنے ساتھیوں سے مختلف تھاور سینے پر بہت سی رو پلی ز اور جس نے ایک کار توس ہو تا کار توس ۔۔۔ صرف کاش میرے پاس ایک گیا۔ لیکن پھر خاموش ہو میں نے کہنا شروع کیا کر رہا تھا۔ ئینس مجھے مخاطب اونٹ پر بیٹھا ہوا بیٹھ کر ہموار پیٹھ پر کیونکہ اس نا نہیں پھر سکتا اب میں الوداع باس۔ 131 130 ہوں باس۔ اگر دوسری دنیا میں تمہاری انٹو مبی میں بارود بھر نا ممکن نہیں۔ میں جا رہا وہ اگ کے کھڈ میں ملاقات اپنے باپ سے ہو جائے تو انہیں میر اسلام کہنا اور پھر کہنا کہ میرے لیے ایک عمدہ مکان تیار کر رکھیں۔ ” میں اور اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا اس نے اپنا لونٹ موڑا ۔۔۔ کہہ چکا ہوں کہ اس کا اونٹ زخمی تھا۔۔۔۔ اور اسے نہایت تیزی سے بھکا دیا لیکن فل مقدس کے شہر کی طرف نہیں بلکہ اس میلے کی طرف جس کے دامن اور پہلوؤں پر خار دار جھاڑیاں اور اونچی اونچی گھاس اگ رہی تھی اور وہاں پہنچتے ہی وہ اس کا اونٹ چوگا دینے والی تیزی سے غائب ہو گئے۔ اگر دشمن نے ہمیس کو فرار ہوتے دیکھا بھی تو کسی نے اس کا تعاقب نہ کیا۔ لیکن وہ لوگ اپنے مردہ افسر گورو کی طرف یوں متوجہ تھے کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے بیٹس کو فرار ہوتے نہ دیکھایا اگر انہوں نے اسے فرار ہوتے دیکھا تو ار چلا سکتا تھا کیونکہ یوں بھی میں گوئی نہ چلاؤں گا اپنی بندوق جھکائی۔ لیے کہ اس پر گولی نہ لگا :۔ کر کے یوں کہنے اور ماروت کو مخاطب فاصلے پر اگر کا سے چند قدم کے کا پیامبر آگے بڑھا، ہم بندوق جھکاتے دیکھ کر سما ندوق خالی تھی مجھے قوتوں کا مقابلے میں بڑی دیوتا نے ہمارے نے آج کے دن تمہارے یوں کہا ہے اس سمنا کے ہمارے بادشاہ یہ الفاظ میں دوسرے مہنت۔ اب طفل مقدس کے گا اور ہمارے معاملہ اس کے برعکس ہو مدد کی ہے۔ لیکن آئندہ مظاہرہ کیا ہے اور تمہاری فوج کی طرف دیکھا ۔ اور یہاں پیغامبر نے ہماری اس کے احد جال میں سے نکل بھاگے لیکن تم بہت سا نقصان اٹھانے میں شکاری ہو اور تم شکار۔ جال میں پھانس لیا ہے چنانچہ تھا کہ میں نے تم کو آجائیں گی میرا خیال تمہارے دیو تا پر غالب یو تاء کی قوتیں تم پر اور وہ لوگ بہت دور پہنچ چکے پر گرد و غبار از تا نظر آرہاتھا۔ و واپس جارہی تھی اور دور پیغامبر نے ان کی طرف کے سینگوں سے رگیا گیا اور تھے۔ اور میں شکاری خود شکار یاں سے اس کا تعاقب کرنے سے باز رہے کہ ماوہ انہیں ید کاندہ کے بھائے دینا جولات سے پاپا تھا۔ شکار کے ہو کا سب سے زیر دست شکر اور یہاں اس کئے اس معتز خطاب پر فخر محسوس اور وقت ہو تا تو میں نے بیری طرف دیکھا۔ اگر کوئی ہوئے جال میں پھنسا دے۔ بہر حال میں یہ نہیں کہ سکتا کہ انہوں نے میٹس اور ان کے فرارکے کے متعلق کیائے قائم کی کیونکہ بھی انہوں نے اس کا کر نہ کیا کر رہتا رقم اے ماروت اور دو چار دوسرے جواب بھی زندہ ہیں اس وقت بھی کے ایک برادر افسر کو سہا چھی تا مار کے بھاگ گیتا پہ نہیں وہ اس کے کرے بال ار میرے اختیار میں میں در تمہارے سینگ جادہ کے سینگ ہیں خصوصاً ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ وہی لوگ ، جو ابھی چند سکنڈ پہلے ہی انتہائی جوتر میری بندوق کی طرف یہ سینگ اسی سی سانہ کے سینگ اشارہ پھر میری طرفلو اقت تھے نہیں بر حال میں مح سلامت نکل چکا تھا۔ خروش کا مظاہرہ کر چکے تھے ، گورد کی موت سے ایسے دل شکستہ ہوئے کہ ان کا سا وہ مر جاتے ہیں ۔” جسم میں سوراخ کر دیتا ہے اور بہت دور سے انسانوں کے ایک کہا میں بادشاہ سما تقریر جاری رکھتے ہوئے چنانچہ پیغامبر نے اپنی میرے شر تک لے لا جائے اور تی است و او را علی وہ نہیں ہم سے نہ صرف کرنے کے ان میں ان با کوئی اور کہا ہوں کہ کیا تمہارا نہ تھا کہ دل کی بالوں اپنے بیان یور مان کے جوال کی طر کی معلوم ہوتا نہ ہو اور جنگی قیدیوں کی سی تمہاری حیثیت عالم م ہمارے قیدی بن کر رہو گئے لیکن رہے تھے۔ کے میں لے لوں گا اور رات دیا تو پھر میں تمہیں رنے ے کرتی مار ڈالنے سے انکار کر ہے ارکار ما ایک جو سے لگ ہو کے باری طرف رھا کہ یہ رائے انہ یا پر نہیں ہو جائی کرتے کہتے ہیں رکھا ہے ہیں کیا جائے گاجرہ کے اور آپ میں ملت میں منوں ک کال کاند سے جاری طرف جو جنگ سے پہلے سمہ کا پیغام لے کرا اسے پہچان لیا۔ وہ ان سفیروں میں سے ایک تھا یوں کروں گا کہ خاتمہ کر دوں گایا شاید ے میں دفعہ تم پر حملہ کر کے تم سب کا یہ ظاہر کے تھے اس وقت بھی وہ سفید جھنڈی بلند کئے ہوئے تھا۔ چنانچہ میں نے 132 تمہیں زرنے میں لے کر منتظر رہوں گا یہاں تک کہ بھوک اور پیاس سے تم لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جاؤ گے۔ یہ ہیں میرے الفاظ یہ ہیں بادشاہ سم با کے الفاظ میں بادشاہ سمبا کہہ چکا جو مجھے کچھ کہنا تھا اپنی سے باہر جا کر منتظر کھڑا ہو گیا۔ تقریر ختم کر کے بادشاہ کا پیغامبر پیچھے ہٹا اور حدود سماعت سیکو میزن ! کیا جواب ہے تمہارا ؟ ہاروت نے پوچھا۔ میں نے اس کے اس سوال کا جواب دوسر سے سوال سے دیا۔ کیا اس بات کا امکان ہے ماروت کہ تمہارے لوگ ہمیں چاہیں ؟ ماروت نے نفی میں سر ہلایا۔ نہیں میکو میزان ! آج ہم نے کالے کاندہ کی فوج دیکھی ہے وہ ان کا اور صرف ایک دستہ پیادوں کا کل بہت سی فوج اکٹھی ہو جائے گی۔ اتنی ہوست ہی کہ ہم اس کا مقابلہ کرنے کا تصور بھی نہ کر سکیں گے نہ کھلے میدان میں اور کہنا ہوں میں بیٹھ کے۔ اس کے علاوہ ہاروت ہمیں مردہ ینقیقیر کرے گا چنانچہ اب تو ہمیں اپنی قسمت پر ہی تو پھر جیسا کہ اس سیاہ فام بادشاہ نے کہا ہے، ہم واقعی جال میں پھنے بھروسہ کرنا ہے بشرطیکہ طفل مقدس ہماری مدد نہ کرے۔” ہوئے ہیں اور اگر سمبانے ایسا ہی کیا جیسا کہ اس نے کہا ہے ، یعنی رات کے اندھیرے میں دفعہ ہم پر حملہ کردیا تو ظاہر ہے کہ ہم میں سے ایک بھی زندہ نہ رہے گا اس کے اوہ مجھے پاس ابھی سے معلوم ہونے لگی ہے اور پینے کو کچھ ہے ہیں لیکن یہ تا مار دے کہ بادشاہ اپنے وعدے پر قائم رہے گا ؟ میرے دوست ! دشمن کے بھالوں کی چھین محسوس کر کے مرنے کے علاوہ اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ میرا مطلب ہے آسان میں تو سمجھتا ہوں کہ سما اپنے وعدے پر قائم رہے گا لیکن جیسا کہ اس کے امبر نے کہاہے اس کے الفاظ میں ایک بھی لفظ کا اضافہ کیا جائے گا۔ ورنہ ہی کو فظ کم ہوگا۔ کھو میکو میزن جو کہنا ہے جلدی کو کیونکہ دیکھو کالے کا ندہ ہمیں نر نے میم لینے لگے ہیں۔” ہم سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں آقا کہ جو طفل مقدس کو منظور 133 حالانکہ اب ہم سوچتے ہیں کہ ہم بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ لڑکے مر گئے ہوتے تو اچھا ہوتا ان میں سے ایک نے جواب دیا۔ چنانچہ میں اور ماروت آپس میں چند سیکنڈ تک مشورہ کرتے رہے کہ پیغامبر کو اشارہ کیا فورا ہی اپنا گھوڑا بڑھا کے ہمارے سامنے آکھڑا ہوا اور ماروت نے یوں کہنا شروع کیا ۔ حالانکہ یہ سفید فام آقا کھڑے کھڑے اپنے جادو کے سینگ سے سمبا کو مار رگر اسکتا ہے لیکن ہمیں اس کی پیش کش منظور ہے کہ وہ ہمیں قیدی بنا کے لے جائے گا اور ہمارے ساتھ عام جنگی قیدیوں کا سا سلوک نہ کیا جائے گا۔ لیکن یہ سن لو کہ ہمار بال بھی یا ہوا تو تم سے سخت انتقام لیا جائے گا۔ اب سمبا کو چاہئے کہ اپنے وعدے کو سچا اور ائیدار ثابت کرنے کے لیے ہمارے ساتھ صلح کا جام ہے کیونکہ ہم پیاس محسوس کرنے لگے ہیں” نہیں پیغا مہر نے کہا اگر سمبا آگے بڑھا تو یہ سفید فام آقا اپنی اس جادوئی نکی سے اسے مار گرائے گا یہ نکی میرے حوالے کر دو اور بادشاہ تمہارے قریب آجائے گا۔ ” یہ لو میں نے بڑی شان سے بندوق اس کی طرف بڑھادی کیوں کہ بغیر کار توس کی بندوق کسی چھری سے بھی زیادہ بیکار اور بے مصرف ہوتی ہے۔۔ پیغا مبر آگے پڑھاذرا جھجکا اور بڑے احترام سے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں پر بندوق اٹھائی۔ اور وہ بندوق کو اسی طرح دونوں ہاتھوں پر اٹھائے اور اپنے بدن سے کافی دور کھے پلٹ کر چل دیا اور اب خود بادشاہ سمبا اپنے چند خاص امراء کے ساتھ گھوڑ بڑھا کے ہماری طرف آنے لگا۔ سمبا کے ساتھیوں میں سے ایک اپنے کندھے سے مشکیزہ لگائے ہوئے تھا اور ایک ہاتھ میں ایک عجیب بے ڈھنگا پیالہ لیے ہوئے تھا یہ پیالہ کیا تھا تھی کے ایک دانت کو کھوکھلا کر دیا گیا تھا۔ سمبا بڑے ڈیل ڈول کا پر رعب آدمی تھا اور اسے دیکھ کر انسان پر خواہ مخواہ رعب طاری ہونے لگتا تھا۔ اس کی مونچھیں گھنی اور بڑی تھیں۔ سمبا اپنے ساتھیوں تنا الانہ تھا معلوم ہوتا ہے کہ صدیوں پہلے اس کے اجداد نے سفید کا ندہ سے ازدواجی شتہ قائم کر لیا ہو گا۔ وہ ننگے سر تھا ا سکے بال لانے تھے جو ایک سنہرے فیتے سے بند تھے 135 134 گا۔ میں آیا ہو ہوئے تھے اور اس کے ماتھے پر زخم کا ایک گرانشان تھا۔ یہ زخم اسے کسی جنگ اس نے بڑے اشتیاق بڑے غور اور دلچسپی سے میری طرف دیکھا اور اب اثر نیا ہو گا۔ میری اس وقت کی میں بھی سوچتا ہوں کہ اس نے مجھے دیکھ کے کیا اور کیسا سے سے گر گیا تھا، ہیت کرائی کو ذرا اپنے تصور میں لانے کی کوش شش کیجئے۔ میرا بیٹ سر ندہ کے خون میرے بال خشک اور بکھرے ہوئے تھے میری جیکٹ اس آخری کالے کا علیہ عجیب بنا ہوا تھا اور میں سمبا سے سے سرخ ہو رہی تھی۔ قصہ مختصر اس وقت میرا غلط نہ تھا کیونکہ فوراہی سمپانے پلٹبھی زیادہ وحشی معلوم ہو رہا تھا۔ اور میرا یہ اندازہ کے اپنے ساتھیوں سے کہا :۔ اس سفید پر قوت نہیں ہوتا۔ مند شخص ہمیشہ ہی کسی نے سچ کہا ہے کہ تو قوتوںخار پشت کی طرف دیکھو اشارہ میری طرف تھا بالکل ہی یو ناسا ہے لیکن زیر دست ہوتا ہے دل چیرکا مظاہرہ کیا ہے اس نے۔ اور اسکی آنکھوں کی طرف دیکھو ذرا معلوم یںگی دیوتا جانا بھی ان آنکھوں سے خوف کھانے لگ جائے گا۔ بہر حال وقت جو چٹانوں تک کو ہیں کے رکھ دیتا ہے، بتادے گا کہ یہ عجیب آنکھوں والا خار پشت کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔” سمبان یہ باتیں بے حد پیچی آواز میں اپنے ساتھیوں سے کی تھیں لیکن میں ساتھ ہم سفر کرتےنے اس کا ایک ایک لفظ سن اور سمجھ لیا تھا۔ چونکہ کا ندہ لوگوں کے حد تک سیکھ لی تھی رہے تھے اس لیے میں نے اس سے فائدہ اٹھا کے ان کی زبان ایک سمبا نے اپنا گھوڑا اپنے ساتھیوں کے سامنے میری تعریف کرنے کے بعد آگے بڑھایا اور ہمارے سامنے آگھڑا ہوا۔ دشمن ماروت اس نے کہا کہ تم ے طفل مقدس کے مہنت اور میرے کچھ کہا یا اس پر حث کرنا ہےمیرے شرائط سن اور قبول کر چکے ہو چنانچہ اس کے متعلق گا جو میں نے کہا اس میں ایک لفظفائدہ ہے۔ میں نے جو وعدہ کیا ہے اس سے وفا کروں دیا وہ حسب معمول مسکرا رہا تھا۔ ”کیکمی و نیشی نہ ہو گی۔ بہت اچھا ماروت نے جواب میں لائے تو سن لو کہاگرتم اپنے شرائط بھول گئے یا ہمیں نقصان پہنچانے کا خیال بھی دل پر نازل ہو گا۔” ل مقدس کے گوناگوں عذاب تم پر اور تمہاری رعایا اس کے پوجنے والوں سمبا! آخر میں ہو گا تو ی۔۔ یا تو جانا طفل مقدس اور سے سمجھ لے گا دونوں میں سے سمجھ لے گایا پھر طفل مقدس جانا اور اس کے پر ستاروں ے کسی ایک کی قوتوں کا خاتمہ ہو کر رہے گا اور دونوں میں سے کون غالب ہو گا اور کون مغلوب یہ صرف طفل مقدس جانتا ہے یا شاید اس کے منت جانتے ہیں۔ لیکن سمب!! کے اس سے تو تمہیں بھی انکار نہ ہو گا کہ آج کی جنگ میں طفل مقدس کے ایک پرستار تاہے میں جانا کے ٹی پر ستا مارے گئے ہیں چنانچہ یہ ندازہ لگانا مشکل ہیں کہ آخری چکا ہے اور جس کی ہو گی۔ اس کے علاوہ ہمارا کارواں اب تمہاری دسترس سے باہر ہو ہیں جو ایک اس کا رواں میں دو سفید آقا بھی ہیں جن کے پاس ایسی بہت سی جادوئی شکلیں کرج کی آواز کے ساتھ دور سے ہی موت بر ساتی ہیں چنانچہ ہماری میکسی اور بے کاریسی سے یہ اندازہ نہ لگاؤ کہ طفل مقدس بھی بے کس اور بے بس ہو گیا ہے یا ہو سکتا ہے جانا کی میں یا تو سو گئی ہیں یا پھر ختم ہو چکی ہیں ورنہ تم نے ہمارا خاتمہ کرنے کے لیے کامیاب حال مچھایا ہوتا۔” دل میرا خیال تھا کہ ماروت کی یہ گستاخانہ تقریر جو اس نے بڑے ٹھنڈے ے کی تھی سمبا کو فعتہ غضبناک کر دے گی اور وہ اس وقت ہم سب کی بوٹیاں ارادے ا لیکن ایسانہ ہوا۔ سمبانے اس تقریر کا جواب دینے کے بجائے بڑی نرمی اور خاکساری چنانچہ اس شخص نے، جو اپنے کندھے سے مشکیزہ لگائے ہوئے تھا، یرے کا منہ کھولا اور کھوکھلا کیا ہوا تھی دانت جسے پیالہ کہا گیا تھا لبالب بھر کے سمبا ن طرف بڑھا دیا۔ موخر الذ کرنے پیالہ لے کر تھوڑا سا پانی زمین پر گر دیا یہ غالیا کسی ہوتا کے حضور ، شاید جانا کے حضور ہدیہ تھا۔ اور اب وہ پیالہ منہ سے لگا کے گھونٹ ن پانی پی رہا تھا یقینا یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پانی زہر کو وہ نہ تھامیں غور سے اس لق کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا حلق اوپر نیچے حرکت کر رہاتھا اور اب سما نے کمر میں سے ذراخم ہو کے ماروت کی طرف بڑھا دیا اور ماروت نے اور بھی زیادہ نم کر کے سے میری طرف بڑھا دیا۔ چونکہ میں پیا سا تھا اس لیے چند گھونٹ زیادہ ہی چڑھا گیا اور 137 136 اب میں نے پیالہ ماروت کی طرف بڑھا دیا۔ بقیہ پانی وہ فٹ ٹاپی گیا پیالہ پھر لبا لب بھر ا گیا۔ اسے اب ہمارے تین ساتھیوں کے لیے بھر آ گیا تھا۔ اس دفعہ بھی سمبانے پیالہ منہ سے لگا کہ چند گھونٹ پانی پینا پھر میں نے، ماروت نے اور پھر ہمارے ساتھیوں نے اپنی پیاس جھائی۔ جب ہم اپنی پیاس جھا چکے تو ہمارے لیے لیے ؟ گھوڑے لائے گئے بڑے عمدہ گھوڑے تھے وہ جن پر زمین کے بجائے مینڈھے کی کھال رکھی ہوئی تھی اور گرہ لگی چری پیاں رکالیوں کا کام دے رہی تھیں۔ کالے کا ندہ کی فوج ہمارے جلو میں تھی اور دو مسلح سپاہی ہمارے دائیں بائیں ادب سے سر جھکائے چل رہے تھے۔ لیکن اس ادب و احترام کے باوجود وہ چوکنے تھے کہ ان دو مسلح سپاہیوں کے گھوڑوں کی لگاموں سے ایک خوفناک چرمی کوڑا لٹک رہا تھا۔ ہمارے راستے میں چند گاؤں پڑتے تھے۔ لیکن راست ، جس پر ہم سفر کر رہے تھے ، ان گرائوں سے کترا کے گزرتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جب بھی ہم کسی گاؤں کے قریب سے گزرے۔ عورتوں اور چوں نے حیرت سے سر اٹھا اٹھا کے ہماری طرف دیکھا۔ ہم لوگ شہر سمبا میں مشرقی دروازے سے داخل ہوئے۔ غالبا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مشرقی شہر کے ہر دروازے کی طرح خندق پل کے سرے پر تھا، چوٹی تھا اور بہت مضبوط تھا۔ دروازے پر دوسری طرف کالے کاندہ کے ایک دستے نے سمبا کو فوجی سلام کیا اور ہم شہر سمبا کے مشہور راستوں میں سے ایک پر چل پڑے۔ یہ راستہ مشرق سے مغرب کی طرف اور دوسرا شمال سے جنوب کی طرف جاتا تھا۔ راستہ کافی چھوڑا تھا اور اس کے دونوں کناروں پر باشندوں کے مکانات تھے۔ میں نے مکانات کہا ہے کیونکہ یہ جھونپڑیاں نہ تھیں جیسی کہ افریقہ کے ہر کرال میں ہوتی ہیں بالکہ یہ گارے اور اینٹ کی بنی ہوئی عمارتیں تھیں جن کی چھتیں بیٹی اور کسی قسم کی سمنٹ کی بنی ہوئی تھیں۔ یہ مکانات مشرق ممالک کے مکانات کے نقشے کو ذہن میں رکھ کے بنائے گئے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ کا ندہ کے مکانات صدیوں سے اسی ساخت پر لیتے چلے آئے تھے۔ جب ہم آبادی میں داخل ہوئے تو بہت سے باشندے چھوں پر چڑھے ہمیں دیکھ رہے تھے مرد ، عورتیں اور بچے۔ وہ بچے جو ابھی بہت چھوٹے تھے سڑک پر بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ سب کے سب نہایت صاف ستھرے کپڑے بہتے ہوئے تھے۔ ہم چند اور دروازوں میں سے گزر کر ایک بیسوی میدان میں پہنچے یہ میدان یا پانچ ایکڑ وسیع ہو گا۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ میدان بازار کا کام دے رہا ہو گا۔ گویا وہ بازار تھا۔ اس میدان اور ان سائبانوں میں صرف ان مویشیوں کو رکھا جاتا تھا ھیں اسی دن یا دوسرے دن ذرح کیا جانے والا ہو۔ ذرع کرنے کے لیے مویشیوں کو روزانہ اس کرال میں سے لایا جاتا اور پھر مرح میں پہنچادیا جاتا۔ شهر سمی کا یہ مدح بستی کے جنوب میں انتہائی سرے پر واقعہ تھا۔ اس حصار میں پھر ایک دروازہ تھا ہم اس دروازے میں سے گزر کر دوسری طرف پہنچے تو ایک کافی بڑے مکان کے سامنے تھے۔ یہ مکان بھی بستی کے دوسرے مکانات کی طرح ہی چیپٹی چھت کا تھا البتہ بستی کے ہر مکان سے بڑا کا یہ سمب کا حل ہے، ماروت نے میرے کان میں کہا۔ اس محل کے عقب میں دوسرے چھوٹے چھوٹے مکانات تھے۔ بادشاہ کی یویوں اور دوسری عورتوں کے لیے تھے۔ بادشاہ کی بیویوں اور عورتیں، جو اس کی اشتائیں تھیں، اپنے آقا کے استقبال کے آگے بڑھیں تو میں نے دیکھا کہ وہ سب جوان اور قبول صورت تھیں دائیں اور بائیں طرف دو اور عمارتیں تھیں ان میں سے ایک بادشاہ کے محافظ سپاہیوں کے تصرف میں تھا اور دوسری عمارت مہمان خانے کی تھی۔ میں اسی دوسرے مکان، یعنی مہمان خانے میں پہنچا دیا گیا۔ ان جھونپڑیوں میں سے ایک میں ہمارے لیے کھانا لایا گیا۔ بھیڑ کا بھنا ہوا وشت اور ابالی ہوئی سبزیاں مٹی کی صراحی میں ہاتھ دھونے اور پینے کے ینی حاضر کیا گیا۔ میں چونکہ بہت زیادہ بھوک محسوس کر رہا تھا اس لیے میں نے شکم سیر ہو کے کھایا۔ اور پھر میں اور ماروت گدوں پر لیٹ گئے اور اس قدر تھکے ہوئے تھے کہ لیٹتے ہی 139 138 رات بھر میں بے خب پاسو تر اور خدا جانے یکب تک پر سوتا رہتا کہ سورج اس کی کرنوں کی تھین اپنے چہرے پر محسوس کر کے میں نے آنکھیں کھول دیں دھوپ روشند ان میں سے رینگ آئی تھی جس پر مضبوط چولی سلاخیں لگی ہوئی تھیں چند گھوں تک تو میں بے جس حرکت پڑا رہا اور یہی یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ میں کہاں تازہ ہوں ؟ رفتہ رفتہ یادوں کے در پیچے کھلنے لگے اور گذشتہ کل کے سارے واقعات ہو گئے اور اب خود اپنی حالت بھی آشکارہ ہو گئی۔ اگر مجھ سے میں قیدی تھا اور ان لوگوں کی قید میں تھا جو نرے وحشی تھے اور جو آدمیوں کی جان لی نفرت کرتے تھے تو اس میں حق مجانب تھے میں نے ان کی بہت سے میں نے خود اپنی جان چانے کے لئے تھی حالانکہ میرا ان سے کوئی جھگڑانہ تھ پیشک ایسا ان لوگوں کی قید کیا تھا اور خود حفاظتی جرم نہیں ہے لیکن یہ وحشی جن کا میں قیدی تھا اور ہے وہ کیا میں جو کالا کاندہ کے نام سے مشہور تھے کیا جائیں کہ خود حفاظنی کس چڑیا کا نام سے نفرت کرنا جانتے جائیں کہ انصاف کیا ہے ؟ وہ تو مس مارنا اور مرنا اور اپنے دشمن اور ان کے تھے اور میں ان کا دشمن تھایا نہ تھا لیکن انہوں نے مجھے اپناد سمن یقین کر لیا تھا کہ سمبا نے ہماری تھا اس میں کوئی شک نہیں نزدیک دشمن کو قتل کر دنیا ضروری غیبی قوت مجھے جانے دن تو گئے جاچکے تھے اور یہ کہ کوئی ہے؟ چنانچہ میری زندگی کے جاسکتا تھا کہ کیا ایسے شخص کے وعدے پر اعتبار کیا فاظت کا وعدہ کیا تھالیکن سوال یہ دیں گے اور میں نے کالے کا ندہ مجھے بہر حال قتل کر کے لئے اتر آئے مجھے یقین تھا کہ جھگڑوں میں خواہ مخواہ کائے اور سفید کاندہ کے سوچا کہ میں اسی کا مستحق ہوں کیونکہ میں پاؤس ازانے کی ضرورت تھی دوسروں کے پھٹے ے اپنی ٹانگ اڑائی تھی بھلا مجھے ہی دل ہو بھیتو اب میں اپنے دل بڑے بہاور بنے پھرتے ہو بڑے مہم جو الولا امید نہ نظر آرہی تھی تاہم نا امیری حالات امید افزانہ تھے نور زندگی کی کوئی جلد بلد پرید قسمتی فرار ہو گئے تھے اور زندہ تھےحالانکہ خیال تھا کہ رسجناں اور سیور سیج وہ یہ ہا تھا جو باعث تسکین تھا اور میں بھی ایک نھا سا دیا شمار ے اس گھٹانوپ اندھیرے تو وہ زندہ تھے تھی اس کا مجھے یقین تھا تاہم اس وقت میں بھی اپنی گرفت میں لینے والی سیو سیج کو کو بتایا تھا کہ اس نے رہجنال اور ارے ساتھیوں میں سے ایک نے ماروت جاتے دیکھا تھا اب سوال یہ تھا کہ ید کاندہ کے ساتھ طفل مقدس کے شہر کی طرف تو معلوم ہی نہ ہو گا کہ میں ے یہ دونوں ساتھی کیا کریں گے ؟ ظاہر ہے کہ انہیں یہ کر لئے گئے ہیں۔ ہاں اگر باروتر دوسرے تین ساتھیوں ہمراہ کا ندہ کے ساتھ گرفتار بھلا ہمارے تو بات دوسری تھی لیک ین وہ وہ نے کا ندہ انھیں اس کی اطلاع دے دیں سوچنا بھی حماقت تھی اس استوں کو اس کی اطلاع کیوں دینے لگے ؟ چنانچہ اسکے متعلق کیا کرے گا ؟ ظاہر ہے کہ اسے کام کر رہے ہونگے میں سونے لگا کہ اب رجبال وہ مجھے مردہ تصور کر لیا ہو گا اور اس وقت کلات میں ظاہر ہے کہ ہمارے دوستوں نے رہی کیونکہ جس کی تلاش میں وہ آیا ساس ہو جائے گا کہ اس کی یہ بھاگ دوڑ محض بیکار میں نہیں ہے پھر شائد وہ یہاں سے یعنی اپنی بیومی کی۔۔۔۔۔ وہ کا ندہ لینڈ انگیز مقام سے نکلنے اور سیویچ اور ریجنال اس وحشت بھاگنے کی کوشش کرے گا ا مائد کامیاب ہو جائیں گے۔ 141 140 خدا کرے کہ وہ کامیاب ہو جائیں میں نے دعا مانگی حالانکہ اس کے قبول ہونے کی امید نہ تھی۔ اور پھر بینس تھاوہ بے شک یہاں سے نکلنے کی نہ صرف کوشش کرے گا بائٹہ واقف تھا اور جانتا تھا کہ ایک دفعہ جس راستے پر میاب بھی ہو جائے گا میں ہوا تھا جاتا تھا کہ اس کے قدم پڑ جاتے ہیں وہ اسے پھر کبھی نہیں بھوتا لیکن کیا وہ صحرا عبور کر جائے گا؟ نہیں وہ رستے میں ہی کہیں بھوک اور پیاس سے ایڑیاں رگڑر گڑ کے مر جائے گا اور بقول اس کے میں خود بھی اس سے دوسری دنیا میں جاملوں گا۔ یہ تو عجیب انجام ہو گا اس تگو کا میں نے سوچا۔ میں چند سکینڈ تک آنکھیں بند کئے ہزار با خیالات کے جائے میرے دماغ کے ر گوشے سے لٹک رہے تھے اور میں ایک عجیب طرح کی الجھن محسوس کر رہا تھا چنانچہ میں نے آنکھیں کھول دیں اور گردن گھما کر دیکھا تو ایک دم سے چونک ہزارات کو آنکھیں بند کرنے سے پہلے میں نے اپنا بھرا ہوا دو نالی پستول اپنے پہلو میں رکھ لیا تھا۔ مزید احتیاط کے لئے میں نے اس کا گھوڑا بھی چڑھ لیا تھا تاک اگر دشمن سر پر پہنچ جائے تو میں فراہی لبی دبادوں پستول غائب تھا اور ساتھ ہی میراشکاری چا تو بھی نہیں تھا میری اداسی اور ناامیدی کو اور بھی بڑھا دیا اب میں بالکل نہتا تھا اور اپنے آپ کو چانہ سکتا تھا۔ میں نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا ماروت پالتی مارے فرش پر بیٹھا خالی خالی نظروں سے کہیں خلا میں دیکھ رہا تھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہ تھی البتہ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے شائد وہ اپنے دیو تا کو یاد کر رہا تھا۔ ناروت ؟ میں نے آہستہ سے کہا۔ آقا ؟ اس نے فورا جواب دیا۔ ماروت گذشتہ رات جب ہم خراٹے لے رہے تھے تو یہاں کوئی گھس آیا تھا وہ میرا چا تو اور پستول چرالے گیا ہے۔” تم نے غلط نہیں کہا آقا " وہ بولا میرا چاتو بھی چرا لیا گیا ہے ان دونوں چوروں کو میں نے داخل ہوتے دیکھا تھا وہ آدھی رات کو بلی کی طرح دبے پاؤں ان کمرے میں داخل ہوئے تھے اور ان دونوں نے کیونکہ وہ دو تھے ہماری ہر چیز کی تلاشیا یہ سب تم نے دیکھا اور تعجب ہے کہ دیکھتے رہے آخر تم نے مجھے بیدار کیوں نہ کر دیا میں نے حیرت سے پوچھا۔ ماشک هنود بے فائدہ تھا اگر میں نے تکوبیدار کر دیا ہو تا تو تم یہ سب کچھ خاموشی سے پڑے دیکھانہ اور اس ٹٹولتے چور کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتے مجھے بھی تمھارا ساتھ دینا پڑتا تیجہ یہ ہوتا کہ وہ دونوں اپنے ساتھیوں کی مدد کے لئے پکارتے اور ہم دونوں فراہی قل ردیے جاتے اس لئے میں نے کہ لے جانے دو انہیں ان چیزوں کو جو ہمارے لئے خش بیکار میں ” لیکن وہ پستول کبھی نہ کبھی کام آجاتا میرے بھائی میں نے معنی نیز انداز میں کہا ہاں ماروت نے میرا مطلب سمجھ کے سر ہلایا لیکن پستول کے بغیر بھی آدمی خود کشی کر سکتا ہے۔” ناروت میں نے چند تاتیوں کے توقف کے بعد کہا ہم کسی طرح اپنی حالت کی اطلاع ہاروت کو نہیں دے سکتے ؟ مثلاً وہ تمہا کو جس کے دھوتیں میں میں ے سیکڑوں میل کی چیزیں انگلستان کے ایک قصر میں کھڑے ہو کر دیکھی تھیں ؟ اگر وہ تم با کو ہمیں مل جائے ۔۔۔۔۔؟ وہ تمبا کو چند خاص جڑی بوٹیوں کے برادے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا جس کے دھوئیں نے تمھارے دماغ کو دھند لا کر دیا تھا اور نہیں وہ تصویریں نظر آنے لگی تھیں و ہم تمہیں دکھانا چاہتے تھے چنانچہ یہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ وہ تصویر میں اس تمہا کو کے دھوئیں بلکہ خود ہماری پیدا کردہ تھیں اس کے علاوہ وہ خاص تمبا کو جسے ہم نادو کی کتے ہیں نہ تمھارے پاس ہے اور نہ میرے پاس ” اور یہ بات تھی ہمارے یہاں اس کو نظر ہندی کہتے ہیں تو مطلب یہ کہ اب 142 ہمارے ساتھی ہمیں مردہ تصور کر چکے ہماری زندگی افسانہ قریب اتم ہے اور چونکہ کے چنانچہ اب ہمیں اپنی طرف صرف این ہوں گے اس لئے وہ ہماری مدد کو نہ آئیں قوتوں پر ” قوتوں پر بھر وسہ کرنا ہے یا پھر طفل مقدس کی چکے ہو دیکھو یار ماروت میں نے بے چینی سے پہلو بدل کے کہا تم خود کہ و تھی کہا تھا ات ہ اس نادو کے دھوئیں میں نے جو کچھ دیکھا تھاوہ نظر کے نے؟ چنانچہ اس میں تمھارے طفل مقدس کو کیاد خل ؟ اور تمھارے اس انکشاف یہ طفل مقدس بعد بھی کیا میں اس کی قوتوں پر بھر وسا کر سکتا ہوں ؟ قطی نہیں اور ؟ اب کون ہے ؟ کیا ہے ؟ اور ۔۔۔۔۔۔ یہ سب سے اہم سوال ہے وہ کیا کر سکتا ہے بیچ بچ چونکہ تم جلد ہی ذرح کئے جانے والے ہو اس لئے بہتر ہو گا کہ مجھے یہ سب باتیں بارو مقدس کون اور میکو میزن میرے آقا ! میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا طفل کیا ہے یہ میں نہیں جانتا اس لئے کچھ بتا بھی نہیں سکتا البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ دو کو اپنے ساتھ صدیوں سے ہمارے اجداد کو سر زمین مصر سے نکالا گیا تھا تو وہ اس دیو تا لکھنا نہیں جانتے اس لے کر آئے تھے ہمارے پاس محفوظ ہیں لیکن چونکہ ہم پڑھنے یندوں کی تحریر آج تک نہیں پڑھی گئی اس دیو تا کا منت اعلیٰ موروتی ہوتا ہے چنانچہ اروت جو میرا چا ہے ۔ اسی سلسلے کی رو سے مہنت اعلیٰ ہے ہمارا اعتقاد ہے کہ طفل مقدس دیوتا ہے دیوتا کی علامت یا او تار ہے اور یہ کہ اصل دو تا اس میں حلول کر گیا۔ ہے اور یہ کہ اس دنیا میں اور اس دوسری دنیا میں یہی ہماری حفاظت کر سکتا ہے اور ہمیں بلاؤں اور عذابوں سے چا سکتا ہے کیونکہ ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ انسانوں کی روح لا فانی ہے ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ طفل مقدس با تف نیبی کے ذریعہ جو عورت ہوتی ہے اور مستقبل کی جسے ندائے روح کہتے ہیں۔۔۔۔ وہ اپنے مہنوں سے گفتگو کرتا ہے انہیں ہے جب اتیں بتاتا ہے ہم پر رقتیں اور ہمارے دشمنوں پر قبر اور عذاب نازل کرتا بے بس ہو جاتے ہیں ندائے روح کے دن پورے ہو جاتے ہیں اور وہ مر جاتی ہے تو ہم کو نہیں روک سکتی کیونکہ پھر مفل مقدس ہم سے گفتگو نہیں کر سکتا اور ہمارے دشمنوں ندائے روح کو عرصہ پہلے انتقال ہو گیا تھا لیکن مرنے سے پہلے اس نے بتایا تھا کہ 143 شعبدہ بازوں سری ندائے روح انگلستان میں مل جائے گی اسی لئے میں اور میرے چا کو تلاش کرتے رہے ہمارا کے میس میں انگلستان پہنچے اور کئی برسوں تک ندائے روح ال تھا کہ یہ نئی ندائے روح و ہی خاتون ہے جس نے آقا انجنز سے شادی کر لی ہے کیونکہ اس خانون کے سینے پر بلال بنا ہوا تھا اب چونکہ ندائے روح کا ذکر آگیا ہے اس میکو میزن جب ہم کے متعلق بھی بتاوں اور ماروت نے غور سے میری طرف دیکھا سنو میں ہی اپس افریقہ آئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ یہ نئی ندائے روئے روح ہمارے لوگوں موجود ہے نہ کہ انگلستان میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم ندائے روح کا دماغ مرتے کا ذکر سنا تھا اس لئے وقت ماؤف ہو گیا تھا اور چونکہ اس نے عرب تاجروں سے انگلستان اپنے وطن ہی میں اس کی زبان پر یہی ذکر آگیا کہنے کا مطلب یہ کہ یہ ندائے روح ہمیں کر رہا ہے بس تو یہ ل گئی اور پورے دو سال سے ہمارادیو تا اس کے ذریعہ ہم سے گفتگو ہے پور اقصہ ۔ اور اس تمام عرصہ میں میں خود بھی بڑے غور سے ماروت کی صورت تکتا رہا ان کے چہرے کے جذبات اور اس کی آواز میں جو کھوکھلا پن تھا اسنے مجھے یقین دلا دیا کہ من مقدس کے اس مہنت نے ندائے روح کے متعلق جو کچھ کہا وہ غلط ہے ندائے روع کی تلاش میں باروت و مارت انگلستان آئے تھے ہماری گفتگو انہیں تک پہنچی تھی کہ کالے کا ندہ ہمارا کھانا لے کر آگئے دلیہ اور ہو مرغ ہم خاموشی سے کھاتے رہے اوروہ دونوں خاموش کھڑے گویا ہمارے لقے ہو جانے کا شمار کرتے رہے جہاں تک میرا تعلق تھا مجھے ہماری گفتگو کے یوں بے میں ختم سوس نہ تھا کیوں کہ مجھے جو کچھ معلوم کرنا تھا کر چکا تھاور ماروت نے جو کچھ کہا تھا اس سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ کالے کاندہ کا دیوتا ہا تھی جانا محض ایک مست و پاگل کر ہے۔ بھی تھائی اور یہ کہ اس ہاتھی کا قدو قامت دنیا کے کسی بھی ہاتھی سے بڑھ اس صبح ہمیں کچھ زیادہ بھوک معلوم نہ ہو رہی تھی اس لئے ہم جلد ہی ناشتے سے فارغ ہو کر اٹھے اور اپنی رہائس گاہ سے نکل کر صحن میں اور اسے عبور کر کے اس ھونپڑی میں پہنچے جس میں ہمارے تین شتر سواروں کو رکھا گیا تھا جب ہم اس پڑے میں پہنچے تو ہم نے ان تینوں کو اداس و عملین پایا وہ فرش پر سر جھکائے بیٹھے 145 144 تھے میں نے پوچھا کہ بات کیا ہے انہوں نے جواب دیا کہ کچھ نہیں سوائے اس کے ان کی موت قریب ہے اور یہ کہ وہ ابھی مرنا نہیں چاہتے کیونکہ ان کی بیویاں بھی ہیں اور چی الانکہ میں خود بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ ان چاروں کی زندگی کے دن اب ختم ہو چکے تاہم میں نے اٹھیں تسلی دینے اور ان کی ڈھارس بدھانے کی تقریبا ن کام کوشش کی اور پھر اس جھونپڑی سے نکل کر میں اور ماروت واپس مہمان خانہ میں اور وہاں سے زینہ چڑھ کے چھت پر پہنچے۔ اور وہاں سے ہم نے دیکھا کہ چوک بازار میں کوئی عجیب رسم ادا کی جارہی تھی یہاں میں یہ بتادوں کہ میرے پستول اور چاقو کے ساتھ میری دور تین بھی چرائی گئی تھی۔ غالیا اسے بھی کالے کا ندہ نے پستول کی طرح کوئی جادوئی ہتھیار سمجھ لیا تھا تو کہنے کا تھی اور مطلب یہ کہ چونکہ میرے پاس دور بین نہ تھی اور پھر فاصلہ بھی زیادہ تھا اس لئے میں ہے۔ ٹھیک سے دیکھ نہ سکا کہ یہ چوک میں کیا ہو رہا پر بے دھنگی نگی سی قربان گاہ بنائی گئی تھی جس بتہ اتنا ضرور دیکھ سکتا تھا کہ ایک اگ جل رہی تھی قربان گاہ کے عقب میں بادشاہ سمبا اپنے چند خاص امراء کے ساتھ ایک پائی پر بٹھا ہوا تھا قربان گاہ کے سامنے ایک لمبی چوٹی میز رکھی ہوئی تھی اس میز پر میڈھے یا بھیڑ کی لاش پڑی ہوئی تھی عجیب طرح کے لباس میں ملبوس ایک مہینت مینڈھے یا بھیڑ کی لاش پر جھکا اس کی آلائش کو ٹول رہا تھا غالبا وہ شکون کے رہا تھا اور یہ شگون یقین شگون بد ثم رہا کیونکہ مہینت نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئے اور ایسی آواز نکالی جیسے ماتم کر رہا ہو اس کے بعد مینڈھے یا بھی کی آلائش آگ میں ھینک دی گئی اور اس کے بقیہ کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ جواب دیا۔ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ماروت ؟ میں نے پوچھا۔ شائد فال لے رہے ہیں کہ ہمیں قتل کیا جائے یا زندہ رکھا جائے اس نے مین اسی وقت ایک دوسر امنت جو پرندوں کے پروں کا مضحکہ خیز لباس پہنے ہوئے تھا ایک طرف سے نمودار ہو کے سما کی طرف بڑھ وہ اپنے ہاتھ میں کوئی چھوٹی میں یہ سوچ ہی رہا تھا سی چیز اٹھائے ہوئے تھا میں سوچنے لگا کہ یہ کیا چیز ہو سکتی ہے ابھی کا ناچ نا چنے لگاوہ بڑی تھا اپنی ایک ٹانگ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کے دوسری ٹانگ پر تکنی وروں کالاپروں کا لباس پہنے ہوئے کہ وفعتا ایک دھما کہ خاموش فضا میں گونج گیا اور وہ منت جو بھیانک آواز میں پیچ رہا تھا۔ چڑھا ہوا تھا اس لئے وہ چل تو میر ایہ پستول ہے میں بڑ بڑایا چونکہ اس کا گھوڑا گیا اور گولی اس کی ٹانگ میں لگی ہے۔ نے زمین پر سے ایک شخص آگے بڑھا اس سمبانے چیخ کے کچھ کہا فراہی لوگ پستول کو جلتے دیکھنے پڑے پستول کو اٹھایا اور جلدی سے آگ میں پھینک دیا بہت سے ہو شیار ایک اور تماشہ ہونے کے لئے قربان گاہ کے چاروں طرف جمع ہو گئے ماروت منہ میں ہی تھے کہ ہونی ہو کر رہی۔ والا ہے میں نے کہا لور ابھی یہ الفاظ میرے زندہ چیز کی یکا یک پستول کی دوسری نال بھی چل گئی اور اس کی سرخ کولی کسی طرح سنسنا کے شعلوں میں سے نکلی ایک نائب مہنت کی قضا آگئی تھی وہ پستول کی نال کے سامنے کھڑا ہوا تھا گرم سناتی ہوئی گولی اس نائب مہنت کے جسم کے کسی مرکزی سے نکلی ہوئی کیل حصہ میں پیوست ہو گئی وہ کئی فٹ تک ہوا میں اچھلا اور دروازے میں کی طرح مردہ ہو کر گرا۔ اور اب چوک میں ایک عام بھند ریچ گئی نائب مہنت کی لاش کو ہیں چھوڑ ے وہ سب کے سب بد حواس ہو کے اس طرح بھاگے کہ خود سمبا سب کے آگے تھا ں کے پیچھے خوفزدہ اور بد حواس انبوہ تھا اور اس انبوہ کے پیچھے تھا ایک شخص اپنی ٹانگ یہ وہی پر پھرک رہا تھا اور دوسری طرف وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھا بہت تھا جس کی ٹانگ کو پستول کی پہلی گوئی زخمی کر نئی تھی۔ ان واقعات نے میرے دل میں مسرت کی عجیب لہر ڈال دی ایک چونکہ اتر آئے اس کے علاوہ یہ بھی خیال تماشہ ہو چکا تھا اس لئے میں اور ماروت چھت پر سے لیا تو ان کے غضے کی انتہانہ رہے گی۔ تھا کہ اگر کاندہ نے ہمیں چھت پر ر دیکھ دیکھ صحن میں دس منٹ بعد حصار کا دروازہ کھلا اور چار آدمی مردہ مہنت کو اٹھائے اپنے ہا ہوئے یہ وہی نائب مہنت تھا جو دوسری گولی کا شکار ہو گیا تھا وہ چاروں 146 بھی پہنچایا۔ کندھے پر گھاس پھوس کا اسٹر پچر سا جس پر لاش رکھی ہوئی تھی اٹھائے آگے بڑھے اور انہوں نے وہ اسٹیر پچ ہماری رہائش گاہ کے دروازے کے سامنے رکھ دیا۔ اور اب مسیح سپاہیوں کے ساتھ خود بادشاہ سمبا صحن میں داخل ہوا اس کے پیچھے وہ مہت تھا جو پروں کا لباس پہنے ہوئے تھا اس کے پیر پرپٹی پندرہی ہوئی تھی اور وہ اپنے شاگردوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے چل رہا تھا اور اب میں نے دیکھا کہ یہ شخص اپنے چہرے پر ایک بھیانک منبع لگائے ہوئے تھا اور اس مقید میں دو دانت لگے ہوئے تھے جیسے ہاتھی کے دانت ہوں ان لوگوں کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ صورت سیلاب صحن میں گھس آئے یہاں تک کہ پور محن جسموں سے بھر گیا ۔ بادشاہ نے ہمیں باہر آنے کا حکم دیا اور چونکہ اس کے حکم کی تعمیل کرے کے لاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا اس لئے ہم اٹھ کر باہر آگئے سمبا کے چہرے پر ایک ہی نظر ڈالنا کافی تھا وہ غصہ یا خوف پادونوں قسم کے ملے جلے جذبات سے پاگل ہو رہا تھا۔ دیکھو جادو گرو دیکھو یہ کیا کیا ہے تم نے ؟ اس نے پہلے لاش کی طرف اور پھر زخمی منت کی طرف اشارہ کر کے لرزہ بر اندام کر دینے والی آواز میں کہا یہ ہمارا کام نہیں ہے سمبا ناروت نے جواب دیا بلکہ تم خود اس کے ذمہ دار ہو تم نے سفید فام آقا کا جادوئی آلہ چروا منگوایا چنانچہ وہ آلہ غصے ہو گیا اور یہ اس نے انتقام لیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس جادوئی نمکی نے ان دو میں سے ایک کی جان لی ہے اور دوسرے کو زخمی کر دیا ہے جنہوں نے اسے چر کیا تھا سمبانے کہا اور اس انکشاف پر میرا ول خوشی سے ناج اٹھا ایک چور مار گیا تھا اور دوسرا ہوا تھا یہ اتفاق شہر سمبا والوں کو اور خود سمبا کو ہم سے خوف زدہ کر سکتا تھا سما نے کہا لیکن اے جادو گر و مجھے یقین ہے کہ تم نے ہی اس آلہ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہو گا کیونکہ وہ تمھارا آلہ تھا اس لئے تمہارا تابع فرمان تھا اب سنواے جادو گرد گذشتہ کل میں نے تمھاری جان منشی کر دی تھی اور تمھاری حفاظت کا واعدہ کیا تھا اور یہ تھا میر او عدہ کہ کوئی بھالا تمھار اول نہ چیرے گا اور کو چانی تھارا حلق نہ چھوٹے گا اور اپنے وعدے کو پکا کرنے کے لئے میں نے تمھارے ساتھ صلح کا جام پیا تھا لیکن تم نے خود صبح توڑ دی ہے نہ صرف صلح توڑ دی ہا کہ ہمیں نقصان 147 طرف سے ہوئی ہے کا پابند نہیں رہا پہل تمھاری چنانچہ میں بھی اپنے وعدے جان لی ہے اور سے میرے ایک خادم کی نے اپنے جادو کے زور سنویہ ہے میرا فیصلہ تم انگلی کی پور کے بائیں پیر کی درمیانی اور اس طرح کہ اس دوسرے کو زخمی کر دیا ہے سے زندہ نہ کر دیا جو مردہ معلوم نے تین دنوں کے اندر اندر صاف اڑ گئی ہے اب اگر تم سے جا ملو گے جو تو سن لو کہ تم بھی ان لوگوں تم یہ دونوں کام کر سکتے ہو۔ ہے اور مجھے یقین ہے انگلی کی پور جو غائب معلوم ہوتی ہوتا ہے اور اس کے بائیں پیر کی تو یہ ہے میرا فیصلہ یہ ہے کسی طرح یہ نہیں جانتا میدان جنگ میں قتل ہوں گے میں ۔ وعدے کے زبر دست بادشاہ سمبا کا فیصلہ نے خاموش رہنا ہو گیا لیکن اس وقت میں سمبا کا یہ فیصلہ سن کر میں بد حواس نہیں چنانچہ میں میں نے گویا سمبا کی بات کبھی ہی ور یہ ظاہر کرتا ہی مناسب سمجھا کہ کے یوں جواب دیا۔ اور ماروت نے حب معمول مسکرا دے پر چھوڑ دیا کہ وہ جیسا مناسب سمجھے جواب خاموش رہا اور انجان بار با جواب ماروت بھی زندہ کر سکا ہے ! حتی کہ طفل مقدس سمبا کبھی کوئی مردے کو زندہ تو پھر کو زندہ کرنے کی ترکیب کوئی نہیں جانتا ہیں کر سکتا کم سے کم اس دنیا میں مردے کو مردہ کرو اور تمہیں معلوم ہے ورنہ میں زندہ انے چرب زبان تم ہی کوئی ترکیب معلوم وہ الفاظ بھول گئے جو اس ہوں سمبا غالبا تم ہاروت کے نے کی بہت سی ترکیں جاتا اگر تم نے ہمیں ہیں تو دوبارہ یاد دلائے دیتا ہوں ے کل ہی کے تھے اگر تم نے بھلا دئے مقدس کے تین عذاب نازل ہونگے صان پہنچایا تو تم پر اور تمھارے لوگوں پر طفل زیادہ دور نہ ہونگے میں طفل جان لو اگر ہم میں سے ایک بھی قتل کیا گیا تو یہ عذاب کچھ کہتا ہوں سچ کہتا ہوں” عقدس کا منت ہوں چنانچہ جو سمجھا کہ اب کھیل ختم ہوا وہ بھالا اب تو سمپانچ بیچ پاگل ہو گیا اور میں نے پر پڑی ہوئی چاندی کی یہ ان تک کے اس کے سینے ائے اور ہمارے سامنے نا نے لگا پیدا کرنے لگیں وہ طفل مقدس اور اسکے زیر میں آپس میں ٹکرا کے جھنگار کی آواز میں اس کے پرستار صدیوں سے کالے پرستاروں کو گالیاں دینے لگا کہ طفل مقدس اور 149 148 اندہ کو پریشان کر رہے ہیں اس نے دو تا جانا کی دہائی دی کہ طفل مقدس کے اپنے دانتوں سے ٹکڑے اڑ دے اور وہ لنگڑا منت جس کی انگلی اڑ گئی تھی اور جو بھیانک مقنع لگائے ہوئے تھا اس کی دعا پر آمین کہتا رہا اور ہم اس غصے میں بھرے ہوئے وحشی بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے میں دیوار سے ٹیک لگائے اور ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بظاہر ہے تعلق سے کھڑا تھا اور قدرے دلچسپی سے سمبا کو یوں ناچتے دیکھ رہا تھا لیکن سوج رہا تھا کہ میرے بدن کے کون سے جھے میں اس وحشی بادشا کا بھالا اتر جائے گا ؟ دنعنا سما نے اپنار قص ہند کر دیا اور اب اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف گھوم کر کہا۔ حصار کے کونے میں کھڑ کھود کے مہینت کی لاش اس میں بٹھا و اس طرح کہ اس کا سرباہر رہے تا کہ وہ سانس لے سکے”۔ سمبا کے اس حکم کی فورا تعمیل کی گئی۔ اب سمبا نے دوسرا حکم دیا اور وہ یہ تھا کہ ہمیں خوب اچھی طرح کھلا یا پلایا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ اب وہ ہماری طرف گھوم گیا۔ اگر تیسرے دن کی صبح تک اس مردے میں جان نہ پڑ گئی اور یہ زخمی پوری طرح تندرست نہ ہو گیا تو پھر میں تمہاری مزاج پرسی کو آؤں گا، وہ بولا اور پلٹ کر چل دیا اس کے پیچھے سب لوگ چلے گئے سوائے ان چار وحشیوں کے جو منت کی لاش کو گڑھے میں بٹھا رہے تھے۔ یہ کام بھی پورا ہو گیا۔ اور اب آپ اس منظر کو ذرا تصور میں لانے کی کوشش کیجئے ہماری رہا کنگاہ کے دروازے کے عین سامنے اور دروازے کی طرف منہ کر کے مہنت کی لاش اس طرح بیٹھی ہوئی تھی کہ اس کا پورا جسم گردن تک زمین میں دفن تھ بڑا ہی بھیانک منظر تھا وہ جسے دیکھنے کی تاب میں نہ لا سکتا تھا چنانچہ میں سوچنے لگا کہ تین دنوں تک میں عجیب طرح کی بے چینی میں مبتلا رہوں گانہ دن کو آرام میسر آئے گا اور نہ رات کو نیند یکن ابھی کچھ اور بھی باقی تھاوہ چاروں مٹی کے برتن تھے اور ان میں کھانا اور پانی بھر ہوا۔ تھا۔ یہ چھوٹے برتن انھوں نے سر کے چاروں طرف رکھ دیئے یہ مردے کا کھانا تھا لار پھر مکے نمابر تن کو ان چھوٹے برتنوں پر اس طرح اوندھا دیا کہ مردے کا سر اس سے ڈھک گیا میں نے ان میں سے ایک کو کہتے سنا :۔ یہ اس لئے کہ ہمارے نیند میں مدہوش بھائی کو دھوپ میں پریشان نہ کرے جب سب کچھ ہو گیا تو مجھے ان کا یہ عمل بظاہر بے ضرر نظر آیا لیکن غور سے دیکھا تو چھوٹے برتنوں پر النار کھا ہوا بر تن ایک عجیب لرزہ خیز منظر پیش کر رہا تھا۔ اور اب میں سوچ رہا تھا کہ کاش ان لوگوں نے مردے کو یوں ڈھائک نہ دیا ہو تا آپ اسے یرا تصور کہہ بجے لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اوندھا کیا ہوا بر تن مجھے بہت ہی بھی ایک معلوم ہو رہا تھا میں یہ بتانا بھول گیا تھا کہ سمبانے سفید کاندہ کے مقتولوں کے سر اپنے محل کے سامنے زمین میں گڑے بانسوں پر چڑھا رکھے تھے لیکن میرے خیال میں وہ منظر بھی اس لئے منکے کی طرح لرزہ خیز نہ تھا۔ اس ایک واقعہ کے علاوہ اس دن کوئی اور واقعہ نہ ہوا اور چونکہ بادل چھائے ہوئے تھے اس لیے رات کا اندھیرا جلد ہی اتر آیارات طاری ہو گئی اور ہم سو گئے سو کیا گئے اس یوں سمجھئے کہ سوتے جاگتے رہے رات کے کسی حصے میں عقب کی جھونپڑیوں میں سے میں نے ایسی آواز سی جیسے ہاتھا ائی ہو رہی ہو لیکن چونکہ دوبارہ میں نے یہ آواز نہ سٹی اس لئے میں نے اس طرف کوئی دھیان نہ دیا۔ آخر کار صبح ہوئی اور چونکہ بادل اور بھی زیادہ گھرے ہو گئے تھے اس لئے دھندل دهند لا اجالا بہت دیر بعد زمین پر اتر آیا جب روشنی ذرا بڑھی تو ہم اپنے شتر سوار ساتھیوں کی خیرت معلوم کرنے کے لئے عقبی جھونپڑی میں پہنچ گئے اور میں یہ دیکھ کر کانپ گیا کہ جھونپڑی میں ہمارے تین ساتھیوں کے بجائے صرف دو فرش پر بہت ہے کے تھے ہم نے پوچھا کہ ان کا تیسر اسا تھی کہاں گیا۔ معلوم نہیں۔۔ انھوں نے جواب دیا آدھی رات کو سمبا کے چند آدمی میں آئے تھے۔ انھوں نے ہمارے ساتھی کے ہاتھ پاؤں باندھے اس کے منہ میں کپڑا ھونسا اور اسے کھیسٹ کر باہر لے گئے ” ہم چونکہ کچھ نہ کر سکتے تھے اس لئے خاموشی سے واپس اپنی رہائش گاہ میں ہنچ گئے سردی بڑھ گئی تھی اور ہمارے دانت حج رہے تھے۔ 151 150 اس دن بھی کوئی خاص واقعہ نہ ہوا اس کے کہ چند منت آئے اپنے نیند میں مد ہوش ساتھی کا معائنہ کیا جس کا چہرہ پھول کر اور بھی بھیانک ہو گیا تھا، کھانے اور انی کے جھوٹے برتن ہٹا کے تازہ کھانے اور تازہ پانی کے دوسرے برتن رکھے اور مردے کے سر پر مڑکا اوندھا کے چلے گئے۔ اس کے علاوہ اس دن بھی یہی ہوا کہ بادل اور بھی زیادہ گہرے اور گاڑھے ہو گئے ہوا اور بھی سرد ہو گئی اور اگر ہم افریقہ کے علاوہ دنیا کے کسی اور ملک میں ہوتے تو میں بڑے یقین سے کہہ دیتا ہ برف باری ہو گی ہم نے اپنی رہائش گاہ کی چھت پر سے دیکھا کہ شہر سمبا کے باشندے آج اور بھی زیادہ حیرت زدہ تھے موسم کی تبدیلی کے متعلق اور بھی شدو مد سے حث کر رہے تھے اور مین نے یہ بھی دیکھا کہ جو لوگ اپنے کھیتوں کی طرف جار ہے تھے وہ اپنے کندھوں پر چٹائیاں ڈالے ہوئے تھے۔ دوسرے دن دیکھا تو جھونپڑی میں ایک شتر سوار رہ گیا تھا جو خوف سے پاگل ہو رہا تھا اس کی حالت کچھ ایسی ہو رہی تھی کہ وہ یہ بھی نہ بتا سکا کہ اس کے دوسرے ساتھی کے ساتھ کیا واقعہ ہوا۔ اس چارے نے رو رو کر کہا کہ ہم اسے اپنے ساتھ مہمان خانے میں لے جائیں ورنہ کالے شیطان اسے بھی کھا لیں گے چنانچہ ہم اسے ساتھ لے کر جھونپڑی سے نکلے۔ لیکن ہم ابھی باہر ائے ہی تھے کہ خدا جائے کہاں سے مسلح وحشی بڑے پر اسرار طریقے سے نمودار ہوئے اور انھوں نے ہمارے آخری ساتھی کو واپس جھونپڑی میں ڈھکیل دیا۔ ہٹا کے یہ دن بھی گزشتہ دن کی طرح ہی گزرا منت آئے انھوں نے مٹکا مردے کا معائنہ کیا کھانے پینے کے برتن ہٹا کے دوسرے بر تن رکھے اور چلے گئے اور شہر سمبا کےآسمان کالے کالے بادلوں سے بدستور ڈھکا رہا سر و ہوابد ستور پھنکتی رہی اشندے بدستور چوک میں جمع ہوتے اور موسم کے متعلق پاتیں کرتے رہے۔ ہائش گاہ کی چھت پر پناہ کی لیکن اس رات ہم دونوں ہی نہ سو سکے سردی شدید تھی رات کا اندھیرا پھر اثر اور یہ تیری را تھی ایک بار پھر ہم نے اپنی ہماری حالت خراب ہو رہی تھی اس کے علاوہ دلو دماغ کو بھی سکون نہ تھا آسمان جیسے بادلوں کے بوجھ سے یو بھل ہو کر جھک آیا تھا۔ فضا میں ایک عجیب طرح کی ھٹن تھی ضا کی رگ رگ میں ایک عجیب طرح کی بے چینی سے رچی ہوئی تھی چاند گاڑھے اولوں کے پیچھے چھپ گیا تھا لیکن کبھی کبھی افت پر دھند کی روشنی نمودار ہو رہی تھی کبھی مشرق کی طرف اور کبھی مغرب کی طرف ہوا، بد تھی اور فضا ہو لے ہوئے گرج رہی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے قیامت آنے والی ہو اور جہاں تک ہمارا تعلق تھا ہمارے ئے تو اب قیامت قریب تھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ اس رات میں جیسا شدید اور قابل فراموش خوف و ہر اس محسوس کر رہا تھا زندگی میں میں نے پہلے کبھی محسوس نہ ا تھا اگر مجھے یقین ہوتا کہ صبح میں قتل کر دیا جاؤں گا تب تو میں ایسا خوف محسوس نہ ا لیکن امید و ہم کی حالت میرے حواس گم گئے تھے میں جانتانہ تھا کہ صبح کیا ہو گا میری حالت اس مسافر کی سی تھی جسے ایک گھنے جنگل میں دھکیل دیا گیا ہو اور راستے کی ساری دشواریاں برداشت کر کے آگے بڑھتا چلا جار ہو لیکن ای یہ نہ نہ جانتا ہو کہ اس کی منزل کہاں ہے یا یہ کہ منزل پر اس کے لئے کیا ہے۔ آدھی رات کے وقت ہم نے پھر جدو جہد کی آواز میں اور اس کے بعد گھٹی وئی چیخ سنی۔ اپنے ہمارا تیسر اس تھی بھی گیا ماروت میں نے ماروت کے کان میں کہا اور ماتھے پر سے ٹھنڈا پسینہ پونچھ لیا۔ ہاں اور بہت جلد ہم بھی اس کے پاس پہنچ جائیں گے میکو میزن ” اس نے جواب دیا۔ کاس کہ اس وقت اندھیر نہ ہو تا کاش اس وقت میں ماروت کا چہرہ دیکھ سکتا کیونکہ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ الفاظ کہتے وقت وہ مسکر رہا تھایا نہیں۔ ایک گھنٹہ بعد چوک میں قربان گاہ پر پھر آگ جلائی گئی اور اس کی لرزتی ہوئی سنی میں پھر چلتے پھرتے انسانی سائے نظر آنے لگے سامنے جلتی ہوئی آگ اور اس کی کہ میں اپنے روشنی میں حرکت کرتے ہوئے سائے ۔۔۔ یہ منظر کچھ ایسا پر اسرار تھا آپ کو لاکھ روکنے کے باوجود اس طرف متوجہ ہو ہی گیا وہ تو شکر ہے کہ وہ ساری رسومات کافی فاصلے پر ادا کی جارہی تھیں ورنہ میں وہ سب کچھ دیکھ لیتا جو دیکھنا نہ چاہتا 153 152 تھا۔ ہمارے تیسرے ساتھی کو جب چوک میں دیو تا جانا پر بھیٹ چڑھایا جا رہا تھا اور بھیٹ کی لرزہ خیر رسومات ابھی ادا کی جارہی تھی کہ دفعت بیخ بستہ ہوا کے جھونکے چلنے لگے ویسے ہی شدید جھگڑ جیسے کہ جنوبی افریقہ میں طوفان با دو۔ یاراں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں کوئی آدھے کے؟ گھنٹہ بعد ہوا کا زور یکلنت کم ہو گیا اور کالے بادلوں میں جلی چمکنے تی اور بجھتی روشنی میں ہم نے دیکھا کہ شہر سمبا کی تقریباً ساری اور جلی کی تی آبادی چوک میں جمع تھی۔ کم سے کم سینکڑوں لوگ جمع تھے جو آسمان کی طرف اشارے کر رہے تھے اور آپس میں کچھ کہہ رہے تھے۔ دس منٹ بعد ایک زیر دست کڑا کا ہوا جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ گرج کی یہ آواز چاروں افقوں کی طرف لڑھکتی چلی گئی اور پھر کوئی سخت اور ٹھوس چیز میرے قریب اگر گری۔ پھر دوسری اور تیسری ۔ اور پھر میرے کندھے پر کوئی چیز لگی۔ اور اس زور سے کہ میں دردو تکلیف سے پنج اٹھا حالانکہ کندھے پر چرمی کمبل ڈالے ہوئے تھا۔ نیچے جلو ماروت ، میں نے کی کر کہا وہ وحشی ہمیں پتھر مار رہے تھے۔ اور میں زنے کی طرف بھاگا اور دس منٹ بعد ہی میں اور ماردت کمرے کے ایک کونے میں سکڑے بیٹھے ے کیونکہ پھر یا جو کچھ بھی وہ تھے۔ زینہ اتر کر کمرے میں گر رہے تھے۔ میرے پاس اپ اور تمبا کو کے علاوہ دیا سلائی کی چند تیلیاں بھی تھیں اور پیچھے خوفناک گھنٹوں میں پائپ ایک عمدہ رفیق ثابت ہوئی تھی۔ خیر تو میں نے ایک تیلی جلائی اور اس کی روشنی میں پہلی بات یہ دیکھی کہ ماروت کے چہرے سے خون بہ رہا تھا اور دوسری یہ کہ وہ پتھر در اصل برف کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے جو زینے پر سے لڑھک کر ذی روح کی طرح فرش پر آرہے تھے۔ اولوں کا طوفان ناروت نے کہا۔ اولوں کا کیا دوزخ کا طوفان کو میں نے کہا کیونکہ اتنے بڑے اولے میں نے تو پہلے کبھی دیکھے نہیں۔ ژالہ باری ہو گئی کیونکہ بارش یہ گفتگو بھی ختم ساتھ ہی ہماری تیکی مجھ گئی اور اولے برس ممکن تھا۔ نہایت آواز کے ساتھ کے شور میں ایک دوسرے کی آواز سنانا کے تھے۔ لیکن اس گرج کی آواز اور ژالہ باری رہے تھے بڑے شور سے بادل گرج رہے باشندوں کی آواز تھی۔ شور سے الگ ایک آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔ یہ شہر سما کے چند منٹوں بعد ہی ہے تھے۔ ژالہ باری کا شور اور بڑھا اور جو بڑی کر بناک آواز میں رور کی چھت اور اس کی دیواریں ژالہ باری مجھے یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں مہمان خانے خانے میرا یہ خوف بے بنیاد ثابت ہوا۔ مہمان ی تاب نہ لا کر ہم پر ڈھے نہ جائیں۔ لیکن کی چھت اور دیواریں بہت مضبوط تھیں۔ سہہ گئی اگر چنانچہ یوں ہوا کہ ہماری رہائش گاہ کی چھت اس آسمانی گولہ باری کو آپڑتی۔ تو ایسا شدید تھا اور چھت گھریل یا نین کی بنی ہوتی تو یقینا ہمارے سروں پر اولوں کا وہ طوفان کے دس ژالہ باری کا یہ طوفان کوئی بیس منٹ تک جاری رہا اور ان بیس منٹ ر حقیقت میں قیامت کے تھے۔ رفتہ رفتہ طوفان کا زور کم ہونے لگا۔ طوفان ختم بھت پر جائیٹھے۔ چھت پر یخ کی گئی ایچ موٹی تہ جھی ہوئی تھی۔ اور سامنے بازار کا چوک کیا۔ بادل چھٹ گئے اور چاند اپنی پوری آبو تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ ہم پھر ہوا تھا۔ زندانے وار اولوں سے پوراڈھکا فضا چونکہ برف کا طوفان گزر چکا تھا اس لئے اس گرم ملک کا گرم موسم پھر چنانچہ ژالہ کا رہا تھا اور نتیجہ اس کا یہ ہ رہا تھا کہ اولے سرعت سے پچھل رہے تھے جس طرح راہ پارہا تھا ہلکے وں کے بعد ایک سیلاب سا رہا تھا۔ یہ پانی صورت سیلاب سن رہے تھے۔ یہ گھوڑوں کے سے شور کے ساتھ پہ رہا تھا ہم چند دوسر کی آوازیں بھی نہ لا کر گھوڑوں پر گر پڑی ں کی آوازیں تھیں۔ اصطبل کی چھت ڈالہ باری کی تاب ادہ رونے اور بین کرنے کی آواز تھی۔ شہر سما کے اکثر ملوں میں صف ماتم پچھی ہوئی تلے دب گئے تھے۔ اس یا کیونکہ اکثر کمزور مکانات ڈھے گئے تھے اور اکثر مکیں ملبے تھے۔ مردوں عورتوں اور چوں لاوہ ہم چوک میں بہت سی لاشیں پڑی دیکھ رہے اس سے پہلے کہ وہ لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو ژالہ باری کے شکار ہو گئے تھے۔ 155 154 بھاگ کر اپنے گھروں میں پناہ لیتے اولوں نے انہیں آیا تھا اور میں نمی و مردہ کر کے ڈال دیا۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس رات دو ہزار سے زیادہ لوگ بھینٹ کی رسومات میں شریک ہونے کے لئے جمع ہوئے تھے کہ دفعہ اولوں کے طوفان نے انہیں آلیا۔ در طفل فل مقدس چھوٹا سا ہے لیکن زبردست قوتوں کا مالک ہے دیکھو یہ ہے اس کا پہلا عذاب جود شمنوں پر نازل ہوا ہے ماروت نے میر آواز میں اعلان کیا۔ میں نے ماروت کی طرف دیکھا۔ چونکہ وہ یقین کر چکا تھا کہ ژالہ باری کا طوفان طفل مقدس کا بھیجا ہوا ہے اس لئے میں نے اس سے اس موضوع پر گنگو کرنا مناسب نہ سمجھا لیکن میں یہ سوچے بغیر رہ بھی نہ سکا کہ ماروت جو کچھ کہہ رہا ہے اس پر یقین بھی رکھتا ہے ؟ خیر اپنا پنا مذہب اور اپنا اپنا عقیدہ ہے مجھے کسی کے بھی مذہب اور عقائد سے کیا لینا دینا۔ صبح ہوئی تو پتہ چلا کہ کالے کاندہ حقیقت میں برباد ہو گئے تھے فا لیا میں کسی س لئے شہر سمبا میں کھانے کی کوئی جگہ کہ چکا ہوں کہ کالے کا ذہ کے علاقے میں اس سال بہت عمدہ اور خوب فصل تار جر اس صبح ہمارے لئے بات نہ لایا گیا۔ شاید اس لئے شہر گزشتہ رات ہم کھانا نہ وئی تھی اور فصل کی کائی جلد ہی ہونے والی تھی۔ پچھلے دنوں ہم نے چھت پر سے بائی نہ ہوگئی تھی۔ لیکن اس کی کوئی ضرورت بھی نہ تھی۔ ے بعد جب سورج طلوع ہوا تویہ کی اتھ جا قص ہماری تھی را باد کیا اور اس جھونپڑی میں بھی ہمارا آخر ماتی تیم تھا لیں کا تو رکھا تھا۔ چنانچہ ہم نے وہ ٹھنڈ بائی یت کو ملاتے دیکھا تھا جو عین جنگل کی سر حد تک چلے گئے۔ ڈالہ باری کا رات کے تھے۔ ا لئے رات کا کھاناجوں شتر سوار کو بھی راتوں رات نہ رہا تھا۔ ہر پری خالی پڑی ہوئی تھی۔ پہلے دو کی طرح اس آخری ہر بھر اسا نظر آرہا تھا حتی کہ خود جنگل بھی ژالہ باری کے خب محفوظ سے پر ہو گیا۔ ھر جنگل ایک ہی رات میں نگا ہو گیا تھا۔ کسی بھرخت پر اکھ پتا نظر نہ آرہا رہا گیا تھا اس خالی جھو پری کو کھ کر میر اول فصے کو قتل کر دیا گیا ہے ۔ میں نے دانت پیس کر کہا۔ لنڈ منڈ درخت اپنی نگی ٹہنیاں اٹھائے کھڑے تھے اور ہیں۔ ان میوں کین بھولے نہ ہوں گے کہ مردہمت کو جاری رہائش گاہ کے روانہیں ماروت نے کا ان نیوں کو بھی چڑھایا گیا ہے رات کو ہم ے سامنے دفن کیا تھا۔ اور اس طرح ہ اس کا سر بے باہر تھ اس کے سر پ ایک پاک یو کھ دیکھاتھا۔ وہ دراصل بھینٹ ک رسومات ادائی جارہی تھیں۔ اب ٹکا اوندھا دیا گیا تھا۔ وہ چار مردہ منتظر تھا کہ ہم اپنے جادو کے زور سے اسے دوبارہ زند انباری ہے میکو میزن کر دیں گے لیکن ہوا یہ کہ اس کے سر پر ڈھتے ہوئے ملے یت خیر کر جیاں اڑی میں سمجھتا ہوں کہ ان کی اس بھیلوں کا جواب جو جانا نے دیا ہے اس سے تھیں۔ خود منت کا سر بھی پش پاش ہو گیا تھا۔ تو ایسا تناوہ طوان جو اپنی پوریا کہ ممکن ہو گئے ہوں گے اور اب اگر انہوں نے ہم و ہاتھ لگانے کی کوشش کاریوں کے ساتھ شہر سمبا پر نازل ہوا تھا۔ یہ ہے کہ جو اب ہماری کی مدد تو اس کا بھی جواب دیا جائے گا۔ لیکن سوال 157 156 غصے اور خوف نے میری زبان گنگ کر دی اور میں پلٹ کر مہمان خان میں چلا آیا۔ اور ہمیں وہاں پہنچے چند سیکنڈ ہی ہوئے تھے کہ حصار کا دروازہ جو ٹوٹ پھوٹ تھا کھلا اور سمبا تحت میں داخل ہوا اس کے ساتھ وہ لنگڑا منت تھا جس کے پیری انگلی کا پور اڑ گئی تھی۔ اس دفعہ وہ بیسا کھیوں کے سارے چل رہا تھا ان کے پیچھے دوسرے لوگ تھے جو تقریبا سب کے سب زخمی تھے۔ رات کی ژالہ باری نے کسی کون تا تھا۔ میں کہہ چکا ہوں کہ میرے دل میں غم و غصے کا لاوا جل رہا تھا جو اس قدر ہیں کہ تم نے اس سفید قیام اجی سمبانے جواب دیا ہم یہ دیکھنے آئے ت کو زندہ کر دیا یا نہیں جو تمہارے ۔ جادو سے مر گیا تھا۔ اب میں آگے بڑھا اور میں نے وہ چٹائی اٹھا کے الگ پھینک دی جو میرے کہنے ناروت نے لاش کے بھتے ہوئے سر پر ڈال دی تھی کہ وہ بھیانک منظر میری نظر تھے تو پھر دیکھو میں نے لاش کے سر کی طرف جس کے پڑنچے اڑ گئے کر دوسرے چاند کے طلوع شارہ کر کے کیا۔ اگر تم نے ہمیں آزاد نہ کر دیا تو یقین کرو کر دو لو اور یقین کر نے تک یا غروب ہونے تک تم سب کی بھی یسی حالت ہو جائے گی دیکھ شدید تھا کہ میں یہ بھی بھول گیا کہ اب تک میں اندہ زبان نہ کھنے ک ناٹک نماین کہ تمہاری کھوپڑیاں بھی پاش پاش ہو جائیں گی دیکھ لور سمجھ لو کہ تم جیسے غازوں کو کامیانی سے ادا کر رہا تھا۔ بہر حال میں ساری احتیاط بھول کے اٹھا اور اس سے پہلے کے سمیا کچھ کہتا میں اس کے سامنے پہنچ چکا تھا۔ خونی ظالم کہاں ہیں ہمارے ساتھی ؟ کہاں ہے وہ سفید کا ندہ جنہیں ھونپڑی میں رکھا گیا تھا ؟ میں نے نیچ کر پوچھا کیا تم نے ان تیوں کو جانا پر بھینٹ نہیں چڑھا دیا؟ تو دیکھو یہ ہے تمہارے ظلم کا نتیجہ ۔” اور میں نے برباد کھیتوں اور ننگے جنگل کی طرف اشارہ کیا۔ کہاں گئی تمہاری فصل ؟ کیا ہوئے تمہارے کھیت ؟ اب موسم سرما میں کی لیوار دن میرے یہ الفاظ سن کر وہ سب کر اپنے لگے۔ یقینا وہ تصور کی نظروں سے سما میں قحط سالی دیکھ رہے تھے۔ ان بچوں کو بھوک سے بلک بلک کر مرتے دیکھ تھے۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا :۔ اور تم نے ہمیں کیوں قید کر رکھا ہے ؟ کیا تم کسی اور عذاب کے منتظر ہو شدت جذبات سے میرے گلے میں پھندے سے پڑ گئے اور میں خاموشی کیا لینے آئے ہو اب تم ؟” گیا یہی سزا دیتے ہیں” اور اب وہ لوگ حقیقت میں سہم گئے۔ کیا تمہارا جادو آقا! سمبانے مجھے پہلی دفعہ اس معرز لقب سے مخاطب زور دار ہے ککم سے کم ہمارے پاس اس کا توڑ میں ہے ہمارے ملک پر ایک عجیب خت نازل ہوئی ہے سینکڑوں آدمی مر گئے ہاں اس زالہ باری سے مر گئے جو تمہاری لائی سے پیغامبر سے: ئی بھی ہماری فصلیں تباہ ہو گئیں ہمارے کھیت تفریا خالی میں اردوگر اور بہت سے مویشی رات ہیں اور انہوں نے خبر دی ہے کہ تقریبا ساری بھیڑیں طوفان میں مر گئے ہیں وہ دن دور نہیں جب ہم بھوکوں مرنے لگ جائیں گئے ! اور ہویا اس کے مستحق بھی ہو میں نے بے رکمی سے کما سما کواب بھی ہمیں آزاد کرتے سما چند لمحوں تک میری صورت تکتا رہا اور پھر اس لنگڑے ے منت کے کان ان دونوں کی باتیں کچھ کہنے لگا جس کے پیر میں میرے پستول کی گولی لگی تھی میں سے دیکھنے لگا منت جس کے سر کو انہ ملتا تھا چنانچہ میں اس کے چہروں کی طرف غور نے جذبات نے مجھے بہت کچھ بتا دیا تھا منت گئی اولوں نے زخمی کر دیا تھا، بشرے کے کے چہرے پر مقبح نہ تھا اور مل جو مقبح نگار کھا تھا وہ خاصا بھیانک تھا لیکن اب اس تھا یہ بھی کم بھیانک نہ تھے بڑا ہی بد صورت نے دیکھا کہ اس کے چہرے کے نقوش 159 158 ممنت پینٹی ناک جس کے نتھنے ضرورت سے زیادہ پھیلے ہوئے تھے موٹے لنگتے ہو۔ ہونٹ باریک اور حلقوں میں دھنسی ہوئی آنکھیں اور بھرے سے عیاں عیاری اور سنگدلی کے جذبات جو صرف اس طبقے سے مخصوص ہوتی ہے ہر چند کہ اس وقت خوفزدہ اور سما ہوا تھا لیکن مجھے یقین تھا اور یہی اس کے بشرے سے ظاہر بھی تھا کہ وہ ار وقت بھی اپنے آقا سما کو کوئی الٹا مشورہ دے رہا تھا اور اسے ہمیں نقصان پہنچانے کی کور عمدہ ترکیب بارہا تھا لیکن خود مبا منت کے اس مشورے سے متفق نظر نہیں آتا تاہم حال ترکیب ایسی تھی کو یا سانپ بھی مر جائے اور لاکھی بھی نہ ٹوٹے میرا یہ اندازہ ملاز تھا کیونکہ چند سکنڈ بعد ہی سمبانے آگے بڑھ کر یوں مخاطب کیا :۔ آقا ! ہمارا خیال تھا کہ ہم بطور پر عمال کے تمہیں اس وقت تک اپنا مہمان رکھیں گے جب تک کالے اور سفید کاندہ میں ایسی صلح نہیں ہو جاتی جیسی کے ہمارے اجداد میں تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قسمت کو یہ منظور نہیں اور پھر تمہارا جادو بھی ہمارے لئے بہت زور دار ہے اس لئے میں نے تمہیں آزاد کر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج سورج غروب ہونے کے بعد ہم تمہیں اس راستے پر چھوڑ دیں گے؟ اور ہماری اپنی بیسا کھیوں پر گھوم گیا پر پہنچ کے لکڑا منت پاٹ کر چل دیئے دروازے دے رہا تھا لگا شاید وہ ہمیں بددعا طرف دیکھ کے کچھ بد بدانے سر خوشی کے عالم والے ہیں میں نے ایک بہر حال وہ ہمیں آزاد کرنے میں کہا۔ وہ ہمیں کہاں لیکن لیکن ، یہ بھی جانتے ہو کہ ہاں ماروت نے جواب دیا جنگل شروع ہوتا کے کنارے سے جو دل لیں اور چھوڑنے والے ہیں ؟ دریائے ناوا کے وقت اس طرف گشت کیا ہیں کہ یہ دیوتائے شررات ہے وہ جان کا مسکن ہے اور کہتے کہ یہ پر اسرار کرنا مناسب نہ سمجھا اور سوچا میں نے اس موضوع پر گفتگو کے ہر خلاف قربان گاہ اس سے چچا جا سکتا ہے اس تھی تو ابھی بہت دور ہے اور حال لازم ہے۔ نہ تھا اس لئے خدا کا شکر بہر ت قریب ہے اور اس سے چنا ممکن ہے تانی مال تا رکھا ہو شام کا ایسی بھی کسی چور نے جس نے زبر دست کرتے دیکھتا بالوردن کے طویل کھنے گزرتے کانہ کو مردے اٹھا جا کر لاتے اور دفن دوسرے سے جدا کرتی ہے وہاں سے جہاں تمہاراجی چاہے پھلے جاؤ کیونکہ اب کے نے کیاتھ میں چھت پر بیٹھ کالے علاقےکے کوایک رشا زار و نہ کیا ہوا یا کہ اس دن ریائے جو کی اس شاخ تک جاتا ہے جو سید اوکالے اندہ محبوبہ سے ہونے والا نے جس کا وصال اسی شام اپنی ے انظرنہ کیا ہو گا بھی کسی عاشق دکھائے”ی صورت کیا ہیں جاتی و صوری نہ کجھ سے بھی میں سر کی طرف دیتا ستاری کے ان سے رات سمبا کا یہ فیصلہ سن کر میرا دل خوشی سے ناچ اٹھا لیکن میں نے اپنے جذبات دبار کھا اور پوچھا۔ آج شام کو ؟ شام کو کیوں ؟ ہمیں اسی وقت کیوں نہیں جانے دیتے ؟ رائے کے اند تیرے میں دریا عبور کرنا ہمارے لئے مشکل ہو گا ” آقا ! اس وقت دریا طغیانی پر نہیں ہے پھر ٹاوا کی یہ شاخ پایاب ہے اس لاوہ تم شام کو چلے تو صبح تک ہی وہاں بیچ جاؤ گے اور پھر یہ بات بھی ہے کہ جب تک اپنے مردوں کو دفن نہ کر لیں تمہیں وہاں تک نہیں پہنچا سکتے۔” اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا سمبا اور اس کے ساتھ دوسرے لوگ سو تار ہنا خصوصاً کے جگنے کے بعد میں دن بھر پڑا لانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ گزشتہ رات میں مجھے سونے کا تھا کیونکہ ظاہر ہے کہ سفر لئے بھی کہ اس رات ہمیں پھر جا گنا تھا۔ موقعہ ملنے والا نہ کے لنڈ منڈ درختوں کا سفر طے کر کے ننگے جنگل آخر کار سورج اپنا دن بھر کے ساتھ وعدہ بادشاہ سمسا بیس گھوڑ سواروں جھے ؟ غروب ہونے لگا اور حسب ہنگاتے لائے تھے جن پر کوئی سوار نہ تھا میں داخل ہوا یہ لوگ دو ایسے گھوڑے بھی تھے یہ انتظامات تھے ہمارے سفر کے انتظامات مکمل کوڑے ظاہر ہے کہ ہمارے لئے اپنے سمبا کا اشارہ پاکے سے باہر آئے اور مہمان خانے ہم اس منحوس کیا تھا چنانچہ چنے جتنا بھی سما کا اپنے خوردو نوش کا ذخیرہ تھا کہ ماروت نے اشیائے ار کام صرف یہ 161 160 اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئے ہم چوک میں ہو کر اس مقام کے قریب سے گزرے جمال قربان گاہ کا پھر اب بھی رکھا ہوا تھا اس پتھر پر راکھ کا ڈھیر تھا اور راکھ کے اس ڈھیر میں سے لی ہوئی ہڈیاں جھانک رہی تھیں یہ بندیاں شاید ہمارے ان تین شتر سوار ساتھیوں کی تھیں جہمیں جانا پر بھنیٹ پڑھا دیا گیا تھا۔ چوک عبور کر کے ہم شہر سمبا کے جنوٹی راستع پر چل پڑے۔ راستے کے دونوں کناروں پر کے مکانات کے دروازے کھلے تھے اور ان کے دروازوں میں مکان کے مکیں کھڑے ہوئے تجھے یہ لوگ ہماری طرف اپنے گھونسے ہلا رہے تھے اور ہیں بددعائیں دے رہے تھے نفرتو حقارت کے ایسے وحشیانہ جذبات میں نے پہلے کبھی کسی کے چہرے پر نہ دیکھے تھے جیسے کہ شہر سمبا کے باشندوں کے بشروں سے عیاں تھے۔ ور اس میں کوئی تعجب کی بات بھی نہ تھی کیونکہ فصلیں تاہ ہوگئی میں اور جب تک دوسری فصل تیار نہ ہو وہ بھوکوں مرنے والے تھے اس کے علاوہ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ یہ تباہی طفل مقدس کی یا پھر ایک سفید فام جادو گر اور طفل مقدس کے ایک سپاہی نہ ہوتے تو میں سمجھتا ہوں کہ شر منت کی لائی ہوئی تھی اگر ہمارے ساتھ مسلح سمبا کے لوگ ہم پر ٹوٹ پڑتے اور ہماری یوٹیاں اڑا دیتے لیکن جب میں نے کھیتوں کی حالت دیکھی تو سچ کہوں مجھے کالے کاندہ پر رحم آگیا اس سال کی فصل میں انہیں ایک دانہ بھی نہ ملنے والا تھا پودے نہ صرف زمین پر لیٹ گئے تھے بلکہ اولوں نے ان دھجیاں اڑا دی تھیں۔ راستہ کئی میل تک تباہ شدہ کھیتوں میں سے گزر تارہ اور پھر جنگل میں دائی ہو گیا۔ یہاں اندھیرا تھا یہ اندھیرا گھر تھا کہ میں سوچنے لگا کہ ہمارے راہبر اس می راستہ کس طرح دیکھ لیتے ہیں دفعہ ایک بھیانک خیال تبلی کی سی تیزی سے میرے دیا میں کوند گیا۔ شاید یہ لوگ ہمیں یہاں قتل کرنے کے لئے لائے ہیں” اس خیال نے ایسی شدت اختیار کی کہ مجھے اعتراف ہے کہ میں گھرا گیا وچنے لگا کہ کوئی دم میں میرے سینے یا پیٹھ میں چاقوترا چاہتا ہے میں نے ارادہ کہا عمل نہ پہنا سکا لیکن میں اپنے اس ارادے کو جائز پنے گھوڑے کو ایڑ مار کے بھاگ نکلوں سکتا تھا اور دوم اس میں اس اندھیرے میں دیکھ نہ اول تو اس لئے کہ میں ماروت کو جسے میں نے ایسا بھی نہیں کیاہ جو بنات وہی تھے لئے کہ سمباتر کے کسی طرف کھ سک جاتا لیکن خدا اور اس کے اور کوئی چارہ نہ رہ گیا تھا کہ جو میں بیان کر چکا ہوں چنانچہ اب سوائے بڑھتا چلا جاؤں۔ متپر بھروسہ کر کے بس آگے طلوع ہو ہم اس جنگل سے نکل آئے چاند چند گھنٹوں کے سفر کے بعد آخر کار تھی تاہم چاند پوری طرح روشن تھا اور اس ا تھاور ہر چند کہ وہ پورے چاند کی رات نہ بھیڑ میں نکل آئے تھے جس ی روشنی میں میں نے دیکھا کہ ہم ایک وحشت انگیز دلال سے پیدا یں اکاد کا درخت کھڑے ہوئے تھے ایک پگڈنڈی جانوروں کی آمدورفت گئیو تھی اس میں نے کسی کچھ دیکھ اور اس بیز میں پہنچ کر ہم رک گئے اور سمپانے میں مخاطب کر کے کہا۔ نہیں جاسکتے کیونکہ جاود گر اپنے گھوڑوں پر سے اتر او ہم اس مقام سے آگے اپنے ہم قوم سے کے کا علاقہ آسیب زدہ ہے لیکن چونکہ تم خود آسیب ہو اس لئے تمہیں پر پہنچاوے ڈرناہ چاہیے اور نہ ڈرتے ہو گے اس پگڈنڈی پر چلے جاؤ یہ تمہیں ایک جھیل تو تم رہو اور جب سورج طلوع ہو رہا ہو گا یں بھیل کو ایک طرف چھوڑ کے آگے بڑھتے کے نام سے اور اس خطے کا پاسبان وہ ہے جس ا تک پہنچ سکو گے کیونکہ اس راستے می لوگوں کے دل لرز اٹھتے ہیں۔” سوار ہوئے اور پلٹ دیا وہ لوگ پھر اپنے گھوڑوں پر جوڑوں پر سے مینچ کر آگے دھکیل ہمیں ایک دم سے ہم پر ٹوٹ پڑے ابھی سمبا خاموش ہوا ہی تھا کہ سپاہی میں جا کر نظروں سے اوجھل ہو یں دیئے دوسرے ہی لمحے وہ اندھیرے کی چادر گئے تھے۔ چے تھے اور ہم اس وحشت انگیز مقام میں اکیلے کھڑے رہ سے پوچا اب کیا ہو گا دوست ؟ میں نے ماروت کہہ سکتے کہ آگے بڑھتے چلے ؟؟ اب ہم سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہی سمبا اور اس کے ساتھی واپس کیونکہ اگر ہم یہیں ٹھرے رہے تو صبح ہوتے میں قتل کر دیں گے کم سے کم سمبا کے سپاہی نے تو مجھ سے یہی کہا تھا۔ 163 162 تو پھر چلو میں نے کہاور آگے بڑھ گیا ماروت میرے پیچھے چل پڑا مہانے وہ کون سے پاسبان کا ذکر کیا تھا جس کا نام سنتے ہی لوگوں کے دلوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ؟ میں نے گردن گھا کر ماروت سے پوچھا اس وقت ہم ایک آٹھ میل کا سفر طے کر اس کا مادہ تھی جانے جانا اسے تھا اروت نے کراہ کر جواب دیا۔ تو پھر میں دعا کرتا ہوں کہ ہماری مدھیٹر اس ہاتھی سے نہ ہو جائے خوش ہو جاؤ ماروت کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہماری ملاقات کسی بھی ہاتھی سے نہ ہو الانکہ اس راستے سے بہت سے ہاتھی گزر رہے ہیں اور اس نے پگڈنڈی پر پیر کے بہت سے نشانات کی طرف اشارہ کیا کہتے ہیں کہ ہاتھی مرنے کیلئے اسی جھیل کے قریب جاتے ہیں اور یہ راستہ جس پر چل رہے ہیں ان راستوں میں سے ایک ہے جس پر سے گزر کردہ ہاتھی جن کی موت آگئی ہو جھیل تک پہنچتے ہیں اور یہ راستہ وہ ہے میرے آقا جس پر سے انسان تو انسان جنگل کے دوسرے جانور بھی گزرنے کی جرات نہیں کر سکتے تو پھر میں نے کہا انگلستان کے ایک قصر میں گھر میں گھرے ہو کے میں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ نظر بندی نہ تھی باسکہ حقیقت تھی۔ ہاں آقا ! میرا چاہاروت جب جوان تھا تو ایک دن شکار کھیلنے نکا اور راستہ بھول کے ہاتھیوں کے اس قبرستان کے قریب جا پہنچ چنانچہ ہاروت نے اپنی قوت کے زور سے تمہیں وہی منظر د کھا دیا تھا جو اس نے ایک دفعہ دیکھا تھا اور اب ہم اس مقام کو حقیقت میں دیکھ لیں گے بہت جلد دیکھ لیں گے ” پورے دو گھنٹوں تک ہم خاموشی سے چلتے رہے اور دو گھنٹے کے اس سفر میں جو خواب پریشاں سے کم نہ تھا، مجھے صرف ایک ذی روح چیز نظر آئی یہ ایک غیر معمولی طور پر بڑا الو تھا جو چند ثانیوں تک ہمارے سروں پریوں منڈ لا تارہ جیسے ہمارا معائنہ کر رہا ہو اور پھر پھڑ پھڑ کے اوپر اٹھا اور غائب ہو گیا آقایہ الو جانا کا جاسوس تھا جو اسے ہر واقعہ سے باخبر رکھتا ہے جو اس علاقے میں ہورہا ہو ناروت نے بعد بنچی آواز میں مجھے مطلع کیا۔ ہشت میں نے کہا اور آگے بڑھتا چلا گیا ایسے وحشت انگیز مقام اور شکر ہے کہ ہمیں دوبارہ وہ الو نظر نہ آیا آپ جانئے بہادر تعلیم یافتہ اور روشن خیال میں تو ہمات نہیں نہ نہیں سے آتے ہیں خواہ آپ کتنے ہی 090 پر پہنچے اور اس چوٹی کے دوسری آخر کار ہم ایک ڈھلان چڑھ کے اس کی چوٹی میں کھڑے ہو میں بھی کسی نے نہ دیکھا ہو گا اگر میں نے قصر جنال کے ایک کمرے آیا کہ بھی خواب طرف اور ہمارے قدموں میں ایک ایساویر ان اور ہولناک منظر نظر ہوتا ے ایک دفعہ پہلے بھی اس منظر کو نہ دیکھ لیا ہوتا تو مارے خوف سے دیوانہ ہو گیا مقام تھا وہ ایسا معلوم ہوتا میرے خدا! عجیب وحشت ناک مقام تھا وہ عجیب خوفناک کی دنیا میں پہنچ گیا ہوں۔ تھا جیسے میں انسانوں کی دنیا سے نکل کر دفعہ بھوتوں اور ہاروت کی کے جادوئی قصر رسجنال کے ایک کمرے میں کھڑے ہو کے جسے اب میں حقیقت میں اور اپنے ھوئیں میں میں نے جو منظر دیکھا تھا وہ یہی منظر تھا وڑے ہوش و حواس میں دیکھ رہا تھا۔ کی ایک چادر سی جس کے کیلے کے قدموں میں بھیل میں جھیل تھی تھی سیاہی مائل پانی سے ذرا دور اور جھیل کے کناروں پر سر کنڈے کھڑے تھے سر کنڈوں کی اس جھائر سنگلاخ میدان تھا چونکہ چاند کی روں طرف جنگل تھا جھیل کے بائیں طرف ایک کا فاصلہ تھا اس لئے روشنی ناکافی تھی اور پھر ہمارے اور جھیل کے درمیان ایک میل ی اس سے زیادہ نہ دیکھ سکا۔ اول تو اس لئے کہ یہ مقام یکن انا ساہی منظر دیکھ کے مجھے پھر پریاں آگئیں پہلےسے بھی ایک عجیب ڈھنگ ڈراؤنی اور بھیانک تھا اور دوم اس لئے کہ میں اس سے اس مقام کو دیکھ چکا تھا اکثر دفعہ یوں ہوتا ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک میں گھومنے پھرتے کسی ایسے محلے میں جانکلتے ہیں جس کی گلی کوچے آپ کو جانے پہچانے معلوم تے ہیں مشابہت با اتفاق پر آپ جس طرح چونک پڑتے ہیں اور آپ کی جو حالت ہو بول ہے اسے اپل دل ہی سمجھ سکتے ہیں بس میری حالت بھی کچھ ایسی ہی ہو رہی تھی اس 164 بہر حال میں آگے بڑھنے سے بچکے بچکچانے لگا کیونکہ میں نے قصر مسجنال میں کھڑے ہو کے جو مظر دیکھا تھا یہ حقیقت میں اس کی ابتدا تھی میں نے دھوئیں کے اس عجیب خواب میں جو کچھ دیکھا تھا وہ سپ کا سبوا بھی پورا نہ ہوا تھا میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی گر تم بائیں طرف چل دیئے تو یا تو جھیل کے پانی تک پہنچ جائیں گے یا پھر ہم اس کے کنارے کنارے اور بدستور بائیں طرف چلتے رہیں گے اور جنگل میں پہنچ جائیں گے اور بھٹک جانا ممکن تھا۔ میں نے دائیں طرف دیکھا۔ اس طرف کی زمین سنگلاخ اور نا ہموار تھی بڑے بڑے پتھروں کے درمیان ملن تو نہ تھا البتہ بہت خاردار جھاڑیاں اگ رہی تھیں اس میدان کو پیدل عبور کرنا نا ممکن مشکل ضرور تھا۔ میں نے پیچھے دیکھا میں واپس اسی راستے سے جس سے ہم آئے تھے لوٹ جانے کے متعلق سوچ رہا تھا کہ و نعتہ کوئی سو گز دور قد آدم جھاڑیوں کے اس پار کوئی چیز لیک کر اوپر اٹھی اور پھر جھک کر غائب ہو گئی یہ ہاتھی کی سونڈ ہو سکتی ہے۔ اس دیو تائے شر کے چٹان پر نمودار ہونے کے بعد جو ایک منٹ گزرا اس میں میرے دماغ میں ہزاروں خیالات امد آئے مثلاً میں نے سوچا کہ جانا اس چنان پر کیوں نمودار ہوا؟ اور اس کا جواب خود میں نے یہ دیا کہ مرتے ہوئے ہاتھی کی چنگھاڑ اسے اپنی آرام گاہ سوینا و نہ ہو گیاں بھی لی تھی میں نے یہ بھی سوچا کہ جانا شاید ہاتھیوں کا بادشاہ ہے جسے ہر ہا تھی اپنے مرنے کی خبر پہنچانا ضروری سمجھتا ہے اور د سورة. سے لمحے جو کچھ ہوا اس نے میرے اس خیال کی ایک حد تک تائید کر دی ایک منٹ تک وہ چٹان کے چوٹی پر کھڑا اپنے بڑے بڑے کان بلا تا رہا اور ونڈ اٹھا تھا کے ہو سونگھتا رہا پھر وہ چنان پر سے انتر سے جھو نا جھا تا اس باتھی کی طرف بڑھا جو گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھا اور جسے میں مردہ سمجھ چکا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ مرانہ تھا اس میں جان باقی تھی کیونکہ جیسے ہی جاتا اس کے قریب آیا اس نے اپنچا 165 ونڈاٹھا کے جانا کی سوبڈ سے لیٹ دی گویا سے خوش آمدید کہہ رہا ہو یا اس سے آخری ور الوداعی مصافحہ کر رہا ہو مرتے ہوئے ہاتھی کی سونڈ پھر زمین پر گر گئی اور اب جاتا نے ہ کیا جو میں اس دھوں کے خواب میں کرتے دیکھ چکا تھا یعنی یہ کہ اس نے دفعتہ زمین پر پڑے ہوئے ہاتھی پر حملہ کر دیا اور اپنے دانتوں کی مدد سے اسے زمین پر لڑھکا دی اس حش نہ کی اس دفعہ وہ بے شکو شبہ مر چکا تھا اتھ نے ذرا بھی شیش جانا جب مردہ ہاسی تھی کو اس کے پہلو پر لڑھکا چکا تو اپنی دونوں ٹانگیں اس کی لاش پر رکھ کر کھڑا ہو گیا جیسے وہ اپنے بھائی کی موت کا ماتم کر رہا ہو پا اس کے مر جانے کا ظم ہو یا اس نے ایسا شاید اس لئے کیا تھا کہ اگر مرنے والے میں زندگی کی رمق باقی ہو تو ۔۔ جاتا۔۔۔۔۔۔ اسے ختم کر دے یہاں میں یہ بتا دوں کہ اس وقت ہوا ہند ہو چکی تھی کبھی کبھار ایک مالکا ساجھونکا جاتا تھا اوران جھونکوں سے معلوم ہوا کہ ہوا جانا کی طرف سے ہماری طرف بہہ رہی ہے۔ لیکن اسے ہماری بد قسمتی کئے یا ستم نظر لیفی کہ اب ہوا کارخ بدل گیا ہوا کے ملکے ہلکے جھونکے اب ہماری طرف سے جانا جانا کی طرف چلنے لگے اس وقت میں نے لا شعوری طور پر گردن گھیا کروائیں طرف دیکھا اور میرا خیال ہے کہ اس طرف کوئی سوگڑ کے فاصلے پر پتھروں کے درمیان سے میں نے کسی چیز کو گزرتے دیکھا وہ یا تو بادل ہا تھایا پھر ای اتی تھا میں ٹھیک سے نہ دیکھ سہ کیا تھا کیونکہ جان کی سونڈ کی کی ہلکی سی سر سراہٹ کی آواز نے مجھے پھر جان کی طرف ہمہ تن متوجہ کر دیا تھا۔ اور میں نے دیکھا کہ اب وہ زیر دست ہا تھی چوکنا کھڑا تھا اس کے بڑے بڑے ان کینٹیوں سے چپک گئے تھے اس کا زہر دست جسم ہوئے ہوئے لرز رہا تھا اور اس کی مونڈ ہوا میں اٹھی فون ” “ فون کر رہی تھی۔ باروت لرزتی اور بچی آواز میں جلدی جلدی کہ رہا تھا ۔ آقا ! منت نے اسے حکم دے دیا ہے کہ وہ ہمارا خاتمہ کر دے ہماری موت قریب ہے مرنے سے پہلے میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ سفید فام خاتون جو آقا 66 اور جب ہاتھی کے روپ میں موت اس قدر قریب ہو تو میں دنیا کی کسی بھی 167 166 عورت میں دلچسپی نہ لے سکتا تھا میں نے گردن گھما کے تیز نظروں سے ماروت کی طرف دیکھا اور اب معلوم ہوا کہ اس کی حالت قابل ر تم بھی اب اس کے ہونوں پر مسکراہٹ نہ تھی بھرے سے حد درجہ خوف کے آثار عیاں تھے اس کی آنکھیں پھیل کر بے نور ہو چکی تھیں۔ اور میں نے یہ غلط نہ کہا تھا جانا نے ہماری آواز سن کی تھی ہم نے بہت نچی آواز میں ایک دوسرے سے سر گشیکو کی تھی لیکن اس خاموشی میں یہ آواز بھی جانا کے کانوں تک پہنچ گئی تھی یقینا اس کی قوت سامعہ حیرت انگیز حد تک تیز تھی دفعتنا وہ اپنی سونڈ قدم کے فاصلے پر رک گیاور ایک بار پھر سوند اٹھا کے ہو اسو لکھنے لگا۔ آگے بڑھا کر ہماری طرف کوئی بیس یا با کس قدم تک با گنا چا لیا گروہ ہم سے ایک دیوتائے شہر کو اتنے قریب اور عین سامنے دیکھ کے ماروت اپنے جو اس کھو بیٹھا و فعتہ وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا اور جھیل کی طرف بے تحاشہ بھا کا نا با وہ تھیں میں پناہ لینا چاہتا تھا جانا نے ماروت کو بھاگتے دیکھا اور بھیانک پینگھاڑ کے ساتھ وہ بھی ایک ریلوے انجن کے پیچھے بھاگ پڑا ماروت جھیل تک پہنچ گیا وہ اس میں کود پڑا وہ تیر نے لگا۔ میں نے سوچا کہ اگر جھیل کے مگر چھوں نے ماروت کے حصے برے نہ کئے و وہ اپنی جان بچائے جائے گا کیونکہ میرا خیال تھا کہ ایسے ڈیل ڈول کا ہاتھی جھیل میں اترنے کی جرات نہ کر سکے گا۔ لیکن میرا خیال غلط تھا ایک زبر دست جھپا کے آواز کے ساتھ جاتا بھی جھیل میں اتر پڑا اور پھر میں نے حیرت سے دیکھا کہ وہ بڑی مہارت سے تیر رہا تھا ما روت نے اس بلا کو تیرتے دیکھا تو وہ کنارے کی طرف پلٹ پڑا اس عمل سے وہ جانا سے ذرا اور آگے بڑھ گیا کیونکہ جاتا اتنی آسانی اور پھرتی سے گھوم نہ سکتا تھا۔ وہ دونوں واپس آئے ماروت آگے آگے اور جانا پیچھے پیچھے جو اپنی سونڈ لبی کر کر کے ماروت کی طرف چلا آرہا تھا ماروت جانا سے چند گز آگے تھا وہ پتھروں کے درمیان سے خرگوش کی طرح نکل رہا تھا اور ٹیڑھاتر چھا بھاگ رہا تھا اور ۔۔۔ میں نے لرز کر دیکھا۔۔۔۔۔ ماروت سیدھا کسی پناہ کی امید میں قصد میری طرف بھاگا آرہا تھا۔ کا پلٹ آخر کار ماروت ہمت ہار بیٹھا مجھ سے کوئی ایک نیزے کے فاصلے پردہ جانا کے روبر کھڑا ہو گیا اور نہایت اونچی آواز میں جانا کو بد دعا دینے لگا اس نے کیا کہا ال مقدس اور میں نے حیرت سے دیکھا نہیں جانتا میں صرف ایک لفظ سن سکا “ طفل من کہ اس نام نے پھرے ہوئے جانا پر ایک عجیب اثر کیا وہ بھاگتے بھاگتے دفعت رک گیا ب ماروت اور جانا ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے اور دونوں کے درمیان چند نرم کا ہی فاصلہ تھا ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے جانا نے ماروت کی بددعائیں سمجھ لی ہیں اور اگر ایسا تھا توان بد دعاؤں نے دیو تائے شہر کو مارے غصے کے پاگل کر دیا وہ خون منجمد کر نے والی آواز میں چنگھاڑ اوہ اپنی سونڈ کو اپنے پہلوؤں پر کوڑے کی طرح مار نے لگا اس کی خ انگارہ سی آنکھیں حلقوں میں تیزی سے گھومنے لگیں اس کا غار جیاد ہن کف آلود و گیا وہ دائیں ہائیں اور آگے پیچھے جھونے لگا۔ اور پھر اس نے ماروت پر حملہ کر دیا۔ میں نے گھبرا کے اپی نی آکھیں آنکھیں بند کر لیں اور میں نے جب انہیں دوبارہ کھولا ہے تو یہ دیکھنے کے لئے کہ جانا ماروت کو ہوا میں اچھال چکا تھا اور موخر الذ کر قلابازیاں ھاتا ہوا میں اس قدر بلند ہو گیا تھا کہ میں نے سمجھا کہ اب وہ نیچے نہ آئے گا لیکن وہ ا با زیاں کھاتا نیچے آیا اور دھپ کی آواز کے ساتھ پتھروں پر گرا جانا آگے بڑھ کے ناروت کے قریب جا کھڑا ہوا اور اب چونکہ وہ یعنی ماروت کی لاش کو لے کر کسی طرف چلا جائے اور مجھے اپنے حال پر چھوڑ دے لیکن میری یہ دعا قبول نہ ہوئی جانا ماروت کو اپنی سونڈ میں جھولا سا جھلاتا جیسے مال نیچے کو سلانے کے لئے اپنی بانہوں میں جھلاتی ہے آہستہ آہستہ اس پھر کی طرف بڑھا جس کے پیچھے میں لیٹا ہوا تھا شاید اس نے مجھے کھ لیا تھایا میری پائی تھی ایک لمے تک ۔۔۔ اور یہ ایک لمحہ مجھے ایک صدی معلوم ہوں۔۔۔۔ جانا میرے قریب کھڑا مجھے دیکھتا رہا گیا مجھ سے اسے بڑی دلچسپی پیدا ہو گئی ہو جانا کے لیے ہوئے جسم پر جھیل کے ٹھندے پانی کے قطرے مجھ پر چپک رہے تھے اگر پانی کے قطرے مجھ پر نہ ٹیک رہے ہوتے تو شاید میں بہوش ہو جاتا اسکے علاوہ دوسری شش میں نے یہ کی سانس روک کر مروے کی طرح پڑا رہا شاید یہ دیوتائے شر 169 168 مردے کو کچلنا پسند نہ کرے شاید یہ اس کی شان کے خلاف ہو میں نے کنکھیوں سے دیکھا کہ جانا نے اپنا بر دست پنجہ جو کرسی کی نشت جنتا تھا اٹھایا اور اسے عین میری کمر پر اٹھائے رکھا۔ اب اس نے ماروت کی لاش کو آہستہ سے زمین پر میرے قریب رکھ دیا اور اپنی سونڈ سے میرے جسم کو ٹولنے لگا اس کی سونڈ کی نوک نے میری گدی کو چھو اور پھر وہ آہستہ آہستہ نیچے سرکنے لگی میرے خدا ۔۔۔۔۔۔ میں اپنے اس وقت کی حالت کو بیان نہیں کر سکتا۔ عین اسی وقت جبکہ جانا اپنے بڑے بڑے کان ہلا کے میری ہڈیوں کو سرمہ بنا ڈالنے کی تیاریاں کر رہا تھا فتا چند گز کے فاصلے سے بندوق کے ماکے کی آواز سنائی دی میں نے نظر اٹھا کے دیکھا جانا کی بائیں آنکھ سے خون بہ رہا تھا بندوق کی گولی اس کی آکھ میں یا اس کے آس پاس لگی تھی۔ اس نے سونڈاٹھائی وہ اسے اپنی آنکھ تک لے گیا اس نے اپنے زخم کو محسوس کیا اور تکلیف سے نہایت بھیانک آواز میں چینا پلٹا اور بد حواس ہو کے بھاگا۔ اس کے بعد شائد ہی میں ایک دو منٹ کے لئے یہوش ہو گیا تھا بہر حال مجھے باد ہے کہ اس بے ہوشی میں یا غشی کے عالم میں میں نے ایک بہت بھیانک خواب دیکھا ھا ایسا خواب جیسا کہ شدید مغار میں مبتلا شخص کو نظر آتا ہے جو یوں تو صاف اور واضح ہوتا ہے لیکن بعد میں وہ لاکھ کوشش کے باوجو یاد نہیں تامیر اوہ خواب کچھ یوں تھا۔ اتھیوں کے قبرستان میں پڑے ہوئے ڈھانچے جیسے زندہ ہو گئے ہیں اور ه در ردہ میرے سامنے آرہے ہیں اور اپنے خوان گلوں پر گر گر مجھے مجھے رہے ہیں اس لئے کہ تنہا میں ہی وہ شخص تھا جو جانا کے غضب سے محفوظ ہو رہا تھا۔ اور اب میں اٹھ کر بیٹھ گیا میں نے آنکھ مل کے اور پھر آنکھیں پھاڑ کے دیکھا کسی شک شبہ کی گنجائش نہ تھی ھی یہ یہ خواب نہ تھا یہ حقیقت تھی بینس میرے سائٹنے منہ پر چرمی موجود تھا وہ انٹو مبی کے منہ پر چرمی نوی چڑھا رہا تھا تم یہاں کیا لینے آئے ہو ھینس ! میں نے کھو کھلی آواز میں کہا نے جواب دیا۔ سے بچانے آیا ہوں اس باس تمہیں اس شیطان 171 170 باس! یہ مقام تو آسیب زدہ ہے۔ اور وہ شیطان کا باپ جانا اپنی آنکھ سے خون پونچھنے کے بعد ہماری خبر پوچھنے آئے گا۔ میں نے کوئی جواب دیے بغیر ماروت کی طرف دیکھا جو میر قریب پڑا ہوا تھا جیسے سو رہا ہو۔ باس اب اس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں اس کی گردن نوٹ گئی ہے اور یہ مرچکا ہے اور پھر اس نے بڑی بشاشت سے اضافہ کیا اور یہ اچھا ہی ہوا کہ تمھارے والد نے اسے اپنے پاس بلا لیا نہیں یاد آ گیا ہو گا کہ ایک اونٹ پر تین آدمی سوار نہیں ہو سکتا اس کے علاوہ اگر یہ یہیں پڑا رہا تو جانا ہمارا تعاقب کرنے کے بجائے اس سے کھیلنے لگ جائے گا۔ میں نے آخری دفعہ ماروت کی لاش کی طرف دیکھا مجھے اس کی موت کا افسوس تھا سمبا کی قید میں ہم دونوں ساتھ رہے تھے اور سفر کی دشواریوں میں ہم دونوں برابر کے شریک تھے مجھے ماروت سے انسیت سی ہو گئی تھی مجھے ماروت کی مسکراہٹ پسند تھی مجھے ماروت پسند تھا چنانچہ مجھے اسکی موت کاریج و افسوس تھا۔ میرے اعضا کچھ ایسے مفلوج سے ہو رہے تھے کہ میں اپنے آپ اٹھ نہ سکا ہیلیس نے مجھے سہارا دے کر اٹھایا میں اپنے اپ چل بھی نہ سکتا تھا۔ چنانچہ بیٹس کے کندھے کا سہارا لینے پر مجبور ہو گیا اور پتھروں اور ہاتھوں کے ڈھانچوں کے درمیان سے اس طرف چلا۔ جس طرف بینس مجھے لے جارہا تھا۔ اور ہم جھیل سے دور مشرق کی طرف جا رہے تھے اس مقام سے جہاں ماروت کی موت کا المیہ ہوا تھا دو سو گز دور ایک اور چنان تھی جو اس چٹان کی طرح ہی تھی جس پر جانا نمودار ہوا تھا فرق صرف اتا تھا کہ یہ چٹان ذرا چھوٹا تھا اس چان میں میٹس کا اونٹ اطمیناسے پٹھا دیالی را اور اس کی گیل ایک پھر سے بندھی ہوئی تھی۔ جب ہم اونٹ کی طرف بڑھ رہے تھے تو بینس مجھے اپنی سرگشت سنا رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ جب کا ندہ کا سپہ سالار بینس کی بندوق کی گولی کا شکار ہو کر گرا تو انا مدد نہ کر سکے گا۔ ہ بھی گرفتار ہو گیا تو میری کوئی اور اس نے یوں سوچا کہ اگر دماغ میں ایک خیال رینگ آیا بوڑھے افریقی کے سال خوردہ تو کالے کا ندہ سے مدد کر سکے گایا اگر میں مر گیا البتہ اگر وہ فرار ہو گیا تو ہماری میر انتقام نے سکے گا۔ چاند نکل آیا تو اترے تک چھپارہا اور جب بیٹس ایک ٹیلے کی اوٹ میں اند غیر سارے چلتا اور راستے میں ہمارے قدموں کے نشانات کے ہ ہماری تلاش میں چلا وہ رہا یہاں تک کہ وہ شہر سمبا کے قریب پہنچ گیاور تے ہوئے گرانوں سے کترا کے نکتا کوئی آتا تھانہ جاتا تھارات میں چھپ رہا اس طرف سے نہ ہاں وہ جنگل میں کے ایک غار اور وہاں بیٹھ درخت کی بلند ترین چوٹی پر بیٹھارہتا اونٹ دن بھر غار میں اور بین ایک لے دن کے وقت اسے غار میں چرنے کے لئے چھوڑ دیتا اور کے وقت وہ اونٹ کو چارہ وہ اس کھانے میں ہو رہا ہو تا اس عرصے میں ے ہیں وہ سب کچھ دیکھا کرتا جو شہر سمبا اس نے ایک کراں کے کھیت پائیے بھوک مٹا تا رہا جو اس کے پاس تھا اس کے علاوہ چلتا رہا تھا۔ اس طرح اس درخت پر بیٹھ سے جو بھی چرائے تھے۔ ان سے بھی کام کے وہ تیابی بھی دیکھی جو ے اس نے وہ تمام واقعات دیکھے جو شہر میں ہو رہے تھے حتی میں تھا اس لئے وہ دونوں اس الہ باری نے چانی تھی چونکہ بینس اور اس کا اون غار محصوص درخت پر بیٹھا تھا تو اس ذاب السی سے محفوظ رہے دوسرے دن جب وہ اپنے اس نے ہمیں سپاہوں کے دیکھا کہ مجھے اور مارو کو شہر سب سے باہر لایا گیا ہے پھر بھاگا درستے کے ساتھ روانہ ہوتے دیکھا بیٹس درخت پر سے اتر کے مغار کی طرف میں چل پڑا وہ کھجور رکھ کے اس پر سوار ہوا اور ہمارے تعاقب لای جلدی اونٹ پر کہ ماراہ رقہ میں چلتا رہا یہاں تک کہ اس نے دیکھا جنگل میں درختوں اور جھاڑیوں کی آڑ جا رہا ہے۔ میں چھوڑ کر چھوڑ کر چلے وہ منظر کھڑا رہا یہاں تک کہ سماور اس کے سپاہی ہمیں اکیلا وہ ان کے باتوں کی آواز صاف طور یہ لوگ بیٹس کے اتنے قریب سے گزرے کہ تھے کہ انھیں توقع ہی ن سکتا تھا اور وہ لوگ بڑی خوشی کے عالم میں کہہ رہے گا خصوصاً اس لئے کہ ہمارے کی بلکہ یقین تھا کہ اب ہاتھی جانا ہمیں زندہ نہ چھوڑے 173 ، ایسے نازک حصے کو نشانہ چنانچہ اب وہ انتظار کرنے لگا اسے جانا کے کسی 172 تکلیف دہ زخم پیدا کر دے اور یہ انے کا موقعہ مل جائے جہاں انٹو مبی کی چھوٹی سی گولی ک حصہ سوائے آنکھ کے اور کوئی نہ ہو سکتا تھا کیونکہ ہینس جانتا تھا کہ انو مبی کی پہنچ سکتی تھی چھوٹی بھی گولی اس زبر دت دست ہاتھیبا کی مونی جلد کو چیر کر مرکز حیات تک نہ حیات کی حیرت انگیز اندز کے موقع کا منظر باحالانکہ وجاتا تھا کہ میں موت و کے اس پار پہنچا سکتا تھا جانا نے اپنی کئی من کی ٹانگ اٹھائی کہ مجھے کچل کر رکھ دے تین شتر سوار ساتھیوں کو اس پر پہلے ہی بھینٹ چڑھایا جا چکا تھا۔ جب سمبا اور اس کے ساتھ دور نکل گئے تو بیٹس پھر اپنے اونٹ پر سوار ہو کے ہمارے پیچھے چل پڑا یہاں میں نے اس سے پوچھا کہ امروہ ہمارے اتنے قریب تھان پھر اس جھیل اور ہاتھیوں کے قبرستان تک پہنچنے سے پہلے ہمیں آئیوں نہ لیا یہاں میں یہ بتا دوں کہ بیس واقعی قریب تھا وہ کبھی سی چیز جیسے میں نے جھاڑیوں کے پیچھے سے بھرتے اور جھکتے دیکھا تھا ہاتھی کی سونڈ نہ تھی باعہ بیس کے اونٹ کی گردن تھی نہیں اب بھی منتظر رہا جانا اپنی سونڈ سے مجھے نو لنے لگا۔ میرے اس سوال کا جواب بینس اطمینان خش طور پر نہ دے گاہ گر بر آگیا تہ بیسا کہ و پہلے بھی اعتراف کر چکا تھا اور پھر اس سے یہی مناسب معلوم ہوا کہ وہ ہمارے پیچھے رہے اور دیکھے کہ اب کیا ہوتا ہے لیکن بعد میں اس نے میرے سامنے اعتراف کیا ایسا قصدا کیا تھا۔ میں پکڑے اور اپنا سر ایک طرف موڑے اس کا معائنہ کر رہا تھا اور اس کی آنکھ ھی جانا میری پتلون کی خون آلود مجی کو اپنی اور آخر بیٹس کو موقع مل گیا ہاتھی جانا ں کے سامنے تھی چنانچہ انجنو میبی کی زد میں تھی پہلے کسی جگہ کہ چکا ہوں کہ فاصلہ پوست ہو گئی وہ اس کے دماغ تک تو نہ پہنچ سکی۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ چھوٹی تھی اور یاس ! اس نے مجھے بعد میں بتایا مجھے ایا معلوم ہوا جیسے تمھارے ولی چھوٹی مدوق سے چلائی گئی تھی۔۔۔۔ البتہ ۔۔۔۔ اس نے دیو تائے شر کی بائیں آنکھ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں تمہیں اپنے راستے جانے دوں اور اپنے آپ کو ظاہر نہ کران و دی اور اسے ایسے شدید در دو کرب میں مبتلا کر دیاوہ مجھے بھول کر بھاگو ہاں سے کیونکہ اگر میں نے اپنے آپ کو ظاہر کر دیا اور ہم تینوں ساتھ ہوئے لئے تو تینوں ہی بار و یہ تھی بیٹس کی سرگزشت اور عجیب و غریب سرگزشت ہے یہ ۔ اگر ہمیس جائیں گے خصوصاس لئے کہ ہم تینوں میں سے ایک کو پیدل چلنا پڑے گا اور بق ہوا نہ ہو اور اگر اس نے ہوشیاری کا ثبوت نہ دیا ہوتا تو میری لائش بھی ماروت کے قریب تیرے کو اکیلا چھوڑ کر اپنی جان چانا پر نہ کریں گے اس کے بر خلاف اگر میں سے ناپڑی ہوئی ہوتی۔ اپنے آپ کو ظاہر نہ کیا تو تم دونوں میں سے ایک مارا جائے گا اور دوسرا میرے سانی فونٹ پر بیٹھ کے اپنی جان بچا سکے گا۔ اور مجھے یقین تھا۔ اس کہ یہ مارے جانے والی نہ ہو گے اور ہوا بھی ایسا ہی ماروت مار کیا اور تم بچ گئے۔ میرے خدا ! جیسے دوزخ کا در کھل گیا۔ ایک زبردست چنگھاڑ سی آواز صور سے از لیل کی طرح آواز سونڈ میں سے ایوں نکلی کہ مجھے خوف ہوا کہ میں اس کی آواز اسے لی جاؤں گا ۔ اور اب جانا نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اور اپنی سونڈ کو چاقو سے جس نے خیر تو اس نے ہمیں جھیل کی طرف جاتے دیکھا اور خود دائیں طرف لے سے ٹانک دیا تھا۔ چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ اور بڑے صبر ہے کہ کے ایک چنان کے پیچھے دیک گیا اور وہاں بیٹھ کے اس نے سب کچھ دیکھا جی اس کی سونڈ کا لب کٹ کر نہ رہ جائے لیکن وہ کامیاب نہ ہوا۔ کیونکہ ہیں اب بھی تفصیل میں بیان کر چکا ہوں جب جانا ہماری طرف بڑھ رہا تھا تو میںبھی پتھروں کا رستہ پکڑے ہوئے تھا صرف کی نہیں بالکہ وہ زور کر کے اپنے آپ کو یوں پیچھے چھے چھتا چھاتا جان کی طرف وہ رہاتھا وہ جانا کی پھیلی ٹانگ کو نشانہ بنانے ہی ولا تا پہنے لگا کہ سونڈ کا نچلالب کٹ کے چاقو میں انکارہ گیا۔ جانا رد تکلیف سے چنگھاڑ کے پیچھے ہا اور اپنی پچھلی ٹانگوں پر تقر یا بیٹھ گیاہ طرف بڑھا تھا کہ مجھے اونٹ تک لے جائے لیکن وہ مجھ سے چند گز دور تھا کہ ماروت مانی سونڈ کی نوک کو منہ میں ڈال کریوں چوسنے لگا جس طرح کہ آپ اپنی اس انگلی کو مارے بد حواس ہو کر بھاگا اور جھیل میں پھاند پڑا اس وقت بینی ایک دمہ سے جانا جھیل سے نکل کر میری طرف آنے لگے تھے اور پھر ماروت مارا گیا۔ E 175 174 چوستے ہیں جس میں سوئی یا پن اتر کئی اس نے اپنے خون کا مزہ چکھا ، پلٹا ، دریا میں اترا ، دریا عبور کیا ، دوسرے کنارے پر پہنچا اور اب وہ اس پگڈ ندی پر واپس بھاگا جارہا تھا جس پر سے وہ ہمارا تعاقب کرتا گیا تھا۔ نی پر بندر کی طرح بیٹھا ہوا بیٹس اچک اچک کر جانا نہایت جدید قسم کی گالیاں دے رہا تھا۔ اور اپنے بیٹ کا مطالبہ کر رہا تھا اور میں اطمینان کا سانس لے کر مسکرار ہا تھا۔ باس اب وہ شیطان سوجی ہوئی ناک لے کر گیا ہے چنانچہ جب تک وہ زندہ رہے گا اپنی کانی آنکھ اور کٹی ہوئی سونڈ کیوجہ سے نہیں یاد کرتا رہے گا ۔ بینس نے انو پر ہاتھ مار کر کہا اور اس سے پہلے کہ وہ جاتا دوسری دفعہ ہمار تعاقب کرنے کے مسئلے پر غور کرے بہتر ہو گا کہ ہم چل پڑیں ور نہ تم جانو اب وہ دوسر ادرخت اٹھا کے لے آئے گا۔ کہ اسے اس درخت پر مارمار کے اس درخت کو گرا دے گا۔ یہ جانا تو پورا بھوت ہے ۔ چنانچہ ہم درخت پر سے اتر کر تیزی سے چل پڑے۔ میرا و از نمی تھالور میری ٹانگیں اگر سی گئیں تھیں اس لیے میں زیادہ تیز نہ چل سکتا تھا تاہم مقدور بھر کوشش کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ اب سورج نکل آیا تھا۔ اور اس کی روشنی میں وہ پار نظرا رہا تھا جو باروت نے بتایا تھا کہ خانہ عقل تھا اور کوہ مقدس کھلاتا تھا۔ چنانچہ اب نشان منزل سامنے تھا اور بھنک جانے کا کوئی خدشہ نہ تھا وہ پیس میں دور معلوم ہوتا تھا لیکن حقیقت میں اس سے زیادہ دور تھا اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ ہم کئی گھنٹوں تک چلتے رہے لیکن کوہ مقدس اب بھی اتنے ہی فاصلے پر نظر آرہا تھا۔ پہلے دس میل کا علاقہ ویران اور غیر آباد تھا۔ اور اس میں تعجب کی بات بھی ہے تھی یہ علاقہ کالے کاند کی مملکت کے سرحد کے اتنے قریب تھا کہ سفید کا ندہ یہاں آباد ہونے کی جرات نہ کر سکتے تھے پہلے دس میل طے ہو گئے تو پھر ہمیں مویشیوں کے رہوا اور چند اونٹ نظر آئے۔ ان اونٹوں اور مویشیوں کے ساتھ چروا ہے نہ تھے غالبا ان کے رکھوالے کہیں قریب ہی لمبی لمبی گھاس میں چھنے بیٹھے تھے۔ اور اب مکئی کے کھیتوں ؟ سلسلہ شروع ہوا۔ لے کر اور لنگڑا لنگڑا کے اس کے بعد دو گھنٹے تک مینس کے کندھے کا سارا اور جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ لے رہا۔ ہم ایک بلندی چڑھ رہے تھے جو درختوں دور تھے کہ اگر اب ہم ایک مقامی بستی سے اپنے کیا ہم اس کی چوٹی پر پہونچ گئے اور جو جاتی ، میں سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں نے روق سے گولی چلائی جاتی تو وہ حصار تک پہنچ سے تھے ، کرال والوں کو ہماری آمد تھے اور ہمیں دیکھ کر بھاگے ماز کے شکاف میں رہتے چوٹی پر نمودار ہے کہ جیسے ہی ہم چڑھائی کی کر دیا تھا۔ وجہ کچھ بھی ہو یہ حقیقت جو بھالوں اور دروازہ کھلا اور نہیں کے قری باشندے ہوئے کرال کے حصار کا شمالی ہمیں نزعے میں لینے کے لیے آگے ارے ہتھیاروں سے مسلح تھے باہر نکل آئے اور ہر چند کالے کا ندہ کی طرح ے۔ یہ ایک نئی مصیبت تھی۔ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ تھی جوان کے مخلوط نسل سے انہ تھے تاہم ان میں سے اکثر کی رنگت کچھ زیادہ ہی سیاہ سفید کاندہ کے خون سے زیادہ رنے کا پتہ دیتی تھی لیکن ان میں کالے کا ندہ کا خوف کے جانی دشمن تھے کیونکہ ا۔ تاہم یہ لوگ جیسا کہ بہت جلد معلوم ہو گیا کالے کا ندہ کے دوست ہیں تو انہوں نے بیچ میں نے چیچ کر کہا کہ ہماروت اور طفل مقدس یقین دلانے کے لئے کہا کہ ہم جان کے کر جواب دیا کہ ہم جھوٹے ہیں میں نے انہیں وہ کئی گھنٹوں ہمیں پریشان کرتا رہا۔ نا سے بھی زیادہ دشمن میں کیونکہ جانا کی بورچی ہوتی ہے۔ وہ تم لوگ سمبا کے جاسوس ہو تمہارے بدن میں تجھے قتل کر دیں ے اور شاید انہوں نے غلط نہ کہا تھا سفید چہرے والی بحری! ہم کے علاقے کی ے مجھوٹے پہلے بندر ہم تجھے ذرح کر دیں گے کیونکہ کالے کاندہ سے دشمن ہی آتے ہیں دوست نہیں۔” لیے تیار طفل مقدس کے عذاب کے تو پھر قتل کر دو ہمیں میں نے کہا اور ، اولوں اور طوفان اور جنگ کی تباہی تمہارا مقدر ہے۔ ” ہوا تھا کہ اب مجھے یہ بھی پروانہ رہی ہم میں زمین پر بیٹھ گیا۔ میں اس قدر تھا کا نہ کی کے تھے۔ یہ ایک نئی مصیبت میں نے دیکھا کہ یہ لوگ ہر چند کہ کالے جو ان کے مخلوط ر سیاہ نہ تھے تاہم ان میں سے اکثر کی رنگت کچھ زیادہ ہی سیاہ تھی خون رقص کرتے ہوئے اسے ہونے کا پتہ دیتی تھی یعنی ان میں کالے کا ندہ کا 177 176 و خش آہستہ آہست میری طرف بڑھنے لگے میں حالی خالی نظروں سے انہیں دیکھتا رہا اور گا لیکن جیسا کہ میں سوچتا رہا کہ وہ چند قدم اور آگے بڑھ آئے اور پھر میرا خاتمہ ہو گا ۔ کہہ چکا ہوں کہ اب مجھے موت و زیست کی پروانہ تھی۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں کہ اس بھائے کی چمک نہ دیکھ سکوں جو میری زندگی کا چراغ کھانے کے لئے بلند ہو۔ دفعہ میلس کے منہ سے حیرت و خوشی کی میں نکل گئی اور میں نے پٹ سے اپنی پنی آز آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنے چا تو کے پھل سے سامنے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ میں نے بلس کے چاقو کی نوک کی سیدھ میں دیکھا۔ چند شتر سوار کرال کے دروازے سے نہایت تیزی سے نکل رہے تھے۔ ان کے آگے ایک تھا اونٹ تھا اور اس اونٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کا سفید چشمہ اور سفید داڑھی ہوا میں ہر رہی تھی۔ میں نے اسے فور پہچان لیاہ پر با روت تھا جو اپنا بھالا ہلا ہلا کے بیچ رہا تھا اور اپنے اونٹ کو نہایت تیزی سے ہوگا تا چلا کرا تھا۔ ان لوگوں نے جو ہمیں قتل کرنے آئے تھے ، ہاروت کو دیکھا اور اس کی آواز بھی ئی۔ باروت اپنا اونٹ سیدھا اس شخص کے قریب لے گیا جو کرال والوں کا شاید سردار تھا۔ ہاروت نے اپنا نیزہ اٹھا کے سردار کے کندھے پر زور سے مارا کہ وہ لڑکھڑا کے چت ر اور ساتھ ہی ہاروت نے فصے کے عالم میں چیچ کر کہا۔ کتے کی اولاد ! طفل مقدس کے مقدس ممان کو قتل کرنا چاہتا ہے ۔” پھر نہیں معلوم کیا ہوا۔ ! میں بے ہوش ہو چکا تھا۔ اس کے بعد معلوم ہوتا ہے میں نے ایک محمد طویل اور انوکھا خواب دیکھا اور عجیب عجیب چیزیں نظر آئیں جو مجھے یاد نہیں۔ آخر کار میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں ایک نیچے سے پلنگ پر دیکھا کہ میں ایک ٹھنڈے ، بڑے اور مشرقی طرز کے کمرے تو نہ تھیں البتہ ہوا ہوں اس کمرے میں کھڑ کیاں جو فرش سے تین انچ بلند تھا، لیٹا پر گھاس کی چٹائیاں لٹک رہی تھیں۔ جو شاید روشند ان سے بنے ہوئے تھے۔ ایک سلاخ نے یہ بھی دیکھا کہ یہ سلاخ چوٹی حلقوں میں ردوں کی غرض پوری کر رہی تھیں۔ میں وئی تھیں۔ ہے۔ کم سے پہاڑی کا تعلق طفل مقدس سے ی تھی جس کو دیکھ کے مجھے یاد آیا کہ اس سبز پہاڑی نظر آ روشند ان سے مجھے۔ ایک سر ان روشندانوں میں سے ایک نہ کر رکابھی تھا؟ یہ میں لاکھ کوشش کے باوجو دیا ھ توی بنایا گیا تھا۔ یہ تعلق کیا رہا تھا کھا کہ میٹس میرے سامنے کھڑا اپنے ہاتھوں میں تکوں کا بانکل نیا بیٹ کھا گھا کر کہ میں نے قدموں کی چاپ سنی اور گردن یاد کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا 179 178 ہمینس ! میں نے پوچھا یہ نیا بیٹ تم کہاں سے لے آئے ہو۔ "؟ یہ بیٹ ان لوگوں نے دیا ہے۔ اس نے جواب دیا اس کو یاد ہو گا کہ میرا ر انا ہیٹ شیطان جانا کھا گیا ہے۔” طفل مقدس کے شہر میں باس۔ تم تو وہاں ڈھلان کے قریب جیسے مر گئے دو تھے۔ چنانچہ وہ لوگ تمہیں یہاں اٹھالائے۔ بے حد عمدہ بستی ہے یہ باس جہاں خوب کھانے کو ملتا ہے یہ اور بات ہے کہ تم پورے تین دن تک سوتے رہے چنانچہ کچھ کھانہ سکے۔ سوائے تھوڑے سے دودھ اور شور بے کے جو تمہارے منہ میں چوایا گیا تھا۔” ہمیں ! میرے دوست میں بہت تھک گیا تھا۔ اس لئے طویل اور گہری نیند سونا ضروری تھا لیکن اب مجھے بھوک معلوم ہو رہی ہے یہ بتا آتا انجمیز نہیں ہیں ؟ زندہ ہیں ای اللہ کو پیارے ہو گئے ؟ نہیں باس۔ وہ دونوں زندہ ہیں۔ یہاں ہیں اور مزے میں ہیں اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ہمارا ساز و سامان بھی محفوظ ہے وہ دونوں یعنی الجی اور بیا، اس وقت باروت کے ساتھ تھے جب وہ ہمیں بچانے کے لیے وہاں اس گاؤں میں آیا تھا۔ لیکن تم ایک دم سے سو گئے اور ان سے مل نہ سکے اس وقت سے اب تک وہ تمہاری تیار داری ر کے کیا اور میرے سامنے چٹائی پر پاتھی مار تھا۔ اس نے کمر سے جھک کہ مجھے سلام تم تمہاری حفاظت کر رہی ہے کہ آج آقا میکو میزن ! کوئی زیر دست قوت چکے تھے۔” ندہ ہو وہ بولا حالانکہ ہم تمہیں مردہ یقین کر م تهر جادو بھی دھرارہ اور یہیں تم نے مغلطی کی تھی میرے بزرگ۔ یہاں تمہارا نہیں ہوں یا اس کے باوجود میرا جاد ... جیسا کہ تم نے کہا ہے حالانکہ میں جادو گر بعد پورے دو دنوں تک مجھے طفل مقدس ام یا تو سی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ یہاں آنے کے کہ جنگ میں میر اٹھناز خمی ہو گیا تھا گفتگو کرنے کا موقعہنہ ملاور سب اس کا یہ تھا میں پہاڑ پر چڑھ نہ سکتا تھا اور نہ ہی طفل ر پھر میں بہت زیادہ تھکا ہوا بھی تھا۔ چنانچہ دن میں طفل مقدس قدس کی آنکھوں سے روشنی حاصل کر سکتا تھا۔ بہر حال تیسرے ے دربار میں پہنچا اور ندائے روح نے مجھے سب کچھ بتادیا۔ چنانچہ میں فراہی کوہ مقدس وقت پر ان بید توفوں کے سروں پر تھا جو سے اترابڑی عجلت میں آومی جمع کئے اور عین کی سز امل گئی۔ نہیں قتل کرنا چاہتے تھے آقا انہیں ان کی گستاخی پہچانتے نہ تھے۔ اور مجھے اس کا افسوس ہے باروت کیونکہ وہ چارے ہمیں ہو گا کہ ہمیس نے وست ! حالانکہ میں اپنی جان چچا لایا ہوں۔ بالکہ یوں کہنا مناسب ر عین اسی وقت سید بیج ایک شنی میں شوربہ لیے حاضر ہوا وہ بہت ہی بشاش میری جان چائی ہے اور مجھے بیچ سلامت یہاں لے آیا ہے تاہم میرے دوست ہم معلوم ہو رہا تھا اور ایسے ہی ٹھاٹھ میں تھا جیسا کہ قصر رسجنال میں رہا ہو گا۔ سلام صاحب اس نے حسب عادت بڑے احترام سے کہا صاحب آپ کو دوبارہ ہمارے ساتھ اور وہ بھی ہوش میں دیکھ کر بڑی مسرت حاصل ہوئی خصوصاً ان لیے کہ ہم آپ کو اور بیس کو مردہ یقین کر چکے تھے۔” میں نے اس کا شکریہ اداکر کے شوربہ پیا اور پھر اس سے درخواست کی کہ ار میرے لیے کھانا تیار کر دے کیونکہ اب بھوک میری آنتوں کو کھانے لگی تھی۔ چنا چھ سیو بیج میرے اس حکم لم کی تعمیل تعمیل ما میں فرا روانہ ہو گیا اب میں نے بیٹس کو رجال کار تلاش میں روانہ کر دیا جو کہیں شہر میں گھومنے گیا ہوا تھا میٹس کو رخصت ہوئے منٹ ہی ہوئے تھے کہ ہاروت آگیا۔ وہ پہلے پہلے سسے بھی زیادہ سنجیدہ اور پر ممکنت معلوم ؟ ے بھائی ہاروت اور دوسرے تین ساتھیوں کو اپنے ساتھ نہ لا سکے۔” میں جانتا ہوں۔ جانا کی قوتوں کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکتی تھی اور تمہارا خادم اس پر غالب آسکتے تھے۔” ہم پر تقریبا غالب آپکا ایسا تو نہیں ہے ہاروت۔ اس کے بر خلاف خود جانا زخمی کر کے بھاگ ہم تو صرف یہ کر سکے کہ اس کی ایک آنکھ اور سونڈ کی نوک پہنچا کا لیکن ابند امید افزا حالانکہ صدیوں سے کوئی جانا کو ذرا بھی نقصان نہ موت چنانچہ انجام بھی اطمینان خش ہو گا۔ جانا کے دن گئے جاچکے ہیں اس کی یب ہے اور آقا وہ تمہارے ہاتھوں مارا جائے گا۔ ” یہ تم کہتے ہو۔ میں کچھ نہیں جانتا میں نے کہا یہ جانا کون ہے اور کیا ہے ؟ میں نے انہیں بتایا کہ ایک بدروح ہے جو ہا تھی کے جسم میں حلول کر گئی ہے ہاں تم یہ تا چکے ہوں۔ اور باروت نے بھی میں کہا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جانا ایک یر معمولی طور پر بڑے ہاتھی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس ہاتھی کا مزاج خراب ہے ہیر حال وہ ہاتھی ہو یابد روح وہ چند جانیں لے گا۔ اور جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس سے اس منحوس جھیل کے کنارے دوبارہ ملاقات کرنا نہیں چاہتا۔” تو پھر آقا ! تمہار اور اس کا سامنا کسی اور جگہ ہوگا۔ اگر تم جانا کے پاس نہ گئے تو وہ خود ہی تمہیں تلاش کرتا ہوا یہاں آجائے گا کیونکہ تم نے اسے بری طرح زخمی کر دیا۔ دن تمہاری ملاقات جانا سے ہو جائے گی۔” یہ نہ ھول میکو میزن کہ تم اس علاقے یں کہی ھی جا کسی نہ کسی جگہ ایک نہ ایک تو کیا جانا سفید کا ندہ کے علاقہ میں بھی آجاتا ہے۔ ہاں میگو میزن کبھی کبھی آجاتا ہے یادہ ہد روح آجاتی ہے جو ہاتھی کے روس میں ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ بتول تمہارے ایک غیر معمولی طور پر بڑا ہا تھی ہے باد روح ہے البتہ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اپنی زندگی میں اسے دو دفعہ کوہ مقدس پر دیکھا ہوں۔ اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے اور کس طرح آتا ہے اور کہاں اور طرف چلا جاتا ہے۔ باروت ! یہ جانا اس جنگل میں بھتا کیوں پھرتا ہے ؟ اس سوال کا جواب کون دے گا میکو میزن ؟ یہ بتاؤ کہ ارواح خیہ دنیا میں کیوں بھٹکا کرتی ہیں۔ ؟ اس سوال کا جواب دو تو میں تمہارے سوال کا جواب دے سکول گا۔ میں پھر کہتا ہوں کہ انہیں، جنھوں نے جانا کو زخمی کیا ہے جانا سے ہو شیار رہنا یکنا چاہتا تھاکہ النیز کی بی کوہ مقدس پر موجود ہے۔” ہ سنتے ہی ہاروت کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ اب اس پر ملاحت کے بجائے کر جنگی ی میکو میزن ! یا تو تم نے غلط سنا ہے یا پھر خوف کی وجہ سے ہاروت کے حواس مختل ہو تھےے اور وہ ہر بانک ہاتھ وہ حسینہ کہیں بھی ہو۔ بہر حال کوہ مقدس پر نہیں ہے اگر اس اس دنیا میں دوسرا بھی کوہ مقدس ہو تو میں کہہ نہیں سکتا۔ اب چونکہ کوہ مقدس کا ذکر آ سے اس لیے میں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کوہ مقد ت پر سوائے مہنوں کے ر کوئی نہیں جا سکتا۔ کوہ مقدس پر کے جنگل میں طفل مقدس کے مہنوں کے علاوہ وئی اور قدم نہیں دھر سکتا۔ اگر کوئی غیر وہاں جاتا ہے تو مارا جاتا ہے کیونکہ اس کا ان جانا سے بھی زیادہ خوفناک ہے ہماری رہائش گاہ میں دو کمرے تھے جو ایک چوٹی دیوار کھڑی کر کے بنائے کے تھے یہ چولی دیواریا اوٹ تقریبا چھت تک بلند ہوتی چلی گئی تھی۔ بائیں ہاتھ والے ے میں رسجنال اور سیویج سور ہے تھے اور دائیں ہاتھ والے کمرے میں اور بہنیں۔ سے پہلے چند آوازیں سن کر میری آنکھ کھل گئی دوسرے کمرے میں سیونج اور جال کسی موضوع پر بحث کر رہے تھے ایک ہی منٹ بعد وہ دونوں میری خوانگاہ میں اخل ہوئے اور میں نے دیکھا کہ رسجنال بہت زیادہ پریشان اور سیویج بہت زیادہ و فروہ تھا۔ کیا بات ہے ؟ میں نے پوچھا ہم نے اسے دیکھا ہے سجنال نے جواب دیا۔ کس کو دیکھا ہے ؟ میری بیوی کو میں احمقوں کی طرح رسجنال کی صورت تکنے لگا اس نے سلسلہ کلام جاری ر جاتا کو چاہیے کہ وہ مجھ سے ہو شیار رہے کیونکہ اگر کبھی اس کا میری رکھتے ہوئے کہا۔ امنا ہو گیا اور میرے ہاتھ میں ایک عمدہ بندوق ہوئی تو میں اس سے معاملہ لے کر لوں سیوی نےمجھے یہ کہ کر بیدار کر دیا کہ کرے میں کوئی گھس یا ہے میں اٹھ ا۔ خیر جانا کے ذکر کو چھوڑ و اس وقت ہاروت سو ... مرنے سے پہلے ہارو تاجر بیٹھ گیا اور کوائر مین ں اپنی زندگی کی قسم کھا کر کتاہوں کہ وہ میرے سامنے کھڑی کی بیوی کے متعلق کچھ کہنے لگا تھا۔ میں اس کی پوری بات سن نہ کا ٹیکن میں سمجتا ہوں تھے دیکھ رہی تھی وہ کچھ ایسے رخ کھڑی ہوئی تھی کہ صبح کا ذب کا اجلا روشند ان میں سے گزر کر سیدھا اس پر پڑ رہا تھا۔ کو انر میں وہ میری بیوی تھی۔ میری اپنی لیونا۔” کیا پن رکھا تھا اس نے ؟ میں نے پوچھا۔ ایک قسم کا سفید چغہ پہنے ہوئے تھی جس کا گریان ضرورت سے زیادہ نیچے تک کتنا ہوا تھا اس کے بال کھلے ہوئے تھے اور کر تک آرہے تھے لیکن مین بکھر شر . سے ہو کے نا ھے باعہ ان میں تھی کی ہوئی تھی اس کے بال پوری کر پر پھلے ہوئے تھے اور باتھی دانت کے کوئی فٹ بھر ٹکڑے نے جو بالوں میں ان کا ہوا تھا نہیں سمٹنے نہ دیا تھا ہا تھی کا کر لیا پی ایک سنہرے فیتے کے ذریعہ اس کے بالوں سے بندھا ہوا تھا۔ کچھ اور ؟" ہاں وہ اپنی گود میں ایک بچہ لیے ہوئے تھی بے پر نقاب پڑی ہوئی تھی اور وہ یوں بے حس و حرکت تھا کہ مردہ معلوم ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر مجھ پر تو کچھ ایسا سکتہ طاری ہوا کہ میرے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا اور وہ بھی سامنے کھڑی بھی پھٹی نظروں سے میری طرف نعتی رہی وہ بہت حسین معلوم ہو رہی تھی پہلے سے کئی گنا زیادہ خاموش بے حس و حرکت کھڑی رہی اس نے نہ جمینش کی نہ اس کے لب پہلے اس کے باوجود ہم دونوں نے یعنی میں نے اور سیویج نے نہایت صاف آواز میں اسے کہتے سنا۔” پہاڑ پر جارج پہاڑ پر مجھے اکیلی چھوڑ کر نہ جانا۔ میرے پیارے میرے شوہر ۔ مجھے پہاڑ پر تلاش کرو۔ پھر کیا ہوا۔ میں ایک دم سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور وہ غائب ہو گئی۔ بس ! سیوی اب بتاؤ کہ تم نے کیا دیکھا اور کیا سنا وہی جو سرکار نے دیکھا اور سنا البتہ یہ بات ہے کہ سانپوں کے متعلق ایک بھیانک خواب دیکھ کے جاگ گیا تھا اور میں نے مالکن کو دروازے میں سے اندر آتے دیکھا تھا۔” دروازے میں سے تو کیا دروازہ کھلا تھا ؟ نہیں صاحب دروازہ بند تھا۔ مضبوطی سے بند تھا لیکن وہ بند دروازے سے یوں نکل آئیں جیسے وہاں دروازہ نہ ہو اور پھر وہ سرکار کی طرف نصف منٹ تک کھتی رہی اس کے بعد ہی میں نے سرکار کو بیدار کیا کیونکہ مالکن کو دیکھ کے میری زبان ہو گئی تھی ایک دوباتیں اور بھی میں نے دیکھیں جو شائد سرکار نے نہیں دیکھیں ن کے سر پر پروں کی ٹوپی سی تھی جس پر ایک سانپ بیٹھا ہوا تھا اس کا پھن السن کے تھے پر تھا اور اٹھا ہوا تھا سب سے پہلے میری نظر اس سانپ پر پڑی اس کے علاوہ مالکن نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ اس قدر باریک تھا کہ میں اس میں سے ان کے خطوط اور پیروں میں پر تلے دیکھ سکتا تھا یہ پیر تلے ان کے پیروں سے سنہرے فیتوں کے ذریعہ ھے ہوئے تھے میں نے تو پروں کی ٹوپی دیکھی اور پر تلے دیکھے مجال نے کہا۔ تو پھر یہ حصہ پورے قصے کا کمزور ترین حصہ ہے میں نے کہاں تم دونوں پنے کمرے میں جاؤ اور اب اگر کچھ نظر آئے تو مجھے آواز دینا نہ بھولنا میں اس معاملے پر نور کرنا چاہتا ہوں۔” وہ دونوں وحشت زدہ ہو کر اپنی خوابگاہ میں لوٹ گئے اب میں نے بیٹس کو یب آنے کا اشارہ کیا اور اسے اپنی گفتگو کا وہ حصہ بتایا جس و سمجھ نہ کا تھا میں کسی جگہ و چکا ہوں کہ بینس اگر چہ انگریزی زبان بول نہ سکتا تھا لیکن بڑی حد تک سمجھ لیتا تھا۔ المبا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں اور ہمیس سر گوشیوں میں گفتگو کر رہے تھے۔ ہینس میں نے کہا اب یہ بتاؤ کہ تمہاری موجودگی سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ ؟ م ایک افمینی سے زیادہ بہتر نہیں ہو تم اپنے آپ کو افریقہ کا بہترین سنتری کہتے ہو اس کے باوجود ایک عورت اس مکان میں آتی ہے اور وہ بھی صحیح کا ذب کی روشنی میں اور تم سے دیکھ نہیں سکتے ہنیں ! تمہاری خصوصیات کیا ہوئیں؟ مارے۔ خجالت کے ہے جمنٹس کی زبان گنگ ہو گئی۔ اور پھر اس نے رک رک کر کہنا شروع کیا۔ باس وہ عورت نہ بھی بلکہ بھنی یا روح تھی اور اس میری کیا حیثیت ہے کہ میں بھتیوں اور روحوں کو یوں پکڑلوں کہ گویا وہ بھوت نہ ہوئے چور ہو گئے اس کے لاوہ میں پوپھٹنے سے ایک گھنٹے پہلے بیدار ہو گیا تھا اور اس دروازے پر نظریں گاڑے ہوئے تھا۔ دروازہ خود میں نے بند کیا تھا اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ کھولا نہیں گیا ین کے علاوہ جب تم اور الجنیز اس بہتی کے متعلق باتیں کر رہے تھے تو میں نے بے 185 اختیار ہو کر دروازے کی طرف دیکھا تھا رات کے کسی حصے میں ایک مکڑی نے جالا یعنی دروازے کے سرے سے اس سرے تک تان دیا تھا اور اس وہ جالا جوں کا توں ہے ہیں کہ ٹوٹا نہیں اں ۔ ہے یقین نہ آئے تو خود آ کر دیکھ لیں اس کے باوجود الجنیز اور بنا کہتے انہوں نے ایک عورت کو دروازے میں سے یعنی مکڑی کے جالے میں سے آتے دیکھا۔ باس بھتیوں کے متعلق سوچنے سے کیا فائدہ جو ہوا کی طرح جہاں سے چاہیں گزر سکتی یں اور یہ مقام بلکہ پوری ہستی آسیب زدہ ہے ہی۔ اس لیے اس ! جتنے جلد ممکن ہو یہاں سے نکل بھا گناہی مناسب ہو گا۔” میر عرق النساء کا مرض یا جو کچھ بھی وہ تھا اب بہتر تھا اور تھوڑ اسا چل پھر لیتا تھا اس لئے خود میں نے جا کر دروازے کا معانہ کیا ہنس نے غلط نہ کہا تھا مکڑی کا جالا موجود تھا اور اس میں ایک بڑا سا مکڑا بیٹھا ہوا تھا اس کے علاوہ جالے کے چند تار دروازے کے ہائیں کھبے سے دائیں کھمبے تک چلے گئے تھے چنانچہ یہ ناممکن تھا کہ دروازہ ولا جائے اور اگھولا جائے تو امکن تھاکہ کوئی چالے کو توڑے غیر در آسکے اب وہ عورت یا تو کسی روشند ان کے ذریعہ آئی تھی ۔ لیکن یہ قرین قیاس نہ تھا کیوں کہ روشند ان سطح زمین سے بہت زیادہ بلند تھے یا پھر چھت میں دھواں نکالنے کے لئے ہوئے سوراخ میں سے کمرے میں پھاند پڑی تھی یا پھر وہ اس وقت تک کمرے میں ہی تھی جب ہنیس نے دروازہ بند کیا تھا میں سمجھ نہ سادہ اور کس طرح کمرے میں آسکتی تھی۔ ور اگر میرے اندازے صحیح بھی ہوں تو پھر یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا کہ دو آدمیوں کے دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی ؟ اس معمے کے اب دو ہی حل تھے یا تور سجنال سیویج نے جو کچھ دیکھا وہ ان کا تصور یا خیالی پیکر تھایا پھر وہ عورت جیسا کہ ہنیس نے کہا تھا بھتنی تھی اب اگر یہ دوسری بات صحیح تھی تو میں نے سوچا کہ کاش میں نے بھی رہجبال اور سیویج کے ساتھ اسے دیکھا ہوتا کیونکہ مجھے بھوتوں سے بڑی دیسی ہے ایک سچ سچ کا بھوت ہمارے شکوک و شبہات کو دور کر سکتا ہے خصوصا اس صورت میں جب کہ ہم جانتے ہوں کہ وہ جس کا بھوت ہے ، مرچکا ہے۔ قید یکن یہ ایک نیا خیال تھا ... اگر خاتون رمجال اتفاق سے زندہ ہے اور گویا وہ بھی زندہ تو پھر ربنال نے جسے دیکھا تھاوہ بھوت نہ تھا کہ ایک سایہ یا بیولا تھاور مقصد کے تحت کسی ستی کا جو اس بستی نے شعوری یا غیر شعوری طور پر اور کسی خاص دیا تھا یہ خاص مقصد کیا ہو ئی ترکیب سے دونوں کی نگاہوں کے سامنے منعکس کر نہ تھار سجنال اور سیو سیج نے جو الفاظ سنے تا تھا اس سوال کا جواب حاصل کرنا مشکل تو پھر یہی الفاظ سوال کا جواب تھے ے اگر وہ الفاظ واقعی اس سائے یا ہولے نے کیے تھے پر حث کر رہے تھے اور ایک عالیا کہ چکا ہوں کہ سو جانے سے پہلے ہم اسی موضوع ہوں کافی حث کے ری فیصلے پر پہنچ گئے تھے یہ آخری فیصلہ کیا تھا یہ میں اب بتائے دیتا ہماری پہنچے تھے کہ خاتون رسجنال کو یہاں تلاش کرنا بیکار ہے کیونکہ کہ ان دو قبائل لاش کا کوئی نتیجہ طاہر ہ ہو گا چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا تھا اس سے پہلے جنگ ہو اور ہم خواہ مخواہ یں جن میں سے ایک پوری طرح و حشی اور دوسر انیم و حش تھا چاہیے۔ اس میں پھٹس جائیں ہمیں یہاں سے اس وحشی علاقے سے بہر حال نکل جانا کی کوشش اور یہ طے ہوا کہ میں بندوقوں کے عوض چند اونٹ حاصل کرنے کے اونٹ حاصل کر لوں گا تا کہ باروت اور اس وں گا اور اگر ممکن ہوا تو بغیر معاوضے جانا کو مار نے جا کے ساتھی ہم پر شک نہ کرنے لگ جائیں اور پھر یہ کہہ کر کہ ہم ہاتھی تعلق سوچیئے۔ کے ہے ہیں اس بستی اور اس علاقے سے نکل جائیں گے اب خاتون ریجنال کی آمد ہے کہ اسی لیے آیا تھا کہ وہ گر واقعی و آئی تھیا اس کا سایہ یا وہ کیاتھا تو ظاہر سے باز کا اعلان کر دے اور ہمیں اپنے ارادے ون ریجنال کوہ مقدس پر اپنی موجودگی ہونے کا مقصد کے کہ ہم اسے اکیلی چھوڑ کے چلے نہ جائیں بے شک اس کے ظاہر جالے بنتے چھوڑ کر چنانچہ یو نمی سوچتے سوچتے اور اپنے دماغ میں الجھنوں کے ساتھ تھے و گیا اور ناشتے کے وقت سے پہلے میری آنکھ نہ کھلی اسی صبح جب ہم تان نے مجھ سے کہا۔ تھا اس پر میں نے ہر پہلو سے کواٹر میں رات کو جو کچھ ہوا تھایا جو کچھ نظر آیا ا ہے میں نہ تو ہم پرست ہوں اور نہ کوئی ان لوگوں میں سے ہوں جو تخیلات کے 18/ شکار ہو جاتے ہیں مجھے یقین ہے اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اور سیو سنج نے میری بیوی کی رو یا ہولہ کو دیکھا تھا ممکن ہے کہ وہ مجسم پرو نہ آئی ہو لیکن پھر یہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ سایہ تھی یا روح تھی تو پھر اس کی آواز ہم نے کس طرح سنی سایہ اور روح تو بولی نہیں میں نے اور سیویج نے اس کی آواز اتنی ہی صاف طور سے سنی تھی جتنی صاف میں تمہاری آواز سن رہا ہوں اور اس کے الفاظ کا مطلب بھی ہم نے صاف طور سے سنا تھا مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میری بیوی کوہ مقدس پر ہے اور قید میں ہے اسی لیے میرے پاس آئی تھی کہ میں اسے چھڑالوں اس حالت میں میرا فرض ہوتا ہے اور میری سب سے بڑی آرزو یہی ہے کہ ہم یہاں سے فرار ہو جانے کا ارادہ ترک کر دیں اور معلوم کرنے کی کوشش کریں۔” و لیکن حقیقت تم کیسے معلوم کرو گے کیونکہ ظاہر ہے کہ کوئی آدمی بھی کچھ نہ میں کوہ مقدس جاؤں گا میں رسجنال کے اس فیصلے سے متفق نہ تھا اس لئے میں نے اس کو احتقانہ اور کر دیا۔ اس طرح پکڑے جانے کا خدشہ تھا کیونکہ شہر کے دروازے پر مصلح سپاہی رات 30 سے باہر نکلے چنانچہ اسی دن سہ پہر کے وقت وہ دونوں کھلے بندوں بستی چھتا بہت تھے اور ہ یہ کیا کہ وہ پہاڑ کی ڈھلان پر چینوں کے شکار پر جا رہے ہیں وہ اور سیو سیج باروت نے ان کا شکار کرنے کی ہمیں اجازت دے رکھی تھی اس لیے رسجنال نویسی نے روکا نہیں۔ نے آہستہ پوچھٹنے سے کچھ ہی دیر پہلے ہماری رہائش گاہ کے دروازے پر کسی سے دستک دی۔ دروازہ کھولور سجنال کی آواز سنائی دی۔ جلا چکا تھا موم بتیوں کا لیس نے اُٹھ کے دروازہ کھولا۔ اس اثنا میں موم بتی مارے پاس کافی ذخیرہ تھا۔ موم بتی کی روشنی کمرے میں پھیلی ہی تھی کہ ریجنال کرے میں داخل ہوا۔ اس کے چہرے پر ایک ہی نظر ڈالنا کافی تھا۔ اور مجھے معلوم ہو گیا کوئی بہت ہی لرزہ خیز واقعہ ہو گیا تھا۔ وہ کچھ کے بغیر سیدھا کونے کی طرف چلا جہاں خطرناک کوشش سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اسے لاکھ طرح سے سمجھا پانی کی صراحی رکھی ہوئی تھی۔ وہ یکے بعد دیگرے تین جام فٹ ٹا گیا اور اس سے پہلے لیکن اس پر اثر نہ ہوا ایسا مستقل مزاج اور نڈر آدمی میں سمجھتا ہوں کہ کوئی اور نہ ہو گار رادہ کر چکا تھا اور ا دنیا کی کوئی طاقت اسے اپنے ارادے سے باز نہ رکھ سکتی تھی پھر دنیا میں نہیں رہا” میں کچھ پوچھتا اس نے کہا کو اٹرمین سیویج اب اس رہا تھا شاید کسی چند ثانیوں تک وہ خاموش رہا۔ غالبا وہ اپنے حواس سمیٹ میں نے سیویج سے بات کی اور اسے ان تمام خطرات سے آگاہ کیا جو اس کی راہ میں حائل بھیانک واقعہ کی یاد نے اس کی زبان گنگ کر دی تھی۔ تھے لیکن اس نے بھی میری ایک نہ سنی اس نے کہاوہ اپنی مالسن کا بھوت چونکہ دیکھ چکا چند ثانیوں کے توقف کے بعد اس نے کہنا شروع کیا ۔ ہے اس لیے اسے یقین تھا کہ اب وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہ سکے گا اس کے باوجود ان سنو! ہم بغیر کسی رکاوٹ کے پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گئے۔ ہر چند کہ وہاں نے کہا وہ اپنے آقا کے ساتھ جائے گا کیونکہ وہ اکیلے مرنے کے بجائے اپنے آقا کے بہت سے چینل تھے لیکن ہم نے کسی پر بھی ندوق نہ چلائی۔ خیر توجب شام کا دھند کا اثر ساتھ مرنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ ھا تو ہم چٹانی دیوار کے سامنے تھے اور وہاں ہمیں ایک راستہ نظر آیا بھی ہم سوچ ہی میں نے ان دونوں کو سمجھانے اور بازر کھنے کی کوشش ترک کر دی اور ادا مانا رہے تھے کہ کیا کریں اور کس طرف جائیں کہ وفعتہ کہیں سے آٹھ دس سفید پوش نکل ملول دل لیے اس مہم کی تیاریوں میں ان کی مدد کرنے لگا لیکن جاتا تھا کہ ان کی اور کئے اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ سکتے ان کے ہاتھوں میں گرفتار تھے۔ وہ لوگ چند اب نیلی چھت والا ہی کر سکتا ہے۔ یہاں میں یہ بتاوں کہ ریجنال نے ذرا سے خود بائیوں تک آپس میں کچھ صلاح مشورہ کرتے رہے اور پھر ہم سے ہماری بند و قیں اور خوض کے بعد سفید کا ندہ کا لباس پہن کے رات کے وقت بستی سے نکلنے کا ارادہ ترک پستول چھین لئے۔ ان میں سے چند ہمارے ہتھیار لے کر ایک طرف چل دیئے اور اسی 189 188 پر اسرار طریقے سے غائب ہو گئے جس پر اسرار طریقے سے آئے تھے پھر ان کے سردار نے ہمارے سامنے کئی دفعہ جھک کے کہا کہ ہم آزاد ہیں اور جا سکتے ہیں۔ ہ کہتر اس نے غار کی طرف اور پھر چنانی دیوار کی طرف، جس پر چڑھنا ممکن نہ تھا اشارہ کر کے انگان کے متعلق کچھ کہا۔ انگان کا مطلب شاید بچہ ہوتا ہے۔ کیوں ؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ چنانچہ رجنال نے سلسلہ کلام جاری رکھتے وئے کہا اور اس کے بعد وہ سفید پوش ڈھلان اترنے گھے لیکن وہ ہماری طرف دیکھ دیکھ کے مسکرا رہے تھے کہ مجھے ان پر غصہ آرہا تھا۔ ہم وہیں کھڑے رہے یہاں تک کہ اندھیر اتر آیا۔ اور اب میں نے سیو سیج سے پوچھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے میرا خیال تھا کہ سیو سی واپس لوٹ جانے کا مشورہ دے گا لیکن میری حیرت کی انتہانہ رہی جب اس نے کہا: سرکار ! ہم آگے بڑھیں گے۔ ہم ان وحشیوں کو یہ سوچنے کا موقعہ ہی نہ دیں گے کہ سفید فام اپنی بندوقوں کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتے بھر حال اگر آپ نہ چلے تو میں اکیلا ہی جاؤں گا۔ ” اور یہ کہہ کر اس نے اشیائے خورد و نوش کے تھیلے میں سے لائیٹن نکالی سفید پوش یہ لا لیکن ہمارے پاس ہی چھوڑ گئے تھے۔ سیو سیح لا نین جلانے لگا۔ میں حیرت سے سیویج کی طرف دیکھ رہا تھا کیوں کہ ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے کوئی تبی قوت اسے انجانے انجام کی طرف کھینچ رہی ہو اور میر یہ اندازہ غلط نہ تھا کیونکہ لین سلگانے کے بعد سیوتی نے کہا :۔ ر کار کوئی چیز کوئی طاقت مجھے اس غار کی طرف کھینچ رہی ہے ہو سکا ہے کہ یہ موت ہو بلحہ میرے خیال میں تو یہ موت ہی ہے۔ بہر حال یہ کچھ بھی ہو مجھے ہاں جاتا ہے۔ بہتر ہو گا کہ آپ باہر کے رہیں۔ میرا مطلب ہے اس وقت تک جنگ کر میں غار کا معائنہ کر کے واپس نہیں آجاتا۔ سیو بیج تو جیسے پاگل ہو گیا تھا چنانچہ اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھ کے اے ہوں تو لائٹین کی نظر آئی ہوئی روشنی سے معلوم ہوا کہ سیوتی نہ صرف غار میں داخل چکا تھا کہ آٹھ دس گز تک آگے بھی بڑھ گیا تھاد فعہ میں نے ایک زیر دست پونکار کی آواز منی اور ساتھ ہی سیو سیج کو دو دفعہ کہتے سنا۔ آہ میرے خدا!! آہ میرے خدا!! سیو سیج کے ہاتھ سے لائین چھوٹ کر سرنگ کے فرش پر گری لیکن بدستور تی رہی کیونکہ جیسا نہیں معلوم ہے ٹیم کر دی عد سے کی لالین ہر حال میں سلگتی رہتی ہے۔ میں نے تیزی سے آگے بڑھ کے لالیٹن اٹھائی اور جب میں لالیٹن اٹھا کے سیدھا کھڑا ہوا تو میں نے دیکھ کہ سیویچ سرنگ کی گہرائیوں میں بھاگا جارہا تھا میں نے لیٹن او پر اٹھا کے دیکھا۔ ور جو کچھ میں نے دیکھا وہ یوں تھا۔ جہاں میں کھڑا ہوا تھا وہاں سے کوئی دس قدم آگے سیونج اپنے دونوں ہاتھ دائیں طرف اور پھر گے کی طرف پھیلائے ناچ رہا تھا حقیقت میں ناچ رہا تھا۔ ائیں طرف اس بھیانک پھنکار کی آواز کی تال پر وہ ایک عجیب لرزہ خیز ادا سے ناچ رہا بہت ہی ا۔ میں نے لالین اور بھی اوپر اٹھائی اور دیکھا کہ سید یج کے عین سامنے ایک عیب سانپ اپنا پھن پھیلائے ہوئے تھا۔ اتنا بڑا اور ایسا مہیب سانپ کبھی کسی نے اور واب میں بھی نہ دیکھا ہو گا۔ اس کا پھن فرش زمین سے آٹھ نوفٹ اوپر اٹھا ہوا تھا نگ کی چھت کو چھو رہا تھا اور یہ پھن کو اٹر مین تم یقین نہ کرو گے۔ ٹھیلے کے چندے تا تھا۔ یعنی اگر اس سانپ کے پھن کو کاٹ کے ٹھیلے میں رکھا جائے تو اس سے پورا لا بھر جائے۔ اس پھن کے نیچے جو گردن تھی وہ میری کمر کی طرح موئی تھی اور اس کا مہم نجو خدا جانے سرنگ میں کہاں تک چلا گیا تھا۔ شراب کے پہیے جتنا اور سبز رے رنگ کا تھا جو اندھیرے میں چمک رہا تھا اور اس پر رو پہلی اور شہری دھاریاں غار کا وہ عفریت پھنکار کر اپنا پھن بائیں طرف ہٹ کے ناچنے لگا عفریت اپنا روک سکتادہ بھاگ کر غار کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ اور جب میں غار کے دہانے پر بین دائیں ط طرف جھکا دیتا اور سیو سیج بائیں طرف ہٹ کے ناچنے لگتا۔ عفریت اپنا پھن 191 190 دائیں طرف ے چ اور سیو میچ بھی ناچتے ناچتے دائیں طرف ہٹ جاتا۔ دفعتہ عفریت ے اپنا چین اوپر ام دیا، جی وہ تن کر کھڑا ہو گیا ہو اس کا بھن سرنگ کی چھت سے لگ گیا اور ساتھ ہی ہو تن نے اپنار قص بند کر دیا۔ اب وہ اس عفریت کے سامنے ہت کی طرح ہے جس ، ان کھڑا ہوا تھا۔ اور اب سید بیچ یج کمر کر ۔ سے ذرا سا جھک گیا جیسے اس عفریت کے نہ کو ریش بالا رہا ہو ۔ اور دوسرے ہی لمحے عفریت کا پھن تیزی سے م کا مجھے اس کے بڑے بڑے اور مرے مڑے ہوئے دانتوں کی جھلک نظر آگئی ، اس نے سیو تین کی کردن پڑوس لیا اور سیویج ایک طویل جسم کی سر سراہٹ اور اس کے بعد چنان می آواز سنائی دی جیسے کوئی پتھر سے ہڈیاں توڑ رہا ہو ” میں لڑکھڑا کے نیچے سرنگ کی دیوار کا سہارا لے کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے نرز کے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور جب میں نے دوبارہ آنکھیں کھولی ہیں تو دیکھا کہ سرنگ کے فرش پر کوئی کچلی ہوئی چیز پڑی تھی۔ مسلخ شدہ چی چیز سیویج کی لاش تھی اور اس پردہ عفریت اپنا بھی رکھے اپنی ٹھنڈی ہناک آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اور پھر میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا مجھے اعتراف ہے اور میں یہ کہتے ہوئے ڈر بھی شرط محسوس نہیں کرتا کہ میں انتہائی خوفزدہ ہو کے بھاگا اور سرنگ سے باہر نکل آیا اور اندھیرے میں ٹھو کریں کھاتا بھاگتا چلا آیا۔ چند گھنٹوں بعد چند سفید کا ندہ آئے اور انہوں نے بڑی شائستگی ، بڑے اخلاق اور بڑے احترام سے رسجنال اور مرحوم سیویج کی بند و قیں اور پستول ہمارے سامنے پیش کر دیئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیزیں مع لالیٹن کے ، جو بھاگتے میں ریجنال کے ہاتھ سے گر گئی تھی۔ انہیں پہاڑ کی ڈھلان پر پڑی ملی تھیں۔ میں نے کے بغیر یہ چیزیں لے بعد اس نے پوچھا کہ میں ابھی شام ہاروت بھی آگیا اور میری خیریت دریافت کرنے کے ی کہاں ہے جسے وہ ہمارے ساتھ دیکھ نہیں رہا تھا اور اب میرے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا۔ سفید داڑھی والے جھوٹوں کے باپ میں نے دانت میں کے کہا۔ “ تم بوئی ہو اور جانتے ہو کہ بنا اس کے سانپ کے پیٹ میں پہونچ چکا ہے تو پھاڑ کے ایک کار میں رہتا ہے۔” ارے آقا ہاروت نے ٹوٹ پھوٹی انگریزی میں ریجنال کو مخاطب کیا تو کیا پ کوہ مقدس پر گئے تھے تفریح کے لئے اور وہ بھی اس غار کے منہ تک بنیا کو سانپ ات پسند تھے اور سانپوں کو بھی اس سے الفت تھی۔ تمہیں یاد ہو گا کہ انگلستان میں کس خرج اس کے کپڑوں میں سے سانپ نکلا کرتے تھے بہر حال اب اسے سانپوں کے 193 192 متعلق ساری باتیں معلوم ہو گئی ہوں گی۔” بد معاش ! شیطان خولی ! سجنال نے دانت پیس کے کہا جی چاہتا ہے کہ اسی وقت تیر اگلا گھونٹ دوں۔” کیوں آقا! کیا اس لیے کہ سانپ نے تمہارے ملازم کا خاتمہ کر دیا ہے ہمارا سانپ ! اس میں اس کا کیا قصور الجزا؟ اسے ناشتے کی ضرورت تھی لہذا اس نے حاصل کر لیا۔ اگر تم شیروں کے بھٹ میں چلے گئے تو ظاہر ہے کہ تمہیں شیر زندہ نہ چھوڑیں گے۔ اگر تم وہاں گئے جہاں سانپ رہتے ہیں تو ظاہر ہے کہ سانپ تمہیں ڈس لینگے میں نے تمہیں پہلے ہی خبر دار کر دیا تھا لیکن تم نے میری نہ سنی۔ اب تم لوگوں سے پھر کتا ہوں کہ جاؤ۔ اگر جانا چاہتے ہو تو اس پہاڑ پر اور اس غار میں جاؤ تمہیں کوئی نہ رو کے گا کون جانے شاید تم اس سانپ کا خاتمہ کرد و شرط صرف اتنی ہے کہ تم اپنے ساتھ بیرو قیس لے جاؤ گے۔ اس کی ممانعت ہے۔ جب تم ہماری بستی میں اکتا نے لگو تو تمہیں اجازت ہے کہ غار والے کے دیدار کرنے جاؤ البتہ یہ یادر کھو کہ غار والا راستہ خانہ طفل تک جانے کا سیدھا اور آسان راستہ نہیں ہے وہاں جانے کا ایک راستہ اور بھی ہے جو سیدھا اور سل ہے لیکن یہ راستہ تم تلاش نہ کر سکو گے۔” رینال نے کہا ان احمقانہ باتوں سے کیا فائدہ ! تم جانتے ہو کہ تم یہاں کیوں آئے ہو۔ اگر نہیں جانتے تو مجھ سے سنو۔ میرا خیال ہے کہ تم میری بیوی کو اٹھا لائے ہو۔ ہاں۔ تم اسے اپنے شیطانی مذہب کی کا ہنہ بنانے کے لئے پر الائے ہو اور میں بشش کی اور خانہ طفل کی تلاش میں نکل پڑے نتیجہ یہ ہوا کہ غار والے نے ے خادم کو نگل لیا اس لیے ہم بھی کیوں نہ تمہارا خاتمہ کر سکتے اس لیے کہ تم تے ہو سجنال نے بڑے سکون سے کہا اگر تم مجھے مار ڈالنا چاہتے ہو تو میں تیار ں قتل کر دو مجھے اور پھر خود نتیجے کے لیے تیار ہو ۔” ہاروت نے تعریفی نظروں سے ریجنال کی طرف دیکھا۔ تم بہت بہادر ہو وہ لا اور ہم نہیں قتل کرنا نہیں چاہتے۔ کیا پتہ آخر میں مارے معاملات حسب دلخواہ طے ہو جائیں۔ طفل مقدس جانتا ہے کہ کیا ہو گا۔ ف وہ واقف ہے انجام سے ۔ اس کے علاوہ کاندہ کے ساتھ جو جنگ ہو گی اس میں تم مارکی مدد بھی کرو گے۔ اس لیے آقا تم یہاں پوری طرح محفوظ ہو ۔ ہماری طرف سے کوئیں گزندہ پنے گا تم خا میں ان کے دیدا کرنے چلے جاؤ۔ وہ باہی کھاؤ قسم سائب ہے۔ بھوکا سے چنانچہ جلد ہی اسے پھر ناشتے کی ضرورت محسوس ہو گی تم نے سنا ے اندھیرے کی روشنی اے آقائے آتش ؟ اس نے دفعیہ بیٹس کی طرف گھوم کے ا جو فرش پر بٹھا اپنے ہاتھوں میں بیٹ کھا رہا تھا سناتم نے ؟ وہ بہت بھوکا سانپ ہے ریم تا ہو تو اس کے لئے چائے تیار کر سکتے ہو۔” بعد کے دنوں میں کوئی خاص واقعہ نہ ہوا۔ اب میں چل پھر سکتا تھا چنانچہ سی کی سیر کو نکل جاتا۔ بستی کیا تھی پھری ہوئی جھونپڑیوں کا ایک گاؤں تھا جو رقی افریقہ کے دیہاتوں سے مختلف نہ تھا۔ بستی کے تقریباً سارے ہی مرد فصل ائ یا اس کی تیاریوں کے لئے باہر گئے ہوئے تھے اور عورتیں اپنے گھروں میں ند یہ عجیب بات ہے کہ ان لوگوں میں شاید پر دے کا رواج تھا۔ غالبا اس لیے کہ ان س کے ہیں چھا کہ ان کا کیا اور کا بہ نے سے قبل نہیں ہے جاتے ہیں تجھے نا پڑتا ہے افریقہ کے اس دور دراز گوشے میں چاہتا ہوں کہ تم سیدھے اسے میرے حوالے کر دو۔” یہ غلط ہے تم ایک غلط نمی کا شکار ہو الیز ہاروت نے بڑی خوش اخلانا سے نرم لہجے میں کہا ہم نے اس حسینہ کو اغوا نہیں کیا ہے جو تمہاری بیوی تھی اور سب کرنے آئے ہیں اور ہم میں طے ہو چکا ہے کہ ان کی خدمت کا صلہ ہاتھی دانت کا صورت میں دیں گے تم آقا! الیز ، ایک دوست کی طرح میکو میزن کے ساتھ آئے الانکہ خود ہم نے تمہیں مدعوہ کیا تھالیکن تم نے ہماری محمدی سے ناجائز فائدہ اٹھا سکے علاوہ کو میان یہاں کسی عورت کی تلاش سے ان کا ناوی شد و میں داخلاقی اور بے حیائے نظر نہ آئی جو مہذب دنیا کا خاصہ میں نہیں جانتا کہ پر دے کا رواج یہ لوگ اپنے ساتھ لے کر آئے تھے یا یہ عادت وں نے عرب تاجروں سے سیکھی بھی تھی۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ پر دے کی وجہ سے نا مقدس کے شہر میں کم سے کم زن فساد کی جز نہ تھی۔ یچ تو یہ ہے کہ اس بستی جیسی غیر دلچسپ جگہ میں نے پہلے بھی بھی نہ دی دیکھی 195 194 تھی۔ باشندے اداس اور خاموش تھے۔ وہ ایک خوف کے عالم میں جی رہے تھے۔ ان کے بشروں سے پریشانی ہویدا تھی اور آنکھوں سے موت جھانک رہی تھی۔ حتی کہ چے ی، جو زیادہ نہ تھے تھے تھے سے نظر آرہے تھے اور اگر بھی باتیں کرتے تو بہت پچی آواز میں۔ میں نے کبھی انہیں کھیلتے کو دتے اور شور مچاتے نہ دیکھا۔ رہی ہماری خبر گیری تو سفید کا ندہ اس میں کوئی کسر نہ اٹھا رہے تھے۔ ہمارے لیے عمدہ کھانا لایا جاتا اور ممان نوازی کا پورا پورا حق ادا کیا جاتا۔ ہمیں کسی قسم کی تکلیف نہ تھی۔ چنانچہ میرے لیے کیونکہ میری ٹانگ لنگڑی تھی۔ ایک عمدہ مولایا گیا میں اس پر سوار ہو کے سیر کر سکوں۔ مجھے صرف یہ کرنا ہو تا کہ دروازے سے باہر نکل کے آواز دیتا اور خدا جانے کہاں سے شوار جاتا اور حد تو یہ کہ اس پر زین وغیرہ بھی رکھی ہوتی۔ اس ٹو کار کھوالا، جو میرے لیے شو لے کر آجاتا تھا ، ایک لونڈا تھا اور گونگا معلوم ہوتا تھا۔ بہر حال جب میں اس سے گفتگو کرتا تو وہ کوئی جواب نہ دیتا۔ اس شام ہاروت خلاف تور قم واپس آگیا۔ وہ کچھ گھر ایا ہوا اور پریشان نظر آرہا تھا۔ وہ بڑی علت میں تھا چنانچہ اپنے مرہم کا اثر دیکھنے یا تھا کیونکہ اس نے کہا ۔ ایک ٹانگ والا آدمی جانا کا مقابلہ نہیں کر سکتا” اور جانا سے مقابلہ کب ہونے والا ہے ؟ میں نے پوچھا۔ آقا ! میں کوہ مقدس پر نئی فصل کے جشن میں شریک ہونے جارہا ہوں۔ یہ جشن نئے چاند کے دوسرے دن سورج طلوع ہونے کے ساتھ منایا جاتا ہے چڑھاوے کے بعد ندائے روح اپنے لب واکرے گی اور ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ جانا کے ساتھ جنگ کب ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ ندائے روح سے ہمیں چند دوسری باتیں بھی معلوم ہو جائیں۔” باروت ! ہم یہاں بیکار پڑے اکتا گئے ہیں۔ چنانچہ کیا ہم۔ اس جشن میں شریک نہیں ہو سکتے ؟” کیوں نہیں اس نے سر جھکا کر جواب دیا بشرطیکہ تم نہتے آؤ کیونکہ مل مقدس کے سامنے مسلح ہو کر جانا اپنی موت کو دعوت دینا ہے راستہ تم جانتے ہو جوانا غار میں سے جاتا ہے اور پھر اس جنگل میں سے گزرتا ہے جو غار کے دوسری طرف ہے گزر کر دوسری چاہے چلے آؤ اور اگر ہم غار میں سے نہیں کوئی نہ روکے گا نا جب جی ہو سکیں گے ؟” طرف نکل آئے تو جشن میں شریک کوئی تمہیں کچھ نہ کہے گا۔ نہ آتے بے شک ہم تمہارا استقبال کریں گے۔ مقدس کی قسم کھا کر وقت اور نہ جاتے وقت تم سے باز پرس کی جائے گی۔ یہ میں طفل باتیں کیوں کرتے ہو۔ حالانکہ کہتا ہوں۔ میکو میزن ! وہ مسکرایا تم ایسی چوں کی سی نہ دے گا؟ تم سمجھتے ہو کہ تم اپنے اتے ہو کہ غار والا کسی کو غار میں سے گزرنے تم نے یوں سوچا ہے تو میکو میزن یہ تھیاروں سے غار والے کا خاتمہ کر دو گے ؟ اگر اب لو کہ وہ جو تمہاری نگرانی کر رہے ہیں، خیال خام ہے۔ دیوانے کا خواب ہے۔ سن دیں گے۔ بند و قیں تو ایک طرف رہیں اب نہیں ہتھیاروں سمیت اس گھر سے نہ نکلنے ہاں اگر تم وعدہ کرو کہ اپنے ایک چاقو لے کر بھی اپنی رہائش گاہ سے نہ نکل سکو گے ساتھ گستانی نہ کریں مجھ تم کوئی ہتھیار نہ لے جاؤ گے تو پھر میرے نوکر تمہارے ہو گکی ورنہ ورنہ ریمیری واپسی تک تم اسی گھر کے اور تمہیں ہر وقت اور ہر جگہ جانے کی اجازت رکھ سکو گے بولو میکو یں گویا نظر بند رہو گے اور اس کے پائیں باغ سے باہر قدم نہ پھر اپنے ساتھیوں کو ایک طرف لے گیا میں چند کھوں تک غور کرتا رہا اور پوچھا کہ خود ان کا مشورہ کیا ہے۔ باروت ہماری باتیں نہ سن سکے اور میں نے ان سے نے کہا :۔ رمجال اس قسم کا وعدہ کرنے کے لیے تیار نہ تھا لیکن ہینس ہو کر باس بند و نوں اور پستولوں کے ساتھ قید ہو کر رہنے کی بہ نسبت نہتے آدمی آزاد رہنا بہتر ہے۔ تم کالے کا ندہ کی قید میں تھے تو کیا کر سکے کچھ بھی نہیں۔ قید اور قبر کے و کچھ نہ کچھ کر سکتا ہے چاہے وہ نہتہ ہی کیوں نہ ہو ؟ باس بعض دفعہ رمیان زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔” تھا اور میں اور ریجنال بینس عجیب الفاظ میں ایک عجیب فلسفیانہ بات کہہ گیا کر باری باری سے سے متفق تھے چنانچہ اب ہم نے ہاروت کے سامنے کھڑے ہو اٹھایا کہ ہم اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہ رکھیں گے۔ فس یہ کافی ہے ہاروت نے کہا لیکن یہ سن لو آقا کہ ہم لوگوں میں قسم توڑنا 197 196 بہت بڑا جرم بالکہ گناہ ہے اور جو قسم توڑنا ہے اسے دریائے ادا کے اس پار نہتہ چھوڑ دیا اتا ہے کہ وہ ہاتھی جانا سے اپنا معاملہ طے کرے ۔ اچھا اب رخصت اگر ہماری ملاقات نئے چاند کے دن خانہ طفل میں نہ ہوئی ، جہاں آنے کی ایک بار پھر میں تم کو دعوت دیتا ہوں، تو میں ندائے روح سے گفتگو کرنے کے بعد پھر تمہارے پاس آؤں گا۔” ور ہاروت اس اونٹ پر سوار ہوا، جو ہماری رہائش گاہ کے باہر تیار کھڑا تھا، اور بارہ دوسرے ستر سواروں کے ساتھ چلا گیا۔ کواٹر مین ! کوہ مقدس پر کوئی دوسرا راستہ بھی جاتا ہے “ رنجنال نے کہا” کیونکہ اونٹ اس غار میں سے نہیں گزر سکتا۔” ظاہر ہے کہ نہیں گزر سکتا کیوں کہ وہاں وہ عفریت بیٹھا ہوا ہے۔" وہ عفریت نہ بھی ہو تب بھی نہیں گزر سکتا وہاں اگر اونٹ سوئی کی سوراخ میں سے گزر سکتا ہے تو پھر اس غار میں گزر سکتا ہے کیونکہ وہ بہت تنگ ہے لیکن میں نے کہا اگر دوسر اراستہ ہے تو پھر وہ کوئی خفیہ راستہ ہے۔ اور یہاں دد سے شاید میلوں دور ہے چنانچہ اس کے متعلق سوچنا اور اسے تلاش کرنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔ ہم صرف غار کے راستے سے ہی جا سکتے ہیں لیکن یہ راستہ ہمارے لیے بند ہے کیونکہ وہاں عفریت بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے جشن میں شریک ہونے کا خیال ترک کر دو۔” اسی شیام، معلوم ہوا کہ ہنس غائب تھا اور پھر یہ انکشاف ہوا کہ میری کنیاں بھی غائب تھیں اور وہ صندوق کھلا پڑا تھا جس میں ہماری شراب کی ہوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ صندوق کھلا پڑا تھا اور چاہیاں اس کے تالے میں لگی لٹک رہی تھیں۔ ہیٹس نے شراب چرانے کے لیے چاہیاں چرائی تھیں اور اب وہ کہیں بیٹھا شراب پی رہا ہو گا، میں نے رسجنال کو مطلع کیا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ دوست کہ میں خود بھی نشے میں دھت ہو جانا چاہتا ؟ ہوں۔ اور پھر ہم اپنے اپنے بستر پر دراز ہو گئے اور دوسری صبح در دیر سے بیدار ہو اور اگر کرنے کو کچھ بھی نہ ہو تو آدمی جتنی بھی دیر سے بیدار ہو ٹھیک ہی ہے اور جب میں انڈے لانے کے لیے باورچی خانے کی طرف جارہا تھا تو میں نے حیرت سے دیکھا کہ پیش کافی کی فیلی کے ساتھ نمودار ہوا۔ وہیٹس ! تم چور ہو میں نے کہا۔ ہاں باس۔ چور ہی ہوں۔ اس نے جواب دیا ہاں باس۔ میں نے زہر چر کیا۔ اس کے علاوہ میں ذرا تفریح کے لیے بھی گیا اور سب ٹھیک ٹھاک کر آیا اس کو غصہ نہ کرنا چاہئے کیونکہ یہاں پڑے پڑے میری تو طبیعت گھبرانے لگی تھی۔ باس کیا کھائیں گے ؟، ولیہ پانے یادونوں ؟" جب ہم ناشتے سے فارغ ہوئے تو بینس ہمارے سامنے فرش پر تھی مار کر بیٹھ گیا، اپنا پائپ سلگایا اور دو چار طویل کش لے کر بولا :۔ باس اگر آج رات اس غار کے راستے جانا چاہتے ہوں تو راستہ صاف ہے کیا مطلب ؟ میں نے پوچھا اور سوچنے لگا کہ اب تک اس کا دماغ صاف نہیں ہوا ہے۔ مطلب یہ باس کہ وہ غار والا گہری نیند سو رہا ہے۔” یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا مینس ؟" باس ! میں خود اسے بیٹھی نیند سلا آیا ہوں۔ حالانکہ اس نے خوب او دھم مچایا ور شور مچا لیکن میں نے آخر کار سے سلادیا۔ اب وہ سورہا ہے اور کبھی بیدار نہ ہو گا۔ ہاس ! ستانیوں کے اس در امجد کو میں نے ختم کر دیا ہے۔ 199 198 اسی شام ہم نے وہ پینے اپنے لباس پر پہنے جور سجنال نے تمباکو کے بارے میں حاصل کئے تھے۔ تمام ہتھیار گھر میں ہی رکھے اور ہاتھ میں صرف ایک ایک چھڑی لے کر ہم تیوں بڑی شان ، اطمینان اور بے پروائی سے سے بستی سے نکلے ہم نے تھوڑا سا کھانا اور ایک لالین بھی اپنے ساتھ لے لی تھی۔ بستی سے باہر آئے تو ہماری ملاقات چند کا ندہ لوگوں سے ہوئی جن میں سے ایک میر انا سا تھا۔ کیونکہ جب ہم صحرا عبور کر کے کاندہ لینڈ کی طرف آرہے تھے تو اس سفر میں یہ شخص میرے اونٹ کے ساتھ ہی ساتھ رہا تھا۔ میکو میزن دخل در معقولات کی معانی چاہتا ہوں لیکن یہ بتاؤ کہ تم لوگ نتے ہو ؟ اس نے ہمارے سفید چھوں کو حیرت سے دیکھ کے پوچھا۔ بالکل نہتے ہیں۔ اگر تم چا ہو تو ہماری تلاشی لے سکتے ہو۔ میں نے جواب یا۔ تمہارا یہ کہ دینا ہی کافی ہے۔ اس نے گردن کو ذرا غم کر کے کہا۔ ہم سے کہا گی ہے۔ کہ اگر تمہارے پاس ہتھیار نہ ہوں تو ہم تمہیں نہ روکیں چنانچہ تم جہاں چاہو ؟ سکتے ہو۔ لیکن آقا ! اس نے سر گوشی میں اضافہ کیا۔ بہتر ہو گا کہ تم اس غار کے قریب نہ جاؤ کیونکہ وہاں وہ رہتا ہے جسکا نشانہ بھی خط نہیں کرتا۔ وہاں وہ رہتا ہے جس کا بوسہ موت کا بوسہ ہے۔ یہ مشورہ میں تمہاری بھلائی کے لئے دے رہا ہوں اور اس میں ہماری بھی بھلائی ہے کیونکہ ہمیں تمہاری ضرورت ہے”۔ ہم اسے بیدار نہ کریں گے جو غار میں سو رہا ہے” میں نے بڑی بے پروائی سے کہا۔ اور ہم اپنے دل میں اطمینان و مسرت کی لہریں محسوس کرتے آگے بڑھ گئے۔ ونکہ کا ندہ لوگ غار کے عفریت کی موت سے اب تک بے خبر تھے۔ ہیٹس کی راہری میں کوئی ایک گھنٹے تک چلتے رہنے تک ہم لوگ غار کے ہانے پر پہنچ گئے۔ مجھے اعتراف ہے کہ وہاں پہنچتے ہی مجھے تو پھر پر یاں آگئیں اور میں نے وچا کہ کاش ہمارا یہ سفر اور بھی طویل ہوتا۔ عجیب طرح کے لرزہ خیز شکوک میرے دن میں اپنا پھن پھیلانے لگے تھے۔ چنانچہ ہم لوگ غار میں داخل ہوئے اور واقعی غار کے فرش پر وہ زبردست سانپ مردہ اور پھول ہوا پڑا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ اس کی لمبائی کتنی تھی کیونکہ اس کا کچھ حصہ کنڈلی مارے تھا۔ چنانچہ مہر یہ کہنا غالبا کافی ہو گا کہ انتا را اور ایا بر دست سانپ میں نے اور کسی نے بھی کبھی نہ دیکھا ہو گا۔ اور نہ آئندہ کبھی دیکھا جائے گا۔ یہ سچ ہے کہ یں ایسے بڑے سانپوں کے متعلق جو افریقہ کے مختلف حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ ت کچھ سن چکا تھا لیکن آج سے پہلے کسی ایسے سانپ کو دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ اس کے علاوہ غار کا یہ سانپ ایک نئی نئی نسل سے تھا۔ کیونکہ جیسا کہ رسجنال نے کہا تھا وہ ناک اور انی کی طرح دس سکتا تھا اور اڑ ھے کی طرح کچل سکتا تھا۔ ہو سکتا تھا کہ رمجال کا یہ ندازہ غلط ہو، بہر حال یہ اس کے زہریلے دانتوں اور سر کا معائنہ کرنے کا وقت نہ تھا۔ اور دوسری دفعہ جب ہم اس غار میں سے گزرے ہیں۔ تو وہ سانپ وہاں نہ تھا اس غاریا رنگ کی بدو کو میں عمر بھر نہ بھلا سکوں گا۔ ناک سزا دینے والی بد ہوتھی وہ اور اس میں جب کی بات بھی نہ تھی۔ کیونکہ وہ زبر دست سانپ صدیوں سے اس غار کو اپنا مسکن ے ہوئے تھا۔ چند ثانیوں تک ہم دم خود کھڑے اس گھناؤ نے سانپ کو دیکھتے رہے جس کا 201 200 جسم اب بھی چک رہا تھا اور پھر اپنے دل میں خوف لیے آگے بڑھ گئے کہ مباد ہماری لاقات اس کی بیوی اور چوں سے ہو جائے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سانپ اکیلا ہی تی جس طرح کہ جانا اکیلا تھا۔ کیونکہ ہماری مد بھیڑ کسی دوسرے سانپ سے نہ ہوئی۔ سانپوں کا یہ جد امجد کیا تھا۔ اور کہاں سے آیا تھا۔ یہ میں معلوم نہ کر سکا۔ کاندہ لوگوں سے پوچھا تو وہ صرف اتنا تا سکے کہ یہ سانپ شروع سے ہی اس غار میں رہتا تھا اور جب بھی کالے کا ندہ گرفتار ہو کر آتے تھے تو انہیں اس کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ کالے کا ندہ سفید کاندہ کو جانا کے سامنے ڈال دیتے تھے۔ بڑی وقتوں کے بعد سرنگ کے اس دہائے میں سے نکلے تو ہم کھڈ کی ایک ڈھلان پر کھڑے ہوئے تھے۔ بڑا پر دست تھا یہ کھڈ ۔ ہم جس ڈھلان پر کھڑے ہوئے تھے ، وہ اس کھڈ میں کوئی اسی قدم تک اترتی چلی گئی تھی نیچے اترنے کے بعد پھر ڈھلان یا چڑھاؤ تھا۔ جو گویا اندرونی پہاڑ کے ایک مخروطے پیدے تک چلا گیا تھا۔ اور ہاڑ کا یہ پید گھنے جنگل سے دھکا ہوا تھا۔ پہاڑ کی ساخت دیکھ کے میں نے انداز لگایا کہ دنیا کے کسی ابتدائی دور میں انل فشاں کے پھٹنے کی وجہ سے کھا اور سامنے والی چٹان پیدا ہو گئی ہو گی۔ لیکن چونکہ طبقات الارض کے متعلق میری معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لیے میں صرف یہ کہنے ؟ اکتفا کروں گا کہ کوہ مقدس ان خوابیدہ آتش فشاں پہاڑوں سے مشابہ تھا۔ جنہیں میر افریقہ کے مختلف حصوں میں دیکھ چکا تھا۔ اور آخر کار افق مشرق و بیا بتا دلہن کے رخساروں کی طرح سرخ ہو گیا را رفتہ سرخی پر سفیدی غالب آنے لگی روشنی کا ایک فوارہ سا چھوٹا اور جنگل کے بند رول ور پر ندوں نے اپنی اپنی بولی میں صبح کو خوش آمدید کہا۔ دوسرے لمحے سورج کی ایک کرن دفعته افق تافق دوڑ گئی۔ سورج اب تک طلوع نہ ہوا تھا لیکن اس پہلی کرن نمودار ہوتے ہی ہمارے سامنے والے نشیب میں سے گیت کی آواز ابھر کی آواز سے مدھم اور مسحور کن تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی یہ آواز غائب ہو چکی تھی اور اس کی جگہ سراہٹ کی آواز سنائی دے رہی تھی جیسے بہت سے لوگ کسی نظر نہ آنے والے تھیر پنی اپنی نشست پر بیٹھ رہے ہوں۔ اور پھر ایک اور آواز سنائی دی۔ یہ کسی عورت کی را پیدھی شیریں ، بے حد دھر اور مسحور کن۔ وہ کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی زبان میں کوئی بت گارہی تھی۔ رسجنال مجھ سے لگ کر بیٹھا ہوا تھا میں نے اسے لرزقے محسوس کیا۔ کیا بات ہے رسجنال ؟ میں نے اس کے کان کے قریب منہ لے جا کر پوچھا کواٹر میں ۔۔۔ یہ ۔۔ یہ میں سمجھتا ہوں۔۔ میری بیوی کی آواز ہے اس نے اسی طرح میرے کان کے قریب منہ لا کر جواب دیا اس کی آواز لر رہی تھی۔ اگر ایسا ہی ہے رسجنال تو۔۔ اپنے جذبات پر قابو رکھو۔ بے خود ہو جانے کی کوئی ضرورت نہیں میں نے کہا۔ بیوی میدان میں ایک بیکل کھڑا ہوا تھا جو مصر قدیم کے ان ہیکلوں سے مشاہیہ تھا جن کے آثار اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مشابہ کیا تھا ہو ہو مصر قدیم کا ہی یکل تھا۔ مصر کے ہیکلوں کی طرح اس کا بھی ایک باب تھا۔ مصر بیکل کا بیرونی دالان تھا۔ اس دالان کے کنارے بہت سے ستون تھے اور ان ستونوں پر ان مجروں کی چھت کی ہوئی تھی۔ جو دالان کے دونوں طرف نے ہوئے تھے بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ان تجروں میں طفل مقدس کے مہنت رہ رہے تھے۔ اس دالان کے عقب میں بیکل کا دوسراد الان یا حصہ تھا۔ نسبتا چھوٹا تھا۔ رونی اور اندرونی دالان کو ایک تنگ گزرگاہ آپس میں جوڑ رہی تھی یہ دالان بھی کھلا تھا۔ اس کھلے حصے کے بعد ایک چھت دار عمارت تھی جو کوئی بارہ فٹ بلند تھی۔ یہ اصلی عید یا مقام مقدس تھا۔ ہ بیکل بہت چھوٹا تھا لیکن بڑی مہارت اور کاریگری سے بنایا گیا تھا۔ اس کا ای کونا بھی ابھر اہوا اور ایک حصہ بھی غیر متوازن نہ تھا۔ ہاں میں یہ بتانا تو بھول گیا کہ معد با مقام مقدس کے عین سامنے لادے کا ایک بڑا سا پتھر رکھا ہوا تھا۔ یہ یقیناً قربان اہ تھی۔ اس قربان گاہ کے سامنے ایک کر سی تھی سودہ بھی پھر کی تھی اور اس کے امنے ایک بڑا سا پیالہ دھرا ہوا تھا یہ پیالہ بھی پتھر کا تھا جو ایک بے حدی پہنچی پائی پر رکھا وا تھا۔ قربان گاہ کے دوسری طرف ایک عمارت تھی جس کی کھڑ کی نما و شند ان نے جب ہم نے صبح کی پہلی کرن میں پہلی دفعہ اس بیکل کو دیکھا ہے تو اس وقت 203 202 ہیکل بیرونی اور اندرونی دالان۔ کیونکہ دو حصوں یا صحنوں کو دالان ہی کہنا مناسب ہو گا۔ حالانکہ ان پر چھت نہ تھی۔ خالی تھے البتہ اس مفی تھیٹر کی نشستوں پر تین سو کے قریب مرد اور عوتیں بیھٹی ہوئی تھیں۔ مرد شمال کی طرف اور عورتیں جنوب کی طرف نشستوں پر۔ وہ سب کے سب سفید چھوں میں ملبوس تھے۔ مردوں کے سر منڈی ہوئے اور عورتوں کے سر ڈھکے ہوئے تھے۔ لیکن عورتوں نے اپنے نقاب یوں سمجھئے کہ الٹ رکھے تھے۔ باروت کا اشارہ پا کے انہوں نے بے حد شیر میں آواز میں ایک گیت اٹھایا اور اندرونی دالان میں اتھ ہی قدم بہ قدم آگے بڑھیں، گزرگاہ میں داخل ہوئیں اور لڑکیوں چ گئیں۔ قربان گاہ کے سامنے پہنچ کے وہ رک گئیں پہلے مہنوں نے اور پھر طرف ے کے بعد دیگرے اپنی تالیاں اوپر تلے رکھ دیں اور اب قربان گاہ کے ایک قطار بنا کر کھڑی نت اور دوسری طرف لڑکیاں، جنھیں داسیاں کہنا مناسب ہو گا ایک گئیں۔ ہاروت نے آگے بڑھ کے ایک تھائی پھول کی اور ایک تھائی غلے کی بالی اٹھائی۔ دیں جہاں اب نظر نہ آنے والا چاند اس نے دونوں تھالیاں آسمان کے اس سمت میں اٹھا اٹھائے ہوئے تھا با روت گھٹنوں گیا اور وہ دونوں تھالیاں معبد کے دروازے کی طرف اب اس نے تھالیاں ابھرتے ہوئے سورج کی طرف اٹھادیں۔ اب وہ گھوم ور مضبوط کو اڑ لگے ہوئے تھے۔ ان دور استوں اور ان کے سرے پر کے دروازوں کی کے بل چھک گیا اور کوئی دعا پڑھنے لگا۔ ہم تک اس کی آواز نہ پہنچ رہی تھی اس لیے ہم اور ہم نے اب یہ بھی دیکھا کہ اسمفی تھیڑ میں سے دو راستے دو مختلف سمتوں کی طرف گئے تھے۔ ایک مشرق اور دوسرا مغرب کی طرف۔ یہ راستے ان سرنگوں میں سے گزرتے تھے جو لاوے کی چٹانیں کاٹ کر بنائی گئی تھیں دونوں راستوں پر رہا تھا اورا کے سروں پر جہاں وہ اسمفی تھیڑ سے نکلتے تھے ؛ دو دروازے تھے اور ان میں کانی بڑے وجہ سے ہمیں چند نتائج اخذ کرتے دیر نہ لگی۔ اول یہ کہ وہ غار : جہاں ساپنوں کا جدا مجد رہتا تھا۔ ہیکل تک پہنچنے کا سیدھا اور صحیح راستہ نہ تھا بلک ایسا تھا جسے انکل بچو کہتے ہیں۔ یعنی مسافر اس غار میں سے گزرنے کے بعد اگر ہیکل تک پہنچ گیاور نہ راستے میں ہی کہیں گر پڑ کر مر گیا اور ودم یہ کہ وہ جشن، جسے اب ہم دیکھنے والے تھے ، خفیہ طور سے منایا جارہا تھا اور اس میں مصروف مہنت اور ان کے اہل و عیال یا عزیز دا قربا شریک ہو دن ابھی پوری طرح طلوع بھی نہ ہوا تھا کہ بیرونی دالان کے تجروں کے دروازے کھلے اور بارہ مہنت باہر نکل آئے۔ ہاروت سب کے آگے تھا جو اپنے سفید براقی لباس میں بڑا ہی شاندار معلوم ہو رہا تھا۔ ہاروت اور اس کے ساتھی مہنوں کے ہاتھوں میں بھی ایک چولی تھائی تھی اور ہر تعالی میں مختلف اقسام کے غلے کی بالیاں رکھی ہوئی تھیں۔ اب جنوٹی مجروں میں سے عورتیں بائکہ یوں کہیے کہ لڑکیاں نکل آئیں ساری لڑکیاں مہنوں کے دائیں طرف ایک قطار میں کھڑی ہو گئیں یہ لڑکیاں ا ہاتھوں میں چوٹی تھالیاں لیے ہوئے تھیں اور ان تھالیوں میں تازہ پھول رکھتے ہو۔ رہا تھا۔ میں کہہ سکتے کہ وہ کیا پڑھ رہا تھایا گیا کہ معبد کا دروازہ کھلا اور مصر بیت ختم ہو گیا خاموشی کا طویل وقفہ رہا۔ پکا یک کہ مجھے اتنی دور یم کی دیوی ایرنس نمودار ہوئی۔ وہ اسنابار یک لباس پہنے ہوئے تھی سے بھی اس کے جسم کے دل آویز خطوط نظر آرہے تھے اس کے لانے بال پیٹھ پر پھلے ائے تھے اور اس کے سر پر پروں کی ٹوپی تھی ٹوٹی کے اگلے سرے پر اور دیوی کے ھے پر ایک سنہر سانپ بھن پھیلائے ہوئے تھا۔ وہ اپنی گود میں ایک عریاں جسے ان ماتھے پر یے ہوئے تھی۔ یہ بہت ایک بچے کا تھا اس دیوی کے ساتھ دو دوسری لڑکیاں بھی میں سے نکل آئی تھیں اور انہوں نے اپنے ہاتھ دیوی کی کہیوں کے نیچے دے ے تھے۔ یہ دونوں لڑکیاں بھی باریک لباس اور پروں کی ٹوپی پہنے ہوئے تھیں فرق نے کہا یہ اتنا تھا کہ ان کی ٹوپی پر سنہرا سانپ نہ تھا میرے خدا رسجنال کہ وہ دیوی ۔۔ یہ تو میری بیوی ہے”۔ تو پھر خاموش رہو یا خدا کا شکر ادا کرو دیا۔ اور تندرست ہے میں نے جواب میرے دماغ کی مصریوں کی دیوی ایز نس یار بجنال کی بیوی لیونا۔ اس وقت ات کچھ ایسی ہو رہی تھی کہ ایزین اور لیونا گڈیڈ ہو رہی تھیں۔ بت کی طرح بے حس 205 204 و حرکت کھڑی ہوئی تھی اور داسیاں اور سارے تماشائی، جو او پری نشستوں پر چڑھ آئے تھے اور چٹائی دیوار کے اس پار دیکھ سکتے تھے، تین دفعہ چلائے۔ یہ غالبا انھوں س نعرے لگائے تھے۔ یا ندائے روح کو اس طرح شاید خوش آمدید کہا تھا پھر ہاروت اور دای نے جو تمام داسیوں سے آگے کھڑی ہوئی تھی، کٹ کی ایک بالی اور ایک پھول اٹھار لگائیں۔ انھوں نے یہ دونوں چیزیں پہلے طفل مقدس کے اور پھر دیوی ایز لیس کے ہونٹوں سے یہ رسم ادا ہو چکی تو و دایاں دیوی ایز یس کو سارادیکر سنگی کرسی کے قریب لے گئیں جو قربان گاہ کے سامنے تھیں انہوں نے دیوی ایز پیس کو اس کر سی پر ٹھا یا ود فعند اس پیالے میں ، جو کر سی کے عین سامنے تھا، آگ جلنے لگی۔ یہ آگ کس طرح مجل اٹھی تھی یہ میں نہ دیکھ سکا، بہر حال پیالے میں سے بلکے نیلے رنگ سے شعلے نکل رہے میا تھے۔ ہاروت اور سب سے آگے کھڑی ہوئی داسی نے کوئی چیز چنگی بھر سے شعلوں میں چھڑک دی اور شعلے دھوئیں میں تبدیل ہوئے اور پھر دیوی ایزیں۔۔ مناسب معور ہوتا ہے کہ اس پوری کاروائی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے میں خاتون رسجنال کو اسی و سے یاد کروں۔۔ ہاں تو پھر دیوی ایز لیس نے اپنا سر جھکا دیا۔ یہاں تک کہ اس کا چر پیالے میں سے اٹھتے ہوئے دھوئیں میں چھپ گیا بالکل اسی طرح میں نے اور رمیال کی بیوی نے، جو اس وقت دیوی ایز لیس کے روپ میں تھی ، قصر رسجنا کے ایک کمرے یں اپنا اپنا سر جادوئی تمبا کو کے دھوئیں پر جھکا دیا تھا، تھوڑی دیر بعد ہی دھواں غائب گیا اب وہ دونوں خاد مائیں جو سر پر پروں کی ٹوپیاں رکھے ہوئے تھیں آگے بڑھیں اور انہوں نے ایز پیس کو سیدھا بٹھا دیا، چہ اب تک اس کی گود میں تھا اور وہ کر ہی میں پول بیٹھی ہوئی تھی جیسے نچے کو دودھ پلا رہی ہو۔ اس کا سر آگے کی طرف جھ کا ہوات جیسرا پر غشی طاری ہو۔ اب ہاروت آگے بڑھا، وہ ایز یس پر جھک گیا اور معلوم ہوا کہ وہ ایزی کچھ پوچھ رہا تھا وہ چند منٹوں تک اس سے گفتلو کر تا رہا، چند قدم پیچھے ہٹا اور ہم تک نہ پہنچ رہی تھی لیکن ہم صبح کی روشنی میں اس کے ہونٹ ملتے دیکھ رہے ے وہ چند منٹوں تک بولتی رہی اور پھر کر سی پر بیٹھ گئی۔ اب وہ بت کی طرح بیٹھی خالی نظروں سے کہیں خلا میں دیکھ رہی تھی۔ باروت ایک بار پھر آگے بڑھا لیکن اس دفعہ زبان گاہ کی طرف وہاں ایک سیڑھی نما پتھر پر کھڑا ہو گیا اور اب اس نے مہنوں، یوں اور تماشائیوں کو اتنی بلند اور صاف آواز میں مخاطب کیا کہ میں اس کے منہ سے ا ہوا ایک ایک لفظ صاف طور سے سن اور سمجھ سکتا تھا اور ہاروت نے سب کو یوں اے مہنتو ! اے داسیوں اور اے لوگو! طفل مقدس کی ماں اور ندائے روح ین گوئی کر دی ہے۔ ہاں وہ اس دیوی کا سایہ ہے جو صدیوں پہلے موجود تھی، پیشن چکی۔۔ ہاں۔۔ اس نے اپنے لب دا کئے جن کی آغوش میں شفقت ہے۔ ہاں۔ وہ وئی جس کا دل طفل مقدس کے الہامات سے پر ہے۔ ہاں اس نے، جس کے سینے پر ان نشان ہے، مجھ سے اپنے مہنت اعلی سے گفتگو کی ہے۔ اے لوگو! سنو! یوں کہا ہے نے روح نے اور یہ ہیں اس کے الفاظ ۔” اے لوگو! اے وہ جو سفید کا ندہ کہلاتے ہو سنو! اے وہ جو طفل مقدس کی ستش کرتے ہو سنو تمہائے سروں پر جنگ کے بادل منڈ لا رہے ہیں اے سفید کا ندہ ! ہن کا نام جانا ہے۔ وہ جو صدیوں پہلے م مست ہاتھی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ تم پر اور ہو رہا ہے۔ یہ اندھیرے اور اجالے کی جنگ ہے۔ یہ نیکی اور بدی کی جنگ ہے۔ ن اور باطل کا مقابلہ ہے میرا عذاب جانا کے پرستاروں پر نازل ہو چکا ہے۔ ان کے کھانے کو اب کچھ نہیں رہا۔ ان کی فصلیں کیاہ ہو گئیں اور مویشی مر گئے۔ لیکن کالے ب بھی پر قوت ہیں۔ وہ جنگ کر سکتے ہیں۔ اور اے لوگو! تمہارے دیو تا کو کچلنے آرہا ی نیکی کو ختم کرنے آرہی ہے۔ رات دن کو نکلے آرہی ہے۔ تاریکی روشنی پر نے آرہی ہے۔ یہ جنگوں کے طویل سلسلے کی آخری اور فیصلہ کن جنگ ہے۔ اے مقدس کے پرستارو تم کس طرح صحت یاب ہو گے ؟ بے شک تم محض اپنی قوت رہا۔ ہر شخص خاموش تھا۔ ہر شخص منتظر تھا دیوی ایز یس اٹھ کر کھر ہو گئی ، اس کا ارلا سے شت حاصل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ تمہاری تعداد بہت کم ہے اور جانا کے پرستار ر ہیں۔ طفل مقدرس کے سہارے بھی نہیں کیونکہ طفل مقدس بوڑھا اور کمزور ہو یچھے کی طرف ھلک گیا و نا ہی آسمان پر جم گیں اور اب وہ کچھ کہ رہی تھی انا 207 206 رہا ہے۔ صرف اس علاقے میں وہ پوجا جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی ف قوتیں بھی محدود ہو گئی۔ ہیں اور دوسرے دیوتا اس کے ہٹانے پر اور اس کا خاتمہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔" ندائے روح اور اسی نشان نے اسے کے اغوا کا باعث بنا تھا کئی تمار یہی نشان خاتون رجینال تو پھر تم کس طرح تحت یاب ہو گے ؟ صرف ایک راستہ ہے اس کا یوں کیا۔ ہے ندائے روح نے جو طفل مقدس کی رکھو ان ہے ور جس کے منہ میں طفل مقدس کی زبان ہے۔ ہاں صرف ایک راستہ ہے۔ تم صرف ان اجنبیوں کی مدد سے تح حاصل کر سکتے ہو جنہیں تم نے بہت دور سے بلایا ہے یہ آنے والے ۔۔ یہیہ ا اجلی ۔۔ چار تھے۔ لیکن دیا تھا۔ وران وحشیوں کی دیوی بنا کو دونوں ہو گئے خاتون ریجنال نے طفل مقدس بڑے میں گر گئے وہ اٹھ کر کھڑے ساری داسیاں اور سارے تماشائی اس بالی نشان کو دیکھتے ہی سارے منت، کو ایک بار پھر سجدہ ریز تھے طفل مقدس اتھوں میں پکڑ کر بلند کیا اور وہ سب کے سب معید کے دروازے میں داخل کی بلند کئے وہ اس کے ساتھ اس کی خادمائیں پائیں ی کو تم لوگوں نے غار والے کے جڑوں میں دے دیا۔ اے طفل مقدس کے بیٹ اور دیں اور وہ سے غائبا کسی خفیہ راستے کے ذریعہ کسی خفیہ جرے میں چلی گئیں۔ بیا یہ بہت برا کیا تم نے غار والا مر چکا ہے اور بہت جلد وہ لوگ بھی مر جائیں گے۔ جنہوں نے اس اجنبی کو غار والے کے جڑوں میں دینے کی سازش کی تھی۔ اگران لوگوں نے یہ گناہ نہ کیا ہو تا ، اگر ان لوگوں نے اس سفید فام اجنبی کا خون نہ بھایا ہو تا تو یہ لوگ کچھ دن کے لیے اور زندہ رہ جاتے لیکن اب ان کی زندگی کے دن پورے حال پھر نظر نہ آئیں۔ تھا داخل ہو گئے اور اب ان میں یرونی والان میں جس کا دروازہ اب کھول دیا گیا اور بیکل اپنی نشستوں پر ۔ سے اٹھے خاتون رسجنال کے جاتے ہی تماشائی اپنی پر شادی چڑھا تھا۔ منت تماشائیوں میں نت کچھ تقسیم کر رہے تھے یہ غالبا دیوی کا بالیاں مردوں میں تقسیم کی جارہی تھیں اور ہوئے۔ کیوں کہ یہ گناہ تم نے کیا اس لیے کہ اس عورت کا راز فاش نہ ہو جائے جیسے تم لے کی پالیاں اور پھول تقسیمتو کر رہے تھے ماتھےسے لگا کر اپنے چھوں میں رکھ لیتی تم نے ا انوائی ہوں ہوں عورتوں میں مرد اور عورتیں ان چیزوں کو غوا کر کے لے آئے ہو ؟ کیا اس لیے کہ تم نے اپنے جھوٹ کو جو نے دیکھا کہ اس کا رنگ زرد تھا اور گھٹنوں کے بل ذرا سا اٹھا اور میں عورت کے متعلق متعلق بولا تھا ، آخر نیک نبھا سکو ؟ رمجال ہاتھوں عجیب طرح کی چمک تھی۔ کیا کرنے جارہے ہو تم ” میں نے پوچھا میں ان سے مطالبہ کرنے جارہا ہوں کہ میری بیوی کو میرے حوالے کر واٹرمین مجھے روکنے کی کوشش نہ کرو۔ یوں کہتا ہے طفل مقدس ۔۔ خبر دار ! جو تین بیچ رہے ہیں ان پر ہاتھ نہ آنکھوں میں اٹھانا۔ خبردار اوہ جو طلب کریں انہیں دے دینا۔ اور اسی طرح تم میں سے چند اپنے آپ کو جانا سے چا سکیں گے۔ حالانکہ طفل مقدس اور ندائے روح نہ رہے گی تم رہو گے۔ تو اے لوگو! یہ ہیں ندائے روح کے الفاظ یہ ہے اس کی پیشین گوئی جو بد لی جائے گی۔ باروت خاموش ہو گیا اور نشیب میں گھری خاموشی مسلط ہو گئی۔ لوگ خاموش تھے۔ وہ ندائے روح کے الفاظ میں چھے ہوئے گھرے معنی سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور آخر کار ان کی سمجھ میں سب کچھ آگیا اور کراہ کی آواز نشیب میں گوئی گئی ہے بڑھیں، انھوں نے خاتون ریجنال کو جو دیوی ای نیس کے روپ میں تھی، سارا دے کر گونج مدھم ہو کر غائب ہو گئی دونوں خادمائیں ، جو پروں کی ٹوپیاں پہنے ہوئے تھیں آگے ھایا، انھوں نے اس کا باریک چینہ سینے پر سے کھل کے کسی چیز کی طرف اشارہ کیا۔ وہ دونوں اس ہلالی نشان کی طرف اشارہ کر رہی تھیں جو خاتون رسجنال کے سینے پر بنا ہو گے اور ہم جبرا تمہاری بیوی ر مجال میں نے کہا وہ تمہارا یہ مطالبہ قبول نہ کریں ہن کر سکیں گے کیونکہ ہم صرف تین ہیں۔ اور کچھوے کی طرح گردن اٹھا کر وقعیا بیس ہم دونوں کے درمیان رینگ آیا کو حاصل کرنا باس ایک ترکیب سو بھی ہے مجھے باس الجیز اس عورت ٹوپی تو پروں کی پہن رکھی ہے لیکن اتنے ہتے ہیں جسے وہ اپنی بیوی کہتے ہیں جس نے اب یہ ذرایاد کرو کہ سے لوگوں کے درمیان سے اسے نکال لے جانانا ممکن ہے۔ 209 208 اس بوڑھے ڈچ ڈاکٹر ہاروت نے ابھی کیا کہا تھا اس نے کہا تھا کہ یہ ندائے روح کے الفاظ ہیں اور اس نے کہا تھا کہ ہماری اور صرف ہماری وجہ سے وہ لوگ کالے کا ندہ کو شکست دے سکیں گے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم تینوں کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے کیونکہ اسی طرح سفید کاندہ اپنے آپ کو چا سکیں گے چنانچہ باس معاملہ یہ ہے کہ سفید کا ندہ ہم سے کوئی چیز خرید سکتے ہیں اور ہم کوئی چیز فروخت کر سکتے ہیں اور یہ چیز ہے کالے کا ندہ کے خلاف ہماری مدد اور قوت تم جانو باس اگر ہم سفید کاندہ کی حمائت میں نہ لڑے تو وہ کبھی شت یاب نہ ہوں گے۔ یونکہ یہ ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ہمارے بغیر دشمن کو نہ شکست دے سکیں گے۔ ور نہ جانا ہی کا خاتمہ کر سکیں گے اچھا اب فرض کرو کہ اس کیوں نہیں کہ ہم اسی طرح یہ کالے کا ندہ سے جنگ کر سکتے ہیں کہ کفن پوش سفید فام خاتون ہمارے حوالے کر دی جائے یعنی اس وقت جنگ کا فیصلہ کر دیا جائے کیوں کہ بعد میں انہیں ندائے روح یا جو کوئی بھی وہ ہے اس کی ضرورت نہ رہے گی پھر ان سے فرض کردیوں کہا جائے کہ اگر انہوں نے ہماری یہ شرط نہ مانی تو ہم اپنی ہندو قیں توڑ دیں گے اور بارود اڑا دیں گے تو پھر اس طرح میں تو سمجھتا ہوں کہ سفید کاندہ ہماری یہ شرط مان لیں گے۔ شائد میں نے کہا خود میں بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہا ہوں لیکن اس پر مجھے فور کرنے کا موقع ہی نہ ملا چنانچہ میں نے میٹس کی تجویز کا ترجمہ بیٹس کو سنا کے کہار جنال تم خدا کے لیے بے صبر اور جوش کا مظاہرہ نہ کرنا بھائی۔ پھر کے نیچے ہاتھ پھنسا ہو تو اسے صبر سے اور آہستہ آہستہ نکالنا چاہئے ظاہر ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں کی کوئی پولا نہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ ہمیں زندہ رکھیں البتہ تمہاری بیوی کو قتل کر دیں کیونکہ وحشی کبھی اس بات کو گوارہ نہ کریں گے کہ وہ مقدس ہستی جس کے سامنے وہ جھکے لور جسے وہ ندائے روح کہتے ہیں ان کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ چلی آئے۔ میری یہ دلیل بڑی عمدہ تھی چنانچہ تیر نشانے پر بیٹھا۔ میں خاموش رہا پھر بولا۔ چند لمحوں تک شش و پیچ کے عالم زیادہ ہو شیار ہو اور کسی بہت اچھا میں وعدہ کرتا ہوں کیونکہ تم مجھ سے قدم اٹھاتے ہو ”۔ لہ کے ہر پھلو پر غور کرنے کے بعد عملی خود میرا دل اس وقت س ٹھیک ہے میں نے بڑے اعتماد سے کہا حالانکہ سے ملتے چلتے ہیں اس کے علاوہ میں الواڈول تھا اچھا ہم ہاروت اور اس کے دوستوں س ڈیکل کو بھی قریب سے د سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ گئے اور جب ہمیں یقین نانچہ ہم جھاڑیوں کی اوٹ نے کر کئی قدم پیچھے ہٹ ہم اٹھ کر گیا کہ اب ہم کھڑے ہو گئے تو نشیب والے ہمیں دیکھ نہ سکیں گے تو کی طرف کوئی یاد میل سے ہو گئے اور حتی الامکان تیزی سے قدم اٹھاتے مشرق ہم آتش فشاں کے کے بعد ہم شمال کی طرف گھوم گئے جیسے کہ مجھے توقع تھی۔ عبور کر کے اس نے کے دوسری طرف شاہ بلوط کے جنگل میں پہنچ چکے ہیں اور جنگل ہم اس راستے پر چل پڑے پر پہنچ گئے تھے جو ہیکل کے باب مشرق تک جاتا تھا سے آگے بڑھتے رہے رف کوئی نہ تھا جو ہمیں آتے دیکھ سکتا چنانچہ ہم اطمینان بڑے بے پروائی سے دروازے میں داخل ہاں تک کہ باب بیکل نظر آنے لگا۔ ہم بظاہر اور سبب اس کا یہ تھا کہ جتنے بھی لوگ وہاں ئے اور کوئی ہماری طرف متوجہ نہ ہوا عبادت میں مصروف تھے یا شائد اس جو تھے وہ یا تو آپس میں باتیں کر رہے تھے یا پھر یا دروازے کی ہ ہم بھی سقید کا ندہ کا لباس پہنے ہوئے تھے سرنگ کے دہانے ی طرف پہنچ کر ہم رک گئے اور میں نے بلند آواز میں کہا۔ ہاروت نے سفید فام آقاؤں کو یہاں مدعو کیا تھا اور دیکھ وہ آگئے ہم ہاروت کرناو چاہتے ہیں اور تم سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں باروت کے پاس لے کے یکا یک وہ سب لوگ ہماری طرف گھوم گئے ہم دروازے کے محراب کوائر مین میری بی اگرچہ اب بھی نہ ملی تو د کی قسم میںپاگل ہو جاؤں سے میں کھڑے ہوئے تھے۔ وہ لوگ ہمیں دیکھ کریوں چوکے جیسے ہم بھوت ہوں مسجنالر بڑبڑایا۔ تو پھر وعدہ کرتے ہو کہ تم صبر و سکون سے کام لوگے اور ہمیں یہ داؤ آزما و قتل کر دو انہیں قتل کر دو انہیں یہ لوگ مقام مقدس کو تا پاک کر رہے 211 210 یں۔ کیا ۔ تم ان لوگوں کو قتل کر دو گے۔ جنہیں منت اعلیٰ پناہ دے چکا ہے کیا م ان لوگوں کو قتل کر دو گے جن کے بغیر جیسا کہ نوائے روح نے اعلان کیا ہے تم لی ب نہیں ہو سکتے کیا ندائے روح نے نہیں کہا کہ ہمارے بغیر نہ تو تم کالے کا ندہ کو شکست دے سکو گے اور نہ ہی جانا کو ختم کر سکو گے ندائے روح کے بے شک یہی الفاظ تھے ایک آواز نے کہا لیکن انہیں اس کا کیسے علم ہو؟ یہ لوگ جادو گر ہیں۔” بے شک ہم ساحر ہیں صرف کاندہ ہی اس فن کے استاد نہیں ہیں اگر تمہیں شک ہو تو جاؤ غار میں جا کر دیکھو۔ ندائے روح نے غلط نہیں کہا تھا غار والا مر گیا۔ جاؤ دیکھو اور یقین کرو ہماری غیر معمولی قوتوں کا ابھی یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے ہی تھے کہ ایک سفید پوش نمودار ہو اوہ بہت زیادہ گھیر لیا ہوا تھا اور یوں بھاگ رہا تھا کہ اس کا چغہ اس کے پیچھے ہوا میں اڑ رہا تھا۔ ” لا لیکن کیوں آئے ؟ کس طرح آئے تم لوگ یہاں آہی گئے ۔ وہ دیا تم نے کہا ہے ہاروت۔ میں نے جواب ہم نے تمہاری دعوت کو لیک دعوت کو ٹھکر دینا ہمار! ہم آگئے۔ کسی کے پر خلوص ھا تھا کہ اگرآ سکتے ہو تو جاؤ چنانچہ راستے سے نہیں بائمہ غار تو اس کا جواب ہی ہے کہ ہم کسی شیوہ میں نہیں رہا دو سر اسوال پال رکھا تھا۔ بہت بڑا اور گھناؤنا سانپ کے راستے سے آگئے ہیں جہاں تم نے ایک سانپ جانتے ہوں کہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا جو ادہ لیکن تمہارا یہ سانپ ان لوگوں کو تھا۔ جاتا ہے۔ غریب بنیا اس فن سے بے بہرہ سے سانپوں کے ساتھ کس طرح نیٹا تو میں اس کا چیفہ بناؤں گا۔” اروت ! تم اس سانپ کی کھال مجھے دے دو اس کی آنکھوں میں باروت نے تعریفی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ وہ بولا۔ سیکو میزن بڑے ٹھنڈے پتے سے تم باتیں کر رہے ہو ترام تھا۔ میکومی تم ہمیں دیکھ نہ سکے ایسی کوئی بات نہیں ہے باروت میں نے کہا حالانکہ کچھ کن ہم تمہاری نئی نسل کے جشن میں شریک تھے۔ ہم نے سب کچھ دیکھا اور سب اے مہتو اور داسیو! اس نے چیچ کر کہا۔ “ غار والا مر گیا کوہ مقدس کا پاسباں مر گیا نے چاند کے دن غار والے کو غذا پہنچانے کی خدمت میرے پر دے ہم نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور دوسرے ہی لے وہ تزب کر ٹھنڈا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے اس کے وہ الفاظ بھی سنے جو اس نے کاندہ تمہا کو کا دھواں جب میں اسے غذاب پہنچانے گیا تو دکھ وہ مرا پڑا ہے۔ سن لیا تم لوگوںنے ؟ میں نے کہ ملا ہم نے الی کی دیوی کو بھی دیکھا جسے تم مصر میں سے چرالائے تھے لیکن چونکہ مسکرا کے کہا سانپوں کا جد امجد مر چکا تم پو چھو گے کس طرح تو یہ بھی بتانے دیتا ہوں کم اول درجے کے چھوٹے ہو اس لیے تم قسمیں کھاتے رہے کہ تم اسے اٹھا نہیں میری اس بڑ کا وہ لوگ یہ جواب دے سکتے تھے کہ اگر ایسا ہی تھا تو پھر سیون ے پھیپھڑوں یا شاید دماغ میں پہنچانے کے بعد کہے تھے۔” نے بھی سانپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی تھیں لیکن ہوا یہ کہ سانپ نہیں خود ابت گراوہ چند ثانیوں تک حیرت سے ہماری صورت تکتا رہا۔ اور اب تماشائیوں کی یون مارا گیا لیکن خوش قسمتی سے دلیل انہیں نہ سو چھی۔ اے صاحب وہ توبت نے ائمہ کمی ہوئی بھیڑوں کی طرح دم خود کھڑے ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ان کا آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ دفعتاً با روت نمودار ہو اوہ ہمارے سامنے کھڑا ہو اوہ کورنش جا لایا ہم بھی اپنی گرد نیں جھکا کر سلام کیا اور باروت نے اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہم سے کے شروع کی لوگ بدستور آنکھیں پھاڑے اور منہ کھولے کھڑے تھے۔ ان کے خیال محمد انگریزی زبان ساحروں کی خاص زبان تھی۔ اور اس دن ہاروت اپنی عمر میں شاید پہلی دفعہ بقول کسی کے چاروں خانے زرد ہو گیا اس رح اس کی آنکھیں بھی بھی ہوئیں اور منہ کھلا ہوا تھا۔ دفعہ اس کا رنگ میں سمجھا کہ وہ بے ہوش اپنیے نگا ہیں آسمان کی طرف اٹھا دیں اور یوں ڈولنے لگا کہ یہ سب تم نے کیسے دیکھا کیسے سنا ؟ کس طرح شرکت کی تم نے جشن میں” پوچھا۔ نے کمزور آواز میں نے بڑے سکون سے جواب اس سے تمہیں کیا واسطہ میرے دوست “ میں تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ الیز کی بیوی کو کب ہمارے حوالے کر رہے 213 212 یہ نہیں ہو سکتا یہ نا ممکن ہے اس نے اپنا مخصوص لہجہ اختیار کر کے جواب ادو یا۔ ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ ہم اسے بھی قتل کر دیں گے وہ طفل مقدس کی دیا ہے۔ انا ہے اس کی ماں ہے اس کی اور جب تک طفل مقدس ہے اسے بھی رہنا پڑے گا۔ اپنی آخری سائس تک رہنا پڑے گا۔” دیکھو بڑے میاں ۔ رسجنال نے کہا میری بیوی کو میرے حوالے کر دو ور نہ نہ وہ مرے گی اور نہ میں مروں گا باسکہ کوئی اور مارا جائے گا۔ ہاروت ! میں تمہاری طرح کمزور اور ناتواں نہیں ہوں۔ اگر تم نے میری بیوی کو میرے حوالے نہ کیا تو خدا کی قسم میں اس چھڑی سے یا اپنے خالی ہاتھوں سے تمہار خاتمہ کر دوں گا بڑے میں ! اگر تمہیں اپنی جان عزیز ہے تو بھاگنے اور اپنے آدمیوں کو پکارنے کی کوشش نہ کرنا ۔” آقا ! بوڑھے ہاروت نے بڑی شان و شوکت سے کہا۔ میں جانتا ہوں کہ تم میرا خاتمہ کر سکتے ہو اور اگر تم نے میرا خاتمہ کر دیا تو میں تمہارا احسان مند ہوں گا کیونکہ زندگی سے میری طبیعت اب سیر ہو چکی ہے لیکن یہ سن لو کہ میرا خاتمہ کر دینے کے بعد تم خود زندہ نہ ہو گے۔ ایک ہی منٹ میں تمہاری بوٹیاں اڑ دی جائیں گی اور تمہاری یدی اکیلی رہ جائے گی اور اسے کالے کا ندہ بنا کے لے جائیں گے اور پھر جانتے ہو گیا ہوا گا۔ یہ کہ وہ سمبا کے تصرف میں آئے گی کو پسند کرو گے اس بات کو۔” ھ کے کہا۔ دیا اور آگے معاملہ بجوتے دیکھ کے میں نے ریجنال کی پسلیوں میں ایک ٹھوکا چنانچہ مناسب ہو گا ہاروت کہ ہم خود ہی یہ معاملہ مل ملا کر طے کر لیں ہم نے وہ الفاظ سنے ہیں جو ندائے روح کی زبان سے ادا ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نے جو کچھ کہا ہے اس کا ایک ایک لفظ تم سچ سمجھ رہے ہو ندائے روح نے کہا ہے گا ہماری مدد سے تم کا لے کاندہ پر فتح حاصل کر لوگے اب اگر تم نے ہماری شرائط قبول ند کیں اور جو کچھ ہم نے طلب کی وہ ہمیں دینے کا وعدہ نہ کیا تو ہم تمہاری مدد نہ کریں گے ہم بارود جلا دیں گے اور گولیوں کو پگھلا دیں گے تا کہ ہماری بند و قیں بیکار ہو جائیں اور اد جانا سمبا سے گفتگو نہ کر سکیں اس کے بعد ہم کچھ اور بھی کریں گے کیا ؟ یہ تا ہماری ہر کہ ہم کیا کر سکتے ہیں لیکن اگر تم نے ضروری نہیں سمجھتے۔ تم خود دیکھ لوگے گے ہم منظور کر لی ہمارا ہر مطالبہ تسلیم کر لیا تو بے شک ہم تمہاری مدد کریں تمہارے ساتھ مل کر جانا اور سمبا کے خلاف جنگ کریں گے۔” با روت نے اپنا سر بلا دیا اور اپنی بی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیر کر یو لا۔ شی يلو دون وعدہ کہ جب ہم جانا کا خاتمہ کر دیں گے اور کالے کا ندہ کو شکست دے دیں کے تو تم ان سفید فام خاتون کو ہمارے حوالے کر دو گے۔ یعنی اس طرح کہ اس عرصہ میں اسے تمہاری طرف سے کوئی نقصان نہ پہنچے یہ تو ہوئی ایک بات ۔۔۔ دوسری بات کہ تم ہمیں صبح سلامت یہاں سے نکال کر مہذب دنیا تک یا اس راستے تک پہنچا و جس سے ہم واقف ہیں۔ تیسری بات یہ کہ اس اثناء میں تم انجیر کو اپنی بیوی سے لاقات کرنے دو گے۔” یہ آخری شرط ہمیں منظور نہیں ہے باروت نے کہا یہ نا ممکن ہے۔ اس کے علاوہ اس سے ملنا فضول ہے کیونکہ وہ الجیز کو نہ پہچانے گی کیونکہ اس کا دماغ صحرا کی ریت کی طرح خالی ہے رہیں۔ دوسری شرائط توان کے معلق تعلق ت تو یہ ہے کہ پہلے میں پنے ناہوں سے مشورہ کرلوں اس کے بعد ہی کوئی جواب دے سکوں گا تب تک تم کچھ کھائی کواور در استالو۔ ڈرو نہیں تم یہاں محفوظ ہو ۔” ہم کیوں ڈرنے لگے ڈرنا تو تمہیں چاہئے کہ ہاروت اس خاتون کو تم چرا ہو اور بنیا کو تم نے مروا دیا ہے۔ ہاروت اتنے جلد ندائے روح کے الفاظ بھول نہیں مجھے اس کے الفاظ یاد ہیں۔ اس نے کہا لیکن حیران ہوں کہ تمہیں رائے روح کے الفاظ کس طرح معلوم ہو گئے ؟ تھی اور اب ہاروت نے چند احکامات جاری کئے فوراہی چند محافظوں نے آگے بڑھ میں اپنے درمیان لے لیا اور ہمیں لے کر بھیڑ کو چیرتے ہوئے ہیکل کی طرف ے اور ہمیں دوسرے دالان میں، جواب خالی پڑا ہوا تھا پہنچا دیا۔ محافظ ہمیں اس 215 214 دالان میں چھوڑ کر اس کے دروازے پر جا جا کے کھڑے ہوئے وہ پہرہ دے رہے تھے۔ اروت نے ہماری حفاظت کا انتظام کر دیا تھا تھوڑی دیر بعد دا سیاں کھانا لے کر آگئیں میں نے اور بیٹس نے خوب ڈٹ کر کھایا لیکن رسجنال چند نقموں سے زیادہ نہ کھا سکا بیچارہ ر سجنال وہ اپنی بیوی کے بہت قریب ہوتے ہوئے بھی دور تھا۔ اس کے دل میں خوف اور محبت کے تاثرات گذمد ہو رہے تھے وہ خوش تھا کہ اتنی مدت کے بعد اس نے اپنی بیوی کو زندہ اور تندرست دیکھا تھا۔۔۔ اور خوف اس بات کا تھا۔ کہ کہیں ہاروت اس کی بیوی کے دینے سے انکانہ کر دے اور پھر وہ اپنی بیوی کی صورت دیکھنے تک کو ترس جائے۔ دل کی حالت جب ایسی ہو تو ظاہر ہے کہ بھوک مر جاتی ہے اور کھانا زہر معلوم ہوتا ہے۔ انچ منٹ بعد معبد کا دروازہ کھلا تین منت باہر آئے۔ ایک مہنت ہے۔۔ یہ باروت نہ تھا۔۔ آگے بڑھ کر دوسرے مہتوں سے کچھ کہنا شروع کیا وہ لوگ کان نگا کر اس کی تقریر سنتے رہے اور جب وہ مہنت خاموش ہو گیا تو دوسرے مہلتوں نے اپنے دائیں ہاتھ اٹھا دیئے۔ گویا جو کچھ فیصلہوا تھا وہ انہیں منظور تھا۔ ایک مہنت آگے بڑھا وہ ہمارے سامنے آگھڑا ہوا ، وہ ہمارے سامنے جھک گیا مقدس کا فیصلہ ہے۔ یہ الفاظ ہمارے نہیں بلکہ طفل مقدس کے الفاظ ہیں جو ندائے درج کے ذہن مقدس سے ادا ہوئے ہیں۔ تمہاری شرائط طفل مقدس کو سنا کے ہم نے فیصلہ طلب کیا اور اسی نے فیصلہ صادر کر دیا اور یہ ہیں تمہاری شرائط اول ۔ اس خاتون پیدا ہوئی کو تمہارے حوالے کر دیا جائے جو ندائے روح بننے کے لیے دور دراز ملک میں جیسا کہ اس کے سینے پر کے ہلال سے ظاہر ہے لیکن چونکہ ہم دو دفعہ اسے اپنے ساتھ نے میں ناکام رہے اس لے وہ انجیز کی بیوی بن گئی۔ دوم جب تم جان کا خاتمہ کر چکو گانے کا ندہ کو شکست دے چکو تو ہم تمہیں اور اس خاتون کو صحیح سلامت اس علاقے پہنچا دیں گے جہاں کے راستے تمہارے جانے پہچانے ہیں اور جہاں سے تم اپنے پنے گھر جا سکو کی ہیں نا تمہارے مطالبات تو سنوی۔ تہمیں یہ دونوں باتیں منظور ہیں ارے یہاں صدیوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جانا کی موت کے بعد سفید کاندہ کو لے کا ندہ کا خوف نہ رہے گا کیوں کہ وہ لوگ اپنے گھر چھوڑ کے کہیں چلے جائیں گے جب کالے کا ندہ نہ رہیں گے تو پھر ہمیں یہ بھی اعتراف ہے کہ ہم اس سفید فام ون کا اغوا کر لائے تھے حالانکہ یہ کسی اور کی بیوی تھی لیکن اے سفید فام آقاؤ! ہم تھے لیکن اب اگر ہم وعدہ کر رہے ہیں تو تمہیں بھی یہ قسم کھانی ہو گی کہ ہماری آگے بڑھے اور قربان گاہ کے قریب پہنچ کے ایک قطار میں کھڑے ہو گئے اس طرح ساتھ ہی ہو گے جب تک کہ جنگ کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ تمہیں قسم کھانی ہو گی کہ اگر ور ہم سے درخواست کی کہ ہم قربان گاہ کے قریب آکر کھڑے ہو جائیں بنانچہ ہم بری کو تم اپنی بہی اور ہمارے مفاد کو تم اپنا ما مجھو گے اور اس وقت تک ہمارے جس میرے رسجنال کے درمیان تھا۔ ایک بار پھر معبد کا دروازہ کھولا گیا اب باروت آگے بڑھا اور دروازے کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا اور وہاں کھڑے ہو کر اس نے ہمیں انگریزی میں نہیں بلکہ اپنی مادری زبان میں مخاطب کیا ہر فقرے کے بعد وہ چند ثانیوں کے لیے خاموش ہو جاتا کہ میں اس کا ترجمہ رہجنال کو سنا دوں چنانچہ اب قارئین کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہاروت جو کچھ کہہ رہا تھا اس کا ترجمہ ریجنال کو سنا تا جاتا تھا۔ اور پھر ” ہاروت نے کہنا شروع کیا ۔ میرے سفید فام آقا آقا میکو میزن اسٹیز اور زرد آنکھوں والے چھوٹے آدمی جس کا نام اندھرے کی روشنی ہے، سنو! ہمارا فیصلہ سنو۔ یہ ہمارا نہیں ہا کہ طفل ورت ہوئی تو تم اپنی جان بھی دینے سے دریغ نہ کرو گے۔ اس کے علاوہ تمہیں یہ بھی ندہ کرنا ہو گا تم میں سے کوئی بھی اس خاتون سے جسے ہم ندائے روح کہتے ہیں، ملنے یا س سے نکال لے جانے کی کوشش نہ کرے گا جب تک کہ ہم تمہیں اپنے نرنے میں لے گے اور چونکہ یہ مقام مقدس ہے اور یہاں خون بہانا گناہ ہے۔ اس لیے ہم تمہیں وقت تک نرغے میں لیے رہیں گے جب تک بھوک اور پیاس تمہارا خاتمہ نہیں کر ی کہ اگر تم فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تو ہم تمہار تعاقب کریں گے اور مقام درس کی حدود کے باہر تم پر ٹوٹ پڑیں گے اور تمہارے ٹکڑے اڑا دیں گے اور جانا خود نیٹ لیں گے۔ انجام جو بھی ہو گا دیکھا جائے۔ اگر ہم نے قسم کھائی تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تم اپنے وعدہ پر قائم 217 216 رہو گے ؟ میں نے پوچھا۔ ہم طفل مل مقدس کی قسم کھا رہے ہیں کہ اپنا وعدہ وفا کریں گے اور میگو میزن ! یہ وہ قسم ہے جسے توڑنا ممکن نہیں۔” تو پھر کھاؤ قسم میں نے کہا حالانکہ حفل مقدس کی قسم پر مجھے کچھ زیادہ عتبار نہ تھا لیکن اس وقت اعتبار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ چنانچہ ان سب نے اپنا لیاں ہاتھ قربان گاہ پ رکھا اور طفل مقدس ندائے سفید کاندہ کی حمایت میں میں کالے کا ندہ کے خلاف اور چنانچہ پہلے میں نے قسم کھائی کہ نہیں ہو جاتا یا میں خود مارا گا جب تک کہ جنگ کا فیصلہ اس وقت تک جنگ کرتا رہوں مشہور ندائے روح کے نام سے کہ میں اس خاتون سے جو نہیں جاتا میں نے قسم کھائی گا یہاں تک نہ اس کے کاموں میں روڑے انکاؤں ہے نہ تو ملنے کی کوشش کروں گا اور حوالے نہیں کر دیتے۔ که وه خود یعنی سفید کا ندہ اسے ہمارے پر جبر کر کے میری قسم کے الفاظ انگریزی میرے بعد رسجنال نے اپنے دل دو دفعہ اس نے ایک دو غور و توجہ سے سنتا رہا اور ایک زبان میں دہرائے۔ ہاروت بڑے گریزی الفاظ کے لغوی معنی پوچھے۔ اس اعتراض کیا تو بیٹس نے جواب دیا کہ کو حاضر و ناظر جان کر۔ ہاروت نے اس پر سفید کاندہ کے نزدیک طفل اتنا ہی محترم ہے جتنا کہ کے نزدیک میکو میزن کا باپ روح اور مقام مقدس کو حاضر و ناظر جان کر تمام سفید کاندہ کی طرف سے قسم کھائی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اپنی قسم توڑ دیں تو اس دنیا اور دوسری دنیا میں ان پر طفل مقدس کے آخر میں ہمیں نے قسم کھائی لیکن خدا کو نہیں بالکہ اس ناچیز کے کا غضب نازل ہو اور ان کے منہ کالے ہو جائیں۔ لیکن انہوں نے کہا۔ اگر ہم یعنی سفید اور سب فام ۔ اپنے وعدہ پر قائم نہ رہے تو پھر وہ سفید کا ندہ اس قسم اور طفل مقدس کے غضب سے بری ہوں گے اور ان پر کوئی پاندی عائد نہ ہو گی اور جو کچھ ہو گا اس کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہو گی۔ اب ہم سے کہا گیا کہ ہم بھی آپس میں مشورہ کر کے ان کے سامنے عہد کریں جیسا کہ ہم نے کہا ہے ایسا ہی کریں گے چنانچہ وہ لوگ ذرا دور ہٹ گئے تنہا ہاروت انگریزی زبان سمجھ سکتا تھا چنانچہ وہ قربان گاہ کے دوسری طرف چلا گیا۔ ابتدا میں رسجنال کسی بھی قسم کا وعدہ کرنے کے لیے تیار نہ تھا لیکن جب میں نے اس کو کھایا کہ یہ نہ صرف ہماری ائمہ اس کی بیوی کی بھی زندگی اور موت کا سوال ہے اور یہ کہ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم جنگ کے خاتمے تک سفید کا ندہ کے ساتھ ہی رہنے کا وعدہ کریں تو پھر وہ بھی رضا مند ہو گیا۔ جب یہ معاملہ طے ہو گیا تو میں نے مہنوں کو بلا کے انہیں اپنے فیصلے سے آگاد کیا۔ اور ہاروت نے کہا۔ طفل مقدس کی قسم کھا کر کو کہ تم اپنے وعدہ پر قائم رہو گے” معاف کرنا ہاروت ہم خدا کی قسم قسم کھا کھا سکتے سکتے ہی ہیں ط طفل . مقدس کی نہیں چونکہ باروت مہذب دنیا کے سفر کر چکا تھا اس لیے وہ اپنے ساتھیوں کی طرح رجعت پسند اور تنگ نظر نہ تھا بلکہ خاصا وسیع النظر تھا اس لیے اس نے کہا کہ ہم خدا کی قسم کھا لیں رہا۔ مقدس چنانچہ ہاروت خاموش ہو 219 218 تھا، کس طرح یو تا کی حیثیت حاصل کر چکا اس سانپ کو جو گو یاد یں نہیں آتا کہ کوئی بھی سمجھ سے اس غار میں مقیم تھا۔ والا ہی نہ تھا۔ صدیوں ارے خیال میں تو وہ بھی مرنے وہ سانپ کہ اس نے اچھا ہوا کہ وہ مر گی بہت برا تھا وت کی نیند سلا سکتا ہے لیکن چلو پسند ہے۔ وہ بہت عمدہ ہے تم کے دیدار کرنا کھایا تھالیکن طفل مقدس ایسا نہیں کرتا ہے۔” کرنا طفل مقدیس کی بے حرمتی لیے باتیں رہو ۔ یہ مقام مقدس ہے اس من اپنے بیٹ اتار او اور خاموش گے ؟ لیکن ! میں نے کہا کے دیدار کرنا چاہتے ہیں واقعی ہم طفل مقدس تھا کہ ہم لوگ داخل ہو گئے جو اس قدر تنگ نانچہ ہم ہاروت کی معیت میں دیوار کے طاقی پر اور سامنے والی معبد کے انتہائی سرے سکن اس میں سے اس کے احترام لیکن رسنال نے بظاہر بڑے ہوا تھا میں نے اور کل مقدس کا بت رکھا طفل . فیصلے کی اطلاع دینے۔ چنانچہ ظاہر ہے کہ اس طرح یہ خبر تمام سفید کاندہ تک پہنچ تھا کہ و نہ صرف زرو کیا اس میں انگ ، داسیواور لوگوں کو ہمارے مایا کہ ہت ہی اس قدر قدیم انہوں کے ایک طرف چلے گئے غالبا دوسرے منٹوں یا گیا تھا۔ ہاتھی وان اس کے در حالت کا تھا کسی بہت بڑے ہاتھی دانت کی جز و اس کے ب بول عبد بیان ہو چکا تو سارے منت ، سوے بادت اور دوفٹ ہو گا یہ کے ہاتھی تھا جس کا قد زیادہ سے زیادہ یک ام عربا یہ شیرخوار نے کارت کہ نام سے ظاہر ہے دیو تاکمانہ کیا جیسا بڑی لیس سے سفید کائندہ کے اس جانے والی تھی۔ تواب کیا ارادہ ہے ؟ شاید اڑ کر طفل مقدس سے شہر میں پہنچ جاؤ گے بالکل کے یہاں آئے ہو۔” کی طرح پرواز کر اسی طرح کہ اڑ کر یہاں آگئے ہو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تم پرندے کے آئے اگر تم یوں سمجھتے ہو تو غلط سمجھتے ہو۔ میں نے کہا ہم نہ پرواز کر تھیوں کا شکار کرنا میر پیشہ میں کسی جگہ کہ چکا ہوں کہا میں بھی پیدا ہوئی تھیں۔ کرتے اور اسے، فروخت کا شکار کرتے ، ہاتھی دانت جمع ور میری ایک عمر ہاتھیوں ہوں اس لیے مجھے یہ دانت کو پرکھنے میں ماہر ہو چکا نے گزری ہے اوہ میں باتھی اسے مرے ہوئے دانت سے یہ بت تراشہ گیا ہے ھے دیر نہ کی کہ جس ہاتھی کے ت کیسے بہت اب تک گے کہ اگر ایسا ہی تھا تو پھر یہ اروں سال گزر چکے ہیں آپ پو چھیں صرف بہت کا جواب یہ ہے کہ اس مت کی نہ یسے رہا۔ وہ تر کیوں نہ گیا، اس اور بی فر کا ناصر ہیں جہاں تم نے اک بوت کی جاتی ہے اس کو دھو ں اورنہ کی اور طر باکہ اس مار کے رات بیل کر آئے یہاں دی زیر دست سانپ پال رکھا تھا۔ سانپ ہمیں دیکھتے ہی مارے خوف کے مر گیا اور ہم بہت عمدہ مکمل ٹھنڈے معبد میں رکھا جاتا تھامت ا میں بلکہ اس اندھیرے اور سنا پہنچ کر تماشائیوں میں شامل ہو گئے اور سب کچھ دیکھا اور دینا ہوں گے۔ میںاس یہ بنا جس سے شائد آپ چونک پڑے یں فرعون لکھا ہے کہا۔ بہت عمدہ جھوٹ تیران ہوں کہ تم نے اس سانپ کا خاتمہ کس طرح کر دیا صورت پرست تاشا تھامیں نے کے کسی نے کو سامنے ٹھا کے اس کی سے میری طرف دکھ کے نے فرع وقت یت عمدہ جھوٹ باروت نے تعری نظروں میرا خیال ہے کہ بہت تراش فن کا مکمل ترین نمونہ تھا ناوریت تراش کی مہارت اور 221 220 ضروری سمجھتا ہوں کہ طفل مقدس کی اصلیت اب اظہر من قشمس تھی۔ بت کے سر کے پچھلے حصے سے بالوں کی ایک لٹ یا چوٹی لٹک رہی تھی۔ اور اس نے اپنا ایک ہاتھ ٹھا کے اس کی انگلی اپنے ہونٹوں پر لگار کھی تھی۔ اگر آپ کو مصریات سے دی جیسی ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ دونوں خصوصیات مصر قدیم کے دیوتا ہو رس میں نظر آتی ہیں۔ یر مطلب ہے قدیم مصری دیوتا ہو رس کے چین کات ایک چوٹی اور ہونٹوں پر رکھی ب تم مصر پہنچے تو ہم بھی پہنچ گئے۔ اور موقع کے منتظر رہے یہاں تک کہ ایک رات ہم نے اسے پیار اور اس نے لبیک کہا اور اسے لبیک کہنا ہی چاہیے تھا کیونکہ اس کے دماغ ہم نے پہلے ہی قضے میں کر رکھا تھا کس طرح یہ نہ پوچھو پھر ہم اسے یہاں لے آئے ا انجی تم نے چند عربوں کو جو اونٹوں پر سوار تھے نیل کے ساحل پر سے گزرتے ریہاں لے آئے اور راستے میں ہمارے ساتھ کوئی واقعہ نہ ہو اور امید ہے کہ ہم جب سے اور اس کے ساتھ تمہیں بھی واپس پہنچا نے جائیں گے تو اس وقت بھی کوئی حاد یہ نہ کی ان کے ساتھ ہی اے تھے۔ اس عید میلور کوئی خصوصیت نہ تھی است ھا اس تو ہم مروں کے ساتھ ہی تے یہ مہ داروں کو اپنے پر تھا کے طاقے کے ایک طرف آہنو سی کر سی رکھی ہوئی تھی۔ اور کرسی پر ایک سنہر سانپ ٹھایا گیا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ سفید کاندہ طفل مقدس کے ساتھ سانپ کی بھی پوجا کرتے تھے اور ہاں طفل مقدس کے طافتے میں بردی کاغذ کے پلندے بھی رکھے ہوئے تھے میں نے ان لندوں کو دیکھنا چاہا تو ہاروت نے مجھے اس کی اجازت نہ دی۔ اس لیے کہ بروی کاغذ کے یہ بلندے بھی مقدس تھے۔ اب باروت ہمیں باہر لے آیا لیکن اس راستے سے نہیں جس راستے سفید کانڈہ کی ندائے روح اور ریجنال کی بیوی گئی تھی یہ راستہ ایک ہجرے کی طرف جاتا تھا اور اسی تجرے میں خاتون رسجنال کو رکھا گیا تھا بلکہ وہ اس راستے سے ہمیں باہر لایا جس را سے سے ہم بیکل میں داخل ہوتے تھے۔ رام چنانچہ جب ہم واپس اس راستے پر پہنچے تو وہاں باروت رک گیا اور اس نے اے سفید فام آقاؤ ! اب ہم تم ایک ہو گئے ہیں ہمارے اور تمہارے مقاصد اب ایک ہیں ہماری قسمت اب تمہاری قسمت ہے۔” تمہار مفاد ہمارا مفاد ہے اور ہمارے راز اب تمہارے راز ہیں۔ آقا امیر انم ایک خاص غرض اور مقصد کے تحت ہماری مدد کرنے کے لئے تیار ہوئے یایوں کو کہ ہم سے تم نے بطور اجرت کے اس سفید فام خاتون کو طلب کیا ہے جسے ہم نیل کے ساحل پر سے اٹھالائے تھے۔” لیکن یہ کام تم نے کیا کس طرح ؟ ریجنال نے پوچھا۔” آقا حالانکہ تم نہ جانتے تھے لیکن ہم تمہاری نگرانی کرتے رہے تھے اس کے باروت نے کہنا شروع کیا اے میرے آقاؤ ! یہ دونوں راستے جن میں سے ایک مشرق اور دوسرا مغرب کی طرف جاتا ہے ، ہوکوہ مقدس اور ہیکل تک آنے کے پڑھے راستے ہیں وہ راستہ جو سانپ کے غار میں سے گزرتا ہے، سیدھا اور صحیح راستہ ہیں ہے۔ وہ راستہ جو مغرب کی طرف جاتا ہے، چکر کانتا ہوا پہاڑ کے دامن میں اور ں سے صحرا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس راستے کو آسانی سے بند کیا جا سکتا ہے اس لیے اس طرف سے دشمن کے حملے کا کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ وہ راستہ ، جو مشرق کی طرف جاتا ہے ذر مختلف ہے۔ اب اگر تم میرے ساتھ چل کے اس راسنے کا معائنہ کرنا پسند کرو تو ریوں کا انتظام کر دیا جائے۔” پھر ہاروت نے احکامات جاری کئے۔ فوراً ہی دو مہنت نہایت تیزی سے ھاگتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ چند منٹوں بعد وہ پھر نمودار ہوئے تو ان کے پیچھے اونٹوں ایک چھوٹی سی قطار چلی آرہی تھی۔ ہم اونٹوں پر سوار ہو کر مشرقی راستے پر چل پڑے راستہ ایک چھوٹے سے میدان کو عبور کر گیا اور ہم نے دیکھا کہ سامنے ایک اور چوٹی تھی جو زیادہ نہیں صرف صنف میل کے فاصلے پر تھی یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ یہ عمودی چوٹی دراصل دهن آتش کتاں کا لب تھا۔ یہ چوٹی بہر حال ٹوٹی ہوئی تھی ہاکہ یوں کہئے کہ اس میں دو تین سو گز چوڑا ایک دوو تھا دنیا کے کسی دور میں تیزی سے بھتے ہوئے لاوے نے چٹان کاٹ کے یا ئے حصے کو اپنے ساتھ گھیٹ کے یہ درہ بنا دیا تھا۔ اس درے یا شگاف کے عین پیچ میں 223 222 برج خاصے سے راستہ گزرتا تھا۔ راستے کے دونوں طرف برج بنے ہوئے تھے۔ یہ دیا کہ یہ برج کوئی ایک صدی پہلے بنائے گئے تھے جبکہ سفید اور کالے کا ندہ میں پھلی قدیم معلوم ہوئے چنانچہ میں نے باروت سے ان کی تاریخ تعمیر پو چھی تو اس نے جواب جنگ ہوئی تھی اور سفید کا ندہ نے کالے کاندہ کو شکست دیدی تھی کیونکہ اس وقت سفید کاندہ پر قوت تھے۔” ک یا مبا اس راستے سے واقف ہے۔ ” میں نے کہا۔ ہاں آقا۔ صرف سمباہی نہیں باکہ جانا بھی واقف ہے کیونکہ پچھلی جنگ میں وہ شریک تھا۔ اس کے علاوہ اب بھی وہ وقتاً فوقتا اس طرف آجاتا ہے اور ہمارے آدمیوں کو مار ڈالتا ہے البتہ ہیکل تک آنے کی جانا نے اب تک جرات نہیں کی ۔ اب میں سوچنے لگا کہ گزشتہ رات ہم نے جو سایہ دیکھا تھا وہ کہیں جانا ہی تو نہ تھا ؟ لیکن چونکہ گزشتہ رات ختم ہو چکی تھی اس کے علاوہ میں باردت پر یہ بھی ظاہر کرنا نہ چاہتا تھا کہ ہم کس راستے سے آئے تھے اس لیے اس کے متعلق میں نے اس سے کچھ نہ پوچھا اس کے بر خلاف میں نے اس کو مشورہ دیا کہ اگر وہ بیکل کو کالے کا ندہ سے چان چاہتا ہے تو بچاؤ کے ضروری انتظامات کے ذریعہ کوہ مقدس کو ایک ناقابل تسخیر قلعہ میں تبدیل کر دینا نہایت ضروری ہے بلکہ اسی جگہ کالے کا ندہ کا مقابلہ کرنا ضروری ہو گا۔ اس کے بعد ہم نے راستے اور درے کا ناپ لیا ، رسجمال فن تعمیر سے تھوڑا بہت واقف تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی ڈائری میں اس مقام کا نقشہ بنایا جہاں ہم حفاظتی قدیر کے تحت دیوار و غیرہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کاموں سے فرصت پا کر ہم آگے بڑھے اور کسی حادثے سے دوچار ہوئے بغیر نیچے بستی میں پہونچ گئے جہاں ہمارا ساز و سامان رکھا ہوا تھا اور چند دوسرے انتظامات بھی کرنے تھے۔ یہاں میں یہ بتا دوں کہ ہمارا یہ سفر خاصہ طویل رہا۔ ہم پہاڑ کے مشرقی پہلو سے نیچے اترے تھے۔ اور اس کا یہ پہلو بھی جنگل سے پر تھا۔ نیچے اترنے کے بھی ہمیں بستی میں پہنچنے کے لیے پورا چکر کاشا پڑا نتیجہ یہ ہوا کہ دوپہر کے وقت ہی بستی میں پہنچ پائے۔ جب ہم اپنی رہائش گاہ پر پہنچے ہیں تو بے حد مسرور تھے خصوصاً اس لیے رائے ہی تھکا مارا تھا اور آرام و سکون کی سخت و شوار گزار اور پھر حالیہ سفر نے ہمیں بالکل میں نے پاتے ہی ہم اپنے بستر پر لیٹ گئے اور ضرورت تھی۔ چنانچہ کھانے سے فراعت زندہ بعد ہی سچکا تھا حالانکہ اپنی بیوی کو کھ کر خدا کا شکر ادا کیا کہ رینال چند منوں حالت کچھ عجیب سی ہو رہی تھی۔ کھنے کے بعد اس کے دل و دماغ کی فرستادہ نے اگر ہمیں بیدار شام کے پانچ جئے رہے تھے۔ کہ ہاروت کے ایک میں طلب کیا تھا۔ کیوں کہ ایک دیا اس نے بتایا کہ ہاروت نے ہمیں ملاقات کے مکان ہم مسئلہ در پیش تھا۔ یہ مکان قریب ہی ایک میدان میں کھڑا تھا اور سفید کاندہ اسی جروں سے لین دین کیا کرتے تھے۔ اہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ہاروت اور ہمیس کے قریب امرا گھاس پھوس کے دور بستی کے خاموش ائبان تلے بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے عقب میں اور چند قدم جیسا مرد چکا ہوں۔ مرد کھڑے ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے کیونکہ مل کی کٹائی کے سلسلے میں باہر گئے ہوئے تھے۔ لئے وہاں ہمیں ان کر سیوں یا تائیوں کی طرف لے جایا گیا جو خاص ہمارے پیچھے کھڑا اب رکھ دی گئی تھیں میں اور ریجنال تائیوں پر بیٹھ گئے اور ہمیٹس ہمارے اب طلب کیا درات اٹھا اور اس نے ہمیں مطلع کیا کہ سمبا کے سفیر آئے ہیں جنہیں ئے گا۔ اور چند منٹ بعد ہی وہ آگئے وہ پانچ تھے پانچوں دیو قامت اور دیو بیکل تھے۔ اور سے جنکو معلوم ہوتے تھے۔ ان کا رنگ حیرت انگیز حد تک سیاہ تھا۔ پانچوں نہتے تھے۔ کیونکہ ہتھیاروں کے ساتھ وہ بستی میں داخل نہ ہو سکتے تھے اس کی ممانعت تھی البتہ کے سینے پر چاندی کی زنجیریں پڑی ہوئی تھیں جو ان کے معزز ہونے کا پتہ دے رہی یں۔ ان پانچ سفیروں میں سے ایک کو میں نے پہچان لیا یہ وہی سفیر تھا جو پہلے بھی، ہیں اس وقت جب ہم کا ندہ لینڈ میں داخل ہو رہے تھے سمبا کا سفیر بن کر آیا تھا قارئین کو ہوگا کہ اس وقت سفید اور کالے کا ندہ میں جھڑپ ہو گئی تھی جس کا انجام اور باروت یہی ہ کی گرفتاری پر ہوا تھا یہ سفیروں کی قیادت بی کر رہا تھا اور خاص نمائندہ بھی ا۔ چنانچہ وہ آگے بڑھا اور اس نے ہاروت کو مخاطب کر کے یوں کہنا شروع کیا ۔۔ اے طفل مقدس کے مہنت تمہیں یاد ہو گا کہ کچھ عرصے پہلے میں سمبا کا 225 224 پیغام لے کر تمہارے پاس آیا تھا اور میں نے سمبا کے الفاظ دہراتے ہوئے تمہیں اور تمہارے بھائی ہاروت کو ایک خاص بات سے خبردار کیا تھا۔ لیکن تم نے میری نہ سنی نتیجہ یہ ہوا کہ جانا نے ہاروت کو اپنے آپ پر بھینٹ چڑھا دیا ایک بار پھر ، اے ہاروت ! میں تمہیں خبر دار کرنے آیا ہوں۔” اگر میر حافظہ غلطی نہیں کر رہا ہاروت نے بڑے ٹھنڈے پتے سے جواب ا۔ تو پچھلی دفعہ تم دو ادی سبا کا پیغام لے کر آئے تھے اور لفضل مقدس نے تم میں سے ایک کو منتخب کر لیا تھا۔ اگر جانا نے میرے بھائی کو اپنے آپ پر بھینٹ چڑھا دیا ہے تو خود تمہار ابھائی کہاں ہے ؟” ہم نے تمہیں خبر دار کیا تھا، سفیر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا اور تم نے ہمیں طفل مقدس کے تکنے عذاب سے ڈرایا تھا۔ ہاں ، ہاروت نے پھر قطع کلام کر کے کہا ہم نے تین عذابوں کی پیشین گوئی کی تھی۔ پہلا عذاب طوفان کا تھا۔ یہ عذاب الہ باری کی صورت میں نازل ہو چکا دوسر اعذاب محط کا تھا جواب تم پر نازل ہونے لگا ہے اور تیسر اعذاب جنگ کی تباہ کاریوں کا تھا جو بہت جلد نازل ہونے والا ہے۔ اے ہاروت سفیر نے کہا ہم جنگ کے متعلق تم سے گفتگو کرنے آئے ہیں۔ ؟ تو یہ تمہاری حماقت ہے باروت نے اسی طرح ٹھنڈے پتے سے کہا۔ کیونکہ تم دیکھ ہی چکے ہو کہ پھیلی دفعہ بھی تمہیں کچھ زیادہ کامیانی نہ ہوئی تھی۔ تمہارے بہت زیادہ آدمی مارے گئے اور ہمیں بہت کم ہالسعہ نہ ہونے کے برابر نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ یہ سفید فام آقا ، جسے تم گرفتار کر کے لے گئے تھے ، نہ صرف تم سے بلکہ جانا کی گرفت سے بھی اپنے آپ کو چی لایا اور تمہیں تو معلوم ہی ہو گا کہ اب جانا کی صرف ایک آنکھ رہ گئی ہے سمبا کے سفیر ! جانا اگر واقعی دیوتا ہے تو یہ کیا بات ہوئی کہ وہ ایک نہتے سفید فام کوئی نقصان نہ پہنچا ، نقصان پناہ تو خیر دور کی با ہے۔ وہ لاپنی آنکھ گنو بیٹھا؟ اس کا جواب خود جانا دے گا اور ہاروت، جانا تمہارے سوال کا جواب دینے کے لیے بہت جلد یہاں آیا چاہتا ہے۔ بہر حال یہ ہیں جانا کے الفاظ جو بادشاہ سما کی زبان سے ادا ہوئے اور اب میں انھی الفاظ کو تمہارے سامنے دہرا رہا ہوں تو سنویہ ہیں دیوتا چنانچہ طفل مقدس فصلیں تباہ کر دیں طفل مقدس نے میری انا کے الفاظ سفید کا ندہ دو تک پہنچا دیں گے اس کے علاوہ تھائی حصہ دریائے ٹاوا کے شمالی کنارے تو وہ پوری فصل کا تین اور جب فصل کٹ جائے گی ین کٹائی وہ خود کریں گے۔ حوالے کر تین چوتھائی حصہ میرے وہ اپنے غلے میں سے پوچنے والوں کو چاہیے کہ مجھ پر بھینٹ چڑھا دیا جائے حوالے کر دیں گے کہ انہیں فید فام آقاؤں کو بھی ہمارے ہے۔ معہ ایک سو حسین کو بھی جو ندائے روح کہلاتی کے علاوہ سفید کا ندہ اس خاتون اپنے حرم میں جائیں گے تاکہ بادشاہ سمبا لکھیں واریوں کے دریا کے اس پار چھوڑ جائے گا کہ وہ کو بھی دریائے ٹاوا کے کنارے لایا خل کرے اس کے علاوہ طول مقدس سجدہ کرے تو یہ اور اس کے سامنے اپنا تھا ٹیک کر نا اور سما کی اطاعت کا عہد کرے سے ادا ہوئے۔” کے مطالبات جو سمبا کی زبان یں جانا کے الفاظ اور یہ ہیں اس سے ادا ہوئے تھے مشکر یہ الفاظ جو سفیر کی زبان اور میں نے دیکھا کہ سمبا کے جمع تھے کانپ گئے۔ رت اور وہ لوگ بھی جو وہاں کر دیں تو ؟ باروت نے بڑے اور اگر ہم یہ شرائط تسلیم کرنے سے انکار سے پوچھا کر کہا ہو گا جانا تمہارے خلاف اعلان جنگ وہ تو پھر اے ہاروت سفیر نے چیچ جب اس جنگ کا خاتمہ اس وقت تک نہ وہ کا تے ہیں آخری اور فیصلہ کن جنگ کا اعلان دیو تا کہ ذرع نہیں کر دیا جاتا جب تک تمہارے سفید کاندہ کے ایک ایک فرد کو ہماری لونڈیاں نہیں دی جاتی جیتک تمہاری عورتیں ر اس کی راکھ ہوا میں اڑا نہیں جانا کی کھیتوں میں نہیں پہنچ جاتا ہاروت ! اتیں اور جب تک تمہارا غلہ ہمارے پڑیں گی کل یا ہی وہ تمہیں تباہ کرنے کے لئے چل ں جمع ہو چکی ہیں اور جانا کا بل جتے پورا ہو تم پر ہوں گی اور ان سے پہلے کر چاند ی جانا کی فوجیں تمہارے دروازے لیں گے۔” لوگ اس ہلال کو پورا چاند نیت نہ مردے ہو چکے ہو گے ہاروت ! تم اور تمہارے نکل آیا وہ سفیروں کی طرف پشت اہاروت اٹھا وہ سائبان کے سائے میں سے کا نظر آتا ے کھڑا ہو گیا اور دور کے اس سلسلہ کوہ کی طرف دیکھنے لگا جو افق سےچ 227 226 تھا۔ شوق جس سے بے تاب ہو کر میری نظر نے ہاروت کی نظر کا تعاقب کیا اور میں نے دیکھا کہ سلسلہ کوہ اب نظر نہ آرہا تھا اس کے بجائے کالے کالے بادل تھے جو رفتہ رفتہ اور بھی کالے ہوتے جارہے تھے چند ثانیوں تک ان امنڈتے ہوئے بادلوں کی طرف دیکھتا رہا اور پھر سفیروں کی طرف گھوم کر بولا :۔ دوستو! میری مانو اور اسی وقت اپنے رہواروں پر سوار ہو کر تیزی سے روانہ ہو جاؤ، سلسلہ کوہ پر ایسی بارش ہو رہی ہے کہ میں نے زندگی میں ایسی بارش نہیں دیکھیے تھی اگر طعنانی آنے سے پہلے تم دریا عبور کر گئے تو میں تمہیں خوش قسمت سمجھوں گا اور یہ بھی سن لو کہ اب دریائے ٹا میں جیسی طغیانی آنے والی ہے ایسی نہ تو پہلے بھی آئی تھی اور نہ آئندہ کبھی آئے گی۔” نانچہ سفیر پلٹ کر تیزی سے چل وئے اور مجھے ہاروت کی قوتوں کی جنھیں تاریخی قوتیں کہنا مناسب ہو گا دل ہی دل میں اعتراف کرنا پڑا، وافتی عجیب و غریب قوتوں کا مالک تھ یہ پڑھا جس سے اس کے دشمن تک خائف تھے۔ ہاں یہ بتا دینا خالی از دلچسپی نہ ہو گا کہ ہاروت کو موسم کے متعلق پیشن گوئی کرنے میں یہ طوبی حاصل تھا وہ بادونوں کی رنگت دیکھ کر اور فضا کا دباؤ محسوس کر گئے بارش کی پیش گوئی کر دیتا جو صحیح بیح ثابت ہوتی تھی۔ چنانچہ اس نے تو یہ کہا کہ سلسلہ کردی شدید بارش ہورہی ہے تو یہ اس نے غلط نہ کہا تا یہ افاق تھا کہ بادل دس برس کے کھلی گئے اور طفل مقدس کے شہر کی طرف نہ بڑھے۔ بہر حال جیسا کہ ہاروت نے کہا تھا۔ اس سے پہلے کہ سفیر دریائے ناوانک ہنچے اس میں طغیانی آچکی تھی۔ اس لئے ایک سفیر غرق ہو گیا۔ دوسرے جیسے کیسے پارا گئے پورے چودہ دن تک دریا چڑھا رہا اور سم کی فوجیں اسے عبور نہ کر سکیں۔ کرد!نشا نمازور ایک مزید ارو ان کا بھی انتظام ٹی اور ہو شیاری پرنے چنار بوڑھوں کو جن کی پھر یرے کے ساتھ نشانے بازوں کو پیچھے ایک قطار نشانے باز” کا معائنہ کیا میں نے انہیں میں نے آخری بار اپنے نشانے بازوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ بندوق پکڑنا کہا ہے اور آئندہ بھی اس نام سے یاد کروں گا چاہنے لیکن اس کی نشانے باز نہ تھے جیسا کہ انہیں ہونا اور چلانا تو سیکھ گئے تھے لیکن ایسے لیتے تھے۔ یہ بھی غنیمت تھا کہ وہ لوگ چلا ان سے توقع بھی نہ کی جا سکتی تھی تاہم چکا تھا ان کے پیچھے وہ زائد یر تو میر ہر نشانے باز دیوار کے پیچھے مستو بیٹھ تو وہ اسکی جگہ لے لیں انے باز پیتے ہوئ تھے کہ اگر کوئی نشان بانا للہ ہو جائے اور تھیلیوں میں گولیوں کے ہیں میرے ان نشانے بازوں کے پاس چرمی تھیلیاں تھیں تھے لیکن میں نے اس خوف سے ہر ایک کو راؤنڈ تھے انہیں زیادہ بھی راؤنڈ دیئے جا سکتے عالم میں وہ تمام کار تور ، ضائع نہ صرف نیس راؤنڈ دئے تھے کہ مبادا خوف یا جوش کے زیاده اعتیارنہ کیا جاسکتا تھا لیکن ان روسہ کیا جا سکتا تھا بارود کے بنی 229 228 تھا۔ ان بوڑھوں کو میں کھڑا کر دیا تھا اور ہمارا پور ذخیرہ فی ہندوق ساٹھ راؤنڈ پر مشتمل سمل تاکید کر دی گئی تھی کہ جب وہ کسی نشانے باز کے کار توس ختم ہوتے دیکھیں تو اپنے ھیلے میں سے مٹھی پھر کار توس نکال کے اس کی طرف بڑھا دیں انہیں سخت تاکید کر دی گئی تھی کہ وہ بے ضرورت کسی بھی نشانے باز کو کار توس نہ دیں۔ جنگ کے جوش اور افر تفری کے پیش نظر بوڑھوں سے اور نشانے بازوں سے بھی اس اختیار کی توقع نہ کی جا سکتی تھی کہ وہ میری اس تاکیدی ہدایت پر عمل کریں گے لیکن اس کے علاوہ کوئی اور ترکیب تھی ہی نہیں۔ اس وقت ایک ایک کار توس سونے کی اینٹ سے زیادہ قیمتی تھا۔ ہمارے دلو دماغ کی کچھ ایسی حالت تھی کہ فی الحال نید کے کوئی آثار نظر نہ آرہے تھے چنانچہ میں اور رسجنال آئندہ کی جنگ اور دفاع کے انتظامات کے متعلق باتیں کرنے لگے باتوں باتوں میں میں نے اس سے پوچھا کہ جب میں بستی میں تھا اور وہ خود کوہ مقدس پر دفاعی تدیریں کر رہا تھا تو اسے اپنی بیوی کو دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس نے اس کے متعلق کچھ سنا تھا۔ نہ دیکھا اور نہ کچھ سنا رجال نے جواب دیا۔ یہ منت بڑے گھتے ہیں کبھی انہوں نے میری بیوی کے متعلق کچھ کہا ہی نہیں اور اگر کہا تو میں کچھ سمجھ نہ سکا۔ کیونکہ تھا با روت انگریزی بول سکتا تھا اور تہاہاروت کی باتیں میں سمجھ سکتا ہوں اس کے علاوہ میں اپنے وعدے پر نہ صرف قائم ہوں بلکہ اس پر سختی سے عمل بھی کر رہا ہوں نانچہ جب میں مغربی راستے کو بند کر رہا تھا تو اس طرف سے پہاڑی کی چوٹی کا چکر کاٹ کے دوسری طرف گیا تھا کہ اس جگہ سے دور ہی دور رہوں جہاں ان لوگوں نے میری ہیدی کو رکھا ہے کو اٹر مین ! میرے دوست ! تم میرے دل کی حالت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ میری بیوی اسی جگہ ہے، مجھ سے صرف چند گڑ کے فاصلے پر مقیم ہے لیکن ہیں اس سے نہیں مل سکتا اور پھر یہ خیال اور بھی سوہان روح بنا ہوا ہے کہ بقول باروت وہ اپنے ہوش میں نہیں ہے”۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر جنال یہ خیال تسلی شش ہونا چاہیے کیونکہ جو اپنے ہوش ہیں نہیں ہوتا تو وہ کسی قسم کی تکلیف اور بے چینی بھی محسوس نہیں کرتا جیسا کہ تم محسوس کر رہے ہو لیکن اگر واقعی ہاروت نے سچ کہا ہے اگر واقعی تمہاری بیوی ہوش میں نہیں ہے یا بقول ہاروت اس کا دماغ خالی ہے تو پھر اس واقعہ کے متعلق کھو گے کہ ایک رات تم نے اور سیویج نے اسے دیکھا تھا ؟ جو کچھ تم نے دیکھا تھاوہ یقین تمہارے وہم یا تصور کی بیچ نہ تھی کیونکہ تم نے اس کے لباس کی جو تفصیل بیان کی تھی اس نے وہی لباس پہن رکھا تھا جیسا کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔” کواٹر مین خود میری عقل حیران ہے کہ اس واقعہ سے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا اس دنیا میں بہت سی ایسی باتیں ہوتی ہیں جو انسان کے فہم سے بالاتر ہوتی ہیں اور چونکہ ہم انہیں سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں اس لیے ہم ان کا مذاق اڑاتے ہیں رسجنال کی اس وکیل کا ایک اور ثبوت بہت جلد مل جانے الا تھا لیکن تم کہنا کیا چاہے جو کوائر مین ؟ کوئی بات چھپا رہے ہو تم ” ر جنال تمہاری بیوی اگر واقعی ہوش میں ہوتی، دوسرے لفظوں میں اگر اس کی سمجھ بوجھ کی قوتیں بالکل ہی ختم ہو چکی ہوتیں تو ظاہر ہے کہ وہ تم کو تلاش کر کے ہی نہیں بلکہ سیویج نے بھی دیکھا تھا لیکن پھر یہ بھی ہے کہ وہ خود تمہارے پاس نہ آئی نہ تو تمہارے پاس آئی اور نہ تم سے کچھ کہتی بے شک وہ خواب نہ تھا کیونکہ اسے تم نے بھی اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ اس نے دروازہ نہ کھولا تھا دروازہ واقعی کھولا نہ کیا تھا کیونکہ لکڑی کا جالا اس پر جوں کا توں موجود تھا اب دو نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں ایک تو یہ کہ تمہاری بیوی کے دماغ کا ایک حصہ ماؤف نہیں ہے اور وہ کسی سمجھ میں نہ آنے والے طریقے سے اپنے پیکر یا تصویر و تمہارے سامنے منعکس کر سکتی ہے اور دوم یہ کہ وہ مرچکی ہے اور اس کی روح تمہارے پاس آئی تھی یہ دوسرا خیال غلط ہے کیونکہ ہم اسے نہ صرف زندہ دیکھ چکے ہیں بلکہ ہاروت بھی اس کا اعتراف کر چکا ہے اس لئے میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کا یہ خود فراموشی کا عالم عارضی ہے جسے دور کیا جا سکتا لیونا کو پوری طرح ہوش میں لایا جا سکتا ہے مثلاً ہو سکتا ہے کہ ہاروت نے عمل تقویم سے اس پر نوم توجہ کا عالم طاری کر دیا ہو اور ایک نہ ایک دن اس کا اثر زائل ہو کر رہے گا کیونکہ انسان عمر بھر م توجہ کی حالت میں نہیں رہ سکتا۔ و شکریہ میرے دوست خدا کی قسم یہ تو مجھے خیال ہی نہ آیا تھا تمہاری ان 230 باتوں سے میری امید پھر سے بندھ گئی ہے اچھا اب سنو۔ اگر وحشیوں کی اس جنگ میں میں کام آگیا اور تم بچ گئے تو وعدہ کرو کہ میری بیوی کو صحیح سلامت میرے گھر پہنچا دو گے یہ لو میرے وصیت نامے کا صفحہ جو میں نے اس را تیار کیا تھا جس رات کو میری بیوی مجھے نظر آئی تھی اس پر ہنس اور سیویج کے دستخط بطور گواہ کے موجود ہیں چنانچہ اس کی رو سے تم مجاز ہو گے کہ میری بیوی کے علاج پر جتنا بھی چاہو خرچ کرو اور خود اپنی ضرورت کے لئے جتنا و پیہ چاہو خرچ کر سکو گے میرے دوست کا غذکا یہ پر زہ بھی نہ کبھی کام ہی آئے گا ”۔ میں نے وصیت نامے کا ضمیمہ لے کر جیب میں رکھ لیا۔ سجنال میں تمہاری بیدی کو گھر تک پہنچادوں گا اور جہانتک ممکن ہو گا اس یمدد کروں گا میں نے کہا لیکن بھائی مناسب ہو گا کہ ہم جنگ میں مارے جانے کا خیال چھوڑ دیں کیونکہ اگر یہ خیال دماغ پر سوار رہا ہم ذرا بھی نیند نہ لے سکیں گے میں تو بھر حال ابھی مرنا نہیں چاہتا میں ان کالے کا ندہ کو ایسا سبق دنیا چاہتا ہوں کہ اسے وہ کبھی فراموش نہ کر سکیں اور پھر تمہارے اور خاتون رمجنال کے ساتھ ساحل تک جانے کا آرزومند ہوں چنانچہ میرے دوست بہتری کی امیر کھو خدا اچھا ہی کرے گا اچھا تو شب اور اس کے بعد میں نے کروٹ لے کر جو آنکھیں ہند کی ہیں تو چند گھنٹوں تک دنیاد مافیا سے بے خبر تھا میرا خیال ہے کہ رسجنال بھی فوراہی سو گیا تھا۔ بہر حال جب میں بیدار ہوا ہوں تو سب سے سے پہلے میری نظر بیٹس پر پڑی جو سائبان کے دروازے میںبیٹھا اپنا مخصوص پائپ پر رہا تھا اور اس کی پیاری را تفل انٹو مبی اس کے گھٹنوں پردھری ہوئی تھی میں نے اس وقت پوچھا تو اس نے جواب دیا۔ باس ! پچھلنے میں دو گھنٹے باتی ہے”۔ نے پوچھا۔ تو پھر تم یہاں جھک مار رہے ہو سوئے کیوں نہیں ؟” میں سو گیا تھا باس” پھر باس یہ کہ میں نے ایک خواب دیکھا 231 اب تمہارے خواب کہیں جانے کو تو ہیں نہیں جب دیکھو تب تمہیں خواب آتے ہیں اور وہ بھی عجیب و غریب ” یہ جواب بھی باس عجیب و غریب ہے” وہ تو ہو گا ہی کیونکہ آخر تمہارا خواب ہے اچھا تو کیا دیکھا تم نے ؟ میں نے ے پروائی سے پوچھا۔ یہ خواب تو بے حد عجیب اور انوکھا ہے اس لئے کہ میں بہت جلد جنگ میں ریک ہو رہا ہوں اور باس جو آدمی جنگ میں شریک ہونے جا رہا ہو تو اسے ایسے خواب ر نہیں آتے ” کچھ کہے گا بھی یا فضول بک بک کئے جائے گا میں نے چڑھ کے کہا۔ باس میں نے دیکھا میں ایک ایسی جگہ پہنچ گیا ہوں جو بہت خاموش ہے وہاں د غیرانہ تھایا کہ روشنی پھیلی ہوئی تھی لیکن یہ عجیب بات تھی کہ نہ سورج تھا اور نہ جاند جس کی وہ روشنی ہو ہوا بہت ہلکی معطر اور خوشگوار تھی اور اس نہایت ہی لڈیز کھانوں اور محمدہ شراب کی ہو تھی اس میں ایسی ہو تھی کہ اگر کسی نے اس وقت میرے سامنے اب کا جام رکھ دیا ہوتا تو میں اسے پینے سے انکار کر دیتا تو ایسی ہوا تھی اس جگہ جو مجھے لب میں نظر آئی تھی اور پھر باس میں نے تمہارے والد کو دیکھا وہ میرے قریب ہی ے ہوئے تھے مسکرا رہے تھے اور جو ان نظر آتے تھے اب میں سمجھ لیا کہ میں مرچ کا ہوں اور دوزخ میں پہنچ گیا ہوں لیکن میں حیران تھا کہ وہ آگ کہاں ہے جو ہمیشہ جلتی ہتی ہے پھر تمہارے والد نے کہا۔ سلام بنیں تو تم آگئے ؟ یہ بتاؤ کہ میرے بیٹے این کا کیا حال ہے، کیا تم نے بھی طرح اس کا خیال رکھا اور خبر گیری کی ہے جیسا کہ میں نے کہا اور تم نے وعدہ کیا تھا میں نے جواب دیا میرے مقدس آقا جہاں تک ممکن تھا میں نے امین کی خدمت کی اور ایک ہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ اس کی خاطر خود اپنی جان کی بازی لگادی یہ اور بات ہے کہ ہر دفعہ آخر میں ہم دونوں ہی زندہ بچ گئے ۔ 233 232 رہے تھے غور اور توجہ سے میری باتیں سن اور باس چونکہ تمہارے والد بڑے بڑھا چڑھا کے بیان کیا حالانکہ اس لئے میں نے ہر واقعہ کو خوب نمک مرچ لگا کر اور معلوم ہو جاتا تھا کہ میں نے تمہارے والد ان سب واقعات سے بے خبر نہ تھے اور انہیں مجھے نوکا اور نہ سرزنش ہی کہاں جھوٹ بولا ہے لیکن باس جھوٹ بولنے پر انہوں نے نہ تو کی بلکہ جب میں خاموش ہوا تو انہوں نے کہا۔ شاباش میرے وفادار خادم ۔۔۔۔۔ اس جب وہ زندہ تھے تو اس وقت میس ! میر اینا بھی انہوں نے اسی طرح کئی دفعہ میری تعریف کی تھی پھر کہا۔۔۔۔۔ این کس حال میں ہے ” اب اس کا جواب باس میں نے یوں دیا۔۔۔۔۔۔ مقدس آقا ! تمہارا بیٹا این ہے کہ وہ اس جنگ ایک زیر دست اور خونریز جنگ میں شریک ہونے والا ہے اور ہو سکتا تا اور میں مارا جائے مقدس آقا ! اگر اس دنیا میں رونا اور رج کرنا م مکن ہو ہوتا تو میں خوب رد میں نے خوب ریج کیا ہوتا کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی مر گیا لیکن مقدس آقا یہاں نہ تو کوئی آنسو بہا سکتا ہے اور نہ ریج ہی کر سکتا ہے۔ کاش کہ میں جنگ کے خاتے تک زندہ رہتاور تمہارے پینے این کے پہلوبہ پہلو شیوں سے جنگ کر سکتا اور اپنے آقا این کی جان چانے کی کوشش میں مارا جاتا۔ یس خاموش ہو گا پائپ منہ میں دہا کے دو چار طویل کش لئے کر دن گھا ۔ پوچھا۔ کے اپنے مخصوص انداز میں تھوک کی پچ کاری سی ماری اور باس میرے خواب کی تفصیل سنتے سنتے اکتا گئے ہیں یا بقیہ خواب بھی سنا ية بقیہ خواب بھی سناد و میں نے پنچی آواز میں کہا اس کا یہ خواب میرے دل بولیاں بول رہے تھے جو بے حد میٹھی ہے کہ پرندے ہی اٹھتے لیکن میرا خیال پھول ہو بے حد خوبصورت قدم رکھتی ہیں وہاں دیکھا کہ وہ جہاں کے تھے باس ! میں نے نہ دیکھا تھا البتہ میں نے اسے پہلے کبھی کا قد لا نہا تھاور ان میں سے ایک آواز میں پوچھا اور لرزتی ہوئی ہنیں میں نے پیچی کیسی تھیں وہ عورتیں اس وقت دیکھا تھا جیسا کہ ہم نے انہیں خاتون میری تھی وہی وسری کوئی اور نہیں بلکہ ، زیادہ حسین ہو گئی تھی وہ پہلے سے بھی کئی گنا ب وہ زندہ تھیں البتہ اب سلسہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا میرے منہ سے ایک آہ نکلل گئی کئی بہنیں میں نے اور میری طرف دیکھنے لگیں دونوں عورتیں میرے قریب اگھڑی ہوئیں نے دوسری عورت سے رہیں اور پھر خاتون میری بہت دیر تک میری طرف دیکھتی ہے ہے۔ میں نے دیکھو یہ ہے بینس جس کے متعلق ۔۔۔۔ اب وہ جس کا نام کو کب ہے یں سب کچھ بتا دیا ہے " معلوم ہوا۔ بیا اس کا ترجمہ کو کب کیسے کا یہ لگا کہ بینس کو عورت نکل گئی اور میں سوچنے میرے منہ سے پھر ایک آہ کیوں ہمیس ! اس نام کو کب تھا مجھ سے پوچھا۔۔۔ چنانچہ باس اس نے جس کا سمجھ گیا کہ کو کب ہیں؟ ۔۔۔۔ ہاس میں یکساں طور پر چاہتے ا حال ہے جیسے ہم تیوں وہ ساری میں نے ان دونوں کو متعلق پوچھا تھا چنانچہ سی اور کے نہیں بالکہ تمہارے نہ تھیں اور اس جب میں نے وہ تمہارا ک سنتے تھتی ہی فصیلات بیان کر دیں کیونکہ کے سامنے میں نے کچھ زیادہ سے کی تھیں بالمہ ان دونوں اتا ہیں جو تمہارے والد ہے دعا کرتے سنا تھا وہ جانتا لیکن وہ وہ بھی مر چکی کی بیوی کے لئے جسے میں نہیں مر چکی ہے، اور اپنی اپنی بیوی میری کے لئے جو بتایا کہ ایک رات میں نے ہاس کو سے تھے اور ان کے آنسو کے ہر قطرے ن رو پڑیں ان کے آنسو موتیوں کی طرح تھے وہاں دو پھول پیدا باس جہاں ان کے آنسو کرتے نوں کی خوشبو نکل رہی تھی اور دعا مانگ رہے ہوں” تھے جیسے دو ہے ہاتھ اٹھائے تے تھے۔ جو یوں معلوم ہوتے پر عجیب اثر کر رہا تھا۔ تو باس میں اس خاموش مقام میں اکیلا کھڑا اپنا بیٹ ہاتھ میں گھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کون جانے میرے سپرد کیا کام کیا جائے گا کہ ایک دم سے میں نے نہ جانے کیوں نظر اٹھا کرے سامنے دیکھا اور اس دو بے حد حسین عورتیں ہاتھ میں ہاتھ چہرہ ڈھانک لیا کہ ہمیں L اب میں برداشت نہ کر سکا میں نے ہاتھوں سے اپنا موتی پرد دیئے میری طرف آرہی تھیں ان دونوں عورتوں نے اپنے بالوں میں بھی 235 234 میری آنکھوں میں آنسونہ دیکھ لے۔ اب باس اس عورت نے جس کا نام کو کب تھا تمہارے بیٹے ہیری کے دیکھا تھا تو وہ کافی بڑا اور چھا اور میں نے جواب دیا کہ ہنیری کو جب میں نے متعة سمجھتا ہوں کہ ہیری باس این سے پر تو یہ تا اور ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا۔۔۔۔۔۔ میں بھی زیادہ عظیم ثابت ہو گا اس پر کو کب نے ٹھنڈا سانس لے کر تقی میں سر ہلایا اب خاتون میری نے کہا۔۔۔۔۔ ہمیں اپنے باس سے کہنا کہ میری بھی ایک اولاد ہے جسے وہ جلد ہی دیکھ لیں گے لیکن یہ لڑکا نہیں ہے ” اس کے بعد ان دونوں نے بھی محبت کے متعلق کچھ کہا جو مجھے یاد نہیں البتہ آخری الفاظ یاد رہ گئے ہیں جو یوں تھے۔۔۔۔۔ اپنے باس سے کہنا کہ ہم دونوں بہنیں زندگی میں کبھی نہ مل سکیں لیکن اب یہاں حقیقی بووں کی طرح رہ رہی ہیں اور اس وقت کا انتظار کر رہی ہیں جب تمہار باس املین ایک بار پھر ہم سے آملے گا۔۔۔۔ اس کے بعد وہ دونوں عورتیں بھی غائب ہو گئیں۔” اور باس میں ان کا پیغام تم تک پہنچانے کئے لئے چل پڑا اور اتنی تیزی سے عورت کو پہچان لیا تھا۔ تھا کیونکہ میں نے اس ر رہا۔ میر اول دھڑک رہا میٹس پر گاڑ دیں چہرے پر سے ہٹا کر اپنی نظریں اور یہاں میں نے اپنے ہاتھ سلام کرو” آدمی رک جاؤ اور مجھے شاہی باس اس عورت نے کہا زرد کون ہے کیا میں نہیں جانتا تھا کہ یہ عورت چنانچہ میں نے اسے شاہی سلام کے اس اس میں نظر آئی کہ گھڑی کی گھڑی رک اہتی ہے تاہم مجھے اپنی خیریت اور دونوں سفید فام عورتوں نے کہنا شروع کیا اس بوڑھے میں سن لوں اس عورت آقا میکو میزن سے رہا سامنے کیا ہے جو انہیں تمہارے نی اس محبت کا ذکر تمہارے ہے اور کیسے کی جاتی ہے میں سیکو ے زرد روکتے وہ نہیں جانتیں کہ محبت کیا ہوتی میکو میزن . فام عورتیں سات جنم لے کر بھی نا چاہتی ہوں کہ وہ دونوں سفید وہ ایک جنگ میزن سے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ محبت نہ کر سکیں گی خیر تو میکو گی جب تک کہ وقت کا دریا س کے ساتھ ہو گی اور اس وقت تک ساتھ رہے ہو تو ادھر ادھر نظر پر پہنچ چکا ہو اور جب موت اس کے سامنے کھڑی ا اسے کہنا کہ جب جانا کنارے پر سے گزر کے سورج کے اس پار نہیں پہنچ جاتا جاتا اگر پانی بھی میرا تعاقرا ہوتا تو میاتی نہ بھاگ ستا تو اس میں اس موش کی ٹی وہ مجھے دیکھ لے اب جاؤ جنگ کے وقتحت وفادار ادا کرو اگر منے میگو مقام سے نکل آیا اور اب میں ایسے پہاڑوں میں تھا جن میں بہت سی وادیاں اور شکاف ھے اور ان وادیوں اور بیگانوں میں سے زولو سپاہیوں کی آواز میں آرہی تھیں۔ وہ جنگی گیت ایک خوبصورت گا رہے تھے۔ باس میں ایک درے میں سے گزر رہا تھا کہ کہیں سے عورت نکل کے میرے سامنے کھڑی ہوئی۔ اس کی جلد نانے کی طرح چمک رہی تھی تانے کی اس کیتی کی طرح چک رہی تھی سے میں خوب کھی گھس کرنا تھا کے کندھے ہو۔ اس یہ عورت چینے کی کھال کا لباس یا موچھا پہنے ہوئے تھی اس اس ر ایک روتیں دار لبادہ تھ اور گردن میں نیلے رنگ ک چوں کی مالا پڑی ہوئی تھی۔ وہ اپنے ہاتھ میں بھلائے ہوئے نے اپنے بالوں میں سارس کا ایک پر اس رکھا تھا اور پھول کھلے اور نہ پرندے چھا ہے تھی اور جب وہ میری طرف آئی تو نہ تو راستے میں میں گون ہتہ شاسلام ای یکی و زبانوں کی گری طرح پہاڑوں اور والویوں گئی۔۔۔۔۔ اور اس عورت کی آنکھیں چمکنے لگیں۔” جان چانے میں ذرا بھی کوتاہی کی تو میں تمہیں اس کی سزادوں گی۔۔۔۔ ہے اور کہتی ہے کہ محبت واقعی ایک آقا سے کو کہ مینا میگو میزن کو سلام کہتی اور میرا دل اس کا مقبد نت مقدس اور ہے میں اس حقیقت کی پجارن ہوں سے سر کے بل گر اور آنکھ کھلی اور پھر باس کیا ہوا کہ میں ایک پہاڑ کی ما چوٹی چوٹی پر پر میں نے کافی کی تیلی پر پڑا تھا! چونکہ یہاں ہم آگ نہیں جلا سکتے اس لئے لے آتا یں دبادی تھی کہ تمہیں گرم گرم کافی پینے کو مل جائے اب میں کافی چلا گیا۔ اور مجھے حیرت زدہ چھوڑ کر وہ کافی لانے پہلی بیوی اور مامینا کے متعلق ہمیس کو ور حیرت کی بات بھی تھی میں نے اپنی والد اور میری کے علاوہ چنانچہ یہ اس کا کیسا خواب تھا کہ اس میں میرے 236 ہے۔ وہ حقیقت ہے یا خواب میری پہلی بیوی اور ما مینا ان سب نے ہنس کے ساتھ ایک نہ ایک پیغام مجھے بھیجاہ میرے والد اور میری کے متعلق تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ ان دونوں سے مل چکا تھا یکی ابینا ۔۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اس نے اس مشہور خاتون کے متعلق سن رکھا ہو کیو گا اینا اپنے دور کی مسہور ترین عورت تھی لیکن میری بیوی اسٹیلا کے متعلق تو وہ کچھ بھی پڑا ہاتھ جانتا تھا۔ 237 تھا درے کا موڑ مڑ کرنیا کا سب سکین یہ حقیقت تھی میں خواب نہ دیکھ رہا تھی سامنے آگیا۔ جی ہاں۔ وہ دیو تائے شر جانا ہی تھا جو جھو تا جھا مت اور ایک تو یہ نظر نا بے اعتنائی سے چلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور سب سے زیادہ حیرت انگیز بات ہ تھا بیلس کا خواب جس پربد قسمتی سے مجھے غور کا موقع ما ایک جا پر دور تھے۔ ایک اس کی پیٹھ پر بٹھا ہوتا اور دوسر اس کی گردن پر بیٹھا ادو منٹ بعد جب میں ہیں کی ملائی ہوئی کافی کا آخری گھونٹ پر رہا تھا کہ دوکاند مجالات کی خدمات انجام دے رہاتھ جانا کی پیٹھ پر مدھی ہوئی چوٹی کر سی پر جو شخص بیٹھا سمہا تھا جس نے عجیب وحشت انگیز ، فوق کا کوئی پیغام لے کر آگئے ا رہا تھاوہ کوئی اورنہیں بلکہ خود بادشاہ ندرہ منٹ بعد ہمارے دو جاسوں جنہیں ہم نے پہاڑ کی بلند ترین چونی مرک اور ایک حد تک مضحکہ خیز لباس پہن رکھا تھاوہ شخص جو مہادت کی خدمات بیجد یا تھا کہ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں ، درختوں پر سے بندروں کی طر سکتے اور قلاب زیاں کھاتے آتے نظر آئے۔ ان جاسوسوں نے اطلاع دی کہ کالے کاندہ وجھیں درے کے دوسری طرف جمع ہو رہی تھ۔ تھیں۔ گھوڑا سوار اپنے اپنے گھوڑوں سے اتر آئے تھے اور گھوڑے فوج کے عقب میں بھیجدئے گئے تھے۔ کیونکہ یہاں الا کے خیال میں گھوڑے بیکار تھے اور کالے کا ندہ کا یہ خیال غلط نہ تھا۔ دے رہاتھ وہی لنگڑا منت تھا جس کی ٹانگ میرے پستول کی کوئی سے زخمی ہو گئی انا کی گردن میں ایک نہ پوری بارہ زنجیریں پڑی ہوئی تھیں جو کسی چمک دار ت کی تھیں۔ یہ زنجیر میں نیچے لنک رہی تھیں اور ان بارہ زنجیروں کے سرے بارہ ہوں نے پکڑ رکھے تھے اور یہ بارہ آدمی جانا کے ساتھ ساتھ ، چھ دائیں اور چھ ہائیں تھوڑی دیر بعد درے کے موڑ پر پہلے ایک ، پھر دوسرا اور پھر تیسرا من چل یا دوڑ رہے تھے۔ اس کی سونڈ سے تین دوسری زنجیریں بڑی مہارت سے ی کئی تھیں۔ اور ان تینوں زنجیروں کے سروں پر ایک ایک بڑا سا آہنی گولا بندھا ہوا ہر گولے میں بے شمار آہنی کانٹے تھے جو بھالوں کے پھل جتنے بڑے اور نو کدار نمودار ہوا۔ یہاں تک کہ تقریبا تمیں کالے کا ندہ درے کا موڑ مڑ کر سامنے آگئے۔ سب کے ہاتھوں میں لمبے لیے بانس تھے جن پر سفید پھر برے لہرا رہے تھے۔ میں ؟ دلچسپی سے ان آنے والوں کو دیکھنے لگا کہ پتہ نہیں وہ کیا کرنے والے تھے۔ جانا آگے بڑھا۔ اب وہ بھاگ رہا تھا۔ کالے کاندہ کی صفوں نے پھٹ کر راستہ فعه و ادھر ادھر دوڑ نے اور بانسوں کو زمین پر یہاں وہاں ٹھو کہنے لگے گڑھے تلاش کر رہے تھے۔ چند گڑھے انہیں مل گئے جن پر مٹی تھی ہوئی تھی۔ جانتان کے درمیان گزرنے لگاو بارہ آدمی، جو اس کے زنجیری پکڑے ہوئے تھے انہوں نے ہر گڑھے کے کنارے پر ، سفید جھنڈیاں گاڑ دیں تاکہ یہ جھنڈیاں گڑھوں کی نشان دہی کرتی رہیں اور فوج ان سے رچ کر نکل جائے۔ دفعت درے کے موڑ کے دوسری طرف سے قرنوں اور نعروں کا شور ہوا۔ اور اب میں نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔ اس قدر حیرت انگیز کہ انسان کا آنکھوں ںپر پر سے اعتبار اٹھ جائے۔ چنانچہ پہلے تو مجھے ھی یقین نہ یا کہ میں جو کچھ دیکھ کے ساتھ بھاگ رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ انکی صف میں آکر کھڑا ہو جائے گا۔ نہیں وہ ہمارے مورچے کی طرف بڑھنے لگا اب وہ بھاگ نہ رہا تھا۔ میں اپنے تجربے کو بروئے کار لے اور اب وقت آ گیا تھا۔ اب موقع تھا کہ میں . یری دو تائی ہاتھی مار بدوق بھری ہوئی تیار تھی۔ اور میرے ہاتھ میں تھی اور ی دونالی رائفل بیٹس کے ہاتھ میں تھی اور اس کا بھی گھوڑا چڑھا ہوا تھا اور بینس ی طرح اٹھائے کھڑا تھا کہ یہ وقت ضرورت میں ایک لمحے کے بھی چوتھے حصے 239 238 میں اس کے ہاتھ سے بندوق گھسیٹ سکتا تھا۔ خبر دار ! کوئی جانا پر گولی نہ چلائے یہ میرا شکار ہے۔” میں نے کہا۔ مد خاموش کھڑے رہو اور تم کالے کا ندہ کے دیو تا کو خاک و خون میں دیکھ لو گے ۔ وہ زبر دست چوپا پاید ستور آگے بڑھ رہا تھا اور اب میں نے دیکھا کہ جان کے قدر زیر دست تھا۔ اتا ہواہا تھی تاریخ کے کسی دور میں نہ رہا ہو گا۔ اس منموس رات کے جب جانا نے ہاروت کی جان لی تھی اور اپنا بر دست پیر میری پیٹھ پر رکھنے والا تھا۔ اسی رات مجھے اس کو دیکھنے کا موقعہ نہ ملا تھا۔ لیکن اب۔۔۔ میرے خدا نا قابل یقین تک عظیم الشا تھاوہ ہا تھی جس کا نام جاتا تھا۔ چلا و باس ! وہ بہت قریب آگیا ہے۔ بیٹس نے آہستہ سے کہا۔ اب گولی لیکن میں منتظر رہا کہ جانارک جائے تو میں گولی چلادوں۔ اور اب جانارک گیا۔ اس نے اپنا غار جیسا منہ کھولا، اپنی زیر وست سونڈ اٹھا لوگوں سمیت اور بڑی بھیانک آواز میں گل سا بجایا۔ سمبا اپنی کرسی پر سے اٹھا اور اس خیریت اسی میں ہے کہ تم لوگ اپنے آپ کو لافانی جانا کے حوالے کرد ابھی معلوم ہو جائے گا چہ کہ تمہارا جانا لا فانی نہیں ہے۔ میں نے دل ہی دل میں کہا۔ اور میں نے چاروں طرف دیکھا، بینس دوسری بندوق لیے کھڑا تھار مج ہاروت اور دوسرے لوگ مورچوں میں سے گردنیں نکالے میری طرف دیکھ ر خاموش فضا میں ایک ہوئے سرخ منہ کے ذرا اوپر کے حصے کو نشانہ بنایا اور لبلبی دبادی۔ نے گولی لگنے کی آواز نہ سنی۔ جانا اسی طرح زاخا گونج گیا۔۔۔ لیکن ۔۔۔ کچھ نہ ہوا میں بے پروا کھڑا رہا حتی کہ اس نے اپنا منہ بھی بند نہ کیا۔۔۔ تماشائیوں کے منہ سے ارے کی آواز نکل گئی۔ میں نے دوسری نالی کی لیلی دبادی ۔ گولی سناتی ہوئی چلی۔ پھر کچھ نہ ہوا۔ ارے ۔ تماشائیوں نے کہا۔ اب جانا نے اپنا نہ بند کر لیا اور ایک طرف گھوم کر اس طرح کھڑا ہو گیا کہ تھا۔ اس کا پہلو میری بندوق کی زد میں تھا۔ اس نے نشانے کو اور بھی آسان بنا دیا پنے آپ پر دل ہی دل میں لعنت بیچ کر میں نے مینس کے ہاتھ سے دوسری دوق گھسیٹ کی اور جانا کے جسم کے اس حصے کو ، جہاں ہاتھی کا دل ہوتا ہے نشانہ بنایا اور ہوئے۔ کے یکے بعد دیگرے دونوں لبیاں دبا دیں۔ یکے بعد دیگرے دہ دھا کے بلند بعد دیگرے دو گولیاں سنسناتی ہوئی چلیں۔ یکن جانا دستور کھڑا رہا۔ اس نے اپنے کان تک نہ ہلائے اس کی موٹی جلد پر کوئی لگنے کی آواز تک نہ سنائی دی۔ این کو اٹر مین کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوا تھا۔۔۔ میں۔۔۔ این کوائر مین ، مشہور شکاری اور اپنے وقت کا ماہر ترین نشانے باز ۔۔۔ لیکن اس دفعہ اسی اہر نشانے باز اور مشہور شکاری کے یکے بعد دیگرے چار نشانے خطا کر گئے تھے۔ یہ ھے اور منتظر تھے کہ میں جانا کو ہار گراؤں ، کالے کاندہ صف در صف کھڑے تھے خیال ۔۔ یہ شرمناک خیال میرے دماغ میں سے نکل کر میری رگ وپے میں دوڑ گیا۔ ہمارے جواب کا انتظار کر رہے تھے اور سامنے جانا اپنا منہ کھولے اور سونڈ اٹھانے کی میراپور ابدن جل ساٹھا۔ شرم اور مجالت سے میرا چہرہ سرخ ہو گیا۔ کاش اس وقت ھا۔ اس کا زبر دست یا تھا میرے سامنے تھا۔ مجھے صرف یہ کرنا تھا کہ ہا تھی مار بروق گولی اس کے ماتھے پر ماروں اور وہ جانا کی کھوپڑی توڑتی ہوئی اس کے دماغ میں جاگھے اور بھیج پاش پاش کر دئے، اور یہ میں کر سکتا تھا کیونکہ نشانہ بہت زیادہ آسان تھا۔ اس آسمان کہ میں شرط بدلنے کے لیے تیار تھا کہ میرا ایک ہاتھ میری پشت پر باندھ جائے اور میں صرف ایک ہاتھ سے بندوق چلا کر جانا کو مار گراؤں۔ میں نے اپنی وزنی بندوق اٹھائی، شت باندھی، اس کے غار کی طرح زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتا۔ ” اور میں نے کئی آوازیں سنیں۔ میرے خدا! یہ رجال کی آواز تھی۔ دو اب طفل مقدس ہی ہے جو ہماری مدد کرے۔ یہ ہاروت نے کہا تھا۔ اور ک میری طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے میں کیا کوئی پاگل ہوں۔ ایم کا نہیں رہے یں۔۔۔ اور پھر کوئی ہنسا اعصامی بیجان میں مبتلا شخص کی سی ہنسی اور اب سب 241 240 تھے۔ کالے کاندہ کی فوج کا ایک ایک سپاہی مارے جنسی کے دہرا ہو گیا تھا اور وہ لوگ مجھ این کو اٹر مین ہنس پر رہے تھے دوست اور دشمن ہنس رہے تھے یہاں تک کہ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں پاگل ہوا جارہا ہوں۔ و فعتہ سمبا نے چیچ کر لافانی جانا کے متعلق کچھ کہا۔ جواب میں سفید کا ندہ چلائے۔ جادو ۔۔۔ جانا پر سحر پھونکا گیا ہے۔” ہاں سمانے چیچ کر کہا۔ کوئی ہتھیار دی تا جانا پر اثر میں کر سکتا۔ ہاں ان سفید فاموں کے بہتھیار بھی جانا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جنہیں محض جانا کی جان کے لئے بہت دور سے لایا گیا ہے ۔” بندر ہیٹس ایک دم سے اچک کر دیوار پر جا چڑھا اور وہاں وہ شراب پنے ہوئے کی طرح اچھلنے اور کودنے لگا اور اپنا گھونس سمبا کی طرف ہلا کر بولا۔ تو پھر جانا کی ایک آنکھ کہاں گئی۔ نہیں جانتی کہ میری بندوق کی ایک ہی گولی نے اسے یوں تھا دیا جس طرح تیز ہوا چراغ سحری کو جھادیتی ہے؟ اگر جانا لا فانی ہے۔ اگر جان پر کوئی ہتھیار اثر نہیں کر سکتا تو میری بدوق کی گوئی نے اسے کا تا کیوں کر دیا۔” بینس نے اپنی اچھیل کو دبند کر دی، اپنی پیاری بندوق انٹو مبی اٹھائی اور نیچ کر کہا۔ بھی معلوم ہوا جاتا ہے کہ جانا حقیقت میں دیوتا ہے یا صرف ایک ہاتھی اس نے کیلی دبادی اور میں نے انٹو مبی کی گولی کے جانا کی موٹی جلد پر لگنے کی آواز سنی اور جانا کے عین اس جگہ سے خون نکل آیا جہاں ہاتھی کا دل ہوتا ہے۔ جانا کے اسی حصہ جسم کو میں نے نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی لیکن ن کامیاب کامیاب نہ نہ ہوا تھا۔ لیکن انٹو مبی کی گولی زیادہ زور دار نہیں تھی۔ چنانچہ وہ جانا کے دل تک کو کیا پہنچتی البتہ جلد چر کر ایک دو انچ تک گوشت میں اتر گئی ہو گی۔ اتنے بڑے ہاتھی کے لیے یہ ایک معمولی ساز خم بلکہ خراش تھی۔ لیکن اس معمولی سے زخم کا اثر اس لافانی دیوتا پر واقعی عجیب ہوا۔ وہ ایک دم سے گھوم گیا، اپنی سونڈ اٹھا کے درد و تکلیف کے عالم میں چنگھاڑا اور کالے کاندہ کی صفوں کی طرف اتنی تیزی سے بھاگا کہ وہ بارہ آدمی، جوز نیریں پکڑے اس کے دائیں ائیں دوڑ رہے تھے ، اندھے منہ گرے اور تھوڑی دور تک گھیٹنے گھٹنے ۔ کے بعد زنجیریں چھوڑ دینے پر مجبور ہو گئے ۔۔۔۔ سمبا اپنی کر سی سے لپٹ گیا اور لنگڑے رے مہنت نے وہ رسہ مضبوطی سے پکڑ لیا جو جانا کی گردن سے بندھا ہوا تھا۔ جہاں تک جادو اور جانا کے لافانی ہونے کا سوال تھا وہاں تک تو بینس کے اس نشانے کا نتیجہ بڑا امید افزار پاور کالے کا ندہ کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ جانا کو مارنا مکن ہی نہیں۔ چنانچہ سفید کا ندہ نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق علق . ہے بینس کے اس نشانے نے میری حالت اور بھی شرمناک کر دی کیونکہ اب ثابت ہو چکا تھا تو اس میں جا دیا جانا کی لافانیت کو کوئی دخل نہ تھا با کہ یہ خود میرے اناڑی پن کا نتیجہ تھا۔ یچ کہتا ہوں میں آپ اپنی نظروں میں ذلیل ہو گیا تھا۔ ایسی ذلت و خواری میں نے پہلے بھی محسوس نہ کی تھی تھی کہ میں اپنے ساتھیوں سے نظر ملانے کی بھی جرات نہ کر سکتا لعنت ہے تم پر این کو اٹر میں ۔ میرے دل کی ہر دھڑکن کہہ رہی تھی۔ یکن ۔۔۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ اپنے وسیع تجربے اور مہارت کے باوجود میرے ایک دو نہیں پورے چار نشانے خطا کر گئے ؟ یہ ایسے سوالات تھے جن کے جواب میں آج تک حاصل نہ کر سکا۔ خوش قسمتی سے میرے ساتھیوں کو اس وقت میری طرف متوجہ ہونے اور مجھے ذلیل و شرمندہ کرنے کا موقعہ نہ ملا۔ یکایک ایک پر شور نعرے کی آواز سے فضا تھرا ئی ، کالے کاندہ کے لشکر جرار کو جنبش ہوئی اور سب اس طرف متوجہ ہو گئے۔ پیش قدمی کا آغاز ہو چکا تھا۔ 243 242 جنگجو کالے کا ندہ کا سیل بے کراں آگے بڑھا۔ خاموشی سے صف در تھے جگہ لیتے رہے اور اب وہ لوگ جو چ رہے والے گرتے رہے اور پیچھے والے ان کی دور منتجان نمیں ہم سے کوئی پچاس گز بھاگ کر گنجان صفوں کے پیچھے ہو رہے۔ یہ بے پناہ کالے کاندہ سیل کا وقفہ رہا۔ چند لمحوں تک چند لمحوں تک خاموشی وقت کاندہ کی تین زبردست صفیں به یک رک گیا۔ دفعنا کسی نے چیچ کر کہا اور کالے ہم سکیں۔ وہ بہت قریب آگئے اور نہ روک سکیں۔ وہ بہت قر جائیں لیکن پچاس مد و قیں دشمن کی صفوں کو بند و قیں بڑ بر سا دیں۔ ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ حملہ آور ہوئیں۔ ہم نے ان پر گولیاں پیچھے بنتے چلے گئے یہاں تک پیچھے ہئے۔ جیسے کہ پہلے سے ملے کیا گیا تھا ہم قدم بہ قدم پہلے ہم کھڑے ہوئے تھے، کئی گز کہ پہلی دیوار سے ، جس کے عقب میں تھوڑی دیر چلانے لگے۔ کے دور پہنچ کے ہم رکے اور وہیں سے بند و قیں میں آچکا تھا۔ اس کی کمان ہاروت اور اب سفید کاندہ کی فوج کا گویا قلب حرکت دیوار پر ، جس کے عقب میں تھوڑی دیر پہلے اور محنال کر رہے تھے۔ کالے کا ندہ اس طرف کو دنے لگے لیکن جب دیوار کے اس صف وہ ہم کھڑے ہوئے تھے ، پڑھنے اور دوسری آگے بڑھے لیکن چونکہ جنگ زیادہ وسیع و عریض نہ تھی اس لیے ان کی صفیں بھی زیادہ ی نہ تھیں۔ ہر سپاہی کے پاس بہت سے چھوٹے چھوٹے بھائے تھے جو پھینک کر مارے جاتے تھے۔ یہ بھالے ڈھالوں کی پشت پر بنے ہوئے حلقوں میں اڑ سے ہوئے تھے۔ جب یہ لوگ سوگز دور تھے تو ہم نے بندوق کی باڑھ ماری ۔ اگلی اور پچھلی صف کے کئی سپاہی زخمی اور مردہ ہو کر کرے۔ لیگن کا لے کا ندہ کا سیلاب نہ رکا۔ وہ اپنے زخمی ساتھیوں اور لاشوں کو روند تے بدستور آگے بڑھتے رہے اور سچ تو یہ ہے کہ صرف پچاس رانکلیں ان وحشیوں کے سیلاب کو ، جو موت سے ڈرتے نہ تھے روک نہ سکتی تھیں۔ اور اب انہوں نے بھالے پھینک کر مارے اور اب ہمارے آدمی بھی مرنے اور ! زخمی ہونے لگے۔ لیکن ہم چونکہ دیوار کی اوٹ میں تھے اس لیے دشمن کے بھائے ہیں کچھ زیادہ نقصان نہ پہنچا رہے تھے۔ ہم نے یکے بعد دیگرے کئی باڑھیں ماریں اور پوری پہلی صف کو مار اگر ایا۔ لیکن پیچھے والوں نے آگے بڑھ کر مرنے والوں کی جگہ لے لی آگے دیواروں کا ایک جال ساچھا طرف آئے تو یہ دیکھ کے چکر گئے کہ اس پہلی دیوار کے بعد تھے اور زہر خانے کے ٹکڑے پر ہوا تھا۔ دیواروں کے اس جال کے خانے بہت تنگ تھے۔ سفید کاندہ بھالے لیے ان کے استقبال کو تیار کھڑے لیے کالے کا ندہ نہ نو کھل اور وہاں گھمسان کارن پڑا جگہ چونکہ تنگ تھی اس تھے اس کے علاوہ دوسرے کالے لڑ سکتے تھے اور نہ اپنی بہادری کے جوہر دکھا سکتے آگے والوں کو، جو سفید کا ندہ سے دست بدست کاندہ دیوار کود کر برابر چلے آرہے تھے اور کر اپنے جنگ میں مصروف تھے ، ڈھیلے جاتے تھے اس طرح آگے والوں کو پیچھے ہٹ پکو چانے کا موقعہ نہ مل رہاتھا۔ نتیجہ یہ ہو رہا تھا کہ کالے کا ندہ سرعت سے کٹ کٹ زون میں وہ دوسری دیوار کر رہے تھے دفعتہ کالے کاندہ ریلا کر کے دھنس گئے اور پیشم تھے۔ چنانچہ ایک بار کے اس پار تھے۔ لیکن اب تیسری دیوار اور مسلح سفید کاندہ سامنے پھر وہ ایک دوسرے پر پل پڑے۔ پورے دو گھنٹے تک یونہی ہوتا رہا۔ کالے کا ندہ کے بعد دیگرے دیواریں فتح 245 244 کرتے اور ہر موڑ پر سفید کاندہ سے مقابلہ کرتے اور اپنے پیچھے خود اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے انبار چھوڑتے آگے بڑھتے رہے۔ اور مجھے کہنا پڑتا ہے کہ کالے کا ندہ نے بڑی بہادری کا ثبوت دیا تھا اور اپنی جان کی پروانہ کرتے ہوئے ہماری بنائی دیواروں کو فتح کرتے چلے آرہے تھے۔ اس اثنا میں میں اور میرے ساتھ میرے نشانے باز بھی ، چند خاص مقامات سے ، جو ہم نے پہلے سے مقرر کر لیے تھے ، ان پر گولیاں چلاتے رہے تھے۔ تو کہنے کا مطلب یہ کہ ہماری ان تھک کو ششوں کے باوجود کالے کا ندہ کا بڑھتا ہو! سیلاب نہ رکا۔ ہر قدم پر ان کے ساتھیوں کی سینکڑوں لاشیں گر رہی تھیں لیکن وہ برابر آگے بڑھ رہے تھے۔ صبح کے آٹھ ج رہے تھے کہ ہم آخری دیوار کے پیچھے پناہ لینے پر مجبور ہو چکے تھے۔ یہ بڑی مضبوط دیوار تھی جو بیکل کے مشرقی دروازے کے تین عین قریب بنائی گئی تھی یہ جگہ تنگ تھی خصوصاً اس لیے کہ راستہ لاوا کی چٹان میں سے گذرنا تھایا ہوں کئے کہ سرنگ میں سے گزر تا تھا۔ کالے کا ندہ نے بڑے زور و شور سے حملہ کیا۔ انہوں نے تین دفعہ حملہ کیا اور ہم نے تینوں دفعہ انہیں پیچھے ڈھکیل دیا یہاں تک کہ دیوار کے سامنے کا لمبا کھڈ لاشوں میں چٹانیں اس طرح کھڑی ہوئی تھیں کہ ہم پر صرف سامنے کی طرف سے ہی حملہ کہیں سے پٹ گیا۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرف کی زمین کچھ ایسی نا ہموار تھی اور اس کیا جا سکتا تھا چنانچہ جیسے ہی دشمن کے سپاہی دیوار چڑھتے سفید کا ندہ اپنے لمبے لمبے بھالوں سے انہیں پیچھے ڈھکیل کیل د دیتے . اور جو چ رہتے وہ ہماری بندوقوں کی گولیوں کا شکار ہو جاتے۔ آخر کار کالے کا ندہ بڑی ترتیب سے پسپا ہوئے اور ہم نے سوچا کہ انہوں نے س دیوار پر چڑھنے اور ہیکل فتح کرنے کا رادہ کردیا ہے۔ لیکن مار یہ خیال غلط تادہ لوگ در اصل اپنادم درست کر رہے تھے اور اپنی محفوظ فوج کی آمد کے منتظر تھے۔ ور آخر کاران کی محفوظ فرج آگئی یہ فوج دو ہزار خونخوار وحشیوں پر مشتمل تھا وہ لوگ نعرے لگاتے اور گیت گاتے آئے، ایک بار پھر وہ نہایت زور و شور سے ، چڑھتے ہوئے دریا کی طرح ، آگے بڑھے اور ایک بار پھر ہم نے انہیں پیچھے ڈھکیل دیا وہ پیچھے ہے، انہوں نے اپنی قوت کمیٹی اور انہوں نے پھر حملہ کیا اس دفعہ بھی ہم نے انہیں یچھے ہٹا دیا۔ اور دیوار کے مین نیچے تڑپتے ہوئے زخمیوں اور بے شمار لاشوں کے درمیان کھڑے ہو کے کالے کا ندہ آپس میں کچھ صلاح مشورہ کرنے لگے دیوار مٹی اور ڈھیلے پتھروں کی بنیاد پر قائم تھی اور وہاں ، دیوار کی عین بنیاد کے قریب ، کالے کا ندہ کھڑے کچھ مشورہ کر رہے تھے اور چونکہ بھالوں کی پوچھاڑ مسلسل ہو رہی تھی۔ اس لیے ہم دیوار پر چڑھ کے ان مشورہ کرنے والوں پر گولیاں نہ بر سا سکتے تھے۔ اور آخر کار وہ ایک آخری فیصلے پر پہنچ گئے وہ دیوار میں نقب سی لگانے لگے۔ بنیادوں کے پتھروں کو چھوڑ کر وہ اوپر کے پتھروں کو بانسوں سے اندر کی طرف ڈھکیلنے گے۔ بھالے برابر پھینکے جار ہے تھے۔ چنانچہ ہم ان نقب زنوں کا کچھ نہ باڑ سکتے تھے۔ وہ بڑے اطمینان سے راستہ بنانے میں مصروف تھے اور اگر ہمارا کوئی ساتھی ان کی اس کا ستانی کو دیکھنے کے لیے ذرا سا بھی سر ابھار تا کہ ایک نہ ایک بھالا اس کے ماتھے میں ترازو پانچ ہی منٹ بعد اس آخری دیوار میں رخنہ پیدا ہو چکا تھا اور کالے کا ندہ یوں اندر در آئے جس طرح کہ بند کی دیوار میں سوراخ ہو جانے کے بعد پانی کا سیلاب مل آتا ہے اگر وہ لوگ آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے تب بھی ان سب کو قتل کر دینا ہمارے لیے ممکن نہ ہوتا۔ لیکن وہ آنکھیں بند کر کے بیٹھے نہ تھے بائہ جنگ کر رہے تھے ہم اپنا چاؤ کرتے ہوئے پیچھے ہے۔ بیکل کا دروازہ ہمارے لیے کھول دیا گیا تھا چنانچہ ہم مدافعانہ جنگ کرتے ہیکل کے بیرونی جانب ہو گئے۔ فوراہی کو اڑوں کے پیچھے پتھر لگادیئے گئے کہ دشمن اسے کھول نہ سکے لیکن یہ مند دروازہ بھی دشمن کے سیلاب کو نہ روک سکا کالے کاندہ نے ارد گرد سے خشک لکڑیاں اور جھاڑیاں لا کر دروازے کے سامنے ڈھیر کر دیں اور ان میں آگ لگادی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دروازے کی پرانی خشک لکڑی دھڑا دھر چلنے اور جب دروازہ جل رہا تھا تو ہم مشورہ کر رہے تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ پیچھے نانا ممکن تھا کیونکہ ہیکل کا عقبی دالان غلے سے بھرا ہوا تھا۔ البتہ غلے کے ڈھیروں کے 247 246 ہے کہ ہم وہاں در میان تھوڑی سی جگہ بطور گذرگاہ کے چھوڑ دی گئی تھی۔ چنانچہ ظاہر کھڑے ہو کر دشمن کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے غلے کے انباروں کے پیچھے بستی کی ساری عورتیں اور چھے جمع تھے جن کی تعداد دو ہزار سے زیادہ تھی اور اسی جگہ ہمیں دشمن سے قابلہ کر کے یا تو تح حاصل کرنا تھی یا پھر کٹ مرنا تھا اسی جگہ ہم دشمن سے مقابلہ کر سکتے تھے یا اسے روک سکتے تھے۔ اب تک ہمیں کالے کا ندہ کے مقابلے میں، جن کے دو ہزار سے زائد آدمی مارے گئے تھے، کچھ زیادہ جانی نقصا نہ پہنچا تھا۔ ہمارے صرف دو سو آدمی مارے گئے ھے اور تقریباً اتنے ہی زخمی ہوئے تھے۔ زخموں میں اکثر چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے تھے اس لیے ہم انہیں اٹھا کے ہیکل کے والان میں لے آئے تھے اور اس وقت وہ لوگ تجرے کے دیواروں سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور پر امید نظروں سے ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ لیکن سولہ کچھ زیادہ سپاہیوں پر مشتمل تھی اب ہماری فوج سولہ سویا اس سے اب اس تجویز پر عمل سو آدمی سے اس تنگ جگہ میں بہ ایک وقت سمانہ سکتے تھے چنانچہ کرنے کا وقت آگیا تھا۔ جو ایسے وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے پہلے ہی سوچ کی تھی۔ اور تجویز یہ تھی کہ تین سو پچاس منتخب سپاہی ہیکل میں رکے رہیں۔ اور اس وقت تک اس کی حفاظت کرتے رہیں جب ت کہ ان کا آخری آدمی بھی مارا نہیں جاتا بقیہ سپاہی، جن کی تعداد ایک ہزار سے کچھ زیادہ تھی، پیچھے ہٹ کر اس جگہ پہنچ جائیں جہاں عورتیں اور پنے بیٹھے ہوئے تھے اور انہیں لے کر وہ خفیہ راستے سے، جس سے یہ لوگ واقف تھے ، نکل کر وہاں پہنچ جائیں جہاں اونٹ تھے۔ اس کے بعد کام آسان تھا۔ جتنے بھی اونٹ پر سوار ہو سکتے ہوں ، اتنے سوار ہو کر جس طرف چاہئیں نکل جائیں بھول اروت طفل مقدس ان کا نگهبان ہو۔۔۔۔ یہ سارا نقشہ محض اس امید پر بتایا گیا تھا کہ کالے کاندہ جنگ کے بعد اتنے تھکے ہوئے اور پھر فتح کے نشے میں اتنے سرشار ہوں کے کہ ان لوگوں کے تعاقب سے باز ہی رہیں گے یہ امید موہوم تھی اور یہ بڑا ہی جرات مندانہ اور خوفناک فیصلہ تھا لیکن کیا کرتے اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ لیکن ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ میری بیوی کا کیا ہوگا ؟ سجنال نے پھٹی ہوئی آواز میں میں رہتا ہے۔ یہ بہت میرے آقا جب تک ہیکل فتح نہیں ہو جاتا اسے دشمن کے حق میں ہو جائے اور میں ضروری ہے ہاروت نے کہا لیکن اگر جنگ کا فیصلہ کے ساتھ جو چ رہے ہوں ، مقام مقدس میں مارا جاؤں تو اے سفید فام آقائم ان مہنوں کر خفیہ راستے سے نکل جانا اگر تم نے چلے جانا اور ندائے روح اور طفل مقدس کو لے کی پرستش تم کرتے ہو۔” اس میں کوتاہی کی تو وہ تم سے سمجھ لے گا جس باروت مسلسل کہتا رہا۔ دو طف ہاتھ میں پڑ جائے اسے غل مقدس کو یہاں نہ چھوڑ دینا کہ وہ دشمنوں کے وہ راکھ بن جائے یا اسے م اپنے ساتھ لے جاؤ گے اور پھر اسے جلادو گے یہاں تک کہ جائے میں اپنے مہنوں یک بڑے سے پتھر سے چل دینا یہاں تک کہ اس کا سرمہ بن کا ندہ وں اور ان کو بھی جو زندہ بچ جائیں حکم دیتا ہوں کہ وہ غلے کو آگ لگادیں تا کہ کالے کو نہ سے حاصل نہ کر سکیں اور آخر کار بھوکوں مر جائیں خبر دار ایک دانہ بھی کالے کا ندہ ے جسے حاصل کرنے کے لیے وہ مقام کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔ تم غلے کو آگ لگادو بر چھی خاتمہ کے کہ دشمن کے ان آدمیوں کا جو ہمارے بھالوں سے چ جائیں ، بھوک کی بہاروت کا یہ فیصلہ بڑا ہی لرزہ خیر تھا لیکن سفید کاندہ ہاروت کے ہر حکم کے گے سر تسلیم تم کر دیتے تھے سفید کاندہ کے لیے ہاروت کا حکم ربانی حکم کا درجہ رکھتا تھا س کی تعمیل میں ہی انہیں اپنی نجات نظر آئی تھی چنانچہ چوں چرا کے بغیر اور ذرا بھی نہ بنائے بغیر سفید کاندہ ہاروت کے حکم کی تعمیل کرنے روانہ ہو گئے۔ سفید کا ندہ کے سپاہیوں کا ایک کے بعد ایک گروہ اس طرف چلا جس طرف بستی کی عورتیں اور بے پناہ گزین تھے۔ وہ لوگ دروازے کے قریب جا کر پلٹ ڑتے اور اپنے بھائے اٹھا اٹھا کے ہمیں دیتے ۔۔۔ کیونکہ ہمیں یہیں ٹھر نا اور ہیکل کو چانا تھا۔۔۔ سلام کرتے اور سر جھکا کے دروازے میں داخل ہو جاتے۔ یہاں تک کہ خری گروہ بھی ہمیں سلام کر کے رخصت ہوا۔ اب بیکل کے والان میں ہم تین سو پچاس نفوس کھڑے رہ گئے تھے اور ہم 249 248 فاصلہ ورانتی کے جس سے نرم و نازک پودے لے لیے لیٹ جاتے ہیں۔ نے اپنی مختصری فوج کی صف بندی کی۔ جس طرح کہ زندہ نہ چا۔ صرف چند گز کا تھا چنانچہ ایک نشانہ خطانہ گیا اور دشمن کا ایک سپاہی بھی بڑی علت میں ہم نے اپنی مد میں پھر بڑ بڑا ہیں اور دوسرے حملے کا انتظار کرنے لگے۔ اور دسر حملہ ہوا ہندو میں پھر بڑ بڑائیں پھر کشتوں کے پتے لگ گئے اب روازہ اور باہر کی سرنگ لاشوں سے یوں بھر گئی کہ تیسرا حملہ کرنے سے پہلے ان سب سے آگے میں اپنے نشانے بازوں کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ بچے ہوئے کار توس تمام نشانے بازوں میں تقسیم کر دئے گئے۔ کار توسکا ذخیرہ زیادہ نہ تھا چنانچہ ہر نشانے باز کے حصے میں آٹھ آٹھ راؤنڈ آئے۔ ہمارے پیچھے اور بیکل کے بیرونی دالان میں یزہ برداروں کی چار صفیں تھیں۔ یہ لوگ بھالوں اور تلواروں سے مسلح تھے ان کی کمان اروت کر رہا تھا۔ ان صفوں کے پیچھے اور اندرونی دالان کے دروازے کے قریب تاکہ لاشوں کو ہٹانا ضروری تھا اور دشمن کے چند جیالے سپاہیوں نے میری، مینس کی اور چند بہ دقت ضرورت وہ ندائے روح اور طفل مقدس کو کال لے جا سکیں گے پچاس سوریا رمجال کے زیر کمان کھڑے ہوئے تھے۔ میں یہ بتانا بھول گیا کہ رسجنال زخمی تھا۔ حالانکہ اس کے یہ زخم گہرے اور تشویشناک نہ تھے لیکن وہ بہر حال زخمی تھا بھائے کا ایک زخم اس کے بائیں کندھے پر آیا تھا اور دوسر از خم توار کا تھا جو اس کی بائیں ران پر آیا تھا۔ یہ دونوں زخم آخری مورچے کا چاؤ کرتے وقت آئے تھے۔ جب ہم اپنی یوں صف بندی کر چکے اور ہر شخص مٹی کے ان بڑے بڑے پیالوں میں سے ، جو والان کی دیواروں کے قریب رکھے ہوئے تھے۔ پانی پی چکا تو ہم منتظر اور مستعد کھڑے ہو گئے۔ لیکن زیادہ دیر تک انتظار نہ کرنا پڑا۔ تھوڑی دیر بعد ہی دروازہ جل کر گر ایکن دروازے کے پیچھے ہم نے نہ صرف پھر رکھ دیئے تھے باسہ مٹی کا پشتہ بھی بنا دیا تھا۔ کالے کا ندہ آگے بڑھے ، انہوں نے جھاڑیوں کی جھاڑ و بنا کے ان جارے صاف کئے اور اب وہ پتھر اور مٹی کے انبار ہٹا رہے تھے۔ لیکن یہ کام آسان نہ تھا کیونکہ دفعہ ہمارے آدمی آگے بڑھے اور انہوں نے ان لوگوں کو ، جو راستہ صاف کر رہے تھے بھالے مار کے پھر مارمار کے گردیا بھگا دیا۔ لیکن ہر دفعہ زخمیوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جانا مردوں کا گھسیٹ لیا جانا اور تازہ دم سپاہی آگے بڑھ آتے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک راستہ صاف نہ ہو گیا۔ اب میں نے نیزہ برداروں کو واپس بلا لیا جو ہمارے پیچھے اپنی صفوں میں جا کھڑے ہوئے۔ اور اب میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ یکایک کالے کاندہ کا ایک گروہ ریلا کر کے دروازے میں گھس آیا۔ میں نے اشارہ کیا۔ پچاس بند و قیں ایک ساتھ بڑبڑائیں اور دشمن کے سپاہی یوں پٹاپٹ گرے پہنچا دیا۔ شانہ بازوں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں یہ کام ہر حال انجام تک اور اب پھر حملہ ہوا۔ نتیجہ وہی رہا۔۔ اور پھر ۔۔ اور پھر ۔۔۔ اور پھر۔۔۔ یہاں تک کے آخری کار توس بھی استعمال کیا جا چکا۔ اب کسی کے پاس ایک کار توس بھی نڈر لوگ میں نے بھی نہ دیکھے نہ تھا۔ یہاں میں یہ اعتراف کر لوں کہ کالے کا ندہ جیسے حشر دیکھ رہے تھے لیکن بڑھ تھے۔ وہ گولیاں کھا کھا کر گر گئے رہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کا بلے پر پہلے کر رہے ڑھ کر آتے تھے۔ انڈا منڈ کر آتے تھے۔ اپنی جان کی پروانہ کر کے لیکن اب ہماری بندو قیں بیکار ہو چکی تھیں۔ اب کسی کے پاس ایک کار توس بھی نہ تھا۔ چنانچہ میرے نشانے بازوں نے بند و قیں پھینک پھینک کر بھالے اور تلواریں سنبھال لیں اور ہم ستانے کے لئے پیچھے گئے اور ہاروت اور اس کا دستہ آگے بڑھ آیا۔ آدھے گھنٹے تک اس تنگ جگہ عجیب جدو جہد ہوتی رہی۔ دشمن آگے بڑھ رہا تھا ور ہاروت اور اس کے ساتھی اسے پیچھے دھکیل رہے تھے۔ کالے کاندہ ان لوگوں کے کے لئے سینہ سپر بھالوں کا حصار نہ توڑ سکتے تھے جو اپنی جان اور اپنے دیوتا کی حفاظت اور تلواروں سے کٹ رہے تھے نے ہوئے تھے۔ کالے کا ندہ بھالوں میں چھو رہے تھے ندہ صرف یکن پڑھ بڑھ کر حملے کر رہے تھے۔ یہاں یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کالے کا امنے سے ہی کیوں ملے کر رہے تھے ؟ کیا وہ دائیں بائیں طرف سے نہ آسکتے تھے ؟ جی ہیں۔ بیکل کے چاروں طرف عمودی چٹائیں تھیں جن پر چڑھنا اور پھر بیکل میں اترنا من نہ تھا۔ پسا ہو رہا ہو ۔ ہمیں اپنے آخر کار دشمن پیچھے ہٹ گیا جیسے شکست کھا کے 251 250 زخمیوں اور مردوں کو ہٹانے ، ذرادم لینے اور پانی پینے کا وقت مل گیا گرمی سخت تھی اور ہمارے حلق خشک ہو رہے تھے۔ اور اب ہمارے دلوں میں امید کی ایک شعاع رینگ آئی ہم نے سوچا کہ دشمن تھک گیا ہے ، اس کے بہت سے سپاہی کھیت رہے ہیں اس لئے وہ گھبرا گیا ہے اور اب حملہ نہ کریگا لیکن ہمارا یہ خیال خام تھا۔ کالے کا ندہ نہ تھکے تھے اور نہ گھبرا گئے تھے ہا کہ وہ حملے کا ایک نیا نقشہ مرتب کر رہے تھے۔ یکا یک دروازے میں گوشت و پوست کا وہ پاڑ نظر آیا جس کا نام جانا تھا ایک تو . وہ خود یو نمی بھاگ رہا تھا لیکن چند کالے کا ندہ اس کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے تھے اور ھالوں سے اسے کچھ کے دیتے جارہے تھے۔ اس لئے وہ اور کبھی تیز بھاگ رہا تھا۔ اور وہ چاؤ کرنے والوں میں سے یوں نکلتا چلا گیا جیسے وہ انسان نہیں بلکہ خشک گھاس ہوں۔ وہ اپنی سونڈ ہلا رہا تھا ، اس کی سونڈ سے بندھی ہوئی زنجیریں ۔ اور زنجیروں پر لٹکتے ہوئے نے دار آہنی گلے ہر اس شخص کی کھوپڑی کا چوراہنا ہے تھے جو اس کے سامنے آجاتا طرف ہو سیدھا میری بھیانک آواز میں چنگھاڑتا اپنی سون ہلاتا اور دے رہے تھے اور جانا کر رکھ دے گا۔ آرہا تھا جیسے مجھے چل میں نے دانت ماتھے کا کلنک مٹادوں ہے کہ میں اپنے جانا ! اب وقت آگیا آخری لغزش ہو گی اور ہوئی تو یہ میری سے کوئی لغزش نہ ہو گی ہیں کر کہا اس دفعہ مجھ نہیں۔ اب یا تو میں نہیں یا تو چلا آرہا ایک طوفان کی طرح ہوئے لوگوں کو پچھاڑتا اور وہ سونڈ سے بندھے کولی پیوست کرنا اس کے ماتھے میں رہا تھا اس لئے اپنا سر برابر ہلا وق اٹھائی جانا چونکہ باتھی مار دونالی اٹھا کے بیٹھ گیاور اپنی ٹیک کے اور دوسر میں زمین پر ایک گھٹنا یا تو کی بڑی اور سخت گولی تھی کہ ہاتھی مار بندوق سے مل رہا تھا امید علق اس کے دھڑے دیا جہاں جانا گا حصے کی طرف کر کا رخ عین اس میں نے بندوق کی نالی مک نہ تھا اس لئے رہے تھے تو جانا کے نزدیک بھالوں کے یہ زخم سوئی کی چھین سے زیادہ اہمیت نہ رکھتے لیکن بھالوں کی یہ پوچھاڑ سے ذرا بھی نقصان نہ پانچ رہی تھی کر سے زم کے انا و ضرور ہو کلات کا ہوا اس کی کوئی شر پڑے گی ای الکی صلی الٹ پاکٹ ہو گھیں جارے ساھی جاتی ھے رسار کی توری و گذر جای تھے۔ پنکھاڑ تا اور سونڈ سے بندھے ہوئے گولے ہلاتادیو تائے شر آرہا تھا۔ عین اسی وقت میں بیلس کے ساتھ ریجنال کی خیریت معلوم کر کے عقبی والان سے لوٹ رہا تھا تھوڑی دیر پہلے ہی میں تھ مکن سے سے چور اور پیاس سے نڈھال ہو کے پیچھے ہٹ وہاں تھا سجنال میری جگہ جا کھڑا ہوا تھا، لیکن اس کوشش میں اسے آگئی تھی غالبا کسی کا ندہ کا لہ اس کے سر پر پڑا تھایا شاید کوئی پتھر لگا تھا بہر حال سر پر چوٹ اسی وہ بے ہوش ہو گیا تھا ہمارے سپاہیوں نے دوڑ کر اسے اٹھا لیاور الان کے انتہائی سرے پر ایک ستون سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا تھا جب مجھے اس بات کا پتہ چلا تو میں اسکی خیریت معلوم کرنے دوڑا گیا اور یہ دیکھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیے اس کہ زخم اور چوٹ خطرناک نہ تھی چنانچہ میں ریجنال کے پاس سے لوٹ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ہاتھی جانا سیدھا میری طرف بھاگا آرہا تھا اس کے سامنے سے لوگ یوں دائیں ہائیں ہٹ جاتے تھے جس طرح کہ تیل کی دھار کائی کو پھاڑ دیتی ہے لوگ دائیں ہائیں دب کر جانا کو راستہ ن پر گرا۔ پھٹ گئی اور وہ مردہ ہو کر پڑی انڈے کی خون کی طرح ام دے رہا تھا۔ اس کی کھو لگی جو ماوت کی خدمات ے مہنت کی کھوپڑی میں جانا کے نہیں بالسحہ اس لنگڑے دبادی ۔۔۔۔۔ اور گولی دور تھا کہ میں نے لبلی انا مجھ سے صرف ہیں قدم ہوا لیلی دبادی لیکن کچھ نہ میں نے دوسرے نال کی ف تیں فٹ کا فاصلہ رہ گیا تھا کہ درمیان جانا اور میرے باند تھی ۔۔۔۔۔ میں نے پھر شست بڑی عجلت میں خطا کر گیا تھا۔ نچہ اس دفعہ بھی میر انشانہ جھڑ گئی ٹوٹا ہوا تھا ، ایک کرچ اور دانت کی ، جو خراب اور ئے اس کے کہ جانا کے اس دفعہ چار اور اس کوشش نہ کرتا۔ پہلی کر اپنے آپ کو بچانے کی کے سامنے سے بھاگ ہوتا بھی تو میں کا وقت نہ تھا لور اگر چھوڑ دی۔ اٹھ کر بھاگنے اور میں نے امید ہی بہتر تھا۔ لئے تو مر جانا تھا ؟ جی نہیں۔ اس سامنے جا ساتھیوں کے منہ لے کر اپنے اب میں کیا کر گئے تھے اور دو نشانے خطا 253 252 لگا۔ اور میں دونوں گھنٹے زمین پر ٹیک کے بیٹھ گیا اور اپنی موت کا انتظار کرنے دوسرے ہی لمحے جانا میرے سر پر تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں نے سرا جانا کے ٹھا کے اس خوانخوار اور خوفناک ہاتھی کی طرف دیکھا۔ یہ میری موت تھی۔ جو گھڑی ہوئی تھی اور یہ عجیب بات ہے کہ دیو تائے شر جانا نے دفعتہ اپنے آپ کو یوں رد کا کہ وہ چند قدم تک پھسلتا چلا گیا اور میں سمجھا کہ وہ سر کس میں کر تب دکھانے والے بھی کی طرح چاروں ٹانگوں پر بیٹھ جائے گایا تو جا کسی چیز کو دیکھ کر ڈر گیا تھایا پھر میری دوق کی اس گولی نے ، جو اس کے سڑے ہوئے دانت کی کرچ اڑ گئی تھی اسے گھڑی ھر کے لئے کھلا دیا تھا بہرحال یہ حقیقت ہے کہ جانا ایک دم سے بھاگتے بھاگتے رک وقت میں ، جب دل میں مایوسیاں نوحہ گر ہوں خلاف عقل ممکن اور نا ممکن باتیں بھی کیاور اب مینا میری طرف جھک گئی اس نے کچھ کہ خدا نے کیا کہا کیونکہ اس کی آوازنہ ور واقعہ بغیر کسی وضاحت کے بیان کئے دیتا ہوں کہ معلوم ہو جائے کہ ایسے نازک وپ میں میرے سرپر پہنچ چکی تھی۔ تا ایک حیرت انگی بات ہوئی میں یہ ایک اٹل حقیقت کی طرح معلوم ہوتی ہیں۔ قارئین ہینس کے اس عجیب و غریب خواب کو بھولے نہ ہوں گے جو اس نے اسی صبح مجھے سنایا تھا۔ نانچہ آپ کو یاد ہو گا کہ اس عجیب و غریب خواب میں بیٹس کی ملاقات اپنے نگلی البتہ اس کے ہونٹ ضرور پہلے تھے پھر وہ مسکراتی ہوتی ہو میں تحلیل ہو گئی۔ دوسرے ہی لمحہ ایکو سر واقعہ ہوا اور یہ میرا اہمہ نہیں باعہ حقیقت تھی انا اس اثنا میں سبھل چکا تھاور وہ اپنا منہ کھول کر اور سونڈ اٹھا کے میری طرف بڑھا کومت میں نے ڈچ زبان میں کسی کے گالی بجنے کی آواز سنی اور ایک پست قامت سایہ امینا نے بیس کے ذریعہ مجھے یہ پیغام بھیج تھا کہ وہ اس جنگ میں میرے ساتھ ہو گی اور بدوق کی نالی جانا کے کھلے ہوئے منہ میں کسیٹر نے کی کوشش کی لیکن جانا استابند تھا کہ بائی اس کے منہ میں داخل نہ ہو سکی اور اب ہیٹس نے یکے بعد دیگرے دونوں اہلبیاں وقت کی مشہور ترین خاتون ماینا سے ہوئی تھی۔ کئی سال پہلے میں اس سے ملا تھا۔ اسی میرے قریب سے نکلا چلا گیا یہ بیٹس تھا وہ آگے بڑھا اور اس نے دوسری ہاتھی مار جب موت قریب ہو اور جانا میرے سر پر پہنچ چکا ہو۔ تو اس وقت میں ادھر ادھر نظر کروں۔ شاید مجھے وہ ما مینا نظر آ جائے۔ خدا جانے کیوں مجھے بینس کے یہ الفاظ امینا کا یہ پیغام یاد آگیا ۔ حالانکہ مجھے رباد ہیں۔ دوسرے ہی لمحے جانا اپنی زبر دست سوند بیٹس کے گرد لپیٹ کر اسے اوپر اٹھا ایسے مضحکہ خیز خوابوں پر اعتبار نہیں تاہم میں نے ادھر ادھر دیکھا اور میرے دمان نے چکا تھا اس نے نہایت زور سے بیٹس کو ہوا میں اچھال دیا موخر الذ کر ہوا میں بلند ہوا اور جس میں اس وقت بھولے سے چیخ رہے تھے ایک خیالی پیکر کو میرے سامنے لاکھڑ کیا یہ کل بازیاں کھانا تیں چالیس فٹ دور سر کے بل گرا۔ تصویر اس قدر صاف تھی کہ حقیقت معلوم ہوتی تھی بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کن جانا بھی لڑکھڑا گیا اور ایسا معلوم ہوا جیسے کہ وہ بھی گرنے والا ہے لیکن وہ بعض دفعہ حقیقت بھی ایسی صاف اور واضح نہیں ہوتی جی ہاں میرے اور جانا کے درمیان سنبھلا اور دائیں طرف جانا چاہتا ہو جہاں بینس گرا تھا وہ آگے بڑھ وہ میرے قریب سے مینا اپنا مخصوص سموری لباس پہنے کھڑی تھی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ کا چلا گیاور چند قدم آگے بڑھ کے پھر رک گیا۔ رکھے تھے اور وہ بالکل ایسی ہی معلوم ہو رہی تھی، جیسی کہ میں نے اسے آخری بار دیکھ میں بڑی کو ششوں کے بعد گھوم کر دالان کی دہلیز پربیٹھ گیا اور وہ دیکھا جو ہو ھا یعنی اس وقت جب وہ زول بادشاہ پانڈا کے سامنے مر رہی تھی میں نے یہ بھی دیکھا کا رہاتھا اس منظر کو مرتے دم تک نہ بھلا سکوں گا۔ س کے گھنے گائے بالوں کی ایک لٹ سے ہوا کے جھو کے کھیل رہے تھے اور سورن کا پہلے میری نظر رجال پر پڑی جو اسط سے بے کا ہوا اور ان دو کی عائیں اس کی کلائی میں پڑے ہوئے تیل کے ایک خاص کنگن کو چکا ہی تھیں۔ نوں نالیاں جانا کے سر پر خالی کر دیں جانا نے بندوق کے دھماکوں کی طرف کوئی تولیوں وہ کھڑی ہوئی تھی یوں وہ کھڑی نظر آتی تھی۔ وہ بے حسو حرکت بیان نہ دیا اور گر گولیاں اس کے لئی تھیں تو جانے ان زخموں کی بھی پروانہ کی۔ 255 254 کی گود سونڈ آگے بڑھائی ، اس نے خاتون ریجنال انا نہایت زور سے چنگھاڑا، اس نے اپنی تھا، وہ نے سمبا کو کر سی میں سے گھیٹ لیا سے طفل مقدس کو گھینٹ لیا جس طرح اس اس نے سمبا کو دے مارا تھا۔ طفل مقدس نفل مقدس کو پتھروں پر دے مارا جس طرح اور اس نے سمبا کو چک پھیریاں دی تھیں فل مقدس کو گھمانے لگا جس طرح اس نے میں بکھر گیا۔ کامت بہت قدیم تھا چنانچہ وہ پتھروں پر گرتے ہی ہزارہا کر چیوں سینہ کو نے اور بال نوچنے لگیں ہ منظر دیکھ کر سفید کاندہ پی اٹھے ، داسیاں اپنا جو قریب ہی کھڑا ہوا تھا، غالبا بے اور انہوں نے اپنے لباس پھاڑ دیئے اور ہاروت، ہوش ہو کے گرا۔ اور اب میں نے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔ جی ہاں رہنال کی بیوی کو جو سفید کاندہ میں ندائے روح کے نام سے مشہور تھی۔ وہ سر پر پروں کی ٹوپی رکھے اور دیوی ایزیس کا لباس پہنے اپنی دو خادماؤں کے ساتھ عقبی دالان کے دروازے میں سے نکل رہی تھی وہ اپنے دونوں ہاتھوں پر طفل مقدس کو اٹھائے ہوئے تھی۔ وہ بڑے اطمینان اور سکون سے آگے بڑھی۔ اس کی نگا ہیں جانا پر پڑی ہوئی تھیں ۔ وہ قدم قدم آگے بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔ جانا کی طرف ۔۔۔۔ اور صاحب معلوم ہوتا تھا کہ جانا ہے چین ہوا جارہا تھا۔ دفعہ جانا نے اپنی گردن گھما کر سونڈاٹھائی وہ اپنی سونڈ اپنے دائیں پھلو کی طرف لے گیا۔ یہاں تک کہ وہ سمبا کے ٹخنے تک پہنچ گئی۔ اس تمام عرصے میں سمبا اپنی کرسی میں بہت کی طرح بیٹھ رہا تھا۔ جانا کے سونڈنے سمبا کی ٹانگ ٹخنے کے قریب سے پکڑی اور جانا نے آہستہ آہستہ سمبا کو کرسی پر سے گھیٹ لیا۔ سمبا لڑھک کر جانا کی انگی ٹانگوں کے قریب کرا دوسرے ہی لمحے جانا اپنی سونڈ سمبا کے گرد پیٹ چکا تھا۔ موخر الذکر کی آنکھیں مارے خوف کے پھٹ گئی تھیں اور اس کے منہ سے آواز نہ نکل رہی تھی۔ جانا نے سمبا کو اٹھالیا اب وہ اسے اپنی سونڈ میں پکڑ کے گھمار رہا تھا پہلے آہستہ آہستہ اور پھر تیزی سے تیزی اور بھی تیزی سے یہاں تک کہ سمبا کے سینے پر پڑی ہوئی چاندی کی زنجیر میں سورج کی شعاعوں میں ایک سمیں دائرہ سابنانے لگیں اور پھر اس نے سمبا کو زمین پر دے پنچا۔ اور میں نے دیکھا کہ سمبا اب ایک خون آلودہ کھری میں تبدیل ہو چکا تھا۔ کالے کا ندہ کا بادشاہ سم با مر چکا تھا۔ تھی خوفزدہ نہ تھی حالانکہ اس کی دونوں خادمائیں اسے چھوڑ کر بھاگ گئی تھیں۔ راپ ندا نے رو دی تائے شرجانا کے مین سامنے کھڑی ہوئی کی و گی۔ کیونکہ دو تا گئے اور بار الک ہو تو کام بن گیا ہے۔ مجالر اپنی بیوی کو اس ہاتھی کے سامنے سے گھیٹنے کے لیے جھپٹا لیکن بارہ تیرہ سفید کاندہ اس سے لپٹ گئے اور انہوں نے اسے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ یہ میں کہہ سکتا کہہ رمجنال کو یوں روک لینے میں ان کا کوئی خاص مقصد تھا یا پھر وہ رمسجنال کی جان چانا چاہتے بہر حال وجہ کچھ بھی ہو انہوں نے رسجنال کو آگے نہ بڑھنے دیا۔ جانا نے ندائے روح کی طرف اور ندائے روح نے جانا کی طرف دیکھا دفعتا سے اپنی چاروں ایک بار پھر جا چینا۔ لرزہ خیز اور بھیانک آواز میں وہ آہستہ رہا ہو۔ اس نے تین دفعہ اپنی سونڈ انگوں پر بیٹھ گیا جیسے وہ ندائے روح کو سلام کر جسم سونڈ کی نوک سے دم کی نوک نہایت زور زور سے پتھروں پر ماری، اس کا زبردست یو تائے شر جانا مر چکا تھا۔ نگ کانپ گیا اور پھر جانا ایک طرف لڑھک گیا جنگ بند ہو گئی۔ یوں رک گئے کالے کاندہ، جواب تک والان میں دھنسے آرہے تھے، دفعتا یسے ان کے پیز زمین میں گڑ گئے ہوں۔ ان کا جوش و غصہ لخت ٹھنڈ ایا گیاد فعہ کسی دید تامر گیا۔ بادشاہ مر گیا۔ جانے سمیا کو مار ڈالا اور پھر خود بھی مارا گیا طفل قدس کی کر چیاں بھر گئیں۔ جانا کا خون بہہ گیا۔ کالے کا ندہ کے لوگو بھا کو۔۔۔ :۔ اور ہر طرف سے آواز میں بلند ہوئیں دیو تامر گئے۔” بھا گو۔۔۔ کالے کا ندہ کے لوگو بھا گو۔۔۔ کی کوئی طاقت اب ان کالے کا ندہ پلٹے اور اپنے زخمیوں کو اٹھا کر بھا گے۔ دنیا نہ سے بھاگے اور انہوں نے پلٹ کر بھی کے قدم نہ جا سکتی تھی وہ بھاگے ۔۔۔ تیزی زخموں کے علاوہ وہاں اور درے میں ھا۔ میں منٹ بعد آخری سانس لیتے ہوئے بھی کا لا کا ندہ نظر نہ آیا تھا۔ 256 جنگ ختم ہو چکی تھی۔ اس کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ ہماری شکست فتح میں تبدیل ہو گئی تھی۔ میں بدقت تمام اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اب جب کہ جنگ ختم ہو چکی تھی، اب جب کہ میں موت کی دہلیز پر سے واپس آگیا تھا، میری ٹانگیں لرز رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ کا ندہ نے ریجنال کو چھوڑ دیا تھا اور وہ اپنی بیوی کے ساتے جا کھڑا ہوا تھا وہ مردہ جانا کے ایک دانت پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ کے بعد وہ بھی کھکن اور کمزوری محسوس کر رہا تھا۔ چنانچہ وہ مردہ جانا کے ایک دانت کا سہارا لیے اور اپنی ندوق جانا کے سر سے نکائے چہ کنم کے عالم میں اپنی بیوی کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔ لیون رسجنال نے آہست سے اپنی بیوی کو پکارا۔ لیونا شوق تجس سے بے تاب ہو کر میں ایک کاندہ کے کندھے کا سہارا لیکر آگے بڑھ گیا کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے۔ بہت دیر تک خاتون رمجال خاموش کھڑی خالی خالی نظروں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھتی رہی۔ دفعہ اس کی آنکھوں کا خالی پن آہست آہست دور ہوئے لگا ۔ ان میں حیات کی چمک ابھر نے لگی بالکل اسی طرح جس طرح شفاف آسمان پر آہستہ آہستہ اند ابھرتا ہے۔ اس کی تقریب بے نور سی آنکھوں میں رفتہ رفتہ چمک آنے گی۔ آخر کار اس کے ہونٹ بلے اور اس نے بے حد پیچی مگر متر نم آواز میں کہا۔ آہ ! جارج ! اس ظالم جانور نے اس نے مردہ جانا کی طرف اشارہ کیا۔ ہمارے بچے کو مار دیا۔ دیکھو جارج ۔۔۔ یہ پڑا ہے ہماری آنکھوں کا نور۔ جارج ۔۔۔ اب میری زندگی تم ہو۔۔۔۔ صرف تم جب تک کہ خدا ہمیں ایک اور بیٹا نہیں دیدیتا۔” 257 تھا کے ایک ہاتھی نے مار ڈالا پہلے انگلستان میں سرکس ھ رہی تھی جسے کئی برسوں حادثے نے تھے اور اس دوسرے حواس کم ہو گئے کے بعد اس کے چہ پہلے حادثے تھی اکثر ایسا ہوتا چہ سمجھے ہوئے وہ اس بہت کو اپنا دیئے تھے کیونکہ کے حواس جا کر ہے۔ مت کر دیتا بلکہ اسے پوری طرح میں لے آتا ہے نہ صرف اپنے حواس را صدمہ مریض کو اسی قسم کا کر دیتا ہے لیکن دیتا ہے اور اسے پاگل انسان کا دل الٹ یک سخت صدمہ ایک خواب تھا واقعہ کے اور یہ واقعہ یاد نہ تھا سوائے ایک تمہو گئی تھی اسے کچھ یاد داشت خاتون ریجنال کی واقعہ کے بعد انگلستان والے دوسری بات یہ کہ خواب یوں تھا سنائی تھی۔ اس کا بعد مجھے اور رسجنال کو کی تفصیل اس نے چند دنوں ریجنال کو ہماری نے ایک رات خاتون کہ رسجنال اور سیویج تھا۔ تارین کو یاد ہو گا سوتے کے ایک مکان میں مقدس کے شہر اور سیویج کو طل فل ارات اس نے رسجنال خاتون رسجنال کا یہ ہے تھے ، دیکھا تھا۔ جہاں وہ دونوں سور نگاہ کے کمرے میں ، کے بیان کو پیش نظر واقعہ اور خاتون رسجنال ای رات کا تھا۔ چنانچہ قارئین اس نتیجہ اخذ کر سکتے ہوں تو کر لیں کیونکہ اپنے طور پر اس واقعہ کے متعلق اگر کوئی سے قاصر ہوں۔ کوئی نتیجہ اخذ کرنے تلاش چھوڑ کر میں ہینس کی کو دل کی بھر اس نکالتے رسجنال اور اس کی بیوی دی تھیں۔ ہم اس کی اکثر پسلیاں توڑ سونڈ میں لیٹ کر تھا۔ جانا نے اسے اپنی بھی انسانی سے وہ تھے پر کیا ایسا کسی ٹ کی شالی یار کے قریب جب قریب اس وقت تک بیٹھارہا آئے اور میں اس کے ا کر ایک مجرے میں لے لیے آنکھیں نہ نے ہمیشہ ہمیشہ کے اور وفادار خادم میرے اس مخلص دوست ر دفعتا وہ پھوٹ پڑی اور اپنے شوہر سے لپٹ گئی میں وہاں سے ہٹ گیا اور سفید کاندہ بھی ہٹ گئے کہ دونوں میاں بیوی جی بھر کے رولیں۔ میں باتیں بادین ضروری مجاہوں ایک تو یہ کہ اس کے واقعہ کے اور اس میں اس وقت دوسری دنیا و سدھار گیا جب سورج غروب ہو رہا بعد خاتون رسجنال کے حواس پھر حال ہو گئے معلوم ہوتا ہے کہ طفل مقدس کے ٹوٹتے ہی وہ اثریا سحر زائل ہو گیا تھا جو غالبا باروت نے اس پر طاری کر دیا تھایہ اثر کیا تھای و میں نہیں جانتا البتہ میرا خیال ہے کہ وہ کسی وجہ سے طفل مقدس کے بہت کو اپنا وہ چہ ھا اورا سے تھا اور اس نے مجھ پوری طرح ہوش آگیا لیکن مرنے سے پہلے اسے بھی گولی جانا نہ کرنا چاہیے کہ تمہاری ایک باس اب تمہیں اس بات کا افسوس 259 258 شیطان تھا جس نے تمہاری نال کے نہ لگی اس نے کہا قصور تمہارانہ تھا اس باسحہ یہ کوئی گیا تھا اور یہ کر کارخ جانا کی طرف سے بھر دیا تھا۔ بات یہ ہے پاس کہ جانا پر کر پھونکا معائنہ کچھ ایسا تھا کہ سفید فاموں کی گولیاں اس پر اثر نہ کر سکتی تھیں۔ تم اس کی لاش کا کی تھی۔ کرکے معلوم ہو جائے گا کہ قائی دوق کی گئی بھی اس نہ تھا واقعی جنال کے بھی یہ بات عجیب معلوم ہو گی لیکن بینس نے غلط نہ کہا ذلیل میں چنانچہ میں کیوں ایسے خطاب دئے ہیں جو بڑے کچھ نہ بگاڑ سکے گی اس نے مجھے کروں گا۔ میں اسے سلام کی مستحق ہے تو پھر ؟ ہاں اگر وہ اس سلام اسے شاہی سلام کرنے لگا تھی چنانچہ اس سلام کی بھی خاندان سے تعلق نہ رکھتی ں نے کہا کہ مینا کسی بھی شاہی تھا اس لیے اسے در پریشان کئے ہوئے یہ عجیب اور مضحکہ خیز مسئلہ چونکہ کو کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں اور جو صرف بادشاہوں مستحق نہ تھی جسے بانی لیے بھی سے خصوصاً اس اب میں سمجھ لوں گا اس آبا! وہ مسکرا کے بولا سکے گی۔ باس ! مجھے کوئی الزام نہ دے دیا تھا چنانچہ اب وہ کہ میں نے اس کا پیغام تک پہنچا دکھائی دی تھی جس تھا تو کیا یہ عورت تمہیں تم پر حملہ آور ہو رہا یہ تو بتاؤ کہ جب جانا ؟ طرح کہ میر اخیال ہے، مجھے دکھائی دی تھی اہمہ تھا۔ میں نے کچھ دیکھا تو تھا بینس لیکن وہ یقی کی سرحدیں کہاں ملتی ہیں ؟ اور کیا واہمہ یہ کو بتاؤ باس کہ وہم اور حقیقت دونوں نشانے خطا کر گئے تھے۔ اڑائی کوئی جانا کے ایک دانت کی کرج اور باس جب تمہاری بندوق کی آخری کے جادو کر اپنے اس پر کیا گیا تھا لیکن کالے کا ندہ تھی تو اس وقت وہ سحر ٹوٹ رہا تھا جو یہ ہوا کہ جب بھی میں نے وتا کو سفید ام کے بقائے میں سحر دہ کرنا بھولے نتیجہ کی گولیاں اسے زخمی کر رہی ہیں چنانچہ کی گوئی چلائی اسے جا کر لگی وہ جانتا تھا کہ کس تھا۔ آہ ! باس! مجھے مرنے کا تم میں وجہ تھی کہ وہ تمہیں چھوڑ کر سیدھا میری طرف آیا میں نے جان کا خاتمہ کر دیا اور جانا۔ بڑی خوشی اور سکون سے جان دے رہا ہوں کیونکہ یہ بات یوں بھی میں مرنے ہی والا تھا۔ اس باس تمہارا بلکہ میرا خاتمہ کر دیا۔ اور باس ہوں کہ کسی کالے کا ندہ کا بھالا ، جو اسک نے تم سے چھپائی تھی لیکن اب بتائے دیتا آج یہ زخم مجھے اس وقت آیا تھا جب میں پھینک کر مارا تھا، میرے زیر ناف لگا تھا۔ بندے ہو گیا تھا لیکن جب جنگ ہو رہی تھی تو میرے پیٹ میں کوئی چیز پھٹ کئی اور اس میں سے تھوڑا سا خونو کالے کاندہ کپڑا میں گیا تھا یہ زخم معمولی ساتھ میں نے آنتیں وا میری چرنی اور آنتیں اس زخم میں سے باہر نکل آئیں۔ حالانکہ بعد میری موت یقینی تھی۔ تشکیل کے زخم پر پٹی کس دی تھی ھی لیکن کہ ایک دو دن دو تین دن سے زیادہ نہ جی سکتا۔ ھا۔ اگر وہ جانا سے بچ جاتا تب بھی اس کی ضرورت بھی نہیں۔ ؟ میں نہ تر کرنا نہیں چہاری وہ ہے کہ می می نے اس کے نم کا معائنہ کیا و معم ہوا کہ بلس نے فلا ل ؟ ، بعد میں حقیقت ثابت نہیں ہو جاتیں عضی ای باتیں، جو ہم معلوم ہوتی ہیں ہو رہا۔ جواب نہ تھا اس لیے میں خاموش چونکہ اس پہیلی کا میرے پاس کوئی دینا ہو تو جلد کہ پیغام نہیں وینا چاہنے ؟ اگر کوئی پیغام اک تم اپنی بیدوں اور والد کو کوئی سکوں گا۔ ہو جائے گی کہ میں ایک لفظ بھی یاد نہ رکھ و کیونکہ جلد ہی میرے دماغ کی ایسی حالت میں معلوم ہو گی لیکن یہ حقیقت ہے کہ قارئین کو میری یہ حرکت احمقانہ بھجوا دئے۔ کیا پیغامات تھے بیوں اور والد کو چند پیغمات نے بہنس کے ذریعہ اپنی دونوں اور پھر اس نے میرے لفظ بینس نے یاد کر لیا۔ نے جو کچھ کہا اس کا ایک ایک میرے سامنے لظہ لفظ دہرائے۔ اوراب میٹس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں پاس چند ٹانوں تک خاموش رہنے کے بع اس نے بھر کا لین خامات سے ہو گی جس کا نام ما مینا ہے۔ آج ہی رات میری ملاقات اس خاتون تاکہ آخری بار سورج کو غروب کے دروازے کے سامنے بھادوں یہ بتا باس سے انھا کے تجرے سوتے دیکھ لے۔ جائے ؟ اگر نہیں تو پھر میں اسے بھی اقعی اس قابل ہے کہ اسے شاہی سلام کیا اسے غروب جا رہا ہوں اس لیے پھر کبھی میں سورج کے اس پار جاؤں گا اس لیے ؟ چونکہ میں بھی اس کی طرح روح بن کروں گا اور چونکہ دوسری دنیا میں 261 260 ہوتے نہ دیکھ سلاں گا وہ بولا۔ با چھ نان دہ بات دیر تک غروب ہوتے ہوئے سورج کی طرف دیکتار י تمہاری واپسی کا : معلوم ہوتا ہے کہ موسم بہت عمدہ ہو جائے کا چنانچہ تمہارے ساتجہ باکی دانت سے سفر آسا ہو گا اور سفر کو آسان ہوتا بھی چاہئے کیونکہ دانت سے لد ہوئے اونٹ ہوں گے۔" بینس شائد وہ ہاتھی دانت میں کبھی حاصل نہ کر سکوں گا جو ہاتھیوں کے برستان میں پڑے ہوئے ہیں۔ کیوں باس ؟" ظاہر ہے کہ کالے کا ندہ مجھے اس باتھی دانت کو ہاتھ بھی لگانے نہ دیں نہیں پاس۔ ایسی کوئی بات نہ ہو گی۔ وہ سر بلا کے بولا چونکہ جا چکا ہے کی طرف پھر وہ ان کار ہوں اس لیے کالے کا ندہ یہاں نہ رہیں گے وہ چلے جائیں گے کے متعلق باتیں کرنے لگا جو ہم نے ساتھ مل کر انجام دئے تھے آخر میں اس کے کہا۔۔۔۔ اور یہ اس کے آخری الفاظ تھے۔ وہ یہ کا ذکر کیا تھا تو میں حیران تھا کہ باس ! تمہارے والد نے جب محبت ہوں۔ لیکن میں عورتوں کے سائے سے بھی بھاگتا باتیں کیوں کہہ رہے ہیں جب کہ اور ہے۔ میں اب معلوم ہوا ہے کہ ان کا مطلب کیا تھا باس ! مجھے تم سے محبت تھی اور اب معلوم ہوا ہے کہ ایک دوست کی محبت تماری محبت لیے اس دنیا سے جارہا ہوں اس محبت سے عظیم ہوتی ہے جو عورت سے کی جاتی ہے۔” میری بیویوں اور میرے والد تک ہینس کا سر ڈھلک گیا۔ وہ میرے پیغامات میری آنکھوں کے پیچھے کوئی اور میری آنکھوں سے آنسو یوں رواں تھے جیسے پہنچانے کے لیے دوسری دنیا کو روانہ ہو چکا تھا۔ بند ہو جو ٹوٹ گیا ہو۔ ہوں تحریر کر ناباقی میں رہ جاتا باسکہ اب ہماری اس مہم کے متعلق کچھ زیادہ بیان کرنا نہیں چاہتا۔ ہاں اگر مجال رکھوں تو غلط ہو گا کہ اب میں کچھ زیادہ تفصیلات کتاب تیار کر سکتا ہے۔ چاہے تو وہ مل مقدس اور اس کی پرستش کے متعلق ایک معنیم سکتا ہے جس نے سید بیج کو نکل وہ غار کے اس عفریت کے متعلق بھی بہت سی باتیں بتا پوجا کرتے تھے دے دیا تھا۔ اس سانپ کی کا ندہ لوگ یا تھا اور جسے بعد میں میٹس نے زہر ہوئی تھیں جی ہاں اس دور تک جب دریائے اور اس پرستش کی جڑیں بہت دور تک پہنچی کو جنم لے چکا تھا۔ قدیم مصری بھی سانپ میل کے کنارے ایک عجیب و غریب تمدن سفر کی تفصیلات میں بیان کرتے ہیں۔ مقد سمجھتے تھے اور وہاں وہ ہمارے صحرائی میری طبیعت کچھ جھ سی گئی تھی اور بیچ تو یہ ہے کہ بیٹس کی موت کے بعد کے عین سامنے اور جب ہیٹس ماری تھی۔ یعنی عقبی دالان دیا جہاں اس نے جانا کو گولی جگہ دفن کر ذرا پر وانہ تھی۔ ہم نے اسے عین اس مجھے خود اپنے اور دوسرے کے حال کی ماضی کے ساتھ میر انصف رہا تھا جیسے بینس تو میں یوں محسوس کر مٹی ڈالی جارہی تھی خدایا! کی بہت سی یادیں بیٹس یٹس سے وابستہسے وابستہ تھیر تھیں۔ بھی دفن ہورہا ہو اور واقعی میرے ماضی 263 262 بینی جیسا دوسرا دوست مجھے اس دنیا میں اب کہاں ملے گا ؟ کون چاہے گا مجھے اس 425 ہینس نے کالے کا ندہ کے متعلق غلط نہ کہا تھا۔ وہ واقعی اپنا وطن چھوڑ کے لےگئے تھے۔ غالباغذ کی تلاش میں وہ کہاں اور کس طرف گئے تھے ؟ یہ میں نہیں جانتا اور نہ معلوم کرنا چاہتا ہوں اس کے علاوہ مجھے یہ بھی کبھی معلوم نہ ہو سکے گا کہ کالے اند عارضی طور پر ترک وطن کر گئے تھے یا مستقل مل طو طور پر ایک رات البتہ میں جانتا لاشیں ہوں اور وہ یہ کہ کالے کاندہ کی اکثریت جہاں تھی وہیں پڑھی رہی اور وہ یہ لا نہیں تھیں جنہیں کالے کا ندہ چھوڑ گئے تھے۔ تین ہزار لاشیں جو سفید کا ندہ کو دفن کرنی پڑیں۔ اس مقصد کے لیے وہ کھڈ استعمال کئے گئے جو ہم نے اپنے چاؤ کے لیے تیار کئے تھے۔ اس جنگ میں ہمارے پانچ سو تین سپاہی مارے گئے تھے ان میں وہ زخمی بھی شال ہیں جو انبر نہ ہو سکے کالے اور سفید کاندہ کی یہ آخری جنگ بڑی ہی خوفناک جنگ ھی جو جانا کو اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں وہ مرا تھا۔ ایک کافی لمبا چوڑا اور گرا کھڑ کھودا فید کاندہ کو اور خود ہمیں بھی عمر بھر یاد رہے گی۔ گیا اور سارے کے سارے کا ندہ نے مل کے خوب زور لگایا اور جانا کو اور پھر اس کے آتا ما کو اسی کھڑ میں لڑھکا دیا۔ جب جانا کے لیے گڑھا کو اجارہا تھا تو میں نے اس کی لاش کا معائنہ کیا، معلوم ہوا کہ اس کے بدن پر دہی زخم تھے جو بیٹس کی بندوق کی گولیوں سے آئے تھے۔ ایک آنکھ کاز خم جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی تھی۔ دوسراعین دل پر کی جلد میں چھوٹا سا سوراخ جو اس وقت آیا تھا جب ہیٹس نے دیوار پر چڑھ کے انٹو مبی سے کوئی چلائی تھی۔ اور منہ کے پچھلے حصے میں دوڑے سوراخ جو ہاتھی بار بندوق کی گولیوں سے آئے تھے۔ یہ دونوں گوئیاں اس کا تالو پھوڑ کر دماغ تک پہنچ گئی تھی اور یہی اس کے لیے پیغام موت لائی تھی۔ میں نے سفید کاندہ سے کہا کہ وہ جانا کے دونوں دانت مجھے دیدیں۔ جانا کے دانت نو ادرات میں سے تجھے کیونکہ اتنے بڑے دانت بھی کسی ہاتھی کے نہ رہے ہوں ہے۔ لیکن میری یہ درخواست منظور نہ کی گئی۔ غالب وہ دیوتائے شہر کے دانتوں کو بطور ادگار اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے تھے۔ بہر حال جانا کو گڑھے میں لڑھکانے سے پہلے کا ندہ اس کے دانت کر اس کے دونوں دانت کاٹ لیے وگوں نے بڑے بڑے کلہاڑے مارمار اس کی عمر کتنی تھا۔ حیرت انتیز حد تک اوڑھا۔ کھنے سے معلوم ہوا کہ جانا بہت بڑھا بھی ؟ نہ اندازہ لگانا ممکن ہے۔ ہوتا ہے۔ تو یہ ہے جان کا قصہ جو یہاں ختم سفید کاندہ اپنی قسم اور رہی دوسری باتیں تو وہ زنجیر و خوبی ملے ہو گئیں میں چند حیرت انگیز مذہبی رسومات ادا کرنے کے بعد ، جن دے پر قائم رہے رہے۔ کر کے یک نہ ہو سکا، خاتون رسجنال ندائے روح کے عہدے سے برطرف جنال کے حوالے کر دیا گیا۔ چونکہ دیو تا نہ رہا تھا اس لیے اب ندائے روح کی بھی ضرورت نہ تھی۔ اس کا وہ لباس ، جوا سے مصر قدیم کی دیوی ایز میں بنائے ہوئے تھا، ار تر اسے مقامی عورتوں کے کپڑے پستا دئے گئے اس کے بعد اس کی وہ حیثیت ختم ہو ممان اور جوی اسے کاندہ لینڈ میں حاصل تھی اب وہ بھی ہماری طرح سفید کاندہ کی معمولی عورت تھی۔ تاہم اسے اپنے شوہر کے ساتھ اس مجرے میں قیام کرنے یہاں تک کہ ایک ڈیڑھ انچہ رجال اس حجرے میں اپنی بیوی کے ساتھ رہنے لگا ندائے روح تھی اجازت دے دی گئی جہاں اسے اس وقت رکھا گیا تھا جب وہ یئے بعد ہم کا ندہ لینڈ سے نکل کر صحرا کی طرف روانہ ہو گئے۔ سے تنہائی میں گفتگو ایک دفعہ صرف ایک دفعہ مجھ سے خاتون رسجنال 9211- تھے ، یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب رسجنال کے زخم ، جو اسے جنگ میں آئے ال ہو چکے تھے اور وہ کسی خاص کام کے لیے۔ یا نہیں پڑتا کہ وہ کیا کام تھا۔۔۔ مقدس پر سے اتر کے حصل مقدس کے شہر میں کیا ہوا تھاور وہ اپنی بیوی کو میری اظت میں دے گیا تھا۔ میں اور اس چنانچہ ہم ذرا تفریح کو نکلے اور میں خاتون رسجنال کو اس جنگل لے لیا جہاں بیٹھ کے ہم نے سفید کاندہ کی پہلی فصل کا جشن اور خود خاتون ریجنال کو ئے روح کے روپ میں دیکھا تھا۔ وہاں تھوڑی دیر تک کھڑے رہنے کے بعد ہم اس تے پر چل پڑے جس راستے سے ہم پھلی فصل کے جشن کے موقع پر بیکل تک آئے 265 264 تھے۔ میں ادارے اس رات کے سخت سفر کے متعلق سب کچھ بتا چکا تھا۔ تھک کر ایک گرے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھ گئی۔ کوائر مین ! قصر رمجال کی اس دعوت کے بعد ، جو تمہیں یاد ہو گی ، آج پہلی عہ مصر آمین میں گفتگو کر رہے ہیں۔” بھلا اس دعوت کو میں بھی بھول سکتا ہوں ؟ اس وقت میں نے تم سے افریقہ کے متعلق بہت سے سوالات پوچھے تھے اور که تما کہ میرا دل افریقہ کی طرف کھینچتا ہے اور یہ کہ مجھے افسوس ہوتا ہے جیسے افریقہ سے میرا گہرا تعلق ہے۔ تم نے میرے اس میلان طبع کو ایک وہم کہا تھا اور کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن کو اٹر مین ! اب تو تمہیں بھی یقین ہو گیا ہو گا کہ میر اوہ وہ ہم ایک حد تک حقیقت پر مبنی تھا۔ معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے لیکن سیلن خاتون ہمیں یہ نہ بھولنا چاہیے کہ اکثر تفاقات اس قسم کے وہموں کو حقیقت بنا دیتے ہیں۔ بہر حال خدا کا شکر ہے کہ اب یا قصہ ختم ہوا۔ نہیں کواٹر مین ! یہ قصہ ختم نہیں ہوا۔ کم سے کم اس طرح ختم نہیں جو جس طرح تم سمجھ رہے ہو۔ ابھی تو ہمیں زندگی کا کافی طویل سفر طے کرنا ہے اور میں مجھتی ہوں کہ یہ قصے کا انجام نہیں بائعہ آغاز ہے۔” میں کچھ سمجھا نہیں خاتون رسجنال ؟” اور نہ ہی میں کچھ سمجھ پائی ہوں لیکن سنو۔ پچھلے دنوں میں کیا ہوا اور کیا نہیں مجھے کچھ یاد نہیں سوائے اس ایک بات کے ایک رات میں نے جارج سیو سیج کو ایک مقامی مکان میں دیکھا تھا۔ مجھے یہ یاد ہے کہ سر کس کے ایک ہاتھی نے میرے نئے کو ما یا تھا بالکل اسی طرح جس طرح کہ اس زبر دست ہا تھی نے طفل مقدس کے مت کو ان کے پیج دیا تھا ان دونوں واقعات میں حیرت انگیز مماثلت ہے لیکن، اسے بھی تم ایک تفاق ہی کہو گے۔ تو کہنے کا مطلب یہ کہ میرے نچے کی غمناک اور لرز نیز موت کے بعد کیا ہوا مجھے یاد نہیں یہاں تک جیسے ہوش ساآ گیا اور میں نے اپنے شوہر کو سامنے کھڑے پایا جو خون میں لت پت تھا اور تم بھی میرے سامنے کھڑے ہوئے تھے اور جانے یا ۔۔۔ تمہارا اس کا سبب یہ ہے کہ اس عرصے میں تمہاری یاد داشت یا۔۔۔ و ماغ جا تا رہا تھا۔” نے پوچھا۔ یا یاد ہے تمہیں ؟ میں ی تو مشکل ہے کہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ وہ ساری باتیں جو میرے دماغ ہو گئی ہیں۔ جب میر ادماغ ان یادوں کو میں صاف اور واضح تھیں تھیں اب۔ دھندلی اور گنجلک ہو گئی پکڑنے کی کشش کرتا ہے تو وہ زندہ مچھلیوں کی طرح اس کی گرفت میں سے پھل جاتی ہیں۔ وہ ایک دوسری زندگی تھی۔ اس زندگی سے قطعی طعی مختلف ۔۔ اور ۔۔ اور ۔۔ ایک بے حد دلچسپ کہانی تھی اس زندگی میں واقعات سے پر اب میں یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ صرف اول تھایا صرف آخر بہر حال میں نے بھر اپر شہر اور بہت سے ہیکل دیکھے ۔۔۔ یا دیکھے تھے لوگ شہر میں یا ان شہروں میں گھوم پھر رہے تھے اور ان لوگوں میں کواٹر مین ! تم بھی تھے، جارج بھی تھا اور وہ بوڑھا منت باروت بھی تھا۔ تم بنسو گے لیکن یاد پڑتا ہے کہ اس کہانی میں ہم دونوں میں ، یعنی مجھے میں اور تم میں، کوئی تعلق تھا شائد کوئی رشتہ تھا ہم دونوں میں۔ تم یا تو میرے باپ تھے یا بھائی یا یا پھر چیر ایا میر ابھائی۔ میں نے لقمہ دیا۔ یا چیرے یا میرے بھائی یا پھر۔۔۔ یا پھر ۔۔ میرے ایک بہترین دوست بیر حال ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے جارج تو نہیں جانتی کہ وہ کیا تھا ور نہ یاد ہے کہ ہاروت کیا تھا لیکن سب زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمہار وہ دوست ہیٹس، جسے میں نے صرف چند منٹوں کے لیے پہلی اور آخری دفعہ اس وقت دیکھا تھا جب وہ مر رہا تھا، اس ماضی یا مستقبل کی کہانی میں ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ میں نے اسے ہونے کے روپ میں دیکھا تھا لیکن وہ اس سے زیادہ پر قوت اور لنگڑا تھا جیسا کہ اس دنیا میں تھا مجھے یاد ہے کہ اس نے عجیب طرح کے پروں کا لباس پہن رکھا تھا اور اپنے ہاتھ میں ہاتھی دانت کا عصا لئے ہوئے تھا اور یک تعظیم شخص کے قدموں میں جو غالبا بادشاہ تھا، ایک تپانی پر بیٹھا ہوا تھا۔ بادشاہ ہمینس سے کچھ پوچھ رہا تھا اور ہم شخص 267 266 میں نے یا اتنا کچھ یاد میٹس کا جواب بڑے گور اور د چسپی سے سن رہا تھا اس تو یہ کچھ دیکھا تھا ہے مجھے دوسرے مناظریوں معلوم ہوتے ہیں جیسے تیز دھوپ میں چکا چوند پیدا کر دستان والے ذرات کی طرح تیر رہے ہوں اور ان کی طرف دیکھا نہ جاتا ہو ” لیکن یہاں دھوپ نہیں ہے اس لئے مناسب ہوگا کہ ہم چلے چلیں ورنہ تمہیں سردی لگ جائے گی کیونکہ یہاں خاصی نمی ہے میں نے کہا کیونکہ میں اس موضوع پر مزید گفتگونہ کرنا چاہتا تھا اس کے علاوہ خاتون رجال کا چہرہ دفعنا منگیر ہو گیا پر نیب پر اسرار جذبات عیاں تھے ایسے جذبات میں نے اس وقت بھی تھا اور ہرے پر جب وہ میں ہو من بھی اس کے چہرے پر دیکھے تھے۔ واقعی یہاں کچھ زیادہ ہی نمی ہے اس نے کہا لیکن تم جانو میں نزاکت کی پڑیا نہیں ہوں اور کو انر میں انہیں مجھ سے خوف نہ کھانا چاہئے میں نے جو کچھ کہا ہے پوری طرح اپنے حواس میں رہ کر کہا ہے یہ سچ ہے کہ میرا دماغ کسی طرح مجھ سے بھین لیا گیا ھا لیکن اب وہ مجھے واپس مل گیا ہے اور میں سمجھتی ہوں اب کوئی اسے دوبارہ نہ چرائے کہا لیکن یہ نے بڑے یقین سے نہ چرایا جائے گا میں پیشک تمہارا دماغ اب دماغ چرانے کی ایک ہی رہی کبھی کسی نے خواب میں بھی ایسی بات نہ دیکھی ہو گی” د والتیک لیکن تم نے دیکھی تھی اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہا یہاں سے جانے سے پہلے میں تمہیں ایک بات بتانا چاہتی ہوں ہاروت اور اس نائب نے مجھے ایک تحفہ دیا ہے انہوں نے مجھے ایک بس دیا ہے جو ان پتوں سے بھر ا ہوا ہے جسے ہم تم جادو کی تمہا کو کہا کرتے تھے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ یہ پتیاں نادو کی کہلاتی ہیں یہ وہی پیاں میں جو ہاروت و ماروت نے ایک پیالے میں جلائی تھیں اور اس کے دھوئیں میں تم نے اور میں نے بھی عجیب و غریب تصویر میں دیکھی تھی اور وہ بھی قصر ریجنال کے ایک کمرے میں کھڑے ہو کر اور یہ تصویر میں دیکھی تھیں” ہیکل میں بھی ہم نے تمہیں اس دھوئیں کو سونگھتے اور چند پیشن گوئی کرتے ود دیکھا تھا اس وقت تم ندائے روح تھیں لیکن اس ۔۔۔۔۔۔۔ کیا نام بتایا تھا تم نے ہم نادو گی۔۔۔۔۔ تماس نادو کی کا تم کیا کرو گی؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر بھی تم یشین گوئیاں کر سکتی اور تصویر میں دیکھ سکتی ہو ۔ اور یہ تصویریں یہ تم نے غلط نہیں کہا واقعی میں تصویر میں دیکھ سکتی ہوں مجھے پسند ہیں بہر حال یہ نادو کی میں اپنے پاس رکھوں گی نہیں شکریہ میں نے اپنے کانوں اتھ لگا کے کہا میں تو صاحب بھر پایا کا نہ لوگوں کی یہ تمبا کو میرے لئے بڑی زور دار جی نہیں کیسے جی ہاں ایک چیز جو کاندہ جو کاندہ تما کو سے زیادہ زور دار ہے ، نہیں ایسا کرنے پر مجبور کر دے گی یعنی اس وقت جب میں چاہوں گی۔ یہ ہاروت نے تو تمہیں کہا تم سے خاتون رسجنال ؟ میں نے پوچھا۔ یہ تو میں نہیں جانتی اس نے ذرا الجھ کر جواب دیا میرا خیال ہے کہ یہ ات طفل مقدس نے مجھ سے کہی تھی وہ اکثر مجھ سے باتیں کیا کرتا ھا کوائر مین الطفل مقدس نہ ٹوٹا ہے اور نہ برباد ہوا بلکہ وہ کہیں ماضی یا مستقبل میں چلا گیا ہے اور ہم کہ میرا مطلب ہے ہم دونوں ۔۔۔۔۔ اسے ایک نہ ایک دن اسے اسی دور میں ین ماضی یا مستقبل میں۔ دیکھ لیں گے اور اس وقت طفل طفل مقدس اس کے وطن میں ہو گا۔ ہاں اسے ہم دونوں ہی دیکھیں گے اور اگر کوئی تیسر اہمارے ساتھ ہو اوہ تمہار خادم اور دوست بیٹی ہو گا پھر میں کہتی ہوں کہ مجھ معلوم نہیں کہ وہ وقت ب آئے گا شاید وقت کے متعلق بردی کاغذ کے دونوں پلندوں میں کچھ تحریر ہو یہ دونوں پنڈے بھی ہاروت نے مجھے نقش دیئے ہیں کیونکہ بقول اس کے میں طفل مقدس کی پہلی اور آخری راجیہ بھی با روت نے شدید ۔۔۔۔ اس نے ماتھے پر ہاتھ مار کر ھا۔۔۔۔۔ طفل مقدس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس وقت تک بردی کاغذ کے یندوں پر کی تحریر پڑھنے کی کوشش نہ کروں اور نہ کسی اور سے پڑھوالوں جیتک کہ خمیری زندگی میں ایک انقلاب نہیں آجاتا۔ یہ انقلاب کیا ہو گا اور کیسا ہو گا یہ میں نہیں جاتی۔ اور بہتر ہو گا تم یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی نہ کرو کیونکہ اس دنیا میں بعض انقلابات بڑے ہی المناک ہوتے ہیں”۔ یہ تم نے غلط نہیں کہا چنانچہ میں بردی کا منذ کی تحریر پڑھنے کی کوشش نہ 268 کروں گی۔ اب تم پو چھو گے کہ میں نے یہ سب باتیں تم سے کیوں کہیں ؟ میں یہ باتیر تم سے صرف تم سے کہنا چاہتی تھیس کے علاوہ تم نے میرے اور جارج کے لئے جو کچھ کیا ہے اس کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتی تھی میرا خیال ہے کہ آئندہ ہمیں اس طرح کھل کر اور نمائی میں باتیں کرنے کا موقع نہ لے گا چنانچہ ایک بار پھر میں تمہارا شکریہ اوا کرتی ہوں اور اس وقت تک کے لئے تمہیں خداحافظ کہتی ہوں جینگ کہ ہماری ملاقات 269 چاروں طرف ! باتھیوں کے ڈھانچے پڑے ہوئے تھے اب نہ جانا تھا اور نہ اس کے پونے وال کانہ چنانچہ ان ڈھانچوں میں سے ہم نے بہت سانا تھی انت حاصل گیا ر لیا جو اتا تھا کہ پہچائی ٹونٹوں پر ادا کیا اب بھی قبرستان میں بہت ساہا تھی دانت پڑا یکن یہ باتھی دانت موسموں کے تغیر سے خراب خستہ ہو چکا تھا اس لئے بیکار تھا۔ جب ہم دونوں اکیلے ہوں گے اور نادو کی دھوئیں میں تصویریں دیکھ رہے ہوں کے ہاتھی وانت طفل مقدس کے شہر میں بجا جسے دوبارہ آباد کر دیا گیا تھا، میں تھا ایسی ویرانی میں نے پہلے بھی کسی بستی ہم شہر سما میں پہنچے شہر سمباویر ان پڑا انی میرا مطلب اس ملاقات سے ہے جس کا ذکر میں نے کیا ہے یعنی دوبارہ نہیں ہو جاتی مہ شاید ماضی کی یا شاید مستقبل کی۔ میں نے اس کا اور اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری طرف اس طرح پڑھا دیا کہ مطلب سمجھ کر اپنے ہونٹ اس کی ہاتھ کی پشت پر رکھ دئے۔ ہمارا آخری مہینہ ۔۔۔۔۔۔ بلکہ آخری تین ہفتے کیونکہ پہلے ہفتے کے آخری دن تک تو میں جنگ کی شکن ہی دور کرتا رہا۔۔۔۔۔ ہاں تو آخری تین ہفتے کچھ زیادہ ہی مصروف گزرے سب سے پہلا کام میں نے یہ کیا کہ باروت کے ساتھ شہر سمپا تکہ کیا شمال مغرب کی طرف چلے گئے ہیں۔ ہ دیکھی تھی۔ کائے کا ندہ اپنا وطن چھوڑ گئے تھے وہاں کچھ نہ تھا البتہ بازار کے چوک اور اس قربان گاہ کے ارد گرد جہاں ہمارے تین شتر سواروں کو بھینٹ چڑھایا گیا تھا لاشوں کے انبار تھے یہ وہ لوگ تھے جو جنگ میں زخمی ہوئے تھے اور جنہیں کالے کا ندہ اٹھا لائے تھے مکانات کے دروازے کھلے پڑے تھے اور مکینوں کے برتن لڑھکتے پھر رہے تھے چند یہ سفر اس وقت کیا گیا جب ہمارے جاسوسوں نے اگر اطلاع دی کہ کالے کاندہ نہیں کھو کے کتوں اور لومڑیوں کے علاوہ شہر سمبا میں کوئی جاندار نظر نہ آرہا تھا۔ طفل مقدس کا قمر اپنا کام کر گیا ہاروت نے بڑے موثر انداز میں کہا۔ بار پھر اس اپنے دل میں عجیب و غریب جذبات کا طوفان لے کر میں ایک پہلے اولوں کا طوفان پھر قحط ، پھر جنگ کی تباہی اور خانہ بدوشانہ زندگی کی استے پر چل پڑا جس راستے میں اور بینس جانا سے بچ کر آئے تھے میں نے اس درخت کو بھی دیکھا جس پر میں نے اور بیٹس نے پناہ کی تھی اس کے تنے پر جانا کی ان کی کو ششوں کے نشانات موجود تھے جو اس نے درخت کو گرانے کیلئے کی تھیں دریا عبور کر کے ہم ڈھلان اترنے لگے جس پر سے میں اور بینس اپنی زندگی مچانے کے لئے اونٹ پر سوار ہو کے بھاگے تھے اور یہ ڈھلان اتر کے ہم ہاتھیوں کے قبرستان میں پہنچ گئے۔ ور یہاں ہر چیز اپنی اصلی حالت پر تھی وہ رہی وہ چٹان جس پر جانا نمودار ہوا دشواریاں اور سفر کے مصائب معلوم تو ایسا ہی ہوتا ہے میں نے جواب دیا لیکن تمہارے طفل مقدس کا یہ قمر دودھاری تلوار کی طرح تھا اگر جانا مارا گیا اور کالے کاندہ فرار ہو گئے تو میرے دوست با روت خود طفل مل مقدس اور اس کو پوجنے والوں کی اکثریت بھی کہاں رہی ؟ کیا کرو گے اپنے دیوتا کے بغیر ؟” ہم تو بہ کرتے رہیں گے میکو میزن یہان تک کہ ہمارے لئے دوسر ادیوتا تھا یہ رہے وہ پتھر جن کے پیچھے میں نے اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کی تھی ان اتر آئے گا اور مجھے یقین ہے کہ وقت آنے پر وہ ضرور آئے گا” پتھروں کے قریب چند ہڈیاں پڑی ہوئی تھی یہ ماروت کی ہڈیاں تھیں ان ہڈیوں کو ہم نے اسی جگہ دفن کر دیا۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ سفید کاندہ کو واقعی دوسرادیو تامل گیا ہو گا ؟ اور اگر مل گیا ہے تو اب اس کا کیا روپ ہوگا ؟ سفید کاندہ طفل مقدس کے بجائے اب کس کے سامنے سر جھکا رہے ہوں گے۔ وہ رات ہم نے اس مہمان خانے میں بسر کی جہاں مجھے اور ہاروت کو قید رکھا 271 270 اور ہمارے شتر گیا تھا اور جس کی چھت پر سے ہم نے چوک میں قربان گاہ پر آگ چلے تھا۔ سوار ساتھوں کو بھینٹ چڑھتے دیکھا میں سونہ سکا۔ غالبا یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس رات سے اتر رہا تھا اس دس دن بعد سواونٹوں کا ایک قافلہ کوہ مقدس کی بلندیوں پر جو کارواں کے پچاس اونٹوں پر ہاتھی دانت لدا ہوا تھا بقیہ اونٹوں پر وہ لوگ سوار تھے کا سردار تھاتین نہایت عمدہ اونٹوں میں ہمیں پہنچانے آرہے تھے باروت اس بدرقے رسجنال سے ایک پر میں سوار تھے ادوسرے پر ریجنال اور تیسرے پر اس کی بیوی خاتون سوار تھی۔ یکن یہ ہاتھی دانت بڑا منحوس تھا جیسی کہ وہ ہر چیز منحوس تھی جس کا تعلق جانا سے رہا ہو چند ہفتوں کے سفر کے بعد صحر میں زبر دست طوفان آیا اور ہم مسکن اپنی جائیں بچا سکے جب ریت کا طوفان اپنے عروج پر تھا تو ہاتھی دانت سے لگے. اونٹ رسیاں تڑا کر بھاگ نکلے اور شاید منوں ریت تلے دب گئے بہر حال بڑی تلاش کامیاب ہو سکے۔ کے بعد ہم صرف دس اونٹ پکڑنے میں تلے دب گیا تھا خوداد رسجنال نے چاہا ۔ وہ اس ہاتھی دانت کی قیمت جوریت کر کے میرے نقصان کی تلافی کر دے اس ہاتھی دانت کی قیمت ہزاروں پونڈ تک پہنچتو تھی بہر حال میں نے یہ رقم لینے سے انکار کر دیا لیکن امد میں مجھے معلوم ہوار مجال نے کا خیالی تھا جب اسے سیو سیج کو خاتون ریجنال قار نین کو یاد ہو گا اس نے اس رات تیار کیا ایک چونی سی بندرگاہ پر پہنچ گئے پیکر نظر آیا تھا ئی مہینوں کے سفر کے بعد ہم حر احمر کی ہے خوش قسمتی سے ہمیں دو اس بندرگاہ کا کوئی عربی نام تھا جو اس وقت مجھے یاد نہیں آرہا جہاز کانک ارٹی جہاز تیا مل گئے ایک عدن کو جارہا تھاور دور اون کی طرف پہلے ہو کے ناٹال پہنچ جاؤں گار مجال اور میں نے لے لیا کہ عدن سے دوسرے جہاز میں سوار سوئز کی بندرگاہ پر اتر کر اور وہاں خاتون رسجنال نے دوسرے جہاز کے ٹکٹ لئے وہ دنوں سے براستہ عشقی اسکندر یہ جانے والے تھے۔ میں سوار ہوئے تو ان رمجنال اور اس کی بیوی مجھ سے رخصت ہو کر جاز اس کے نہ کہوں گا سوائے کے متعلق تعلق کچ کچھ دونوں کے مستقبل چکا تھا میں ان رشتہ قائم ہو کا مقدس میں دوستی میں اور مجھ نم تھیں رسجنال آنکھیں پر خود میری بھی دونوں کی اور ہم تھا ہوں گے۔ پھر ہو گی اور اس وقت کی ملاقات ایک بار غلط نہ کہا تھا کہ ہم دونوں خاتون رسجنال نے یہ کرتے نے مجھ سے مصافحہ ہو رہا تھا تو اس سے رخصت اور جب میں ہاروت تھا۔ ہوئے کہا رت ما هنود ہوں میکو میزن” میں بھی مصر جارہا اس جواب دیا اور میں”۔ اس نے دیوتا کی تلاش شاید کسی دوسرے ملاقات ہوئی کریں گے بشر طیکہ ہماری تفصیل سے گفتگو پھر کبھی اس کے متعلق اب جانا رہا ہی نہیں لیکن نہ توڑ سکے گے گا کیونکہ دوسرے دیو تا کو کوئی ؟ کب ؟ میری ملاقات ہو گی کیا واقعی باروت سے اور میں سوچ رہا تھا کہ سے صدیوں واقعی خاتون رہنال نے بھی تو یہی کہا تھا کیا کہاں؟ لیکن خاتون رسجنال دیکھ سکوں گا ؟ کیا یا مستقبل کی تصویر میں کیا واقعی میں ماضی پہلے میرا کوئی رشتہ تھا؟ اور یہ معلوم کرنا تعلق ہو سکتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ رسجنال سے میر کیا ہوں گا لیکن خاتون کیا یا صدیوں بعد کون اور کون اور کیا تھا؟ کہ صدیوں پہلے میں واقعی معلوم کر سکوں گا نے یہ بھی تو کہ خاتون رسجنال اور میں نے سوچا چکا تھا۔۔۔۔۔۔ میرے لئے مقدر ہو ؟ اور کو دوبارہ دیکھ سکوں گا اور مخلص دوست میں اپنے وفادار خادم دیکھا تھا کیا واقعی ادا کرتے بھی ایک اہم کردار میں اس نے ہنس کو یا مستقبل کی کہانی کہا تھا کہ اس ماضی کے میں رو پڑا۔ بیٹس کو یاد کر اس کے بعد دوسرا حصه خوشوار ضرور پڑھتے